تین دن میں تین میٹھی عیدیں… کہاں کی سائنس
علمی اعتبار سے 12 مئی کو پاکستان کے کسی بھی علاقے میں دوربین سے بھی نیا چاند نظر آنے کا امکان نہیں تھا
مملکتِ خداداد پاکستان کی ''نوزائیدہ'' رویتِ ہلال کمیٹی نے اپنی طرف سے پورے ملک میں ''ایک عید'' کروانے کا وعدہ کچھ ایسے پورا کیا کہ خیر سے اس سال پاکستان میں لگاتار تین دن تک ''عیدالفطر کا پہلا دن'' منایا گیا۔
شمالی وزیرستان کے علاقے حسوخیل میں 11 مئی کی رات کئی افراد نے چاند دیکھنے کی گواہی دی، جس پر وہاں 12 مئی کو عید منائی گئی۔
پھر 12 اور 13 مئی کی درمیانی شب، تقریباً آدھی رات کے وقت پاکستان کی مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی نے اہلِ وطن کے کانوں پر ''کل عید ہوگی'' کا بم پھوڑ دیا؛ اور نتیجتاً ملک بھر میں خوشی سے کہیں زیادہ افراتفری اور بوکھلاہٹ کی لہر دوڑ گئی۔
ملک کے بیشتر علاقوں میں 13 مئی کو نمازِ عید کے اجتماعات منعقد ہوئے لیکن کچھ لوگوں نے مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کا یہ فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے 30 روزے پورے کیے اور 14 مئی کو نمازِ عید ادا کی۔
اب تک کی خبروں کے مطابق، کراچی کی ایک مسجد میں جبکہ گوجرانوالہ میں کم از کم 21 مقامات پر 14 مئی کی صبح عیدالفطر کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔
''اتفاقِ رائے'' سے نکالا جانے والا یہ چاند اس قدر غیر متفقہ رہا کہ فواد چوہدری اور اسد عمر بھی اس پر احتجاج کیے بغیر نہ رہ سکے جبکہ وزیرِاعظم آزاد کشمیر، راجہ فاروق حیدر نے بھی علیحدہ رویتِ ہلال کمیٹی بنانے کا اعلان کردیا۔
مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے سابق سربراہ مفتی منیب الرحمان نے اگرچہ ''ریاست'' کے فیصلے کی پاسداری کرتے ہوئے 13 مئی کو عیدالفطر کی نماز پڑھ تو لی لیکن اعتراض کیے بغیر بھی نہ رہ سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو من پسند، کٹھ پتلی رویت ہلال کمیٹی چاہیے تھی۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے موجودہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر الزام بھی عائد کیا کہ وہ مسجد قاسم خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا انتظار کررہی تھی۔ جیسے ہی انہوں نے چاند دیکھنے کا اعلان کیا، ویسے ہی مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کی جانب سے بھی چاند نظر آنے کا اعلان کردیا گیا۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی، شبلی فراز نے مفتی منیب کے اس بیان کو ''منفی رویّے کا عکاس'' بتلایا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید مفتی منیب الرحمان کے اس اعتراض کی وجہ، مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی سے ان کی حالیہ سبکدوشی ہے۔
ہم مفتی صاحب کی طرف داری نہیں کر رہے لیکن گزشتہ سال جب عیدالفطر کے چاند کا اعلان ہوا تھا، اسی وقت سے مقتدر حلقوں میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کا سربراہ کوئی ایسا فرد ہونا چاہیے جو ''اوپر والوں کا تابعدار'' ہو اور انہی کے ''حکم'' پر چاند ہونے یا نہ ہونے کا اعلان کرے۔ لیکن، بقول آنجہانی اردشیر کاوس جی، چور اپنے کام کی رسید نہیں دیتا، ٹھیک اسی طرح یہ باتیں بھی شاید ہمیشہ قیاس آرائیوں کی طرح گشت کرتی رہیں گی۔
