خوشی اور غمی کی سوّچ
ٹیلیفون اب لوگوں کا دوست، کھلونا اور ساتھی ہے۔
KARACHI:
سن1985 یا ایک آدھ سال پہلے کا ذکر ہے کہ میں نے پہلی بار ایک شخص کو صوبائی اسمبلی کی سیڑھیوں پر ایک سوا فُٹ لمبا آلہ اور چارجر نما Instrument پکڑے اپنے باس کے ساتھ جسے میں بحیثیت ممبر صوبائی اسمبلی پہچانتا تھا، دیکھا۔
مجھے ایک دوست نے پہلی بار موبائل فون کی شکل و صورت کے علاوہ یہ بھی بتایا تھا کہ وڈیرہ یا امیر آدمی موبائل فون خود اُٹھا کر نہیں چلتا، اُس کا ملازم یہ دو پرزے اُٹھا ئے اس کے پیچھے چلتا ہے۔ مجھے البتہ اس آلے کی زیارت اسمبلی ہال کی سیڑھیوں پر پہلی بار ہوئی تھی۔
آج کل اگر کسی کے پاؤں میں چپل نہیں ،جیب میں پیسہ نہیں ، پیٹ میں روٹی نہیں، گلے میں قمیض نہیں لیکن ہاتھ میں موبائل فون ضرور ہے۔ آج کل کے موبائل فون سے ایک پرانا لیکن سچا واقعہ یاد آتا ہے ۔ ایک عزیز ہمارے گھرآئے جب میں چوتھی پانچویں کلاس کا طالب علم تھا۔ انھوں نے میرے والد سے اجازت لی کہ انھوں نے اپنے بیٹے سے ناروے ٹیلیفون کال کرنی ہے اس کے لیےGPO جا کر تین منٹ کی کال بُک کرانی ہے اور وہ مجھے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ ستر سال پُرانی بات ہَے۔ میرے والد نے اجازت دے دی۔ اُس نے تین منٹ کی کال بُک کرائی اور کال ملنے کا انتظار شروع کر دیا۔
بزرگ ہر دس منٹ بعد کھڑکی میں سے کال کا پوچھتے ۔ کال بک کرانے کے بعد وہ دس پندرہ منٹ بعد پھر کھڑکی میں سے اندر جھانک کر پوچھتے ۔ دو گھنٹے بعد سیالکوٹ GPO سے ناروے کی کال مل گئی۔ بزرگ حال احوال بتاتے رہے ،کھڑکی کے اندر سے آواز آئی بزرگو! تین منٹ ہونے والے ہیں۔ ہمارے والے بزرگ اونچی آواز میں بولے ـ '' بیٹے! پیسے ختم ہو گئے ہیں، جلد بھجوا دو ''۔ اس کے ساتھ ہی فون بند ہو گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نوجوان بیروزگاری سے تنگ آ کر برطانیہ ، ناروے اور دیگر ممالک جا کر ملازمت کرتے ۔ ماں باپ اثاثہ بیچ کرکسی ایجنٹ کے ذریعے اپنے بیٹے کو باہر بھیجتے تاکہ وہ والدین اوربھائی بہنوں کے لیے کچھ ماہانہ رقم بھیجتارہے ۔
چند روز قبل میں اپنے موبائل فون میں بریگیڈیئر اعجازشاہ کا فون نمبر تلاش کر رہا تھا تو مجھے ان کے ساتھ بائیس سال پرانی پہلی ملاقات یاد آ گئی۔ میںملازمت میں آ کر کئی سال بعد لاہور تعینات تھا۔ ان دنوں قریباً پچاس ہزار کے قریب پاکستانی ناروے اوسلو میں ملازمت کرتے تھے۔
ان کی ایک تنظیم بن گئی تھی جو ہر سال 14اگست کو تین چار معروف شخصیات کو بُلا کر ایک بڑے ہال میں پاکستان ڈے کا فنکشن کرتی تھی۔ ہال کے اسٹیج پر وہاں کا میئر اعلیٰ سرکاری شخصیات، تنظیم کے رُکن، پاکستانی سفیر اور پاکستان سے مدعو کی گئی شخصیات تقاریر کرتیں ۔اس کے بعد پانچ ہزار اصحاب ڈنر کرتے ۔ پاکستانی مہمانانِ خصوصی کو ریٹرن ٹکٹ کے ذریعے بُلایا جاتا تھا۔ اس سال 1999 میں تین پاکستانیوں کو اس تقریب میں مدعو کیا تھا جن میں بریگیڈیئر اعجاز شاہ موجودہ مرکزی وزیر، جسٹس پاشا اور تیسرا میں تھا ۔ اس وقت میری تعیناتی ایڈیشنل ایجوکیشن سیکریٹری تھی۔
کچھ روز قبل شام کے وقت دو ملاقاتی میرے گھر تشریف لیے، ان میں سے ایک تو میرا دوست تھا، دوسرا اس کا کزن تھا۔ اُسکے کزن کی قمیض کی پاکٹ پر ایک وزیٹنگ کارڈ سیپل ہوا دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ کسی نے اس کے ساتھ مذاق کیا ہے کیونکہ وہ تو ایک تعلیم یافتہ اعلیٰ افسرتھا۔ میں نے اس وقت تو کچھ نہ کہا ، اُن کے رخصت ہونے کے بعد اپنے دوست کو فون کر کے پوچھا کہ وزٹنگ کارڈ والا کیا مذاق تھا ۔ وہ غیر متوقع طور پر ہنسے بغیر کہنے لگا کہ افسوس کی بات ہے کہ کزن کے گھر والے اب اسے اکیلے گھر سے باہر نہیںجانے دیتے۔
ایک سال کے عرصے سے زیادہ مدت ہو چلی ہے جو یہ وائرس نامی وباء خدائی قہر کی صورت دُنیا کو اپنی لپیٹ میںلیے ہوئے ہے۔ لوگ کم یا زیادہ اس سے متاثر ضرور ہیں اور یہ میرا اعلیٰ تعلیم یافتہ کزن تین بار گھر سے نکل کر دو دو دن گُم رہ کر بمشکل واپس آیا ہے ۔ یہ ہر بار کسی جگہ رستہ، کہیں اپنا اور گھر والوں کا نام بھول جاتا ہے۔ ایک ٹیلیفون بھی اس کی پاکٹ میںباندھ کر رکھا ہوتا ہے۔
ٹیلیفون اب لوگوں کا دوست ، کھلونا اور ساتھی ہے۔ چندروز قبل ایک عزیز کے گھر جانا ہوا تو ایک آئی پیڈ کو سبھی گھیرے بیٹھے تھے اور ایک ہی اسکرین پر تین مُمالک میں بیک وقت تین فیملیز کے ساتھ باتیں کرتے للکارے مار رہے تھے۔ اب لوگ گھر سے نکلیں تو پرس چاہے بھول جائیں، موبائل فون جیب میںرکھنا نہیں بھولتے۔
انسان سوچتا ہَے کہ خُدا نے اسے کتنی عقل و فراست دی ہَے ، کتنی خوشیاں دی ہَیں، لیکن خوشی اور غمی کی سوّچ اپنے قبضے ہی میں رکھا ہَے۔