جاپان میں مطالعۂ اسلام کا رجحان بڑھ رہا ہے ڈاکٹر معین الدین عقیل
نظریات کے اعتبار سے دائیں بازو کا ہوں، مگر علم و ادب میں تعصب کا قائل نہیں
یہ احوال ہے، کتابوں میں بیتی زندگی کا۔ تحقیق میں گزرے شب و روز کا۔ تدریس سے بندھے ماہ و سال کا۔ یہ احوال ہے، فروغ اردو کے لیے خود کو وقف کر دینے والے ڈاکٹر معین الدین عقیل کا!
ڈاکٹر صاحب تدریس کا چالیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ تحقیقی سفر بھی اتنا ہی طویل ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب، اردو زبان، تحریک آزادی، اقبال، حیدرآباد دکن اور پاکستانی ادب ان کے خاص موضوعات ہیں، جن پر وقیع کتابیں لکھیں۔ میرغلام بھیک نیرنگ، رنجور عظیم آبادی، درد، داغ، حسرت موبانی، تاثیر ، نادر کاکوروی اور امیر مینائی کے کلام کی ترتیب و تدوین کا فریضہ نبھایا۔ نصابی کتب ان کے علاوہ ہیں۔ کْل تعداد 65 بنتی ہے۔
''تحریک آزادی میں اردو کا حصہ'' جیسے اہم موضوع پر ضخیم تحقیقی مقالہ لکھنے والے معین الدین عقیل ''پی ایچ ڈی'' تک محدود نہیں رہے۔ تحقیقی سفر جاری رکھا۔ اعلیٰ تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ''ڈی لٹ'' کی اعلیٰ ترین سند عطا کی گئی۔ فقط پاکستان میں علم کی شمع روشن نہیں کی۔ اطالویوں اور جاپانیوں کو اردو کے ذایقے سے آشنا کیا۔ دیارغیر میں مسلم تاریخ و ثقافت کی حقیقی تصویر پیش کی۔ ایک سفیر کا کردار ادا کیا۔ جاپان میں اْنھیں انتہائی عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ 2013 میں شہنشاۂ جاپان کی جانب سے ''آرڈر آف دی رائزنگ سن'' جیسے اہم سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے اُن کی خدمات کے اعتراف کی تاحال زحمت نہیں کی۔
سید معین الدین عقیل کے اجداد کا تعلق مسلم ترکستان سے تھا۔ تیرہویں صدی میں ہندوستان کا رخ کیا۔ بہمنی سلطنت کے پائے تخت، بیدرکو مسکن بنایا، جو بعد میں ریاست حیدرآباد کا حصہ بن گیا۔ یہیں ایک شہر، اودگیر میں 25 جون 1946 کو وہ پیدا ہوئے۔ بیدر میں اسلاف کی زمیں داری تھی۔ والد، سید ضمیر الدین سرکاری ملازم تھے۔ سقوط حیدرآباد کے آس پاس مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے۔ بیدر میں اْن کے دادا کو شہیدکر دیا گیا۔ اب وہاں رہنا ممکن نہیں تھا۔ 53ء میں گھرانے نے کراچی کا رخ کیا۔ قائد آباد کی ایک کچی بستی میں ڈیرا ڈالا۔ بعد میں کورنگی منتقل ہوگئے۔ والد مختلف نیم سرکاری محکموں میں ملازم رہے۔
دو بھائیوں میں چھوٹے ہیں۔ قائدآباد میں واقع، حیدرآباد ٹرسٹ کے ایک اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر لانڈھی نمبر ایک کے سرکاری اسکول سے 63ء میں میٹرک کیا۔ معاشی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے ٹیوشن پڑھانے لگے۔ کرایہ بچانے کے لیے پیدل اسکول آتے جاتے۔ اْن پیسوں سے کتابیں خرید لیتے۔ اردو کالج سے انٹر کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی کا رخ کیا۔ 69ء میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے پر انجمن ترقی اردو سے بابائے اردو ایوارڈ کے حق دار ٹھہرے۔
اسلام اور پاکستان کے موضوعات دل چسپی کا محور تھے۔ رجحان دائیں بازو کی جانب تھا، مگر کسی جماعت کے رکن نہیں رہے۔ ''اُس زمانے میں یونیورسٹی میں جمعیت بھی تھی، این ایس ایف بھی، مگر تمام سرگرمیاں انتہائی مثبت ہوا کرتیں۔ دونوں ہی حلقوں میں میرے دوست تھے۔ البتہ سیاست سے زیادہ میرا رجحان لکھنے پڑھنے کی جانب رہا۔''
