احتجاج کی جنم پتری
حکومت کے خلاف صدائے احتجاج، احتجاجی ریلیوں اور جلسوں کو سیاسی پنڈتوں کے اندازوں سے قبل۔۔۔
حکومت کے خلاف صدائے احتجاج، احتجاجی ریلیوں اور جلسوں کو سیاسی پنڈتوں کے اندازوں سے قبل خلاف توقع ''آکسیجن'' ملنی شروع ہو گئی ہے، نیٹو سپلائی روکنے کے احتجاج کا سلسلہ کسی حد تک ''سرد و گرم'' کے مراحل میں ہے اور لاہور میں پی ٹی آئی نے سیاسی درجہ حرارت کو احتجاجی دھرنے سے مزید گرم کر دیا۔ پی ٹی آئی کا ''اسٹیج'' ابھی ہٹا ہی نہیں تھا کہ طاہر القادری نے مہنگائی اور دیگر عوامی مسائل کو ''نقطہ احتجاج'' بنا کر لاہور میں سیاسی دھمال ڈال دی۔ کیا احتجاج کی اس گرمی میں آنے والے دنوں میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا یا سیاسی گرد اور حکومتی زور اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کو دفنا دے گا؟ فی الحال اس سوال کا تشفی آمیز جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔ ہاں اس نکتہ پر بحث کی گنجائش برابر موجود ہے کہ احتجاج کا ''سہاگ'' کیسے آباد ہوتا ہے؟ کیا پاکستانی عوام سڑکوں پر دھرنا دینے اور پولیس کی لاٹھیاں کھانے کے شوقین ہیں؟ کیا پاکستانی عوام کو سڑکوں پر آنے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے؟ کیا پاکستانی عوام تماشا گیر ہیں اور اسی شوق جنوں کی تعبیر اور تسکین کے لیے اپوزیشن کی کال کو ''میلہ ٹھیلا'' سمجھ کر اس میں شریک ہونے کے لیے گھروں سے نکل پڑتے ہیں؟ شاید ان میں سے ایک نقطہ نظر بھی پاکستانی عوام پر فٹ نہیں بیٹھتا۔
احتجاج کا جنم دن وہ ہوتا ہے جس دن حکومت وقت عوام کے مسائل سے صرف نظر کر کے عوامی مفادات کے برعکس پالیسیوں پر ''پاؤں پاؤں'' چلنی شروع ہوتی ہے۔ چند ماہ کی حکومت میں حکمراں جماعت نے جہاں کچھ اچھی پالیسیاں اختیار کیں وہیں ساتھ میں عوام کو براہ راست متاثر کرنے والے عوامل میں حکومت سے ''چوک'' ہوئی اور آج اپوزیشن حکومت وقت کی اسی ''بھول چوک'' کو حکومت کے خلاف کیش کرنے کے لیے میدان گرمانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
بیروز گاری، مہنگائی، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور ساتھ ان کی قیمتوں میں ''ٹیکسی کے میٹر'' کے تناسب سے اضافہ، یہ وہ عوامل ہیں جنھوں نے حکومت کی نیک نامی پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔ ایک اور اہم تر ایشو جسے حکومت کے ''کان اور آنکھیں'' محسوس نہیں کر رہی، ان میں سابق حکومت کی وہ پالیسیاں اور اقدامات ہیں جن سے نفرت کا اظہار عوام نے حکمراں جما عتوں کو ووٹ دے کر کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت وقت ان پالیسیوں کو ختم کرنے کے بجائے نہ صرف ان پر عمل پیرا ہے بلکہ سابق حکومتوں کی ان عوام دشمن پالیسیوں کو توانا کرنے کے لیے ''ایندھن'' کا کام دے رہی ہے۔ دراصل یہ وہ محرکات اور اسباب ہیں جن کی وجہ سے عوام چند ما ہ میں ہی موجودہ حکمرانوں سے اکتائے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔
اس ملک کے دو اہم ترین مسائل ہیں، ایک بیروزگاری اور دوسرا مہنگائی، لیکن سابق حکومتوں کی طرح مو جودہ حکومت بھی عوام کے ان دو دیرینہ مسائل کے حل میں ناکام نظر آتی ہے۔ عوام کی اکثریت کو آرٹیکل چھ کے ''شد بد'' سے کوئی سروکار نہیں، وطن عزیز کی بھوک سے نڈھال اکثریتی آبادی کو پرویز مشرف کی گرفتاری اور رہائی سے کوئی غرض نہیں، عوام کی اکثریت روزگار کی آرزو مند ہے، عوام کی اکثریت مہنگائی سے نجا ت کی خواہش دلو ں میں پالے بیٹھی ہے۔ آئین کی دفعات پر بحث کرنا، اوباما کو ناشتے میں کیا لینا چاہیے اور کیا نہیں لینا چاہیے؟ وزیر اعظم کو کون سا لباس سوٹ کرتا ہے اور کون سا نہیں؟ یہ پیٹ بھروں کے مباحثے ہیں، ایک عام شہری کو ان معاملات میں ''ککھ'' دلچسپی نہیں۔ عام شہری کی دلچسپی صرف ''دال روٹی'' کے بھاؤ میں ہے۔
جس کو آسانی سے فراہم کرنے میں ریاست میں مختلف ادوار میں مختلف الخیال نظریات کی حکومتوں نے کبھی دلچسپی لینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ سماج کے ان بنیادی مسائل سے چشم پوشی حکومتی سطح پر وہ غلطی ہے جس کے بطن سے عوامی احتجاج جنم لیتا ہے اور اس احتجاج کو ہر کوئی اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے چل پڑتا ہے۔ بجا کہ چند ماہ کی حکومت میں حکمرانوں کے خلاف عوام کی جانب سے احتجاج اور اپوزیشن جماعتوں کا سڑکوں پر آنا کسی طور خوش آیند قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن عوامی مسائل کو پس پشت ڈالنا، روزگار کے وسیلوں پر ''سیل'' کی مہر لگا دینا اور مہنگائی کے جن کو کامل آزاد کر دینا، حکومت کی ان غفلتوں کو بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عوامی احتجاج کو جوابی بیان بازی سے روکنا ممکن نہیں۔
اپوزیشن کی تنقید اور ''نمبرز اسکورنگ'' سے نجات کا نسخہ کیمیا یہ ہے کہ حکومتی اکابرین عوام کے مسائل کے حل کے لیے راست پالیسیاں اختیار کریں کہ اپوزیشن کو توپوں میں عوام نام کے گولے لوڈ کرنے کے مواقع میسر نہ آ سکیں۔ حکومتی دماغوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ عوام کو سڑکوں پر آنے سے روکنے میں پولیس نہیں بلکہ عوام دوست پالیسیاں معاون ثابت ہوں گی اور جس دن ہماری حکومتوں اور حکمرانوں کے ہاتھ یہ نسخہ لگ گیا، بس اس دن سے مخلوق خدا کے دلوں پر حکمران راج کریں گے۔