رویتِ ہلال کے معاملے میں ہمارا مؤقف یہی ہے کہ یہ اسلام اور سائنس میں تعاون و ہم آہنگی کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہے لیکن ہر بار یہ موقع ضائع کردیا جاتا ہے۔
سائنس (فلکیات) کی مدد سے ہم چاند کی پیدائش سے لے کر اس کے قابلِ مشاہدہ ہونے کے ''امکانات'' تک کے بارے میں خاصے اعتماد سے بتا سکتے ہیں۔ ان معلومات اور متعلقہ اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے رویتِ ہلال کی شہادتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ (جب تک مفتی منیب الرحمان مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے سربراہ تھے، تب تک یہی کیا جاتا تھا۔)
شریعت کا حکم ہے کہ رمضان اور عید کا تعین چاند دیکھ کر (رویتِ ہلال سے) کیا جائے، جبکہ اسلامی مہینہ زیادہ سے زیادہ 30 دن کا ہوسکتا ہے۔ (یعنی اگر 30 ویں دن بھی چاند نہ نظر آئے، تب بھی اسلامی مہینے کا اختتام ہوجائے گا اور اگلے دن سے نیا اسلامی مہینہ شروع ہوجائے گا۔)
رویتِ ہلال کے ذیل میں اصل تنازعہ یہ ہے کہ اگر بہت سارے مسلمان ''نیا چاند'' دیکھنے کی گواہی دیں لیکن محتاط فلکیاتی تخمینہ جات (حساب کتاب) کے مطابق اس وقت چاند وہاں موجود ہی نہ ہو تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہمیں فلکیاتی حساب کتاب کی بنیاد پر ان شہادتوں کو مسترد کردینا چاہیے؟ یا پھر شہادت دینے والوں کے مذہبی مقام اور مرتبے کو فوقیت دیتے ہوئے یہ شہادتیں قبول کرلی جائیں؟
اجتہاد کے ذریعے اس مسئلے کا حل بہ آسانی نکالا جاسکتا ہے، لیکن شاید ہم مسلمانوں میں فکری انجماد اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ ہم اس نقطہ نگاہ سے سوچنے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں۔
چلتے چلتے یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ سائنس میں غلطی کے امکان کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاتا؛ اور اسی ''غلطی کے امکان'' کو کم سے کم رکھنے کےلیے بہتر سے بہتر ماڈل/ نظریات وضع کیے جاتے رہتے ہیں۔ ان ہی کوششوں کے نتیجے میں آج ہم اس قابل ہوچکے ہیں کہ رویتِ ہلال کی اس قدر درست پیش گوئی کرسکیں کہ جس میں غلطی کا امکان ایک سیکنڈ سے بھی کم تر درجے کا ہو۔
اس حوالے سے ہمیں 2006 میں رویتِ ہلال کے تنازعہ پر کراچی میں ایک اخبار کے تحت منعقدہ فورم میں بحث کے دوران مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی نمائندگی کرنے والے ایک عالمِ دین کا اعتراض یاد آجاتا ہے۔
ان کا فرمانا تھا کہ مفتی منیب الرحمان ''ہمارے علماء و حفاظ کی گواہی قبول نہیں کرتے بلکہ (وہاں موجود ڈاکٹر شاہد قریشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ان سائنسدانوں کی رائے کو فوقیت دیتے ہیں۔''
اگر یہی بات ہے تو شمالی وزیرستان میں 11 مئی کی شام رویتِ ہلال کا دعویٰ کرنے والے بھی یقیناً باعمل اور باریش مسلمان رہے ہوں گے۔ بہت ممکن ہے کہ ان میں مقامی علمائے کرام بھی شامل رہے ہوں۔ فرض کیجیے کہ ایسا نہیں تھا، لیکن کم از کم وہ شہادتیں قبول کرنے والے تو یقیناً علمائے کرام ہی رہے ہوں گے، جن کا تعلق وہاں کی مقامی رویتِ ہلال کمیٹی سے ہوگا۔
قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد، 11 مئی کے روز شمالی وزیرستان سے رویتِ ہلال کی یہ شہادتیں بھی خیبرپختونخوا کی نمائندہ ہی تصور کی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی ان شہادتوں کو خاطر میں کیوں نہیں لائی؟