ایم اے میں تحقیقی مقالے کا موضوع ''تحریک پاکستان کا لسانی پس منظر'' تھا۔ بہ قول ان کے،''بہ ظاہر پاکستان کا مطالبہ اسلام کی بنیاد پر کیا گیا، مگر جن تہذیبی عوامل نے تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی، ان میں اردو زبان کے تحفظ کا معاملہ بھی تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ تحریک پاکستان میں اردو نے بہت موثر کردار ادا کیا۔'' ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی سرپرستی میں 75ء میں پی ایچ ڈی کا مرحلہ مکمل کیا۔ دوران تحقیق جائزہ لیا کہ تحریک پاکستان میں ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے کیا خدمات انجام دیں۔ اِس ضمن میں سرسید، حسرت موہانی، محمد علی جوہر، ظفر علی خان کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ ''اردو فقط مسلمانوں کی زبان نہیں تھی۔ تمام قوموں نے اسے پروان چڑھایا، مگر بعد میں ہندوؤں نے، انگریزوں کے دیے ہوئے قومی جذبے کے تحت، ہندی کو اپنی زبان قرار دیتے ہوئے اردو کو مسلمانوں سے مخصوص کر دیا۔ تہذیبی اور تعلیمی میدان میں زیادتیاں ہوتی رہیں۔ اگر فقط نفاذ اسلام مسئلہ ہوتا، تو شاید یہ مطالبہ اتنی شدت سے سامنے نہیں آتا، مگر زبان، تعلیم اور معاشی محرومیوں نے بھی پاکستان کے مطالبے کو قوت عطا کی۔ ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے عوام کو احساس دلایا کہ انگریزوں سے نجات کے بعد ایک علیحدہ مسلم مملکت کا حصول ان کا حق ہے۔''
ایم اے کے زمانے میں امریکی سفارت خانے میں اردو پڑھانے کا موقع ملا۔ تین سال بعد، 70ء میں شپ اونر کالج، نارتھ ناظم سے منسلک ہوگئے۔ ملیر کینٹ کالج اور گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں خدمات انجام دیں۔ 84ء میں جامعہ کراچی کا حصہ بن گئے۔2001 میں پروفیسر کا منصب سنبھالا۔ چار برس شعبہ اردو کے صدر رہے۔ 2006 میں ریٹائرمینٹ کے بعد انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد سے منسلک رہے۔ ایک عرصہ علامہ اقبال یونیورسٹی سے وابستگی رہی۔ 82ء میں اُس ادارے کی جانب سے بہترین استاد کے ایوارڈ کے حق دار ٹھہرے۔ پیشہ ورانہ سفر میں پانچ بین الاقوامی درس گاہوں سے تعلق رہا۔ 86ء میں اٹلی کی اورینٹل یونیورسٹی، نیپلز سے پیش کش ہوئی۔ وہاں دو برس ایشین اسٹڈیز کے شعبے میں بیتے۔
93ء میں جاپان کی ''ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز'' سے بلاوا آگیا۔ سات برس وہاں گزارے۔ اس دوران ''دائی توبُنکا یونیورسٹی'' میں وہ ہفتہ وار لیکچر دیتے رہے۔ متعدد مقامی ریسرچ اسکالرز کے تحقیقی منصوبوں میں معاونت اور راہ نمائی کی۔ ''پیرائیہ اردو'' کے زیر عنوان چار جلدوں پر مشتمل نصابی کتاب تصنیف و تالیف کی۔ ٹوکیو میں جاپانی وزارت خارجہ کے لینگویج اسکول میں بھی پڑھاتے رہے۔ جاپان سے لوٹنے کے بعد بھی وہاں کے اسکالرز ان کے علم سے استفادہ کرتے رہے۔ 2007 میں ''اوساکا یونیورسٹی'' اور 2008 میں ''کیوتو یونیورسٹی'' میں ''گریجویٹ اسکول آف ایشیا افریقا ایریا اسٹڈیز'' سے بہ حیثیت ریسرچ فیلو وابستگی رہی۔ اُن کے نزدیک جاپان میں مطالعۂ اسلام کا رجحان گذشتہ چند عشروں میں خاصا بڑھا ہے، جس کا سبب سیاسی کے ساتھ علمی بھی ہے۔ ''آج کے عالمی تناظر میں پاکستان اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب وہاں تحقیق کا موضوع بن رہے ہیں۔ مستقبل میں اِس رجحان میں مزید اضافہ ہوگا۔ وہاں کے نوجوان ایسے مطالعات میں خاصی دل چسپی لے رہے ہیں۔''
