حکمراں طبقے کو مطالعے کا قطعی شوق نہیں اقبال صالح محمد
محمد سلیم الرحمان کے کہنے پر ’’شہاب نامہ‘‘ پڑھا، طلعت محمود کے گیتوں نے شاعری کی جانب مائل کیا
لاہور:
یہ قصّہ سات عشروں پر محیط ہے۔
جس ادارے کے آج سربراہ ہیں، اُس کا قیام تقسیم کے ٹھیک ایک برس بعد عمل میں آیا۔ ایک چھوٹی سی دکان، جو وقت کے ساتھ پھیلتی گئی، ترقی کے زینے پھلانگتی گئی۔ ''پیراماؤنٹ بکس'' کا شمار آج پاکستان کے بڑے بک اسٹورز میں ہوتا ہے۔ پبلشنگ کے میدان میں بھی یہ ادارہ جھنڈے گاڑ چکا ہے۔
یہ دھیمے لہجے میں گفت گو کرنے والے، اقبال صالح محمد کی سرگذشت ہے، مگر اِس کے باقاعدہ آغاز سے قبل ''پیراماؤنٹ بکس'' کی بنیاد رکھنے والے اُن کے والد، صالح محمد یوسف کا تذکرہ ضروری ہے۔
اُن کی کہانی بھی دل چسپ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ سندھ مدرسے سے میٹرک کرنے کے بعد اہل خانہ صالح محمد پر زور ڈالنے لگے کہ شادی کی عمر ہوگئی ہے، گھر بساؤ، کاروبار کی جانب توجہ دو۔ شوق انھیں پڑھنے لکھنے کا تھا۔ انگریزی ادب مطالعے میں رہتا۔ لوگوں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود اسی شوق کو کاروبار بنایا۔ صدر کے علاقے پریڈی اسٹریٹ پر 48ء میں کتابوں کی دکان کر لی۔ محنت رنگ لائی۔ دکان چل نکلی۔ دکان کے اوپری مالے پر ایک کافی ہاؤس تھا۔ توسیع کا خیال سوجھا، تو وہ بھی خرید لیا۔ بعد میں کتابیں درآمد کرنے لگے۔ صدر میں واقع دکان 83ء میں پی ای سی ایچ ایس منتقل ہوگئی۔ آج وہیں ہے۔ ابتدا میں انگریزی نصابی اور ادبی کتابیں فروخت کیا کرتے۔ بعد میں دوست احباب کے مشورے پر اردو کتابوں کی فروخت کا سلسلہ شروع کیا۔ 85ء میں پبلشنگ کے دھندے میں آگئے۔ آغاز نصابی کتب سے کیا تھا۔ اب سے آٹھ برس قبل ادبی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب تک چھے سو کے قریب کتابیں شایع کر چکے ہیں۔ مستقبل میں اردو کتب سے متعلق کئی منصوبے ہیں۔ شاعری اور لسانیات سے جڑی کتابیں تیاری کے مراحل میں ہیں۔
87-88ء سے کراچی میں کتب میلہ منعقد کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے دیگر بڑے میلوں میں بھی ان کے اسٹال ہوتے ہیں۔ بیرون ملک ہونے والے میلوں میں شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔ فرینکفرٹ، لندن بک فیئر اور شارجہ میں ہونے والے میلے میں پیراماؤنٹ بکس کا اسٹال لگتا ہے۔ ہندوستان بھی آنا جانا رہا۔
اب کچھ تذکرہ اُن کے حالاتِ زندگی کا:
اقبال صالح محمد کا تعلق میمن برادری سے ہے۔ اجداد کاٹھیاواڑ سے تھے۔ بٹوارے سے کئی برس قبل اس حصے کا رخ کیا، جو بعد میں پاکستان کہلایا۔ لیاری میں ڈیرا ڈالا۔ کریانے کا کام شروع کیا۔ یہیں اگست 1949 میں وہ پیدا ہوئے۔ دو بھائی، پانچ بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ خاصے شرارتی ہوا کرتے تھے۔ شرارتوں پر ٹھیک ٹھاک سزا ملتی۔ کرکٹ کے دیوانے تھے۔ کھیلی بھی خوب۔ آج اپنا تذکرہ اوسط درجے کے کھلاڑی کے طور پر کرتے ہیں۔ امتیاز احمد کو وہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی پسندیدہ ترین شخصیت قرار دیتے ہیں۔ ایک دو بار اُنھیں میدان میں کھیلتے بھی دیکھا۔ بہ قول ان کے، جب وہ میدان میں اترتے تھے، تو مخالف ٹیم اپنے فیلڈر پھیلا دیتی۔ سرگیری سوبرز کی کتاب کا بھی حوالہ دیتے ہیں، جس میں اِس پاکستانی کھلاڑی کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔
مطالعے کا شوق والد سے وراثت میں ملا۔ آٹھویں جماعت ہی میں جسٹس کیانی کی تمام تقاریر، انگریزی اور اردو، دونوں زبانوں میں پڑھ ڈالیں۔Stanley Gardner کی پیری میسن سیریز جم کر پڑھی۔ سمرسٹ ماہم اور منٹو کی کہانیوں کا ذایقہ چکھا۔ ادبی ذوق اپنی جگہ، مگر نصابی کتابیں زیادہ نہیں بھاتی تھیں۔ کلاسیں لینے کے بجائے ادھر ادھر گھومتے رہتے۔ پھر بھی تمام امتحانات اچھے نمبروں سے پاس کر لیتے۔ میٹرو پولیس اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 64ء میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے میٹرک کیا۔ مزید پڑھنے کی آرزو تھی، مگر والد چاہتے تھے کہ وہ کاروبار میں ہاتھ بٹائیں۔ اُنھوں نے کئی ماہ اپنے سپوت کو سمجھانے پر صَرف کیے۔ کوشش بارآور ثابت ہوئی۔ اقبال صاحب نے عملی زندگی میں قدم رکھ دیا۔ دکان پر بیٹھنے لگے۔ جلد ہی ماحول سے ہم آہنگ ہوگئے۔ بعد میں پرائیویٹ گریجویشن کیا۔
والد سے دوستانہ روابط رہے۔ بتاتے ہیں؛ طبیعت میں اُن کی شفقت نمایاں تھی۔ مزاج کاروباری نہیں تھا۔ کتاب دوست تھے، مطالعے کے شایقین کی حوصلہ افزائی کرتے۔ اوائل میں پرانی کتابوں کا کاروبار کیا۔ پھر کتابیں درآمد کرنے کا خیال آیا۔ اِس کے لیے لائسنس درکار تھا۔ حکومت نے لائسنس کے اجرا پر ان دنوں پابندی لگا رکھی تھی۔ اس زمانے میں الطاف گوہر چیف کنٹرولر امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ تھے۔ اُن کے والد نے ملاقات کی کئی بار کوشش کی، مگر کلرک لوگ ملنے نہیں دیتے۔ ایک دن وہ غصے میں سیدھے الطاف گوہر کے کمرے میں چلے گئے۔ الطاف گوہر نے پوچھا: What's the problem young man?۔ اُنھوں نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ نوجوان کتب فروش کے جذبے سے متاثر ہو کر انھوں نے ایک سادہ کاغذ پر کچھ لکھا، اور صالح محمد کو دیتے ہوئے کہا؛ اگلی بار درخواست دیتے وقت اسے ساتھ نتھی کر دیں۔ کام بن گیا۔50-51ء میں پیراماؤنٹ بکس کو کتابیں درآمد کرنے کا اجازت نامہ مل گیا۔
وقت گزرتا رہا۔ کاروبار پھیل گیا۔ 94ء میں والد نے تمام ذمے داریاں انھیں سونپ دیں۔ ریٹائرمینٹ تو لے لی، مگر فارغ بیٹھنے کے قائل نہیں تھے۔ کسی زمانے میں پشاور میں واقع ایک دکان ''لندن بک کمپنی'' خریدی تھی۔ اپنی محنت سے اُسے شہر کے سب سے بڑے بک اسٹور کے قالب میں ڈھالا۔ ریٹائرمینٹ کے بعد کے برس اسی کی دیکھ ریکھ میں صَرف ہوئے۔ 2008 میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ تو چلے گئے، مگر ان کی تربیت، طریقۂ کار آج بھی اقبال صالح محمد کے ساتھ ہے۔
