عید کا چاند اور علامہ نیاز فتح پوری
علامہ نیاز خیالات کی سخت جانی پر ایمان رکھتے تھے۔
ہمارے یہاں گزشتہ چند دنوں میں رمضان کے آخری روزے اور عید کے چاند کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک لمبی بحث چل رہی ہے۔ یہ قدامت پسندی اور سائنس کے درمیان ایک ایسا تنازعہ ہے جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا اور جس نے ہمیں صدیوں پیچھے دھکیل دیا ہے، اس موقع پر علامہ نیاز فتح پوری بے اختیار یاد آئے۔
نیاز صاحب برصغیر کی ایک اہم شخصیت اور اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ ''نگار'' اسی تحریک کی کڑی تھا جس کی ابتدا ''تہذیب الاخلاق'' اور ''مخزن'' سے ہوئی تھی اور جس کی انتہا ''نگار'' پر ہوئی۔ کچھ لوگ ادیب ہوتے ہیں اور اپنی ادبی خدمات کے سبب یاد رکھے جاتے ہیں جب کہ کچھ ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ''ادیب گر'' بھی ہوتے ہیں۔ علامہ نیاز فتح پوری صرف ادیب نہ تھے، ادیب گر بھی تھے۔ ''ساقی'' کے شاہد احمد دہلوی کی طرح انھوں نے بھی نہ جانے کتنے نئے ادیبوں کی رہنمائی کی اور ایک پوری نسل کے ذہن پر حکمرانی کی۔
عربوں کی علمی روایت ''اخوان الصفا'' تھی اور فرانسیسیوں نے انسائیکلوپیڈسٹس کو جنم دیا۔ رسائل اخوان الصفا ہوں یا انسائیکلوپیڈسٹ کے کارنامے، یہ دونوں ہی عرب اور فرانس کے اکابرین کی اجتماعی ذہانت کی عکاسی کرتے ہیں جب کہ نیاز صاحب نے اس وضع کا مہتم بالشان کام تن تنہا کیا۔ کسی کو یقین نہ آئے تو ''نگار'' کے شماروں کی ورق گردانی کرلے، جسے شمارے مہیا نہ ہوں وہ مخدومی و مکرمی مرحوم قیصر ابن حسن کا مرتب کردہ اشاریہ نگار ملاحظہ کرے۔ میرے اس دعویٰ پر وہ کچھ اضافہ ہی کرے گا، اس میں کمی نہ کرسکے گا۔
''نگار'' ایک رسالہ نہیں، ادارہ تھا۔ اس زمانے میں وہ گھر مہذب اور تعلیم یافتہ تصور نہیں کیا جاتا تھا جس میں ''نگار'' نہ آتا ہو۔ اس کے پرچے سنبھال کر رکھے جاتے، انھیں یکجا کرکے فائلیں بنائی جاتیں اور ذاتی کتب خانوں میں محفوظ کی جاتیں۔ اس وقت بھی آپ کو سندھ، پنجاب، بلوچستان اور پشتون علاقے میں ایسے علم دوست گھرانے مل جائیں گے جہاں ''نگار'' کے پرانے شمارے محفوظ ہیں۔
اس رسالے میں ادب، فلسفہ، مذہب اور سائنس غرض ہر شعبے سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے اور لوگوں کو ان معاملات و مسائل پر نئے انداز سے غور و فکر کے لیے مجبور کرتے تھے۔ اس کی فائلوں کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمیں 20ء، 30ء اور40ء کی دہائیوں میں وہ موضوعات نظر آتے ہیں جن کے بارے میں آج ہمارے اخبار اور رسالے کچھ چھاپتے ہیں تو اس پر ناز کرتے ہیں کہ وہ ''جدید ترین مسائل'' اٹھا رہے ہیں۔ کس قدر دلچسپ بات ہے کہ نیاز صاحب ہمیں فروری 1922 میں ''اشتراکیت'' کے معاملات و مسائل پر خامہ فرسائی کرتے نظر آتے ہیں۔
یاد رہے کہ انقلاب روس کو برپا ہوئے اس وقت پانچ برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح وہ ''سرطان'' پر دسمبر 1925 میں قلم اٹھاتے ہیں اور ''انسولین'' کے بارے میں اپنے پڑھنے والوں کو جنوری 1926 میں آگاہ کرتے ہیں۔ فرانسیسی منجم ناسٹراڈیمس جس کے نام سے ہم ایک ظلم کی وجہ سے متعارف ہوئے ہیں، اس کے بارے میں نیاز صاحب نے اپریل 1942 میں ''ناسٹراڈیمس کی عجیب وغریب پیش گوئیاں'' کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔
اسی طرح وہ ہمیں جدید نفسیات، ہپناٹزم، مقناطیسی نیند، مسمیرزم اور جنسیات پر لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ کہیں وہ ہمارے سامنے ایک افسانہ نگار کے روپ میں آتے ہیں تو کبھی نہایت دقیق فلسفیانہ مسائل کی گتھیاں سلجھاتے ہیں، کہیں وہ مذہبی اعتقادات کے بارے میں مدلدل بحثیں کرتے ہیں اور کبھی تاریخ اور افسانے کو ایک دوسرے میں آمیز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اپریل 1924میں ''اہل مریخ سے گفتگو کا امکان''۔ جنوری 1924ء میں ''جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد'' اور 1935 میں ''چاند کا سفر'' ان کے وہ مضامین ہیں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں، ان کے تجسس اور سائنسی رجحان رکھنے والے ذہن کا پتا دیتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان کے افسانے اور افسانچے ان کے ناولٹ اور انشائیے، مذہب اور سائنس کے بارے میں ان کی بحثیں، ٹیگور کی ''گیتانجلی'' کا ترجمہ، ان کی متنازع فیہ کتاب ''من ویزداں'' اور ان کا مرتب کردہ ''نگار'' کا ''خدا نمبر'' اور ''اصحاب کہف نمبر'' وہ مطبوعات تھیں جن کی برصغیر کے علمی اور ادبی حلقوں میں دھوم تھی۔ ان تحریروں میں اٹھائے جانے والے سوالات پر برسوں علمی بحثیں چلیں جن میں اس عہد کے مایہ ناز ادیبوں نے حصہ لیا۔
''نگار'' کے اجرا کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ نیاز کا ذوق ابتدا سے ہی شعر و ادب کا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ل۔احمد اور سجاد حیدر یلدرم کی ''انشائے لطیف'' کی دھوم تھی۔ ترکی زبان سے متعدد چیزیں اردو میں ترجمہ ہو رہی تھیں اور ترکی ادب کے اردو پر اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ اسی زمانے میں چند ادیب اور شاعر دوستوں کا اجتماع ہوا۔ گفتگو اس موضوع پر ہوتی رہی کہ ایک علمی اور ادبی پرچہ نکلنا چاہیے جس کی سارے برصغیر میں دھاک بیٹھ جائے۔
کسی ایسے پرچے کی ادارت نیاز صاحب کی آرزو تھی لیکن گرہ میں دام کہاں تھے کہ یہ شوق پورا کیا جاتا۔ نیاز صاحب نے اپنے دوستوں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ اگر بیس دوست، بیس بیس روپے اکٹھے کرلیں اور چار سو روپے کی رقم جمع ہو جائے تو ایسا پرچہ نکالا جاسکتا ہے۔ چار سو روپے کے ذکر پر حیران نہ ہوں کہ یہ زمانہ 1921 کا تھا جب 20 روپے کا چندہ صاحبانِ حیثیت ہی دے سکتے تھے اور چار سو روپے ایک بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔
لیجیے صاحب، چند دنوں میں اتنی رقم تو اکٹھا نہ ہو سکی لیکن پھر بھی خاصے روپے جمع ہوگئے۔ یہ طے تھا کہ اس پرچے کی ادارت نیاز صاحب کریں گے چنانچہ ان سے کہا گیا کہ اب پرچے کا نام بھی تجویز کریں۔ ان دنوں نیاز صاحب ایک ترک شاعرہ ''نگار بنت عثمان'' کے تراجم پڑھتے تھے اور سر دھنتے تھے۔ انھوں نے اسی شیفگتی کے سبب پرچے کا نام ''نگار'' تجویز کیا تو دوستوں نے اس پر صاد کیا۔