جامعہ کراچی کے درخشاں ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اِس کے حال سے شدیدمایوس نظر آئے۔ ''کسی زمانے میں یہاں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین، احسان رشید، سلیم الزماں صدیقی جیسے عالمی شہرت یافتہ اساتذہ ہوا کرتے تھے۔ آج جب جامعہ کراچی کو دیکھتے ہیں، تو افسوس ہوتا ہے۔ وہ یونیورسٹی، جو کبھی پاکستان کی کیمبرج اور آکسفورڈ کہلاتی تھی، تیزی سے پستی کی جانب جارہی ہے۔ سیاسی اثرات، ذاتی مفادات، نااہلی اور مصلحت پسندی اِس کی بنیادی وجوہات ہیں۔'' معاشرتی خلفشارکو وہ براہ راست اساتذہ کے رویوں سے جوڑتے ہیں۔ ''اساتذہ معاشرتی تباہی کے اصل ذمے دار ہیں۔ اساتذہ ہی صحافی اور جج بناتے ہیں۔ یہ تینوں طبقات معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ اگر یہ فرض شناس اور دیانت دار نہ ہوں، تو معاشرہ بگاڑتے بھی ہیں۔ نااہل اور بدکردار افراد، جنھیں یونیورسٹیوں کی حدود سے بھی نہیں گزرنا چاہیے، نہ صرف اساتذہ کے طور پر بھرتی ہورہے ہیں، بلکہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعینات کیے جارہے ہیں۔ یہ افسوس ناک صورت حال سندھ، بالخصوص کراچی میں زیادہ ہے۔ نقل کرکے پاس ہونے والے اساتذہ بھی یونیورسٹی سے منسلک رہے ہیں۔ اُنھیں ملازمتوں میں توسیع بھی دے دی جاتی ہے۔'' ان کے نزدیک بے روزگاری کے عفریت نے سائنس، آرٹس، کامرس؛ تمام ہی شعبوں کے طلبا کو بلا تخصیص محرومیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ البتہ یقین رکھتے ہیں کہ اردو کے قابل طلبا معاش اور معاشرے میں جگہ بنا ہی لیتے ہیں۔ ''ایچ ای سی'' کے مقاصد اور منصوبوں کے وہ معترف ہیں۔ ڈاکٹر عطا الرحمان کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ ''اساتذہ کی اکثریت ایچ ای سی کو پسند نہیں کرتی۔ ایچ ای سی اہلیت مانگتی ہے، جس سے ہمارے اساتذہ کی اکثریت عاری ہے۔ اب تو وائس چانسلر بھی وہ لوگ مقرر ہوتے ہیں، جو ایچ ای سی کے معیار کے تحت پروفیسر بھی نہیں بن سکتے۔''
پیشہ ورانہ سفر کے بعد کتابوں پر بات چل نکلی۔
مطالعے کا شوق والدین سے وارثت میں ملا۔ گھر کے قریب واقع ایک آنہ لائبریری نے شوقِ مطالعہ کو مہمیز کیا۔ ابن صفی کو جم کر پڑھا۔ پھر کرشن چندر، قرۃ العین، بیدی، غلام عباس، عصمت اور منٹو کی تحریروں کا ذایقہ چکھا۔ کتابیں خریدنے کا شوق چرایا۔کالج کے زمانے میں تنقید اور تاریخ کا مطالعہ شروع ہوا۔ پھر تحقیق کی جانب متوجہ ہوئے۔ لکھنے کا آغاز اسکول کے میگزین سے ہوا۔ اخبارات اور ادبی رسائل میں تحریریں چھپنے لگیں۔ ابتدا میں تنقیدی اور تعارفی مضامین لکھے۔ پھر تحقیق کے ہو کر رہ گئے۔
کتابوں کی فہرست طویل ہے۔ ہر ایک پر تو بات کرنا ممکن نہیں، البتہ نمایاں کْتب کا تذکرہ ضروری ہے۔ 71ء میں پہلی کتاب ''تحریک پاکستان اور مولانا مودودی'' شایع ہوئی۔ کہتے ہیں،''اُس زمانے میں قائد اعظم اور علامہ اقبال سمیت تحریک پاکستان کے کئی قائدین کے خلاف مصلحتاً منفی باتیں پھیلائی جا رہی تھیں۔ مودودی صاحب بھی تنقید کی زد میں تھے۔ اسی صورت حال نے مجھے وہ کتاب لکھنے کی تحریک دی۔'' 76ء میں تحقیقی مقالہ انجن ترقی اردو سے کتابی شکل میں شایع ہوا۔ اگلے برس ''اشاریہ کلام فیض'' کی اشاعت عمل میں آئی۔ ''عقیدے کے اعتبار سے تو میں دائیں بازو کا ہوں، مگر علم و ادب میں تعصب کا قائل نہیں۔ فیض مجھے پسند تھے۔ تو مطالعۂ فیض کو سہل بنانے کے لیے وہ اشاریہ مرتب کیا۔'' ریڈیو پاکستان کے لیے ''مسلمانوں کی جدوجہد آزادی'' کے موضوع پر سو تقاریر کیں، جنھیں 82ء میں ''مسلمانوں کی جدوجہد آزادی: مسائل، افکار اور تحریکات'' کے زیر عنوان کتابی شکل دی گئی۔ امیرخسرو کی بابت تحقیق کو ''امیر خسرو: فرد و تاریخ'' میں سمویا۔
حیدرآباد دکن توجہ اور تحقیق کا موضوع رہا۔ اِس موضوع پر کتابیں ''ایک نادر سفر نامہ''، ''دکن اور ایران''، ''تحریک آزادی اور مملکت حیدرآباد''، ''دکن کا عہد اسلامی''، ''مدح و قدح دکن'' اور ''سقوط حیدرآباد'' کے زیر عنوان شایع ہوئیں۔ کہتے ہیں،''میری تحقیق کا محور ماضی کا حیدرآباد رہا۔ نوآبادیاتی عہد میں مملکت حیدرآباد ایک ایسی پناہ گاہ تھا، جہاں ہندوستان کے مسلمانوں کو خوش حالی، تعلیمی سہولیات اور روزگار میسر تھا۔ اس نے دیگر علاقوں اورعرب ملکوں کی سرپرستی کی۔ اسلامی علوم کے فروغ میں ممتاز رہا۔''