ان کی کتاب زندگی کی ورق گردانی کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا:
کیا کتابوں کی خرید و فروخت، نشرواشاعت گھاٹے کا کاروبار ہے؟ اس سوال کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔ کہنا ہے،''آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر اتنا پیسہ اور وقت کسی اور پیشے میں لگایا جائے، تو آپ کو زیادہ منافع ہوگا، مگر اسے نقصان کا سودا نہیں کہا جاسکتا۔ پبلشنگ بہت اچھا پیشہ ہے۔ اب تو یہ میرا شوق بن گیا ہے۔ اگر جنت نصیب ہوئی، تو وہاں بھی پبلشنگ ہاؤس لگاؤں گا۔ (قہقہہ!)''
شایع کرنے کے لیے کتابوں کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟ اِس ضمن میں کہتے ہیں،''ہمارے ہاں اس کام کے لیے ایک بورڈ بنا ہوا ہے، جو اس بابت فیصلہ کرتا ہے۔ بنیادی مقصد تو یہ ہی ہوتا ہے کہ ایسی کتاب منتخب کی جائے، جو بک جائے۔ ہمیں کچھ منافع ہو۔ البتہ میں اپنے شوق کی بنیاد پر بھی کتابیں چھاپتا ہوں۔ ہم نے ایسی ادبی کتابیں بھی شایع کیں، جو شاید کوئی اور شایع نہ کرے۔ ہمیں اصل نفع درسی کتب سے ہوتا ہے۔ وہ کام صحیح چل رہا ہے، اور اُس کے طفیل ہمیں اپنی پسند کی کتابیں چھاپنے کا موقع مل جاتا ہے۔''
اقبال صالح محمد کے ادارے نے اردو فکشن بھی چھاپا، انگریزی فکشن بھی، تاہم انگریزی فکشن کی نشرو اشاعت کا تجربہ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ اس کا ایک سبب وہ مارکیٹنگ کی کمی قرار دیتے ہیں، اور دوسری وجہ ہے قارئین کا مزاج۔ بہ قول ان کے،''کتابوں کا کاروبار بالکل فلموں کی طرح ہے۔ کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کون سی فلم ہٹ ہوگی، کون سی فلاپ!''
ناشر ہیں۔ ادیبوں، شاعروں سے رابطہ رہتا ہے۔ کئی سے گہری دوستی ہے۔ اِس ضمن میں محمد سلیم الرحمان کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں۔ ''وہ خود نمائی سے دور رہنے والے دُرویش صفت آدمی ہیں۔ پہلے میں اردو کتابیں نہیں پڑھتا تھا۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے سے اردو پڑھنے کا ذوق پیدا ہوا۔ ان ہی کے اصرار پر 'شہاب نامہ' پڑھا۔ میں بہت لطف اندوز ہوا۔ اگر وہ نہ کہتے، تو شاید میں وہ کتاب کبھی نہیں پڑھتا۔'' کتاب میں شامل مافوق الفطرت واقعات کی بابت کہتے ہیں؛ کتاب پڑھتے سمے تو اس قسم کی باتوں پر یقین نہیں تھا، مگر بعد میں کچھ ایسی چیزیں دیکھیں، جن سے اندازہ ہوا کہ کچھ واقعات محیر العقول ہوتے ہیں۔ محمد سلیم الرحمان کے علاوہ نصیرترابی سے بھی اچھی دوستی ہے۔ لسانیات سے متعلق اُن کی کتاب ''شعریات'' شایع کی۔
کیا ادیب حضرات اپنی کتاب چھپوانے کے لیے زور بھی ڈالتے ہیں؟ اس بابت کہتے ہیں،''نہیں۔ اس کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ہمارے ہاں بورڈ ہے، وہ ہی اشاعت کا فیصلہ کرتا ہے۔'' اقبال صاحب کے مطابق ایک اچھی کتاب کئی دشوار گزار اور طویل مراحل سے گزر کر تیار ہوتی ہے۔ ''ان مشکلات سے صرف ناشر ہی واقف ہوتا ہے۔ خود رائٹر کو بھی ان کا اندازہ نہیں ہوتا۔ میری تو خواہش ہوتی ہے کہ پیراماؤنٹ کی شایع کردہ کوئی کتاب تاج محل سے کم خوب صورت نہ ہو۔''