ان تیاریوں کے بعد نیاز صاحب تو آگرہ سے بھوپال چلے گئے اور وہیں سے پہلا پرچہ مرتب کرکے دوستوں کے پاس آگرہ بھجوا دیا۔ کچھ عرصے تک پرچہ بھوپال میں مرتب ہوتا اور آگرہ میں چھپتا رہا۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دن نہ چل سکا۔ چنانچہ آخرکار پرچہ بھوپال سے ہی شایع ہونے لگا۔ کچھ برسوں بعد نیاز صاحب لکھنو منتقل ہوئے تو ''نگار'' بھی لکھنو میں آباد ہوگیا۔ نیاز صاحب نے کراچی کا رخ کیا تو ''نگار'' کو بھی ان کے ساتھ ہجرت کرنی پڑی۔
کچھ لوگوں کی نظر میں ''نگار'' کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا ۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے جس کا ذکر بھوپال کی پرنسس عابدہ سلطان نے اپنی تحریر میں کیا ہے۔ اپنی کم سنی میں پرنسس عابدہ کو صرف دو پرچے پڑھنے کی اجازت تھی جن میں سے ایک ''ہمایوں'' تھا اور دوسرا ''نگار''۔ پرنسس نے نیاز صاحب کو دیکھا بھی نہیں تھا لیکن ان کی تحریروں کے سبب انھیں نیاز صاحب سے اتنی عقیدت ہوگئی تھی کہ جب ان کے صاحبزادے پرنس شہریار (سابق سفیر پاکستان متعینہ برطانیہ اور سابقہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ) کے لیے کسی اتالیق کی تقرری کا مسئلہ درپیش ہوا تو پرنسس عابدہ سلطان نے نیاز صاحب کا نام تجویز کیا لیکن جن وزیر صاحب کو اتالیق کی تقرری کا پروانہ جاری کرنا تھا وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔
جب پرنسس عابدہ کی طرف سے اصرار بڑھا تو انھوں نے ''نیاز'' اور ''نگار'' دونوں کے بارے میں شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ا ور اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ پرنسس ''نگار'' کے بارے میں کیسے جانتی ہیں؟ پرنسس نے انھیں بتایا کہ وہ تو بچپن سے اس رسالے کا مطالعہ کرتی آ رہی ہیں۔ وزیر موصوف نے حیرت سے پوچھا کہ لیکن ''نگار'' آپ تک پہنچتا کیسے ہے؟ پرنسس نے جواب دیا ''ڈاک سے۔'' وزیر موصوف نے بھڑک کر کہا ''میں دیکھتا ہوں آج کے بعد ''نگار'' کیسے ریاست بھوپال میں داخل ہو سکتا ہے۔''
پرنسس نے برہمی کا اظہار کیا اور بقول ان کے ''میں نے کہا جو آپ سے ہو سکے وہ ضرور کیجیے اور اگر ''نگار'' بھوپال آنا بند ہو گیا تو میں موٹر پر جا کر دوسرے شہر سے لایا کروں گی'' لیکن خیر نہ ''نگار'' ڈاک سے آنا بند ہوا اور نہ مجھے اس کے لیے دوسرے شہر جانا پڑا اور اسی ضد پر نیاز صاحب کو میں نے بطور مہمان بلا کے اپنے پاس رکھا تاکہ بھوپال میں ان کا داخلہ بند ہونے کی بھی آزمائش کرلی جائے۔'' یاد رہے کہ پرنسس عابدہ سلطان، والیٔ بھوپال ہزہائی نس نواب حمید اللہ خاں کی صاحبزادی تھیں اور انھیں نیاز صاحب کے باب میں اپنے وزیر سے اس قدر بحث مباحثہ کرنا پڑا تھا تو سوچیے کہ عام گھروں میں نئے خیالات رکھنے والے نوجوانوں کو اپنے بزرگوں سے کیسی دشمنی مول لینی پڑتی ہوگی۔
علامہ نیاز خیالات کی سخت جانی پر ایمان رکھتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے کبھی اس کی پروا نہ کی کہ ان کے خیالات و افکار پر کس کی طرف سے حرف زنی ہو رہی ہے۔ کون انھیں کافر قرار دے رہا ہے، کس نے انھیں ملحد کہا ہے، کس کے خیال میں وہ قابل گردن زدنی ہیں۔وہ جانتے تھے کہ اچھے اور نئے خیالات کو کتنا ہی دھتکارا جائے، آخر کار وہ جیت جاتے ہیں۔ انھوں نے جن خیالات کو دلیل و دیانت کی کسوٹی پر، پرکھ کر کھرا جانا انھیں لفظوں کا جامہ پہنا کر کاغذ کے سپرد کرتے رہے۔ ان کے اندر اس احساس کا چراغ ہمیشہ روشن رہا کہ آج نہیں تو کل یہ خیالات سماج میں اپنی راہ بنائیں گے۔ کوئی دن تو ایسا آئے گا کہ عید کا چاند خوشیاں لے کر آئے گا اور تنازعے کا سبب نہیں بنے گا۔