اردو رسم الخط کی شکست و ریخت کے نظریے کو رد کرتے ہوئے وہ اس زبان کا مستقبل تاب ناک قرار دیتے ہیں۔ البتہ چند کوتاہیوں کا تذکرہ ضرورکرتے ہیں۔ ''یہ ہماری سستی اور غفلت ہے۔ اب اردو، ٹیکنالوجی کے قریب آتی جارہی ہے۔ کمپیوٹر اور موبائل فونز پر اردو رسم الخط موجود ہے۔ کچھ مشکل ضرور ہے، مگر ہمیں اِسے استعمال کرنا چاہیے۔ خاص کر نوجوانوں کو اِس جانب توجہ دینی چاہیے۔'' اردو کو رومن یا دیوناگری اسکرپٹ میں لکھنا اْن کے نزدیک ناممکن ہے۔ ''ہم کسی زبان کے رسم الخط سے اْس تہذیب کی جڑوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اردو کو رومن اور دیوناگری رسم الخط میں لکھنا یوں بھی ناممکن ہے کہ اُن میں اردو کی کئی آوازیں مثلاً ز، ڑ، خ اور ق کے لیے حروف نہیں۔ س، ص اور ث کے فرق کو ہم ان رسم الخطوں میں کیسے ممتاز کریں گے؟ اِن اسکرپٹس میں اردو لکھنے کا مطلب ہوگا، ہم عربی و فارسی اور قرآن سے بھی دُور ہوجائیں گے۔'' بھارتی فلموں میں برتی جانے والی زبان، ان کے نزدیک، ہندی نہیں، اردو ہے۔ ''جو تھوڑے بہت ہندی الفاظ وہ استعمال کرتے ہیں، اُن سے درحقیقت اردو کا دامن وسیع ہورہا ہے۔ میں بین الاقوامی درس گاہوں سے وابستہ رہا ہوں۔ وہاں میں نے دیکھا، جو طلبا ہندی پڑھ کر ہندوستان جاتے تھے، وہ وہاں گونگوں کی طرح رہتے ہیں۔ جو اردو پڑھ کر جاتے ہیں، اْنھیں رابطے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی ہے۔ دراصل ہندوستان میں آج بھی اردو رابطے کی اکلوتی زبان ہے۔ صرف رسم الخط کا مسئلہ ہے، جو سیاسی ہے۔''
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ملکی مسائل کا حل راتوں رات ممکن نہیں۔ البتہ شرح خواندگی میں اضافے اور تعلیمی نظام میں بہتری سے ہمارا مستقبل سنور سکتا ہے۔ وہ بیوروکریسی اور دہرے نظام تعلیم کو بھی مسائل کے اسباب میں شمار کرتے ہیں۔ جب اُن کی تحقیقی کاوشوں کو سراہا جاتا ہے، تو خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ان کی تحقیق کہیں حوالہ بن رہی ہے۔ جب لوگ اْنھیں سمجھ نہیں پاتے، تو دُکھ ہوتا ہے۔ زندگی میں ایسے کئی مواقع آئے۔ ''میں نے ہمیشہ اصولوں کی پاس داری کی۔ اپنے ماتحتوں کو فرض شناسی پر آمادہ کیا، شاید اِسی وجہ سے میں جہاں بھی انتظامی عہدوں پر رہا، وہاں میری شدید مخالفت کی گئی۔''
مطالعے کے شایق، ڈاکٹر معین الدین عقیل، اقبال کے مداح ہیں۔ فکشن نگاروں میں فنّی لحاظ سے منٹو اور غلام عباس کو سراہتے ہیں۔ اشتیاق حسین قریشی کی تصنیف ''برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ'' من پسند کتابوں میں سے ایک ہے۔ اْن کے نزدیک تحقیق کے میدان میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے کہ اردو کے کلاسیکی ادب کا ایک بڑا حصہ تاحال غیرمطبوعہ ہے۔ اسی لیے تحقیق میں کلاسیکی ادب اور ماضی کے موضوعات کو اہمیت دیتے ہیں۔اس میدان میں محمود شیرانی، امتیاز علی عرشی اور مولوی محمد شفیع کی تعریف کرتے ہیں۔ عہد حال کی شخصیات پر تحقیق کو ''تحقیق خام'' سمجھتے ہیں۔ جامعات میں ہونے والی تحقیق سے بھی خود کو مطمئن نہیں پاتے۔
78ء میں شادی ہوئی۔ اُن کی بیگم، فریسہ عقیل ریڈیو پاکستان کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر، محمد عمر مہاجر کی صاحب زادی ہیں۔ اپنے والد کی چار کتابیں ایڈٹ کرچکی ہیں۔ خدا نے ایک بیٹی سے نوازا ہے، جو ابھی زیر تعلیم ہیں۔ جاپانی زبان سے واقفیت کی وجہ سے جاپان قونصلیٹ، کراچی میں پڑھاتی بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جب کبھی سفر میں رہے، اُن کی عدم موجودی میں بیگم اور والدہ نے کتب خانے کی دیکھ بھال کی۔ شلوار قمیص میں خود کو آرام دہ محسوس کرنے والے معین الدین عقیل چالیس ممالک کا سفر کرچکے ہیں۔ وہاں کے تمام ہی کتب خانوں سے استفادہ کیا۔ کھانوں کے شوقین ہیں۔ جاپانی کھانے یوں پسند ہیں کہ سادہ اور سمندری خوراک پر مشتمل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب تدریس کا چالیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ تحقیقی سفر بھی اتنا ہی طویل ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب، اردو زبان، تحریک آزادی، اقبال، حیدرآباد دکن اور پاکستانی ادب ان کے خاص موضوعات ہیں، جن پر وقیع کتابیں لکھیں۔ میرغلام بھیک نیرنگ، رنجور عظیم آبادی، درد، داغ، حسرت موبانی، تاثیر ، نادر کاکوروی اور امیر مینائی کے کلام کی ترتیب و تدوین کا فریضہ نبھایا۔ نصابی کتب ان کے علاوہ ہیں۔ کْل تعداد 65 بنتی ہے۔
''تحریک آزادی میں اردو کا حصہ'' جیسے اہم موضوع پر ضخیم تحقیقی مقالہ لکھنے والے معین الدین عقیل ''پی ایچ ڈی'' تک محدود نہیں رہے۔ تحقیقی سفر جاری رکھا۔ اعلیٰ تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ''ڈی لٹ'' کی اعلیٰ ترین سند عطا کی گئی۔ فقط پاکستان میں علم کی شمع روشن نہیں کی۔ اطالویوں اور جاپانیوں کو اردو کے ذایقے سے آشنا کیا۔ دیارغیر میں مسلم تاریخ و ثقافت کی حقیقی تصویر پیش کی۔ ایک سفیر کا کردار ادا کیا۔ جاپان میں اْنھیں انتہائی عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ 2013 میں شہنشاۂ جاپان کی جانب سے ''آرڈر آف دی رائزنگ سن'' جیسے اہم سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے اُن کی خدمات کے اعتراف کی تاحال زحمت نہیں کی۔
سید معین الدین عقیل کے اجداد کا تعلق مسلم ترکستان سے تھا۔ تیرہویں صدی میں ہندوستان کا رخ کیا۔ بہمنی سلطنت کے پائے تخت، بیدرکو مسکن بنایا، جو بعد میں ریاست حیدرآباد کا حصہ بن گیا۔ یہیں ایک شہر، اودگیر میں 25 جون 1946 کو وہ پیدا ہوئے۔ بیدر میں اسلاف کی زمیں داری تھی۔ والد، سید ضمیر الدین سرکاری ملازم تھے۔ سقوط حیدرآباد کے آس پاس مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے۔ بیدر میں اْن کے دادا کو شہیدکر دیا گیا۔ اب وہاں رہنا ممکن نہیں تھا۔ 53ء میں گھرانے نے کراچی کا رخ کیا۔ قائد آباد کی ایک کچی بستی میں ڈیرا ڈالا۔ بعد میں کورنگی منتقل ہوگئے۔ والد مختلف نیم سرکاری محکموں میں ملازم رہے۔
دو بھائیوں میں چھوٹے ہیں۔ قائدآباد میں واقع، حیدرآباد ٹرسٹ کے ایک اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر لانڈھی نمبر ایک کے سرکاری اسکول سے 63ء میں میٹرک کیا۔ معاشی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے ٹیوشن پڑھانے لگے۔ کرایہ بچانے کے لیے پیدل اسکول آتے جاتے۔ اْن پیسوں سے کتابیں خرید لیتے۔ اردو کالج سے انٹر کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی کا رخ کیا۔ 69ء میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے پر انجمن ترقی اردو سے بابائے اردو ایوارڈ کے حق دار ٹھہرے۔
اسلام اور پاکستان کے موضوعات دل چسپی کا محور تھے۔ رجحان دائیں بازو کی جانب تھا، مگر کسی جماعت کے رکن نہیں رہے۔ ''اُس زمانے میں یونیورسٹی میں جمعیت بھی تھی، این ایس ایف بھی، مگر تمام سرگرمیاں انتہائی مثبت ہوا کرتیں۔ دونوں ہی حلقوں میں میرے دوست تھے۔ البتہ سیاست سے زیادہ میرا رجحان لکھنے پڑھنے کی جانب رہا۔''