ہمارے ادیب ناشروں سے نالاں نظر آتے ہیں، اُنھیں مافیا قرار دیتے ہیں۔ بہ قول اُن کے،''بیش تر شکایات جائز ہیں۔ ہمارے ہاں بہت چھوٹے دل کے لوگ ہیں۔ رائلٹی نہیں دیتے۔ شاید میرے گھر کی تربیت ہے کہ میں نے ایسا رویہ اختیار نہیں کیا۔ ورنہ یہاں یہ رویہ عام ہے۔'' نشر و اشاعت کے میدان میں لاہور کی برتری تسلیم کرتے ہیں۔ کہنا ہے، وہاں کتابوں کی کھپت زیادہ ہے، پھر پنجاب حکومت بھی اِس ضمن میں دل چسپی لیتی ہے۔
سیاست دانوں سے وہ نالاں ہیں۔ بہ قول اُن کے،''ہمارے ہاں اتنے وسائل ہیں، اتنی دولت ہے، اصولی طور پر کوئی ایک شخص بھی یہاں غریب نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی بے روزگار ہے، تو اس کی کفالت کا انتظام حکومت کو کرنا چاہیے، مگر یہاں تو صورت حال ہی اور ہے۔'' ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''ہمارے حکم راں طبقے کو کتاب پڑھنے کا بالکل شوق نہیں۔ یہ مطالعے سے دور ہے۔ میں نے شعوری طور پر اہل اقتدار سے فاصلہ رکھا۔ فقط علم دوست طبقے سے رشتہ رہا۔''
اقبال صالح محمد کے مطابق پبلشنگ کی دنیا میں بیتا ہرا لمحہ خوش گوار گزرا۔ اگر کوئی کتاب ناکام بھی رہی، تو صدمہ نہیں ہوا۔ عام طور سے وہ پینٹ شرٹ میں دکھائی دیتے ہیں۔ کھانے میں کوئی خاص ڈش پسند نہیں۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں،''جب سے کتابوں سے محبت ہوئی ہے، کھانے سے پیار نہیں رہا۔'' معتدل موسم سے لطف اندوز ہونے والے اقبال صاحب غالب کے مداح ہیں۔ کہنا ہے،''میرے ایک دوست کے بہ قول، غالب، غالب ہے، باقی سب مغلوب ہیں۔ اور میں اس بات سے متفق ہوں۔'' فکشن نگاروں میں منٹو کو سراہتے ہیں۔ گائیکی میں محمد رفیع اور طلعت محمود کے مداح ہیں۔ طلعت محمود کے گیتوں نے اردو شاعری کی جانب مائل کیا۔ دلیپ کمار، گرودت اور محمد علی کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ سلیم ناصر کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
69ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، دو بیٹوں سے نوازا۔ خیر سے آج دادا نانا کا کردار نبھا رہے ہیں۔ دونوں بیٹے اسی کاروبار میں ہیں۔ خواہش مند ہیں کہ وہ اس کاروبار کو آگے بڑھائیں۔ اگر پبلشر نہ ہوتے، تو اُن کے بہ قول آوارہ گرد ہوتے۔ کئی ملکوں کی سیر کی۔ سیاحت کے نقطۂ نگاہ سے لندن اور سنگاپور کو بہتر پایا۔
یہ قصّہ سات عشروں پر محیط ہے۔
جس ادارے کے آج سربراہ ہیں، اُس کا قیام تقسیم کے ٹھیک ایک برس بعد عمل میں آیا۔ ایک چھوٹی سی دکان، جو وقت کے ساتھ پھیلتی گئی، ترقی کے زینے پھلانگتی گئی۔ ''پیراماؤنٹ بکس'' کا شمار آج پاکستان کے بڑے بک اسٹورز میں ہوتا ہے۔ پبلشنگ کے میدان میں بھی یہ ادارہ جھنڈے گاڑ چکا ہے۔