نیاز صاحب برصغیر کی ایک اہم شخصیت اور اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ ''نگار'' اسی تحریک کی کڑی تھا جس کی ابتدا ''تہذیب الاخلاق'' اور ''مخزن'' سے ہوئی تھی اور جس کی انتہا ''نگار'' پر ہوئی۔ کچھ لوگ ادیب ہوتے ہیں اور اپنی ادبی خدمات کے سبب یاد رکھے جاتے ہیں جب کہ کچھ ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ''ادیب گر'' بھی ہوتے ہیں۔ علامہ نیاز فتح پوری صرف ادیب نہ تھے، ادیب گر بھی تھے۔ ''ساقی'' کے شاہد احمد دہلوی کی طرح انھوں نے بھی نہ جانے کتنے نئے ادیبوں کی رہنمائی کی اور ایک پوری نسل کے ذہن پر حکمرانی کی۔
عربوں کی علمی روایت ''اخوان الصفا'' تھی اور فرانسیسیوں نے انسائیکلوپیڈسٹس کو جنم دیا۔ رسائل اخوان الصفا ہوں یا انسائیکلوپیڈسٹ کے کارنامے، یہ دونوں ہی عرب اور فرانس کے اکابرین کی اجتماعی ذہانت کی عکاسی کرتے ہیں جب کہ نیاز صاحب نے اس وضع کا مہتم بالشان کام تن تنہا کیا۔ کسی کو یقین نہ آئے تو ''نگار'' کے شماروں کی ورق گردانی کرلے، جسے شمارے مہیا نہ ہوں وہ مخدومی و مکرمی مرحوم قیصر ابن حسن کا مرتب کردہ اشاریہ نگار ملاحظہ کرے۔ میرے اس دعویٰ پر وہ کچھ اضافہ ہی کرے گا، اس میں کمی نہ کرسکے گا۔
''نگار'' ایک رسالہ نہیں، ادارہ تھا۔ اس زمانے میں وہ گھر مہذب اور تعلیم یافتہ تصور نہیں کیا جاتا تھا جس میں ''نگار'' نہ آتا ہو۔ اس کے پرچے سنبھال کر رکھے جاتے، انھیں یکجا کرکے فائلیں بنائی جاتیں اور ذاتی کتب خانوں میں محفوظ کی جاتیں۔ اس وقت بھی آپ کو سندھ، پنجاب، بلوچستان اور پشتون علاقے میں ایسے علم دوست گھرانے مل جائیں گے جہاں ''نگار'' کے پرانے شمارے محفوظ ہیں۔
اس رسالے میں ادب، فلسفہ، مذہب اور سائنس غرض ہر شعبے سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے اور لوگوں کو ان معاملات و مسائل پر نئے انداز سے غور و فکر کے لیے مجبور کرتے تھے۔ اس کی فائلوں کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمیں 20ء، 30ء اور40ء کی دہائیوں میں وہ موضوعات نظر آتے ہیں جن کے بارے میں آج ہمارے اخبار اور رسالے کچھ چھاپتے ہیں تو اس پر ناز کرتے ہیں کہ وہ ''جدید ترین مسائل'' اٹھا رہے ہیں۔ کس قدر دلچسپ بات ہے کہ نیاز صاحب ہمیں فروری 1922 میں ''اشتراکیت'' کے معاملات و مسائل پر خامہ فرسائی کرتے نظر آتے ہیں۔
یاد رہے کہ انقلاب روس کو برپا ہوئے اس وقت پانچ برس بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح وہ ''سرطان'' پر دسمبر 1925 میں قلم اٹھاتے ہیں اور ''انسولین'' کے بارے میں اپنے پڑھنے والوں کو جنوری 1926 میں آگاہ کرتے ہیں۔ فرانسیسی منجم ناسٹراڈیمس جس کے نام سے ہم ایک ظلم کی وجہ سے متعارف ہوئے ہیں، اس کے بارے میں نیاز صاحب نے اپریل 1942 میں ''ناسٹراڈیمس کی عجیب وغریب پیش گوئیاں'' کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔
اسی طرح وہ ہمیں جدید نفسیات، ہپناٹزم، مقناطیسی نیند، مسمیرزم اور جنسیات پر لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ کہیں وہ ہمارے سامنے ایک افسانہ نگار کے روپ میں آتے ہیں تو کبھی نہایت دقیق فلسفیانہ مسائل کی گتھیاں سلجھاتے ہیں، کہیں وہ مذہبی اعتقادات کے بارے میں مدلدل بحثیں کرتے ہیں اور کبھی تاریخ اور افسانے کو ایک دوسرے میں آمیز کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اپریل 1924میں ''اہل مریخ سے گفتگو کا امکان''۔ جنوری 1924ء میں ''جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد'' اور 1935 میں ''چاند کا سفر'' ان کے وہ مضامین ہیں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں، ان کے تجسس اور سائنسی رجحان رکھنے والے ذہن کا پتا دیتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ ان کے افسانے اور افسانچے ان کے ناولٹ اور انشائیے، مذہب اور سائنس کے بارے میں ان کی بحثیں، ٹیگور کی ''گیتانجلی'' کا ترجمہ، ان کی متنازع فیہ کتاب ''من ویزداں'' اور ان کا مرتب کردہ ''نگار'' کا ''خدا نمبر'' اور ''اصحاب کہف نمبر'' وہ مطبوعات تھیں جن کی برصغیر کے علمی اور ادبی حلقوں میں دھوم تھی۔ ان تحریروں میں اٹھائے جانے والے سوالات پر برسوں علمی بحثیں چلیں جن میں اس عہد کے مایہ ناز ادیبوں نے حصہ لیا۔
''نگار'' کے اجرا کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ نیاز کا ذوق ابتدا سے ہی شعر و ادب کا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ل۔احمد اور سجاد حیدر یلدرم کی ''انشائے لطیف'' کی دھوم تھی۔ ترکی زبان سے متعدد چیزیں اردو میں ترجمہ ہو رہی تھیں اور ترکی ادب کے اردو پر اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ اسی زمانے میں چند ادیب اور شاعر دوستوں کا اجتماع ہوا۔ گفتگو اس موضوع پر ہوتی رہی کہ ایک علمی اور ادبی پرچہ نکلنا چاہیے جس کی سارے برصغیر میں دھاک بیٹھ جائے۔
کسی ایسے پرچے کی ادارت نیاز صاحب کی آرزو تھی لیکن گرہ میں دام کہاں تھے کہ یہ شوق پورا کیا جاتا۔ نیاز صاحب نے اپنے دوستوں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ اگر بیس دوست، بیس بیس روپے اکٹھے کرلیں اور چار سو روپے کی رقم جمع ہو جائے تو ایسا پرچہ نکالا جاسکتا ہے۔ چار سو روپے کے ذکر پر حیران نہ ہوں کہ یہ زمانہ 1921 کا تھا جب 20 روپے کا چندہ صاحبانِ حیثیت ہی دے سکتے تھے اور چار سو روپے ایک بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔
لیجیے صاحب، چند دنوں میں اتنی رقم تو اکٹھا نہ ہو سکی لیکن پھر بھی خاصے روپے جمع ہوگئے۔ یہ طے تھا کہ اس پرچے کی ادارت نیاز صاحب کریں گے چنانچہ ان سے کہا گیا کہ اب پرچے کا نام بھی تجویز کریں۔ ان دنوں نیاز صاحب ایک ترک شاعرہ ''نگار بنت عثمان'' کے تراجم پڑھتے تھے اور سر دھنتے تھے۔ انھوں نے اسی شیفگتی کے سبب پرچے کا نام ''نگار'' تجویز کیا تو دوستوں نے اس پر صاد کیا۔
ان تیاریوں کے بعد نیاز صاحب تو آگرہ سے بھوپال چلے گئے اور وہیں سے پہلا پرچہ مرتب کرکے دوستوں کے پاس آگرہ بھجوا دیا۔ کچھ عرصے تک پرچہ بھوپال میں مرتب ہوتا اور آگرہ میں چھپتا رہا۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دن نہ چل سکا۔ چنانچہ آخرکار پرچہ بھوپال سے ہی شایع ہونے لگا۔ کچھ برسوں بعد نیاز صاحب لکھنو منتقل ہوئے تو ''نگار'' بھی لکھنو میں آباد ہوگیا۔ نیاز صاحب نے کراچی کا رخ کیا تو ''نگار'' کو بھی ان کے ساتھ ہجرت کرنی پڑی۔
