قصہ اور حقیقت
امیر زادوں کو ابہام ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں۔ یہ ان کا بالکل غلط خیال ہے وہ پستی کی طرف جا رہے ہیں۔
صدیوں قبل یہاں کابل سے تاجر آتے قیام کرتے اور آپس میں اپنی کہانیاں سناتے، دوسرے بھی سنتے، لوگ اس مقام کو '' قصہ خوانی بازار'' کہنے لگے۔ جب سے پشاور کے اس قدیم بازار کو قصہ خوانی بازار کہا اور لکھا گیا۔
1930 میں فرنگیوں کی مسلمانوں سے لڑائی ہوئی تھی اس میں دو مسلمانوں کے سربراہان شہید ہوئے ، ان کے مزارات یہاں موجود ہیں، چوک شہیداں ان شہیدوں کی یادگار ہے۔ اس کے برابر ایک گلی جو کہ فوڈ اسٹریٹ ہے چرغے زیادہ نظر آتے ہیں علاوہ ازیں دیگر کھانے جن میں چپلی کباب بھی شامل ہیں۔ 1915 میں یہاں ایک مٹھائی کی دکان قائم ہوئی جو آج تک ہے ہمہ و اقسام کی مٹھائیاں موجود ہیں۔ مٹھائی کی دکان کے برابر گلی میں ایک قہوہ خانہ ہے۔ 1980 میں یہ قائم ہوا نسل در نسل چل رہا ہے۔
یہاں شاہ ولی محلہ قدیم محلہ ہے۔ احمد شاہ بخاری کا مزار ہے ایک مشہور فلم اسٹارکا محلہ بھی ہے ایک اور مشہور فلم اسٹارکے بھائی نے خشک میوے کی دکان میں اپنے بڑے بھائی فلم اسٹارکی تصاویر آویزاں کی تھیں۔ قصہ خوانی سے بڑے نامی گرامی لوگ ہوئے اور گزرے ہیں۔
قصہ خوانی بازار میں خوبصورت دیدہ زیب برتنوں کی دکان ، کرکلی ٹوپیوں کی دکان، اسکول کی کتابوں کی دکان الغرض ہر شے کی دکانیں موجود ہیں۔ چپل، جوتے، برتن، میوہ جات، گھڑی ،کتب ، اسکول یونیفارم کی دکانیں موجود ہیں۔ قصہ خوانی بازار کو اگر ''گلدستہ'' کہوں تو شاید غلط نہ ہوگا۔ میرے ایک دوست نے پشتو زبان میں خاص جملہ ادا کیا اردو میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ مختلف علاقوں کی باتوں اور تاریخ کو ضرور دہرائیں تاکہ آج کی اور کل کی نسل کی آگاہی ہوسکے۔ موصوف نے صحیح کہا ، اس ضمن میں میری بھی یہی رائے ہے۔
ان دوستوں کا یہ بھی اصرار ہے کہ '' اندرون شہر (بازار)'' کا ذکر ضرورکروں۔ مختصراً عرض ہے۔ پشاور کا اندرون شہر ویسے تو سونے کے کاروبارکے لیے مشہور ہے۔ تاہم ملحق دلٹی دالگرام ''محلہ ٹھاکرداس'' اور ''شناوری مارکیٹ'' میں تقریباً آٹھ سو دکانیں بھی قائم تھیں۔ جہاں صرف پرانے ملبوسات ، نوادرات کے ساتھ قیمتی پتھروں سے مزین زیورات کے لیے خرید و فروخت ہوتی تھی۔
یہ مارکیٹ غیر ملکی سیاحوں میں خاصی مقبول تھی ، لیکن ایک طرف امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے جہاں غیر ملکی سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے وہاں افغان تاجروں کے واپس چلے جانے سے اس مارکیٹ کی رونقیں ماند پڑ گئیں، بازار سونا پڑ گیا۔ آٹھ سو دکانوں میں سے چھ سو دکانوں میں افغان تاجروں کا کاروبار تھا۔ ان میں سے چار سو سے زائد دکانیں تاجروں نے بند کردیں اور کاروبار افغانستان منتقل کردیا۔ اس مشہور بازار کے زیادہ خریدار بھی افغانستان سے تعلق رکھتے تھے، جو بہت ہی کم تعداد میں اب نظر آتے ہیں۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں کو مراعات اور مقامی تاجروں کو تربیت دی جائے تو تیزی سے بند ہوتی ہوئی اس بازار (مارکیٹ) کی عالمی شہرت کو بحال رکھا جاسکتا ہے۔ کہنے والوں نے کہا، وہ کہتے رہے کہتے چلے گئے، میں لکھتا چلا گیا۔