یہ دھیمے لہجے میں گفت گو کرنے والے، اقبال صالح محمد کی سرگذشت ہے، مگر اِس کے باقاعدہ آغاز سے قبل ''پیراماؤنٹ بکس'' کی بنیاد رکھنے والے اُن کے والد، صالح محمد یوسف کا تذکرہ ضروری ہے۔
اُن کی کہانی بھی دل چسپ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ سندھ مدرسے سے میٹرک کرنے کے بعد اہل خانہ صالح محمد پر زور ڈالنے لگے کہ شادی کی عمر ہوگئی ہے، گھر بساؤ، کاروبار کی جانب توجہ دو۔ شوق انھیں پڑھنے لکھنے کا تھا۔ انگریزی ادب مطالعے میں رہتا۔ لوگوں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود اسی شوق کو کاروبار بنایا۔ صدر کے علاقے پریڈی اسٹریٹ پر 48ء میں کتابوں کی دکان کر لی۔ محنت رنگ لائی۔ دکان چل نکلی۔ دکان کے اوپری مالے پر ایک کافی ہاؤس تھا۔ توسیع کا خیال سوجھا، تو وہ بھی خرید لیا۔ بعد میں کتابیں درآمد کرنے لگے۔ صدر میں واقع دکان 83ء میں پی ای سی ایچ ایس منتقل ہوگئی۔ آج وہیں ہے۔ ابتدا میں انگریزی نصابی اور ادبی کتابیں فروخت کیا کرتے۔ بعد میں دوست احباب کے مشورے پر اردو کتابوں کی فروخت کا سلسلہ شروع کیا۔ 85ء میں پبلشنگ کے دھندے میں آگئے۔ آغاز نصابی کتب سے کیا تھا۔ اب سے آٹھ برس قبل ادبی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب تک چھے سو کے قریب کتابیں شایع کر چکے ہیں۔ مستقبل میں اردو کتب سے متعلق کئی منصوبے ہیں۔ شاعری اور لسانیات سے جڑی کتابیں تیاری کے مراحل میں ہیں۔
87-88ء سے کراچی میں کتب میلہ منعقد کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے دیگر بڑے میلوں میں بھی ان کے اسٹال ہوتے ہیں۔ بیرون ملک ہونے والے میلوں میں شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔ فرینکفرٹ، لندن بک فیئر اور شارجہ میں ہونے والے میلے میں پیراماؤنٹ بکس کا اسٹال لگتا ہے۔ ہندوستان بھی آنا جانا رہا۔
اب کچھ تذکرہ اُن کے حالاتِ زندگی کا:
اقبال صالح محمد کا تعلق میمن برادری سے ہے۔ اجداد کاٹھیاواڑ سے تھے۔ بٹوارے سے کئی برس قبل اس حصے کا رخ کیا، جو بعد میں پاکستان کہلایا۔ لیاری میں ڈیرا ڈالا۔ کریانے کا کام شروع کیا۔ یہیں اگست 1949 میں وہ پیدا ہوئے۔ دو بھائی، پانچ بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ خاصے شرارتی ہوا کرتے تھے۔ شرارتوں پر ٹھیک ٹھاک سزا ملتی۔ کرکٹ کے دیوانے تھے۔ کھیلی بھی خوب۔ آج اپنا تذکرہ اوسط درجے کے کھلاڑی کے طور پر کرتے ہیں۔ امتیاز احمد کو وہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی پسندیدہ ترین شخصیت قرار دیتے ہیں۔ ایک دو بار اُنھیں میدان میں کھیلتے بھی دیکھا۔ بہ قول ان کے، جب وہ میدان میں اترتے تھے، تو مخالف ٹیم اپنے فیلڈر پھیلا دیتی۔ سرگیری سوبرز کی کتاب کا بھی حوالہ دیتے ہیں، جس میں اِس پاکستانی کھلاڑی کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔
مطالعے کا شوق والد سے وراثت میں ملا۔ آٹھویں جماعت ہی میں جسٹس کیانی کی تمام تقاریر، انگریزی اور اردو، دونوں زبانوں میں پڑھ ڈالیں۔Stanley Gardner کی پیری میسن سیریز جم کر پڑھی۔ سمرسٹ ماہم اور منٹو کی کہانیوں کا ذایقہ چکھا۔ ادبی ذوق اپنی جگہ، مگر نصابی کتابیں زیادہ نہیں بھاتی تھیں۔ کلاسیں لینے کے بجائے ادھر ادھر گھومتے رہتے۔ پھر بھی تمام امتحانات اچھے نمبروں سے پاس کر لیتے۔ میٹرو پولیس اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 64ء میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے میٹرک کیا۔ مزید پڑھنے کی آرزو تھی، مگر والد چاہتے تھے کہ وہ کاروبار میں ہاتھ بٹائیں۔ اُنھوں نے کئی ماہ اپنے سپوت کو سمجھانے پر صَرف کیے۔ کوشش بارآور ثابت ہوئی۔ اقبال صاحب نے عملی زندگی میں قدم رکھ دیا۔ دکان پر بیٹھنے لگے۔ جلد ہی ماحول سے ہم آہنگ ہوگئے۔ بعد میں پرائیویٹ گریجویشن کیا۔
والد سے دوستانہ روابط رہے۔ بتاتے ہیں؛ طبیعت میں اُن کی شفقت نمایاں تھی۔ مزاج کاروباری نہیں تھا۔ کتاب دوست تھے، مطالعے کے شایقین کی حوصلہ افزائی کرتے۔ اوائل میں پرانی کتابوں کا کاروبار کیا۔ پھر کتابیں درآمد کرنے کا خیال آیا۔ اِس کے لیے لائسنس درکار تھا۔ حکومت نے لائسنس کے اجرا پر ان دنوں پابندی لگا رکھی تھی۔ اس زمانے میں الطاف گوہر چیف کنٹرولر امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ تھے۔ اُن کے والد نے ملاقات کی کئی بار کوشش کی، مگر کلرک لوگ ملنے نہیں دیتے۔ ایک دن وہ غصے میں سیدھے الطاف گوہر کے کمرے میں چلے گئے۔ الطاف گوہر نے پوچھا: What's the problem young man?۔ اُنھوں نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ نوجوان کتب فروش کے جذبے سے متاثر ہو کر انھوں نے ایک سادہ کاغذ پر کچھ لکھا، اور صالح محمد کو دیتے ہوئے کہا؛ اگلی بار درخواست دیتے وقت اسے ساتھ نتھی کر دیں۔ کام بن گیا۔50-51ء میں پیراماؤنٹ بکس کو کتابیں درآمد کرنے کا اجازت نامہ مل گیا۔
وقت گزرتا رہا۔ کاروبار پھیل گیا۔ 94ء میں والد نے تمام ذمے داریاں انھیں سونپ دیں۔ ریٹائرمینٹ تو لے لی، مگر فارغ بیٹھنے کے قائل نہیں تھے۔ کسی زمانے میں پشاور میں واقع ایک دکان ''لندن بک کمپنی'' خریدی تھی۔ اپنی محنت سے اُسے شہر کے سب سے بڑے بک اسٹور کے قالب میں ڈھالا۔ ریٹائرمینٹ کے بعد کے برس اسی کی دیکھ ریکھ میں صَرف ہوئے۔ 2008 میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ تو چلے گئے، مگر ان کی تربیت، طریقۂ کار آج بھی اقبال صالح محمد کے ساتھ ہے۔
ان کی کتاب زندگی کی ورق گردانی کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا:
کیا کتابوں کی خرید و فروخت، نشرواشاعت گھاٹے کا کاروبار ہے؟ اس سوال کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔ کہنا ہے،''آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر اتنا پیسہ اور وقت کسی اور پیشے میں لگایا جائے، تو آپ کو زیادہ منافع ہوگا، مگر اسے نقصان کا سودا نہیں کہا جاسکتا۔ پبلشنگ بہت اچھا پیشہ ہے۔ اب تو یہ میرا شوق بن گیا ہے۔ اگر جنت نصیب ہوئی، تو وہاں بھی پبلشنگ ہاؤس لگاؤں گا۔ (قہقہہ!)''