اس سال عیدالفطر کے الجھے ہوئے معاملے کو سلجھانے کےلیے ہم نے اپنے استادِ محترم، پروفیسر ڈاکٹر شاہد قریشی سے رابطہ کیا، جو قمری کیلنڈر اور رویتِ ہلال کے سائنسی پہلوؤں پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں (ہماری دیانت دارانہ رائے یہی ہے)۔
مختصر الفاظ میں استادِ محترم نے کہا کہ 12 مئی کی شام پورے پاکستان میں رویتِ ہلال کا کوئی امکان نہیں تھا۔ (اس کی تصدیق ''مُون سائٹنگ ڈاٹ کام'' سے بھی ہوتی ہے جو رویتِ ہلال کے حوالے سے دنیا کی ایک معتبر ویب سائٹ ہے جس کے مطابق، 12 مئی 2021 کی شام پاکستان میں کسی بھی جگہ دوربین کے بغیر چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔)
یہ بھی بتاتے چلیں کہ استادِ محترم ڈاکٹر شاہد قریشی نے اس سال رویتِ ہلال کی مناسبت سے تقریباً ایک ہفتہ قبل ہی فیس بُک پر ایک تفصیلی پوسٹ لگائی تھی جو انہوں نے ہمیں واٹس ایپ پر بھیج دی۔ اس پوسٹ کے مطابق:
بعض افراد نے 13 مئی کی شام ''بڑا چاند'' دیکھ کر خیال ظاہر کیا کہ یہ ''دوسری تاریخ کا چاند ہی لگتا ہے،'' یعنی 12 مئی کو رویتِ ہلال کا اعلان صحیح کیا گیا تھا۔
اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جیسے جیسے چاند کی عمر بڑھتی ہے، ویسے ویسے نہ صرف اس کی جسامت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ غروبِ آفتاب اور غروبِ ماہتاب (چاند) کا درمیانی وقفہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔
13 مئی کی شام غروبِ آفتاب کے وقت چاند کی عمر تقریباً 43 گھنٹے ہوچکی تھی جبکہ اس کا فیز بھی 2.5 فیصد کے لگ بھگ ہوچکا تھا، جو 12 مئی کی شام کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ تھا۔ غروبِ آفتاب کے بعد چاند تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک آسمان پر موجود رہا۔ اسی بناء پر عام لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ چاند اس سال عید کے چاند کا اعلان درست تھا۔
بہ امرِ مجبوری یہ بلاگ ختم کر رہا ہوں لیکن جب تک اجتہاد کے ذریعے، علمی بنیادوں پر اجماعِ اُمّت نہیں ہوجاتا، تب تک شاید یہ مسئلہ کبھی ختم نہیں ہوگا اور ہمیں ہر سال اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرتے رہنا پڑے گا۔
شمالی وزیرستان کے علاقے حسوخیل میں 11 مئی کی رات کئی افراد نے چاند دیکھنے کی گواہی دی، جس پر وہاں 12 مئی کو عید منائی گئی۔
پھر 12 اور 13 مئی کی درمیانی شب، تقریباً آدھی رات کے وقت پاکستان کی مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی نے اہلِ وطن کے کانوں پر ''کل عید ہوگی'' کا بم پھوڑ دیا؛ اور نتیجتاً ملک بھر میں خوشی سے کہیں زیادہ افراتفری اور بوکھلاہٹ کی لہر دوڑ گئی۔
ملک کے بیشتر علاقوں میں 13 مئی کو نمازِ عید کے اجتماعات منعقد ہوئے لیکن کچھ لوگوں نے مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کا یہ فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے 30 روزے پورے کیے اور 14 مئی کو نمازِ عید ادا کی۔
اب تک کی خبروں کے مطابق، کراچی کی ایک مسجد میں جبکہ گوجرانوالہ میں کم از کم 21 مقامات پر 14 مئی کی صبح عیدالفطر کی نماز باجماعت ادا کی گئی۔
