مدارس کی خدمت فرض بھی اور قرض بھی

اللہ کریم ہر عالم اور حافظ کے دل میں یہ جذبہ ڈال دے اور مدارس سے محبت کوٹ کوٹ کر بھر دے۔

ashfaqkhan@express.com.pk

برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ ہم سب اللہ کریم کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے کہ اس نے اپنا مبارک مہینہ ہمیں نوازا اور ہم دعا کرتے ہیں اسی طرح اللہ کریم آیندہ سال بھی ہمیں رمضان المبارک نصیب فرمائے۔ اللہ رب العزت قدر دان ہیں، جس بھی مسلمان نے اس کے بھیجے ہوئے اس مہمان رمضان کی قدر کی اللہ کریم اسے سارا سال نوازتا ہے۔

میرے والد محترم شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی بابا جی رحمہ اللہ علیہ اور ان جیسے اولیاء کرام کی زندگیوں کا نچوڑ ہے کہ جو مسلمان رمضان المبارک میں تقویٰ والی زندگی اختیار کرتا ہے، عبادات کا اہتمام خشوع و خضوع سے کرتا ہے، گناہوں سے اپنا دامن بچاتا ہے، اللہ کریم اس کے لیے سال کے بقیہ مہینے تقویٰ، طہارت، عبادات اور گناہوں سے اجتناب کو آسان بنا دیتا ہے۔ ماہِ رمضان میں جہاں عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے، وہاں ضبط نفس، صبر و تحمل، جذبۂ ایثار اور صدقہ و خیرات بھی ادا کیا جاتا ہے۔

رمضان المبارک میں خود نبی کریمﷺ بے پناہ صدقہ وخیرات کرنے کا اہتمام فرماتے اور اپنی امت کو اس بات کی ترغیب بھی ارشاد فرماتے۔ اللہ کا لاکھ شکر ہے امت آج بھی پیارے نبیﷺ کے احکامات پر عمل کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روئے زمین پر بسنے والا ہر مسلمان اس ماہ مقدس میں زکوۃ ، نفلی و واجبی صدقات خوب ذوق و شوق سے ادا کرتا ہے۔ صدقہ و خیرات کرنے سے جہاں اللہ اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے وہاں انسان پر آنے والی آفات کو بھی ٹال دیتا ہے۔

پاکستان میں مدارس دینیہ کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے جو اللہ کریم کی مدد و نصرت کے بعد اسی زکوۃ، صدقات و خیرات کے بل بوتے پر چلتے ہیں۔ کراچی سے خیبر تک پھیلے ہوئے مدارس کا پورے سال کا دارمدار ماہ رمضان پر ہی ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے انتہائی محترم دوست اور وفاق المدارس العربیہ کے میڈیا کوآرڈینیٹر مولانا عبدالقدوس محمدی کی ایک فکر انگیز تحریر نظر سے گزری، جو انھوں نے مدارس سے فارغ ہونے والوں کے نام لکھی۔ مولانا کی تحریر من و عن آپ احباب کی خدمت میں مدارس العربیہ کا وکیل بن کر پیش کررہا ہوں۔

"آئیے!رمضان المبارک کے ان مبارک لمحات میں ایک کام کرتے ہیں، ہم نے جن مدارس سے پڑھا، جس دور میں پڑھا اور جن مشکلات میں پڑھا ان کا تصور کیجیے، یہ سوچیے! اگر ہماری زندگی میں مدرسہ نہ آتا تو ہم کہاں ہوتے اور کیا ہوتے؟ اس وقت ہمارے مالی حالات اچھے نہ تھے مدرسہ اور اساتذہ نے ہم سے فیس نہیں مانگی، ہمارے لیے دروازے بند نہیں کیے بلکہ ہمیں موقع دیا، ہمیں پالاپوسا، تعلیم دی، تربیت کی، مدارس نے ہماری کفالت کی، قیام و طعام کا انتظام کیا اور جملہ ضروریات مدارس کے ذریعے اللہ نے پوری کیں، ہمارے اساتذہ کرام نے خون جگر دے کر، اپنی جوانیاں لگا کر ہمیں پڑھایا، اپنی زندگیاں ہماری زندگیاں بنانے اور سنوارنے پر لگا دیں اور ہمیشہ ہی لانرید منکم جزاء ولاشکورا کا مصداق بنے رہے، اللہ رب العزت ان کو ہماری طرف سے بہتر جزا عطا فرمائیں۔ (آمین)

اللہ کریم کے فضل و کرم سے آج ہم میں سے اکثر کے حالات بدل گئے ہیں، اکثر کو اللہ رب العزت نے مالی فراخی عطاکردی ہے اور اگر کوئی مالی طور پر مستحکم نہیں بھی ہے تب بھی اللہ رب العزت نے جو عزت، مقام ومرتبہ اور اثر ورسوخ عطا فرمایا وہ محض کریم پروردگار کا کرم ہے لیکن اسباب کے درجے میں جن مدارس سے ہم نے پڑھا، جن درسگاہوں کی آغوش میں پلے بڑھے ہیں، جن اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا ان کا ہم پر حق ہے، یہ ہمارے ذمہ فرض بھی ہے اور قرض بھی کہ ہمpay back کریں یعنی ان مدارس سے تعاون کریں۔