شایع کرنے کے لیے کتابوں کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے؟ اِس ضمن میں کہتے ہیں،''ہمارے ہاں اس کام کے لیے ایک بورڈ بنا ہوا ہے، جو اس بابت فیصلہ کرتا ہے۔ بنیادی مقصد تو یہ ہی ہوتا ہے کہ ایسی کتاب منتخب کی جائے، جو بک جائے۔ ہمیں کچھ منافع ہو۔ البتہ میں اپنے شوق کی بنیاد پر بھی کتابیں چھاپتا ہوں۔ ہم نے ایسی ادبی کتابیں بھی شایع کیں، جو شاید کوئی اور شایع نہ کرے۔ ہمیں اصل نفع درسی کتب سے ہوتا ہے۔ وہ کام صحیح چل رہا ہے، اور اُس کے طفیل ہمیں اپنی پسند کی کتابیں چھاپنے کا موقع مل جاتا ہے۔''
اقبال صالح محمد کے ادارے نے اردو فکشن بھی چھاپا، انگریزی فکشن بھی، تاہم انگریزی فکشن کی نشرو اشاعت کا تجربہ زیادہ اچھا نہیں رہا۔ اس کا ایک سبب وہ مارکیٹنگ کی کمی قرار دیتے ہیں، اور دوسری وجہ ہے قارئین کا مزاج۔ بہ قول ان کے،''کتابوں کا کاروبار بالکل فلموں کی طرح ہے۔ کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کون سی فلم ہٹ ہوگی، کون سی فلاپ!''
ناشر ہیں۔ ادیبوں، شاعروں سے رابطہ رہتا ہے۔ کئی سے گہری دوستی ہے۔ اِس ضمن میں محمد سلیم الرحمان کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں۔ ''وہ خود نمائی سے دور رہنے والے دُرویش صفت آدمی ہیں۔ پہلے میں اردو کتابیں نہیں پڑھتا تھا۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے سے اردو پڑھنے کا ذوق پیدا ہوا۔ ان ہی کے اصرار پر 'شہاب نامہ' پڑھا۔ میں بہت لطف اندوز ہوا۔ اگر وہ نہ کہتے، تو شاید میں وہ کتاب کبھی نہیں پڑھتا۔'' کتاب میں شامل مافوق الفطرت واقعات کی بابت کہتے ہیں؛ کتاب پڑھتے سمے تو اس قسم کی باتوں پر یقین نہیں تھا، مگر بعد میں کچھ ایسی چیزیں دیکھیں، جن سے اندازہ ہوا کہ کچھ واقعات محیر العقول ہوتے ہیں۔ محمد سلیم الرحمان کے علاوہ نصیرترابی سے بھی اچھی دوستی ہے۔ لسانیات سے متعلق اُن کی کتاب ''شعریات'' شایع کی۔
کیا ادیب حضرات اپنی کتاب چھپوانے کے لیے زور بھی ڈالتے ہیں؟ اس بابت کہتے ہیں،''نہیں۔ اس کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ہمارے ہاں بورڈ ہے، وہ ہی اشاعت کا فیصلہ کرتا ہے۔'' اقبال صاحب کے مطابق ایک اچھی کتاب کئی دشوار گزار اور طویل مراحل سے گزر کر تیار ہوتی ہے۔ ''ان مشکلات سے صرف ناشر ہی واقف ہوتا ہے۔ خود رائٹر کو بھی ان کا اندازہ نہیں ہوتا۔ میری تو خواہش ہوتی ہے کہ پیراماؤنٹ کی شایع کردہ کوئی کتاب تاج محل سے کم خوب صورت نہ ہو۔''