''اتفاقِ رائے'' سے نکالا جانے والا یہ چاند اس قدر غیر متفقہ رہا کہ فواد چوہدری اور اسد عمر بھی اس پر احتجاج کیے بغیر نہ رہ سکے جبکہ وزیرِاعظم آزاد کشمیر، راجہ فاروق حیدر نے بھی علیحدہ رویتِ ہلال کمیٹی بنانے کا اعلان کردیا۔
مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے سابق سربراہ مفتی منیب الرحمان نے اگرچہ ''ریاست'' کے فیصلے کی پاسداری کرتے ہوئے 13 مئی کو عیدالفطر کی نماز پڑھ تو لی لیکن اعتراض کیے بغیر بھی نہ رہ سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو من پسند، کٹھ پتلی رویت ہلال کمیٹی چاہیے تھی۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے موجودہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر الزام بھی عائد کیا کہ وہ مسجد قاسم خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا انتظار کررہی تھی۔ جیسے ہی انہوں نے چاند دیکھنے کا اعلان کیا، ویسے ہی مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کی جانب سے بھی چاند نظر آنے کا اعلان کردیا گیا۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی، شبلی فراز نے مفتی منیب کے اس بیان کو ''منفی رویّے کا عکاس'' بتلایا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید مفتی منیب الرحمان کے اس اعتراض کی وجہ، مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی سے ان کی حالیہ سبکدوشی ہے۔
ہم مفتی صاحب کی طرف داری نہیں کر رہے لیکن گزشتہ سال جب عیدالفطر کے چاند کا اعلان ہوا تھا، اسی وقت سے مقتدر حلقوں میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کا سربراہ کوئی ایسا فرد ہونا چاہیے جو ''اوپر والوں کا تابعدار'' ہو اور انہی کے ''حکم'' پر چاند ہونے یا نہ ہونے کا اعلان کرے۔ لیکن، بقول آنجہانی اردشیر کاوس جی، چور اپنے کام کی رسید نہیں دیتا، ٹھیک اسی طرح یہ باتیں بھی شاید ہمیشہ قیاس آرائیوں کی طرح گشت کرتی رہیں گی۔
اسلام اور سائنس میں تعاون کا موقع
رویتِ ہلال کے معاملے میں ہمارا مؤقف یہی ہے کہ یہ اسلام اور سائنس میں تعاون و ہم آہنگی کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہے لیکن ہر بار یہ موقع ضائع کردیا جاتا ہے۔
سائنس (فلکیات) کی مدد سے ہم چاند کی پیدائش سے لے کر اس کے قابلِ مشاہدہ ہونے کے ''امکانات'' تک کے بارے میں خاصے اعتماد سے بتا سکتے ہیں۔ ان معلومات اور متعلقہ اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے رویتِ ہلال کی شہادتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ (جب تک مفتی منیب الرحمان مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے سربراہ تھے، تب تک یہی کیا جاتا تھا۔)
شریعت کا حکم ہے کہ رمضان اور عید کا تعین چاند دیکھ کر (رویتِ ہلال سے) کیا جائے، جبکہ اسلامی مہینہ زیادہ سے زیادہ 30 دن کا ہوسکتا ہے۔ (یعنی اگر 30 ویں دن بھی چاند نہ نظر آئے، تب بھی اسلامی مہینے کا اختتام ہوجائے گا اور اگلے دن سے نیا اسلامی مہینہ شروع ہوجائے گا۔)
رویتِ ہلال کے ذیل میں اصل تنازعہ یہ ہے کہ اگر بہت سارے مسلمان ''نیا چاند'' دیکھنے کی گواہی دیں لیکن محتاط فلکیاتی تخمینہ جات (حساب کتاب) کے مطابق اس وقت چاند وہاں موجود ہی نہ ہو تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہمیں فلکیاتی حساب کتاب کی بنیاد پر ان شہادتوں کو مسترد کردینا چاہیے؟ یا پھر شہادت دینے والوں کے مذہبی مقام اور مرتبے کو فوقیت دیتے ہوئے یہ شہادتیں قبول کرلی جائیں؟
