عید کا تحفہ

کسی کومبارک دیتے وقت دس بار سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں وہ یا اس کا کوئی پیارا ’’کورونا‘‘ کے متاثرین میں سے نہ ہوں۔

Amjadislam@gmail.com

اس سال عید ساری دنیا پر کچھ ایسی پریشانی اور بے سروسامانی کے سے عالم میں آئی ہے کہ اس سے جڑی ہوئی تمام خوبصورت روایتیں اور چھوٹی بڑی خوشیاں جیسے سہمی ہوئی سی کچھ نادیدہ کونوں میں چھپی بیٹھی ہیں کہ کسی کومبارک دیتے وقت دس بار سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں وہ یا اس کا کوئی پیارا ''کورونا'' کے متاثرین میں سے نہ ہوں دوسری طرف اس کم بخت وبا کے باعث زندگی کا سارا کاروبار ہی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے اور بالخصوص غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لیے تو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی مشکل ہوگیا ہے۔

کسی زمانے میں ازراہ مذاق کہا کرتے تھے کہNo news is a good news.مگر گزشتہ ایک ڈیڑھ برس میں یہ ایک انتہائی تلخ حقیقت کی شکل اختیار کرچکا ہے، بہت سوچا کہ اس پُرمسّرت موقعے پر اپنے قارئین کے ساتھ کون سا ایسا تحفہ شیئر کیا جائے کہ وقتی طور پر ہی سہی اس اندھیرے میں روشنی کی کوئی کرن لہرا کر اس غم اور پریشانی کے بوجھ کو کچھ کم کردے، مگر کوئی بات اس تعریف پر پورا اُترتی نظر نہ آتی تھی، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ آپ کو اس طرف سے دیتا ہے جدھر آپ کا گمان بھی نہ ہو تو یکدم برادرم میجر (ریٹائرڈ) رفیق حسرت کی ایک فون کال سے چیزیں آپس میں جڑنا شروع ہوگئیں اور عید کے لیے ایک خوشگوار تجربے نے عید کے تحفے کی شکل اختیار کرلی۔

فون پر صرف یہ دعوت تھی کہ الکبیر ٹاؤن کے کرتا دھرتا ملک اورنگ زیب مجھ اور ڈاکٹر امجد ثاقب سے کچھ مشورہ کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے انھوں نے مجھے میرے بیٹے علی ذیشان امجد کے ہمراہ اپنے نئے گھر میں افطار پر مدعوکیا ہے۔

میں آج کل کہیں آتا جاتا نہیں ہوں اور افطاری یا کھانے وغیرہ کی محفل تو بالکل ہی بند ہے کہ کووڈ کی وجہ سے گھر سے باہر کھانا ایک شجرِ ممنوعہ کی شکل اختیار کر چکا تھا لیکن اس دعوت سے انکار بھی ممکن نہیں تھا کہ اس نوجوان ملک اورنگ زیب نے اب تک کی ہونے والی واحد ملاقات میں ایک ایسے حسنِ عمل کا مظاہرہ کیا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف میرے ایک منصوبے کی بہت بڑی رکاوٹ دُور ہوگئی تھی بلکہ جس سادگی، محبت اور بے ساختگی سے اس نے بات کی تھی اس نے سچ مُچ میرے دل کو چُھو لیا تھا۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے میں اور علی ذی شان میرے لکھے ہوئے ایک اسکرپٹ کے لیے جس کا موضوع اور مقصد اہلِ یورپ بلکہ اس کے چند فتنہ پسند عناصر کی اُس گستاخی کا موثر اور بامعنی جواب دینا تھا جو وہ آقائے دوجہاں اور ہم سب کے محبوب رسولِ پاکؐ کی ذات اور شخصیت کے بارے میں گزشتہ کچھ برسوں سے زیادہ شدت کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ذہن میں یہ تھا کہ اس جواب کو تکنیک ، ترتیب ، زبان اور ترسیل معانی کے حوالے سے نہ صرف اعلیٰ ترین معیارات کا حامل ہونا چاہیے بلکہ اپنی بات اس انداز میں کرنی چاہیے جس سے اُن کا ذہن مانوس ہو اور جس کی Logic کو وہ ذہن و دِل دونوں حوالوں سے قبول کرتے ہوں کہ یہ مسئلہ گالی کے بدلے گالی دینے، جھگڑا کرنے یا اندرون اور بیرون ملک فتنہ و فساد میں اُلجھنے کا نہیں بلکہ بہت تدبراور دانشمندی سے سمجھنے اور سمجھانے کا ہے اور اُن لاکھوں کروڑوں مغربی اقدار اور فکر کے حامل لوگوں کو تصویر کا اصل اور دوسرا رُخ دکھانے کا ہے جو اس سے متاثر ہورہے ہیں اور اس کے بعد اس مہم کو خود اپنی نئی نسل کے شعور کا حصہ بناتا ہے تاکہ ہم ممکنہ حد تک آپؐ سے محبت اور عقیدت کا حق ادا کرسکیں۔ اتفاق سے کچھ سرکاری ، نیم سرکاری اور افہام و تفہیم کی اُلجھنوں کے باعث اس نیک کام میں رکاوٹیں آتی چلی گئیں میں نے میجر رفیق حسرت اور عزیزی ملک اورنگ زیب سے باتوں باتوں میں اس صُورتِ حال کا ذکر کیا تو انھوں نے بات کو غور سے سنا اور سمجھا اور پھر بہت عاجزی سے سر جھکاتے ہوئے کہا آپ کا بہت احسان ہوگا اس نیکی میں ہمیں حصہ دار بنالیں۔