ایم اے میں تحقیقی مقالے کا موضوع ''تحریک پاکستان کا لسانی پس منظر'' تھا۔ بہ قول ان کے،''بہ ظاہر پاکستان کا مطالبہ اسلام کی بنیاد پر کیا گیا، مگر جن تہذیبی عوامل نے تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی، ان میں اردو زبان کے تحفظ کا معاملہ بھی تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ تحریک پاکستان میں اردو نے بہت موثر کردار ادا کیا۔'' ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی سرپرستی میں 75ء میں پی ایچ ڈی کا مرحلہ مکمل کیا۔ دوران تحقیق جائزہ لیا کہ تحریک پاکستان میں ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے کیا خدمات انجام دیں۔ اِس ضمن میں سرسید، حسرت موہانی، محمد علی جوہر، ظفر علی خان کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ ''اردو فقط مسلمانوں کی زبان نہیں تھی۔ تمام قوموں نے اسے پروان چڑھایا، مگر بعد میں ہندوؤں نے، انگریزوں کے دیے ہوئے قومی جذبے کے تحت، ہندی کو اپنی زبان قرار دیتے ہوئے اردو کو مسلمانوں سے مخصوص کر دیا۔ تہذیبی اور تعلیمی میدان میں زیادتیاں ہوتی رہیں۔ اگر فقط نفاذ اسلام مسئلہ ہوتا، تو شاید یہ مطالبہ اتنی شدت سے سامنے نہیں آتا، مگر زبان، تعلیم اور معاشی محرومیوں نے بھی پاکستان کے مطالبے کو قوت عطا کی۔ ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے عوام کو احساس دلایا کہ انگریزوں سے نجات کے بعد ایک علیحدہ مسلم مملکت کا حصول ان کا حق ہے۔''
ایم اے کے زمانے میں امریکی سفارت خانے میں اردو پڑھانے کا موقع ملا۔ تین سال بعد، 70ء میں شپ اونر کالج، نارتھ ناظم سے منسلک ہوگئے۔ ملیر کینٹ کالج اور گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں خدمات انجام دیں۔ 84ء میں جامعہ کراچی کا حصہ بن گئے۔2001 میں پروفیسر کا منصب سنبھالا۔ چار برس شعبہ اردو کے صدر رہے۔ 2006 میں ریٹائرمینٹ کے بعد انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد سے منسلک رہے۔ ایک عرصہ علامہ اقبال یونیورسٹی سے وابستگی رہی۔ 82ء میں اُس ادارے کی جانب سے بہترین استاد کے ایوارڈ کے حق دار ٹھہرے۔ پیشہ ورانہ سفر میں پانچ بین الاقوامی درس گاہوں سے تعلق رہا۔ 86ء میں اٹلی کی اورینٹل یونیورسٹی، نیپلز سے پیش کش ہوئی۔ وہاں دو برس ایشین اسٹڈیز کے شعبے میں بیتے۔
93ء میں جاپان کی ''ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز'' سے بلاوا آگیا۔ سات برس وہاں گزارے۔ اس دوران ''دائی توبُنکا یونیورسٹی'' میں وہ ہفتہ وار لیکچر دیتے رہے۔ متعدد مقامی ریسرچ اسکالرز کے تحقیقی منصوبوں میں معاونت اور راہ نمائی کی۔ ''پیرائیہ اردو'' کے زیر عنوان چار جلدوں پر مشتمل نصابی کتاب تصنیف و تالیف کی۔ ٹوکیو میں جاپانی وزارت خارجہ کے لینگویج اسکول میں بھی پڑھاتے رہے۔ جاپان سے لوٹنے کے بعد بھی وہاں کے اسکالرز ان کے علم سے استفادہ کرتے رہے۔ 2007 میں ''اوساکا یونیورسٹی'' اور 2008 میں ''کیوتو یونیورسٹی'' میں ''گریجویٹ اسکول آف ایشیا افریقا ایریا اسٹڈیز'' سے بہ حیثیت ریسرچ فیلو وابستگی رہی۔ اُن کے نزدیک جاپان میں مطالعۂ اسلام کا رجحان گذشتہ چند عشروں میں خاصا بڑھا ہے، جس کا سبب سیاسی کے ساتھ علمی بھی ہے۔ ''آج کے عالمی تناظر میں پاکستان اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب وہاں تحقیق کا موضوع بن رہے ہیں۔ مستقبل میں اِس رجحان میں مزید اضافہ ہوگا۔ وہاں کے نوجوان ایسے مطالعات میں خاصی دل چسپی لے رہے ہیں۔''
جامعہ کراچی کے درخشاں ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اِس کے حال سے شدیدمایوس نظر آئے۔ ''کسی زمانے میں یہاں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین، احسان رشید، سلیم الزماں صدیقی جیسے عالمی شہرت یافتہ اساتذہ ہوا کرتے تھے۔ آج جب جامعہ کراچی کو دیکھتے ہیں، تو افسوس ہوتا ہے۔ وہ یونیورسٹی، جو کبھی پاکستان کی کیمبرج اور آکسفورڈ کہلاتی تھی، تیزی سے پستی کی جانب جارہی ہے۔ سیاسی اثرات، ذاتی مفادات، نااہلی اور مصلحت پسندی اِس کی بنیادی وجوہات ہیں۔'' معاشرتی خلفشارکو وہ براہ راست اساتذہ کے رویوں سے جوڑتے ہیں۔ ''اساتذہ معاشرتی تباہی کے اصل ذمے دار ہیں۔ اساتذہ ہی صحافی اور جج بناتے ہیں۔ یہ تینوں طبقات معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ اگر یہ فرض شناس اور دیانت دار نہ ہوں، تو معاشرہ بگاڑتے بھی ہیں۔ نااہل اور بدکردار افراد، جنھیں یونیورسٹیوں کی حدود سے بھی نہیں گزرنا چاہیے، نہ صرف اساتذہ کے طور پر بھرتی ہورہے ہیں، بلکہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعینات کیے جارہے ہیں۔ یہ افسوس ناک صورت حال سندھ، بالخصوص کراچی میں زیادہ ہے۔ نقل کرکے پاس ہونے والے اساتذہ بھی یونیورسٹی سے منسلک رہے ہیں۔ اُنھیں ملازمتوں میں توسیع بھی دے دی جاتی ہے۔'' ان کے نزدیک بے روزگاری کے عفریت نے سائنس، آرٹس، کامرس؛ تمام ہی شعبوں کے طلبا کو بلا تخصیص محرومیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ البتہ یقین رکھتے ہیں کہ اردو کے قابل طلبا معاش اور معاشرے میں جگہ بنا ہی لیتے ہیں۔ ''ایچ ای سی'' کے مقاصد اور منصوبوں کے وہ معترف ہیں۔ ڈاکٹر عطا الرحمان کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ ''اساتذہ کی اکثریت ایچ ای سی کو پسند نہیں کرتی۔ ایچ ای سی اہلیت مانگتی ہے، جس سے ہمارے اساتذہ کی اکثریت عاری ہے۔ اب تو وائس چانسلر بھی وہ لوگ مقرر ہوتے ہیں، جو ایچ ای سی کے معیار کے تحت پروفیسر بھی نہیں بن سکتے۔''
پیشہ ورانہ سفر کے بعد کتابوں پر بات چل نکلی۔
مطالعے کا شوق والدین سے وارثت میں ملا۔ گھر کے قریب واقع ایک آنہ لائبریری نے شوقِ مطالعہ کو مہمیز کیا۔ ابن صفی کو جم کر پڑھا۔ پھر کرشن چندر، قرۃ العین، بیدی، غلام عباس، عصمت اور منٹو کی تحریروں کا ذایقہ چکھا۔ کتابیں خریدنے کا شوق چرایا۔کالج کے زمانے میں تنقید اور تاریخ کا مطالعہ شروع ہوا۔ پھر تحقیق کی جانب متوجہ ہوئے۔ لکھنے کا آغاز اسکول کے میگزین سے ہوا۔ اخبارات اور ادبی رسائل میں تحریریں چھپنے لگیں۔ ابتدا میں تنقیدی اور تعارفی مضامین لکھے۔ پھر تحقیق کے ہو کر رہ گئے۔
کتابوں کی فہرست طویل ہے۔ ہر ایک پر تو بات کرنا ممکن نہیں، البتہ نمایاں کْتب کا تذکرہ ضروری ہے۔ 71ء میں پہلی کتاب ''تحریک پاکستان اور مولانا مودودی'' شایع ہوئی۔ کہتے ہیں،''اُس زمانے میں قائد اعظم اور علامہ اقبال سمیت تحریک پاکستان کے کئی قائدین کے خلاف مصلحتاً منفی باتیں پھیلائی جا رہی تھیں۔ مودودی صاحب بھی تنقید کی زد میں تھے۔ اسی صورت حال نے مجھے وہ کتاب لکھنے کی تحریک دی۔'' 76ء میں تحقیقی مقالہ انجن ترقی اردو سے کتابی شکل میں شایع ہوا۔ اگلے برس ''اشاریہ کلام فیض'' کی اشاعت عمل میں آئی۔ ''عقیدے کے اعتبار سے تو میں دائیں بازو کا ہوں، مگر علم و ادب میں تعصب کا قائل نہیں۔ فیض مجھے پسند تھے۔ تو مطالعۂ فیض کو سہل بنانے کے لیے وہ اشاریہ مرتب کیا۔'' ریڈیو پاکستان کے لیے ''مسلمانوں کی جدوجہد آزادی'' کے موضوع پر سو تقاریر کیں، جنھیں 82ء میں ''مسلمانوں کی جدوجہد آزادی: مسائل، افکار اور تحریکات'' کے زیر عنوان کتابی شکل دی گئی۔ امیرخسرو کی بابت تحقیق کو ''امیر خسرو: فرد و تاریخ'' میں سمویا۔
حیدرآباد دکن توجہ اور تحقیق کا موضوع رہا۔ اِس موضوع پر کتابیں ''ایک نادر سفر نامہ''، ''دکن اور ایران''، ''تحریک آزادی اور مملکت حیدرآباد''، ''دکن کا عہد اسلامی''، ''مدح و قدح دکن'' اور ''سقوط حیدرآباد'' کے زیر عنوان شایع ہوئیں۔ کہتے ہیں،''میری تحقیق کا محور ماضی کا حیدرآباد رہا۔ نوآبادیاتی عہد میں مملکت حیدرآباد ایک ایسی پناہ گاہ تھا، جہاں ہندوستان کے مسلمانوں کو خوش حالی، تعلیمی سہولیات اور روزگار میسر تھا۔ اس نے دیگر علاقوں اورعرب ملکوں کی سرپرستی کی۔ اسلامی علوم کے فروغ میں ممتاز رہا۔''