ہمارے ادیب ناشروں سے نالاں نظر آتے ہیں، اُنھیں مافیا قرار دیتے ہیں۔ بہ قول اُن کے،''بیش تر شکایات جائز ہیں۔ ہمارے ہاں بہت چھوٹے دل کے لوگ ہیں۔ رائلٹی نہیں دیتے۔ شاید میرے گھر کی تربیت ہے کہ میں نے ایسا رویہ اختیار نہیں کیا۔ ورنہ یہاں یہ رویہ عام ہے۔'' نشر و اشاعت کے میدان میں لاہور کی برتری تسلیم کرتے ہیں۔ کہنا ہے، وہاں کتابوں کی کھپت زیادہ ہے، پھر پنجاب حکومت بھی اِس ضمن میں دل چسپی لیتی ہے۔
سیاست دانوں سے وہ نالاں ہیں۔ بہ قول اُن کے،''ہمارے ہاں اتنے وسائل ہیں، اتنی دولت ہے، اصولی طور پر کوئی ایک شخص بھی یہاں غریب نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی بے روزگار ہے، تو اس کی کفالت کا انتظام حکومت کو کرنا چاہیے، مگر یہاں تو صورت حال ہی اور ہے۔'' ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''ہمارے حکم راں طبقے کو کتاب پڑھنے کا بالکل شوق نہیں۔ یہ مطالعے سے دور ہے۔ میں نے شعوری طور پر اہل اقتدار سے فاصلہ رکھا۔ فقط علم دوست طبقے سے رشتہ رہا۔''
اقبال صالح محمد کے مطابق پبلشنگ کی دنیا میں بیتا ہرا لمحہ خوش گوار گزرا۔ اگر کوئی کتاب ناکام بھی رہی، تو صدمہ نہیں ہوا۔ عام طور سے وہ پینٹ شرٹ میں دکھائی دیتے ہیں۔ کھانے میں کوئی خاص ڈش پسند نہیں۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں،''جب سے کتابوں سے محبت ہوئی ہے، کھانے سے پیار نہیں رہا۔'' معتدل موسم سے لطف اندوز ہونے والے اقبال صاحب غالب کے مداح ہیں۔ کہنا ہے،''میرے ایک دوست کے بہ قول، غالب، غالب ہے، باقی سب مغلوب ہیں۔ اور میں اس بات سے متفق ہوں۔'' فکشن نگاروں میں منٹو کو سراہتے ہیں۔ گائیکی میں محمد رفیع اور طلعت محمود کے مداح ہیں۔ طلعت محمود کے گیتوں نے اردو شاعری کی جانب مائل کیا۔ دلیپ کمار، گرودت اور محمد علی کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ سلیم ناصر کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
69ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، دو بیٹوں سے نوازا۔ خیر سے آج دادا نانا کا کردار نبھا رہے ہیں۔ دونوں بیٹے اسی کاروبار میں ہیں۔ خواہش مند ہیں کہ وہ اس کاروبار کو آگے بڑھائیں۔ اگر پبلشر نہ ہوتے، تو اُن کے بہ قول آوارہ گرد ہوتے۔ کئی ملکوں کی سیر کی۔ سیاحت کے نقطۂ نگاہ سے لندن اور سنگاپور کو بہتر پایا۔