خود نہ کر سکیں تو دوسروں کو ترغیب دیں، اپنی مساجد اور اداروں کے پلیٹ فارم سے لوگوں کو متوجہ کریں، فکر تو کریں،کوشش تو کریں، ارادہ تو کریں، پھر دیکھیں اللہ کریم کیسے اسباب پیدا کرتے ہیں۔ جیسے والدین صرف دو ہوتے ہیں اور وہ دس دس بچوں کو پالتے، سنبھالتے،کھلاتے پلاتے ہیں لیکن دس بچے مل کر بوڑھے ماں باپ کو نہیں سنبھال پاتے، یہی حال ہمارے مدارس کا بھی ہے کہ وہ ہم جیسے کتنے بے وسیلہ اور بے آسرا بچوں کو پالتے ہیں، پڑھاتے ہیں، سنبھالتے ہیں،کھلاتے پلاتے ہیں اور جب ہم کسی قابل ہوتے ہیں تو پلٹ کر ان مدارس کی خبر ہی نہیں لیتے۔

اپنے اساتذہ کرام کو ہدایات دینے کا اہتمام نہیں کرتے، ان کی خیرخبر نہیں لیتے ہمارا حال اس قوم جیسا ہوتا ہے جس کے بادشاہ نے اعلان کیا تھا کہ رات فلاں حوض میں سب نے دودھ ڈالنا ہے صبح پورا حوض پانی سے بھرا ہوا تھا ہر کسی نے یہ سوچ کر پانی ڈال دیا تھا کہ باقی سب دودھ ڈالیں گے تو میرے پانی ڈالنے سے کیا فرق پڑے گا۔ صاحب! فرق پڑتا ہے اور بہت پڑتا ہے اور ہر چیز کا پڑتا ہے ایک کپ دودھ ڈالنے سے بھی فرق پڑتا ہے اور ایک کپ پانی ڈالنے سے بھی۔

آج ارادہ کیجیے کہ اس رمضان المبارک میں اور اس کے بعد ضرور اپنے اپنے مدارس سے تعاون کریں گے اور دوسروں سے بھی کروائیں گے اور اگر اور کچھ نہ بھی کر سکے تو کم از کم اس سال صدقہ فطر تو ضرور ہی اپنی اپنی مادرعلمی میں پہنچائیں گے تاکہ اپنے ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کا مزاج بنے اور اس عید پر اپنے اساتذہ کرام کی خدمت میں عیدی پیش کرنے کا ضرور اہتمام کریں گے خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔

تجربے کی بات عرض کرتا ہوں آپ بھی آزما لیجیے گا جب جب اپنے مدرسہ اور دینی و اجتماعی کاموں میں مالی تنگی محسوس کی اپنے مدرسہ کے تعاون کی فکر سے زیادہ اپنی مادر علمی یعنی جامعہ فریدیہ کی خدمت اور تعاون کا اہتمام کیا تو اللہ ربّ العزت نے مدرسہ کے ساتھ تعاون کے حیرت انگیز اسباب پیدا فرمائے اور جب جب ذاتی طور پر مالی مسائل کا شکار ہوا تو جو ہو سکا جتنا ہو سکا اللہ ربّ العزت نے اساتذہ کرام کی خدمت کی توفیق دی تو اس کے نقد اثرات وبرکات کا مشاہدہ کیا۔

آپ بھی ہمت کیجیے۔ صرف وقتی فائدے کے لیے نہیں بلکہ اللہ ربّ العزت کی رضا کے لیے بے لوث جذبوں سے یہ کار خیر سرانجام دیجیے... اللہ رب العزت اپنے کرم سے توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین)"

کیا فکر ہے،کیا درد دل ہے اور مدارس کی خدمت کا کیا جذبہ ہے۔ اللہ کریم ہر عالم اور حافظ کے دل میں یہ جذبہ ڈال دے اور مدارس سے محبت کوٹ کوٹ کر بھر دے۔ برادر عزیز مولانا محمدی نے ان حضرات کی بات کی ہے جو مدارس سے فارغ ہوئے تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مدارس سے فیض صرف ان علماء تک محدود نہیں جو وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے، مدارس کا فیض تو ہر ہر کلمہ گو مسلمان کے گھر تک پہنچا ہوا ہے کیونکہ مدارس العربیہ جو عالم تیار کرتے ہیں وہ معاشرے میں بسنے والے مسلمان کی پیدائش سے قبر تک ہر معاملے میں ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

قرآن کریم ناظرہ یا حفظ ہمیں علماء پڑھاتے ہیں، نکاح علماء پڑھاتے ہیں، شادی کے بعد اولاد ہو تو کان میں اذان دینے کے لیے علماء کو بلایا جاتا ہے، کوئی انتقال کرجائے تو جنازے کے لیے علماء کو کہا جاتا ہے، یعنی زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں ان علماء کی رہنمائی اور سرپرستی درکار ہوتی جو مدارس العربیہ سے فارغ ہوئے۔ اس لیے مدارس کی خدمت جہاں علماء کی ذمے داری ہے وہاں ہر مسلمان پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ آج ماہ رمضان کا آخری دن ہے ہمیں مدارس کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے تاکہ انھیں سال بھر کا نظام چلانے کے لیے کوئی پریشانی نہ ہو۔
Load Next Story