اردو رسم الخط کی شکست و ریخت کے نظریے کو رد کرتے ہوئے وہ اس زبان کا مستقبل تاب ناک قرار دیتے ہیں۔ البتہ چند کوتاہیوں کا تذکرہ ضرورکرتے ہیں۔ ''یہ ہماری سستی اور غفلت ہے۔ اب اردو، ٹیکنالوجی کے قریب آتی جارہی ہے۔ کمپیوٹر اور موبائل فونز پر اردو رسم الخط موجود ہے۔ کچھ مشکل ضرور ہے، مگر ہمیں اِسے استعمال کرنا چاہیے۔ خاص کر نوجوانوں کو اِس جانب توجہ دینی چاہیے۔'' اردو کو رومن یا دیوناگری اسکرپٹ میں لکھنا اْن کے نزدیک ناممکن ہے۔ ''ہم کسی زبان کے رسم الخط سے اْس تہذیب کی جڑوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اردو کو رومن اور دیوناگری رسم الخط میں لکھنا یوں بھی ناممکن ہے کہ اُن میں اردو کی کئی آوازیں مثلاً ز، ڑ، خ اور ق کے لیے حروف نہیں۔ س، ص اور ث کے فرق کو ہم ان رسم الخطوں میں کیسے ممتاز کریں گے؟ اِن اسکرپٹس میں اردو لکھنے کا مطلب ہوگا، ہم عربی و فارسی اور قرآن سے بھی دُور ہوجائیں گے۔'' بھارتی فلموں میں برتی جانے والی زبان، ان کے نزدیک، ہندی نہیں، اردو ہے۔ ''جو تھوڑے بہت ہندی الفاظ وہ استعمال کرتے ہیں، اُن سے درحقیقت اردو کا دامن وسیع ہورہا ہے۔ میں بین الاقوامی درس گاہوں سے وابستہ رہا ہوں۔ وہاں میں نے دیکھا، جو طلبا ہندی پڑھ کر ہندوستان جاتے تھے، وہ وہاں گونگوں کی طرح رہتے ہیں۔ جو اردو پڑھ کر جاتے ہیں، اْنھیں رابطے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی ہے۔ دراصل ہندوستان میں آج بھی اردو رابطے کی اکلوتی زبان ہے۔ صرف رسم الخط کا مسئلہ ہے، جو سیاسی ہے۔''
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ملکی مسائل کا حل راتوں رات ممکن نہیں۔ البتہ شرح خواندگی میں اضافے اور تعلیمی نظام میں بہتری سے ہمارا مستقبل سنور سکتا ہے۔ وہ بیوروکریسی اور دہرے نظام تعلیم کو بھی مسائل کے اسباب میں شمار کرتے ہیں۔ جب اُن کی تحقیقی کاوشوں کو سراہا جاتا ہے، تو خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ان کی تحقیق کہیں حوالہ بن رہی ہے۔ جب لوگ اْنھیں سمجھ نہیں پاتے، تو دُکھ ہوتا ہے۔ زندگی میں ایسے کئی مواقع آئے۔ ''میں نے ہمیشہ اصولوں کی پاس داری کی۔ اپنے ماتحتوں کو فرض شناسی پر آمادہ کیا، شاید اِسی وجہ سے میں جہاں بھی انتظامی عہدوں پر رہا، وہاں میری شدید مخالفت کی گئی۔''
مطالعے کے شایق، ڈاکٹر معین الدین عقیل، اقبال کے مداح ہیں۔ فکشن نگاروں میں فنّی لحاظ سے منٹو اور غلام عباس کو سراہتے ہیں۔ اشتیاق حسین قریشی کی تصنیف ''برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ'' من پسند کتابوں میں سے ایک ہے۔ اْن کے نزدیک تحقیق کے میدان میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے کہ اردو کے کلاسیکی ادب کا ایک بڑا حصہ تاحال غیرمطبوعہ ہے۔ اسی لیے تحقیق میں کلاسیکی ادب اور ماضی کے موضوعات کو اہمیت دیتے ہیں۔اس میدان میں محمود شیرانی، امتیاز علی عرشی اور مولوی محمد شفیع کی تعریف کرتے ہیں۔ عہد حال کی شخصیات پر تحقیق کو ''تحقیق خام'' سمجھتے ہیں۔ جامعات میں ہونے والی تحقیق سے بھی خود کو مطمئن نہیں پاتے۔
78ء میں شادی ہوئی۔ اُن کی بیگم، فریسہ عقیل ریڈیو پاکستان کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر، محمد عمر مہاجر کی صاحب زادی ہیں۔ اپنے والد کی چار کتابیں ایڈٹ کرچکی ہیں۔ خدا نے ایک بیٹی سے نوازا ہے، جو ابھی زیر تعلیم ہیں۔ جاپانی زبان سے واقفیت کی وجہ سے جاپان قونصلیٹ، کراچی میں پڑھاتی بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جب کبھی سفر میں رہے، اُن کی عدم موجودی میں بیگم اور والدہ نے کتب خانے کی دیکھ بھال کی۔ شلوار قمیص میں خود کو آرام دہ محسوس کرنے والے معین الدین عقیل چالیس ممالک کا سفر کرچکے ہیں۔ وہاں کے تمام ہی کتب خانوں سے استفادہ کیا۔ کھانوں کے شوقین ہیں۔ جاپانی کھانے یوں پسند ہیں کہ سادہ اور سمندری خوراک پر مشتمل ہوتے ہیں۔