کچھ لوگوں کی نظر میں ''نگار'' کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا ۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے جس کا ذکر بھوپال کی پرنسس عابدہ سلطان نے اپنی تحریر میں کیا ہے۔ اپنی کم سنی میں پرنسس عابدہ کو صرف دو پرچے پڑھنے کی اجازت تھی جن میں سے ایک ''ہمایوں'' تھا اور دوسرا ''نگار''۔ پرنسس نے نیاز صاحب کو دیکھا بھی نہیں تھا لیکن ان کی تحریروں کے سبب انھیں نیاز صاحب سے اتنی عقیدت ہوگئی تھی کہ جب ان کے صاحبزادے پرنس شہریار (سابق سفیر پاکستان متعینہ برطانیہ اور سابقہ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ) کے لیے کسی اتالیق کی تقرری کا مسئلہ درپیش ہوا تو پرنسس عابدہ سلطان نے نیاز صاحب کا نام تجویز کیا لیکن جن وزیر صاحب کو اتالیق کی تقرری کا پروانہ جاری کرنا تھا وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔
جب پرنسس عابدہ کی طرف سے اصرار بڑھا تو انھوں نے ''نیاز'' اور ''نگار'' دونوں کے بارے میں شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ا ور اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ پرنسس ''نگار'' کے بارے میں کیسے جانتی ہیں؟ پرنسس نے انھیں بتایا کہ وہ تو بچپن سے اس رسالے کا مطالعہ کرتی آ رہی ہیں۔ وزیر موصوف نے حیرت سے پوچھا کہ لیکن ''نگار'' آپ تک پہنچتا کیسے ہے؟ پرنسس نے جواب دیا ''ڈاک سے۔'' وزیر موصوف نے بھڑک کر کہا ''میں دیکھتا ہوں آج کے بعد ''نگار'' کیسے ریاست بھوپال میں داخل ہو سکتا ہے۔''
پرنسس نے برہمی کا اظہار کیا اور بقول ان کے ''میں نے کہا جو آپ سے ہو سکے وہ ضرور کیجیے اور اگر ''نگار'' بھوپال آنا بند ہو گیا تو میں موٹر پر جا کر دوسرے شہر سے لایا کروں گی'' لیکن خیر نہ ''نگار'' ڈاک سے آنا بند ہوا اور نہ مجھے اس کے لیے دوسرے شہر جانا پڑا اور اسی ضد پر نیاز صاحب کو میں نے بطور مہمان بلا کے اپنے پاس رکھا تاکہ بھوپال میں ان کا داخلہ بند ہونے کی بھی آزمائش کرلی جائے۔'' یاد رہے کہ پرنسس عابدہ سلطان، والیٔ بھوپال ہزہائی نس نواب حمید اللہ خاں کی صاحبزادی تھیں اور انھیں نیاز صاحب کے باب میں اپنے وزیر سے اس قدر بحث مباحثہ کرنا پڑا تھا تو سوچیے کہ عام گھروں میں نئے خیالات رکھنے والے نوجوانوں کو اپنے بزرگوں سے کیسی دشمنی مول لینی پڑتی ہوگی۔
علامہ نیاز خیالات کی سخت جانی پر ایمان رکھتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے کبھی اس کی پروا نہ کی کہ ان کے خیالات و افکار پر کس کی طرف سے حرف زنی ہو رہی ہے۔ کون انھیں کافر قرار دے رہا ہے، کس نے انھیں ملحد کہا ہے، کس کے خیال میں وہ قابل گردن زدنی ہیں۔وہ جانتے تھے کہ اچھے اور نئے خیالات کو کتنا ہی دھتکارا جائے، آخر کار وہ جیت جاتے ہیں۔ انھوں نے جن خیالات کو دلیل و دیانت کی کسوٹی پر، پرکھ کر کھرا جانا انھیں لفظوں کا جامہ پہنا کر کاغذ کے سپرد کرتے رہے۔ ان کے اندر اس احساس کا چراغ ہمیشہ روشن رہا کہ آج نہیں تو کل یہ خیالات سماج میں اپنی راہ بنائیں گے۔ کوئی دن تو ایسا آئے گا کہ عید کا چاند خوشیاں لے کر آئے گا اور تنازعے کا سبب نہیں بنے گا۔