اجتہاد کے ذریعے اس مسئلے کا حل بہ آسانی نکالا جاسکتا ہے، لیکن شاید ہم مسلمانوں میں فکری انجماد اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ ہم اس نقطہ نگاہ سے سوچنے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں۔
چلتے چلتے یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ سائنس میں غلطی کے امکان کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاتا؛ اور اسی ''غلطی کے امکان'' کو کم سے کم رکھنے کےلیے بہتر سے بہتر ماڈل/ نظریات وضع کیے جاتے رہتے ہیں۔ ان ہی کوششوں کے نتیجے میں آج ہم اس قابل ہوچکے ہیں کہ رویتِ ہلال کی اس قدر درست پیش گوئی کرسکیں کہ جس میں غلطی کا امکان ایک سیکنڈ سے بھی کم تر درجے کا ہو۔
اس حوالے سے ہمیں 2006 میں رویتِ ہلال کے تنازعہ پر کراچی میں ایک اخبار کے تحت منعقدہ فورم میں بحث کے دوران مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی نمائندگی کرنے والے ایک عالمِ دین کا اعتراض یاد آجاتا ہے۔
ان کا فرمانا تھا کہ مفتی منیب الرحمان ''ہمارے علماء و حفاظ کی گواہی قبول نہیں کرتے بلکہ (وہاں موجود ڈاکٹر شاہد قریشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ان سائنسدانوں کی رائے کو فوقیت دیتے ہیں۔''
اگر یہی بات ہے تو شمالی وزیرستان میں 11 مئی کی شام رویتِ ہلال کا دعویٰ کرنے والے بھی یقیناً باعمل اور باریش مسلمان رہے ہوں گے۔ بہت ممکن ہے کہ ان میں مقامی علمائے کرام بھی شامل رہے ہوں۔ فرض کیجیے کہ ایسا نہیں تھا، لیکن کم از کم وہ شہادتیں قبول کرنے والے تو یقیناً علمائے کرام ہی رہے ہوں گے، جن کا تعلق وہاں کی مقامی رویتِ ہلال کمیٹی سے ہوگا۔
قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد، 11 مئی کے روز شمالی وزیرستان سے رویتِ ہلال کی یہ شہادتیں بھی خیبرپختونخوا کی نمائندہ ہی تصور کی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی ان شہادتوں کو خاطر میں کیوں نہیں لائی؟
پروفیسر ڈاکٹر شاہد قریشی کا تجزیہ
اس سال عیدالفطر کے الجھے ہوئے معاملے کو سلجھانے کےلیے ہم نے اپنے استادِ محترم، پروفیسر ڈاکٹر شاہد قریشی سے رابطہ کیا، جو قمری کیلنڈر اور رویتِ ہلال کے سائنسی پہلوؤں پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں (ہماری دیانت دارانہ رائے یہی ہے)۔
مختصر الفاظ میں استادِ محترم نے کہا کہ 12 مئی کی شام پورے پاکستان میں رویتِ ہلال کا کوئی امکان نہیں تھا۔ (اس کی تصدیق ''مُون سائٹنگ ڈاٹ کام'' سے بھی ہوتی ہے جو رویتِ ہلال کے حوالے سے دنیا کی ایک معتبر ویب سائٹ ہے جس کے مطابق، 12 مئی 2021 کی شام پاکستان میں کسی بھی جگہ دوربین کے بغیر چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔)
یہ بھی بتاتے چلیں کہ استادِ محترم ڈاکٹر شاہد قریشی نے اس سال رویتِ ہلال کی مناسبت سے تقریباً ایک ہفتہ قبل ہی فیس بُک پر ایک تفصیلی پوسٹ لگائی تھی جو انہوں نے ہمیں واٹس ایپ پر بھیج دی۔ اس پوسٹ کے مطابق:
- شوال کے چاند کی پیدائش پاکستانی وقت کے مطابق 11 اور 12 مئی کی درمیانی شب 11 بج کر 59 منٹ اور 54 سیکنڈ پر ہوئی (یعنی رات بارہ بجنے سے صرف 6 سیکنڈ پہلے)۔
- 12 مئی کی شام کراچی میں غروب آفتاب کے وقت ہلال (نئے چاند) کا احوال کچھ یوں تھا:
- غروبِ آفتاب: شام 7 بج کر 7 منٹ اور 8 سیکنڈ
- غروبِ ہلال: شام 7 بج کر 42 منٹ اور 47 سیکنڈ