یہ تھا وہ پس منظر جس کے خوبصورت اور دلکش تاثر کا تقاضا تھا کہ میں اس شخص کی دعوت کو خصوصی درجہ دیتے ہوئے اس میں حاضر ہوجاؤں۔ باتوں باتوں میں میجر رفیق حسرت نے مجھے بتایا کہ وہ شاید تعلیم یا صحت کے میدان میں کوئی رفاحی کام کرنا چاہتا ہے اس لیے آپ دونوں ''امجدین'' کو مشورہ کے لیے زحمت دی ہے۔

یہاں تک تو یہ ایک عام سی بات تھی مگر جس نے اسے ایک نیک خبر اور عید کے تحفے کا رتبہ دیا ہے وہ اس سیلف میڈ قسم کے عام سا انسان نظر آنے والے نوجوان کی وہ گفتگو تھی جو اس نے تمہید کے طور پر کی اور جس کا ایک ایک لفظ ہمارے کاروباری حضرات اور بزنس میں کامیابیاں حاصل کرنے والے لوگوں کے لیے ایک چراغِ ہدایت سے کم نہیں، اُس نے بڑی سادگی سے مجھے کم اور ڈاکٹر امجد ثاقب کو زیادہ سب سے پہلے تو یہ بتایا کہ وہ ایک غریب خاندان میں پَلا بڑھا ہے اور غربت اس نے دیکھی ہی نہیں جھیلی ہے وہ دس بارہ برس پہلے رئیل اسٹیٹ بزنس میں ایک معمولی تنخواہ دار کارندے کی حیثیت میں شامل ہوا۔

کچھ برس اس کاروبار کو سمجھنے میں صرف کیے اور پھر یکے بعد دیگرے قدرت کی طرف سے جیسے اس کو انعام کے طور پر اوپر تلے کچھ ایسے منصوبے ملے جس میں اس نے دو بظاہر متضاد چیزیں یعنی دولت اور نیک نامی نہ صرف ایک ساتھ کمائے بلکہ بہت جلد اس کی آمدنی اس کی ضرورت کے برابر اور پھر زیادہ ہوگئی۔

اتفاق سے ایک بات جو اس کے دل میں پہلے سے پَل رہی تھی کسی اللہ والے کی رہنمائی سے اُس کو رب کریم کے اس پیغام کی شکل میں مل گئی کہ اپنی ضرورت سے زیادہ مال کو تقسیم کردو کہ وہ تمہارے پاس خلقِ خدا کی امانت ہے اس کے دماغ میں کچھ منصوبے ہیں مگر وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ کسی نئے اجنبی کام کے لیے خود ایڈونچر کرنے کے بجائے اُس کے کسی ماہر سے رجوع کرنا چاہیے، سو اس لیے اس نے ہم کو زحمت دی ہے کہ اس ضمن میں اس کی مدد اور رہنمائی کریں کہ جو دولت اس کی ضروریات سے زیادہ اورخلقِ خدا کی امانت ہے وہ اُسے کہاں اور کیسے خرچ کرے۔

اسی محفل کی معرفت مجھے ڈاکٹر امجد ثاقب کی زبانی یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں عامر محمود نے بھی چند برس قبل اسی طرح اُن سے مشورہ کیا تھا اور آج اُن کے سرمائے اور اخوت کی ٹیم کے اشتراک سے وہ میاں عامر کی زمینوں کے اردگرد بیس گاؤں میں بے زمین کسانوں کو انفرادی سطح پر چھوٹے قرضے اور اجتماعی سطح پر سولر ٹیوب ویل لگا کر انھیں ماڈل گاؤں کی شکل دے چکے ہیں کہ اب وہاں تعلیم بھی، روشنی بھی، خوشی بھی اور خوشحالی بھی ہے۔

بہت سے آئیڈیاز کے بعد یہ طے پایا کہ سب سے پہلے ملک اورنگ زیب بھی اپنے گاؤں، اردگرد کے علاقے اور وہاں کے کسانوں اور بچوں سے اپنے کام کا آغاز کریں اور ایک باقاعدہ فاؤنڈیشن کے ذریعے تعلیم اور مقامی معیشت اور غریب کاشتکاروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے منصوبوں سے اپنے کام کا آغازکریں اور اپنی آمدنی کا ایک خاص حصہ اس کے لیے وقف کردیں، سو میری طرف سے ساری قوم کو عید کا تحفہ یہی خوبصورت سوچ ہے کہ ہم اپنی ذات سے اُوپر اُٹھ کر اپنے معاشرے کے لیے سوچیں اور پھر اس سوچ پر عمل بھی کریں کہ یہ دنیا میں جنت کا دروازہ ہے ۔
Load Next Story