دراصل ہمارا ملک چور، ڈاکوؤں، ملک کو لوٹنے والوں کے زیر نگیں رہا ، مسلمانوں کے خلاف بیرونی ممالک نے جو چاہا وہ ان لٹیروں سے کروایا۔ چونکہ وہ ملک کو لوٹنے غریب عوام کے ٹیکس کا زر ہڑپ کرنے والے تھے اور ان بڑے لعین، فرعونوں کے زیر اثر تھے۔ وہ تو دوسروں کے زیر ، زبر، پیش رہے اور ملک و عوام کو عین غین کرتے رہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں آزادی تو دلا دی لیکن ان کے بعد ذہنی غلاموں نے ہم کو ذہنی غلام بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اردو کو قومی زبان تو کہا جاتا رہا لیکن انگریزی کو مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ میں بڑی حیثیت حاصل رہی۔ آج بھی تمام دفاتر ، سرکاری ، غیر سرکاری یا پھر نجی ان تمام میں انگلش کا بول بالا لکھنا پڑھنا معمول ہے۔ حتیٰ کہ انگلش میڈیم سے فارغ التحصیل سرکاری و غیر سرکاری ملازمت پاتے رہے۔ ہاں چھوٹی چھوٹی ملازمتیں اردو میڈیم والوں کو میسر آتی رہیں، آ رہی ہیں اور شاید آتی رہیں گی۔
سرکاری اردو میڈیم درسگاہوں سے توجہ ہٹا لی وہاں کے اساتذہ مسائل کا شکار کوئی پرسان حال نہیں۔ میں نے اس قدر قابل اساتذہ اردو میڈیم سرکاری اسکولوں میں دیکھے ہیں جن کی مثال انگلش میڈیم میں قدیم نہیں۔ غربت بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیمی نظام پر توجہ ہے نہ ان سرکاری اسکولوں کے غریب اساتذہ پر۔
امیر زادوں کو ابہام ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں۔ یہ ان کا بالکل غلط خیال ہے وہ پستی کی طرف جا رہے ہیں۔ چند بڑے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں اکثر میں نے ذکر کیا لوٹ مار کی اور ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ افسوس کسی نے روکا نہ ٹوکا۔ حیرت تو یہ ہے کہ ہمارے ادارے بھی بے بس رہے۔
ایسا لگتا ہے امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے علیحدہ قانون ہے۔ غریب بھوک سے نڈھال ہوکر ایک روٹی چوری کرتا ہے تو اس کو پکڑکر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ امرا و رؤسا اربوں،کھربوں روپیہ لوٹ کر دوسرے ملکوں میں لے جائیں معلوم سب کو ہوتا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ بلکہ اس کی جے جے کار ، تعریفوں میں قلابیں ملا دیتے ہیں۔ کسی نے مجھ سے سوال کیا '' کیا ان بڑے چور اور ڈاکوؤں کے لیے کوئی قانون نہیں؟'' میں نے اس کو یہی جواب دیا '' شاید غریب کے لیے الگ اور امیر کے لیے الگ قانون ہے۔'' ''شاید'' ہی کہہ سکتے ہیں اس کے علاوہ کیا کہا جائے معلوم سب کو ، کرنا کسی نے کچھ نہیں۔
بین الاقوامی بیماری کورونا شدت اختیار کر رہی ہے امیر ، امرا ، رؤسا متفکر نہیں۔ اس لیے کہ اگر ان کو یہ بیماری لاحق ہوجائے تو لاکھوں روپے کے انجکشن و ادویات صحیح کردیتی ہیں۔ بیماریاں تو سب غریب کے حصے میں آتی ہیں عام چھوٹی موٹی بیماری کا وہ کس مشکل ، قباحت سے علاج کرواتا ہے جب کہ کورونا ایک بڑی بیماری جس کو عالمی وبائی بیماری کہا گیا ہے۔
کسی غریب کو یہ بیماری آ گھیرے اس کے لیے علاج مشکل ترین ہوگا۔ اس کے پاس لاکھوں روپے ہیں نہ ایسے وسائل۔ ایک چھوٹی سی مثال یاد آ رہی ہے کہتا چلوں۔ ایک غریب کو چوٹ لگی اس کے سر سے خون بہنے لگا۔ وہ کھڑا ہوا اور دوڑنا شروع کردیا، دوڑتے ہوئے زخم کو ہاتھ لگاتا اور دعا کرتا ''اللہ خون نہ نکلے'' اور ہاتھ دیکھتا تو خون ہوتا، پھر یہی دعا کرتا۔ بے چارے غریب دعاؤں پر ہی گزارا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو مہلک بیماریوں سے بچائے۔