حقیقت کا اعتراف
بنیاد سے آغازکرنا دوسرے الفاظ میں اس حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرنا ہے کہ آدمی کہاں کھڑا ہے۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مکان کی تعمیرکا آغاز بنیاد سے ہوتا ہے۔ ایک انجینئر کو '' اسکائی اسکریپر'' بنانا ہو تب بھی وہ بنیاد ہی سے اس کا آغاز کرے گا۔ بنیاد سے آغازکرنا دوسرے الفاظ میں اس حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرنا ہے کہ آدمی کہاں کھڑا ہے اور وہ کون سا نقطہ ہے جہاں سے وہ اپنے ایسے سفرکا آغاز کرے کہ جس کا انجام اس کی توقعات کے مطابق ہو۔
دنیائے آب وگل میں ایک جانب قدرت ہے جو ہم سے الگ خود اپنے قوانین پر قائم ہے جب کہ دوسری جانب ہم انسان ہیں۔ ہر فرد کے سامنے اس کا اپنا مقصد ہے جسے وہ ہر صورت حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ ہم ان زمینی حقیقتوں کو جانیں اور ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں۔
زندگی کا سب سے بڑا راز حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرنا ہے۔ اعتراف کرنے والا آدمی اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ جس طرح اپنے '' ہے'' کو جانتا ہے اسی طرح اپنے '' نہیں '' سے بھی واقف ہے۔ وہ ایک طرف اگر یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے تو اسی کے ساتھ وہ اس سے بھی باخبر ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابلِ حصول نہیں۔ وہ آغاز اور انجام کے فرق کو جانتا ہے۔
اس کو معلوم ہے کہ اپنا پہلا قدم اسے کہاں سے اٹھانا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جہاں وہ آخرکار اپنے آپ کو پہنچانا چاہتا ہے۔ دانشوروں کا ماننا ہے کہ اعتراف کر لینا بزدلی نہیں بلکہ بڑی بہادری و جرأت ہے۔ اپنی غلطیوں،کوتاہیوں اور لغزشوں کا اعتراف کرکے آدمی ہرگز بے عزت نہیں ہوتا بلکہ تکریم کے بلند مقام کو پا لیتا ہے۔
جو شخص اعتراف نہ کرے وہ گویا فرضی خیالات میں سانس لے رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص زمینی حقیقت اور سچائی کا اعتراف کھلے دل سے کرتا ہے تو وہ گویا اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس نے فرضی تخیلات کے طلسم کو توڑ دیا ہے۔
وہ حقائق اور سچ کی دنیا میں جی رہا ہے اور وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھ رہا ہے جیساکہ وہ فی الواقع ہیں۔ چیزوں کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا ہی دانش مندی و بصیرت کا نکتہ آغاز ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت موجود ہوگی وہی اپنی منزل مقصود کے آخری زینے تک پہنچنے کا حق دار قرار پائے گا۔ جس آدمی کے اندر حقیقت اور سچائی کا اعتراف کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو تو وہ اعتماد کے ساتھ اپنا سفر شروع نہ کر سکے گا اور اگر سفر شروع ہو بھی گیا تو تب بھی وہ درمیانی راہوں میں کہیں بھٹک کر رہ جائے گا۔ وہ اپنی منزل کے گوہر مقصود کو کبھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ پھر اس کے پاس سوائے مایوسی و پچھتاوے کے اور کچھ نہ ہوگا۔ غلطیاں اور کوتاہیاں بشری کمزوری ہے مگر جھوٹے الزامات لگانا سرکشی ہے اور حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بزدلی ہے۔
آپ اس پس منظر میں قومی سیاسی زندگی سے لے کر معاشرتی و سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیجیے تو یہ حقیقت طشت ازبام نظر آتی ہے۔ ہم میں سے کوئی فرد اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
ہر شخص دوسرے سے شاکی نظر آتا ہے۔ زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے مفروضوں پر مبنی بودے دلائل سے اپنی بات کو سچ ثابت کرنے اور دوسروں سے اسے تسلیم کروانے پر بضد ہے کہ جیسے وہ ہی حق پر ہے اور وہ جو بھی کہہ رہا ہے وہ محض الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ جھوٹ ، دھوکا ، فریب ، مکاری ، عیاری ، رشوت ستانی ، ناانصافی ، حق تلفی ، جعلسازی اور منافقت جیسے گوناگوں عوارض ہماری سماجی و معاشرتی زندگی کے جزو لاینفک بن چکے ہیں۔ لوگ بڑی شان سے مذکورہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور انھیں کسی شرمندگی اور ندامت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ یہ ہماری اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے۔
حضرت حسن بصریؒ سے منقول ہے کہ تمہارے حکمران تمہارے اعمال کا عکس ہیں۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوں تو تمہارے حکمران بھی درست ہوں گے، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی خراب ہوں گے۔ آپ حضرت کے اس قول صادق کی روشنی میں اپنے آج کے سیاسی قائدین کے قول و عمل کا جائزہ لے لیجیے آپ کو حقیقت معلوم ہو جائے گی۔
جس ملک میں سابق وزیر اعظم قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر اسپیکر کو جوتا مارنے کی دھمکی دے ، جہاں کا حکمران بیماری کے بہانے احتساب سے راہ فرار اختیار کرے، جہاں ایک دوسرے پر من گھڑت ، جھوٹے، بے بنیاد الزامات لگانا اور بودے دلائل سے انھیں سچ ثابت کرنے پر مصر رہنا وطیرہ بنا لیا جائے اور جہاں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کی کوئی تابندہ مثال اور روایت قائم نہ ہو سکے اور فتح کا اعتراف تو شادیانے بجا کر کیا جائے لیکن شکست تسلیم کرنا گناہ کبیرہ سمجھ لیا جائے تو پھر اس ملک کے نظام سیاست پر سوالات تو بنتے ہیں۔ تازہ مثال کراچی کے حلقے این اے 249 کے ضمنی نتائج سے دی جاسکتی ہے۔ یہ سیٹ پی ٹی آئی کے فیصل واؤڈا کے مستعفی ہونے سے خالی ہوئی تھی۔
ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کو شکست ہوئی جب کہ پیپلز پارٹی کے قادر مندوخیل نے (ن) لیگ کے مفتاح اسماعیل کو 683 ووٹ کے فرق سے ہرا دیا۔ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کو یہ شکست ہضم نہیں ہو رہی اور حسب روایت پی پی پی پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔
ڈسکہ (سیالکوٹ) کی طرح کراچی میں فاتح جماعت پی پی پی پر انتخابی دھاندلی کے الزامات کے بعد الیکشن کمیشن نے (ن) لیگی امیدوار مفتاح اسماعیل کی ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست پر نتیجے کا سرکاری اعلان روک دیا ۔ یہ قومی بدقسمتی ہے کہ 72 سال بعد بھی شفاف انتخابی عمل کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے لیے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے، وہ آیندہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے '' الیکٹرانک ووٹنگ '' مشین لانے کے حق میں ہیں لیکن اپوزیشن کی ''انا'' کے تحفظات کون دورے کرے گا؟ حقیقت کا اعتراف کرنے کی جرأت و بہادر کون دکھائے گا؟