- سورج اور چاند/ ہلال کے غروب میں وقت کا فرق: 35 منٹ اور 39 سیکنڈ (یعنی غروب آفتاب کے صرف 35 منٹ 39 سیکنڈ بعد چاند بھی غروب ہو گیا۔)
- غروبِ آفتاب کے وقت چاند کی عمر: 18 گھنٹے 59 منٹ اور 52 سیکنڈ
- غروب آفتاب کے وقت چاند/ ہلال کی افق سے بلندی: 7.5 ڈگری
- چاند کی عمر اور ممکنہ رویت کے تناظر میں اپنے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے استادِ محترم نے مزید لکھا: ''غروب آفتاب کے وقت چاند زمین سے 4 لاکھ 6 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر (دور ترین) ہونے کی وجہ چھوٹا اور سست رفتار ہوگا جس کی وجہ سے اس کا فیز (روشن حصہ اور مکمل چاند کا تناسب/ ratio) صرف 0.5 فیصد ہوگا۔''
- ڈاکٹر صاحب نے پیش گوئی کی تھی کہ اِن حالات کی وجہ سے ''ہلال، پاکستان میں دوربین کی مدد سے بھی نہیں دیکھا جا سکے گا۔'' یعنی ''موجودہ علمی اعتبار سے 12 مئی کو پاکستان کے کسی بھی علاقے میں دوربین سے بھی ہلال نظر آنے کا امکان نہیں۔ اس وجہ سے امکان ہے کہ عیدالفطر 14 مئی 2021 کو ہوگی۔''
- سعودی عرب میں رویتِ ہلال کے امکانات سے متعلق استادِ محترم ڈاکٹر شاہد قریشی نے لکھا: ''اسی روز ہلال، مکہ میں غروب آفتاب کے بعد 39 منٹ اور 12 سیکنڈ کے اندر غروب ہوجائے گا جبکہ غروب آفتاب کے وقت ہلال کی افق سے بلندی 8.4 ڈگری ہوگی۔ سعودی عرب میں اس شام ہلال، دوربین سے نظر آنے کے امکانات ہیں۔''
- پاکستان میں رویتِ ہلال سے متعلق شہادتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا: ''البتہ ان حالات میں اکثر عید کے چاند دکھائی دینے کی گواہیاں خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ سے آجاتی ہیں جبکہ گزشتہ کچھ عرصے سے اس طرح کی گواہیاں گوادر اور پسنی کے علاقوں سے بھی آنے لگی ہیں۔ ایسی گواہیوں کو علمی اعتبار سے پرکھنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے کیونکہ سائنسی اعتبار سے ہلال کا بغیر دوربین سے دکھائی دینے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔''
ایک اور ضروری وضاحت
بعض افراد نے 13 مئی کی شام ''بڑا چاند'' دیکھ کر خیال ظاہر کیا کہ یہ ''دوسری تاریخ کا چاند ہی لگتا ہے،'' یعنی 12 مئی کو رویتِ ہلال کا اعلان صحیح کیا گیا تھا۔
اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جیسے جیسے چاند کی عمر بڑھتی ہے، ویسے ویسے نہ صرف اس کی جسامت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ غروبِ آفتاب اور غروبِ ماہتاب (چاند) کا درمیانی وقفہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔
13 مئی کی شام غروبِ آفتاب کے وقت چاند کی عمر تقریباً 43 گھنٹے ہوچکی تھی جبکہ اس کا فیز بھی 2.5 فیصد کے لگ بھگ ہوچکا تھا، جو 12 مئی کی شام کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ تھا۔ غروبِ آفتاب کے بعد چاند تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک آسمان پر موجود رہا۔ اسی بناء پر عام لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ چاند اس سال عید کے چاند کا اعلان درست تھا۔
بہ امرِ مجبوری یہ بلاگ ختم کر رہا ہوں لیکن جب تک اجتہاد کے ذریعے، علمی بنیادوں پر اجماعِ اُمّت نہیں ہوجاتا، تب تک شاید یہ مسئلہ کبھی ختم نہیں ہوگا اور ہمیں ہر سال اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرتے رہنا پڑے گا۔