پرنس محی الدین بلوچ کی یادیں باتیں
پرنس محی الدین بلوچ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود ہمیشہ عام بلوچ کی بات کرتے رہے ہیں۔
خان قلات میر احمد یار خان کے منجھلے بیٹے سابق وفاقی وزیر مواصلات و تعمیرات ، بلوچ رابطہ اتفاق تحریک برات کے سربراہ سیاسی و قبائلی رہنما پرنس محی الدین جمعرات و جمعہ 6/7مئی 2021ء کی درمیانی شب مختصر علالت کے بعد کراچی کے نجی اسپتال میں 79سال کی عمر میں انتقال کرگئے ۔
پرنس محی الدین بلوچ 5 نومبر 1942ء میں قلات میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم داؤد خان اسکول قلات سے حاصل کی۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے والد نے انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی بھیجا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے والد میر احمد یار خان کے معاون خصوصی مقرر ہوئے اور ابتدائی سیاست کا باقاعدہ آغاز 1970ء کے الیکشن میں حصہ لے کرکیا جس میں انھیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
انھوں نے 1975ء میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمایندگی کی وہ 1977ء اور 1985ء کے الیکشن میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ قلات سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی کے بعد 11سال تک وفاقی وزیر برائے مواصلات و تعمیرات کے عہدے پر فائز رہے۔
جونیجو دور حکومت کے خاتمے کے بعد انھوں نے بلوچ رابطہ اتفاق تحریک کے پلیٹ فارم سے بلوچ قوم کو ایک فورم پر متحد کرنے کے لیے جدوجہد شروع کی، وہ ایک محب وطن اور زیرک سیاست دان تھے ان کی پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان کے لیے خدمات کو ہمیشہ سنہری حروف میں یاد رکھا جائے گا ۔
پرنس محی الدین بلوچ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود ہمیشہ عام بلوچ کی بات کرتے رہے ہیں ، ان کا خاندان بلوچوں کی پانچ سو سالہ خدمات کے حوالے سے مشہور ہے ، ان کے خاندان نے ہمیشہ بلوچوں کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ایک انٹرویو میں پرنس محی الدین بلوچ نے بتایا تھا کہ ہم بلوچوں نے مشکل وقت میں قائد اعظم محمد علی جناح کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان کو سونے اور چاندی سے بھی تولا، قائد اعظم نے بلوچستان کا نام بلوچ کی مناسبت سے اس لیے رکھا تھا کیوں کہ انھیں معلوم تھا کہ بلوچ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، انھوں کا کہنا تھا کہ ماضی گواہ ہے کہ اس ملک ( پاکستان ) کے لیے ہمارے آباؤاجداد نے اپنے خون کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کیا ، ملکی سلامتی کے لیے بلوچ قوم پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس زمانے (1965ء) میں بعض بلوچوں نے یہ بھی پیشکش کی تھی کہ وہ انڈیا بارڈر پر یہ جنگ لڑیں گے ، موجودہ حالات میں ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے ہی دوست اور دشمن کی پہچان کرنی چاہیے ۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ دو عالمی قوتوں کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک بھی بلوچستان میں دلچسپی لے رہے ہیں ، بلوچستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے خاصی اہمیت کا حامل ہے ،دنیا کی نگاہیں اس پر ہیں ۔
انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو بنے 72سال گزر چکے ہیں اتنے عرصے میں ہمیں ہمارے حقوق مل جانے چاہیے تھے لیکن ہم آج بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں ، ہمارے نوجوان اپنے حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ، بلوچ کی ایسی حالت کے ذمے دار وہی ہیں جو ان کے حقوق چھین رہے ہیں ، آئین پاکستان کے مطابق مرکزی محکموں بلوچستان کا پانچ فیصد کوٹہ مختص ہے لیکن کوئٹہ میں بلوچوں کے ڈومیسائل پر باہر کے لوگ آرہے ہیں ، ملازمتوں کے علاوہ بھی ہر میدان میں بلوچ قوم کا استحصال ہورہا ہے۔
اس وقت گوادر میں جو ترقی کا منصوبہ چل رہا ہے اس سے ہمیں کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ گوادر کی ترقی کا مقصد غیر ملکیوں کو فائدہ دینا ہے اس سے عام بلوچستانی و بلوچ قوم اور خود گوادر کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، اس وقت ہمیں شاہراہوں کی نہیں بلکہ روٹی اور پانی کی ضرورت ہے ، بلوچستان کا مسئلہ چند روپوں ، پیکیج اور ملازمتوں سے حل نہیں ہوسکتا ، یہاں کے عوام حق حاکمیت اور اقتدار کا حق مانگتے ہیں ، ان کا مطالبہ ہے کہ صوبے کے ساحل و وسائل پر ان کا اختیار ہونا چاہیے۔
حکومت سب سے پہلے اسلام آباد میں بلوچوں کے مختص کوٹہ پر انھیں ملازم رکھے ، بلوچستان میں انھیں روزگار کی فراہمی کے لیے مختص کارخانے لگائے اور علاقے میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنائے اور یہاں ایک نظام کی اشد ضرورت ہے جو عوامی ہو اور اسلام سے مطابقت رکھتا ہو جس میں بلوچ قوم کو اپنے فیصلے خود کرنے کا حق حاصل ہو اس سے نہ صرف بلوچ قوم مضبوط ہوگی بلکہ بلوچ قوم کی مضبوطی سے ملک پاکستان بھی مضبوط ہوگا ۔
بلوچ کبھی بھی پاکستان کے مخالف نہیں رہے لیکن انھوں نے ہمیشہ خود مختاری مانگی ہے جو انھیں نہیں دی گئی اور انھیں دانستہ طور پر نظر انداز و پسماندہ رکھ کر لوٹ مار کا بازار گرم کیا گیا ،بلوچوں کو ہمیشہ دبانے کی کوشش کی گئی اور ان پر سختی بھی کی گئی ، آزادی کے نعرے سب ڈھونگ ہے۔ ان میں جان نہیں ۔
پرنس محی الدین بلوچ نے اپنے اس انٹرویو میں مزید کہا تھا کہ جہاں تک ناراض بلوچوں کا تعلق ہے تو سمجھ نہیں آتا کہ اب مذاکرات کس سے کیے جائیں لیڈر تو بہت سے موجود ہیں لیکن لیڈر شپ نہیں، میری ذاتی رائے ہے کہ 2006ء میں جو جرگہ تشکیل دیا گیا تھا اب وقت آگیا ہے کہ اسے بحال کیا جائے اس پر خان آف قلات سمیت تمام باہر بیٹھی قیادت کو اعتبار ہے اور وہ ان کی بات ماننے کو تیار ہوں گے ، میرے خیال سے بلوچستان کو تین سال کے لیے خصوصی علاقہ قرار دیکر ڈیڑھ دو سال کے لیے ایمرجنسی سیٹ اپ بنایا جائے، طاقت کے استعمال کی پالیسی نہ پہلے کامیاب ہوئی ہے اور نہ آیندہ ہوگی۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں صرف مارشل لا ء کے دور میں بلوچوں کو عزت دی گئی اور بلوچستان کو ترقی بھی ملی ۔ جنوری 1976ء میں میرے والد کی سربراہی میں بحیثیت گورنر فوج اور بلوچوں کے درمیان امن قائم کیا گیا جس کے نتیجے میں 23سال تک کسی نے آزاد بلوچستان کا نعرہ نہیں لگایا اور نہ ہی کسی صوبائی خود مختاری کی بات کی ۔ آخر میں انھوں نے کہا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ بلوچستان میں حالات کی بہتری سے ہی ملک مضبوط ہوگا ، پاکستان میں ترقی و خوشحالی آئے گی ۔