شہریوں کی بڑی تعداد عید کیلیے روایتی خریداری نہ کرسکی
شلوارقمیض اورکرتا شلواربچوں، نوجوانوں، بزرگوں نے خریدے، خواتین نے لان، کاٹن ودیگر اقسام کے بغیرسلے ملبوسات کوترجیح دی۔
لاک ڈاؤن کے باعث شہریوں کی بڑی تعداد عیدالفطر کے لیے روایتی خریداری نہیں کرسکی کیونکہ یہ دوسری عید ہے جو عالمی وبا کورونا کی موجودگی میں منائی گئی۔
عیدالفطر کے لیے طبقہ اشرافیہ متوسط اور غریب طبقوں میں اپنی مالی حیثیت کے مطابق تیاری کی، شہریوں کی بڑی تعداد نے کورونا لاک ڈاؤن سے قبل ہی عید کے لیے ملبوسات جوتے اور دیگر اشیا خرید لی تھیں، رواں عید پر غریب اور متوسط طبقے نے اپنے اہلخانہ کے لیے تیار شدہ ملبوسات خریدنے کو ترجیح دی۔
اس حوالے سے ملبوسات فروخت کرنے والے دکاندار محمد محسن نے بتایا کہ کورونا لاک ڈاؤن کے سبب عیدالفطر کے موقع پر کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد عید کی خریداری نہیں کرسکے جن افراد کو خریداری کا موقع ملا انھوں نے اپنے اور اہل خانہ کے تیار شدہ ملبوسات کی خریداری کو ترجیح دی،عید کے ملبوسات گرمی کے سبب ہلکے رنگوں اور کپڑے کی مناسبت سے خریدے گئے۔
شہر قائد کے باسیوں نے اس بار مردانہ ملبوسات کی خریداری میں تیار شدہ کرتا شلوار اور شلوار قمیض خریدی ہیں، یہ شلوار قمیض اور کرتا شلوار بچوں ، نوجوانوں ، بزرگوں نے خریدے، زیادہ تر تیار شدہ ملبوسات ایک ہزار سے 2 ہزار روپے تک کے درمیان فروخت ہوئے۔
دوسری جانب صاحب حیثیت اور دیگر افراد نے اپنی من پسند کے بغیر سلے کپڑے خرید کر اپنی مرضی کے ڈیزائن اور رنگوں کی مناسبت سے کرتا شلوار اور شلوار قمیض درزیوں سے سلوائے۔
خواتین کے ملبوسات فروخت کرنیوالے دکاندار سید زوہیب احمد نے بتایا کہ عید کے حوالے سے خواتین نے لان ، کاٹن اور دیگر اقسام کے بغیر سلے ملبوسات خریدنے زیادہ ترجیح دی۔
خواتین کی بڑی تعداد نے اپنے علاقوں میں مقامی ٹیلروں اور گھروں میں سلائی کرنے والی خواتین سے اپنی پسند کے ڈیزائن کے مطابق ملبوسات تیار کرائے جبکہ مختلف اقسام کے کپڑوں اور رنگوں سمیت مختلف ڈیزائن والے ملبوسات بھی خواتین نے کی بڑی تعداد نے اپنی مالی حیثیت کے مطابق خریدے۔
ایک اور دکاندار شاہ زیب علی نے بتایا کہ عید کی تیاری کے حوالے سے بچوں کے لیے تیار شدہ ملبوسات والدین کی ترجیح رہے۔ بچوں نے اپنی مرضی تاہم والدین کی مالی حیثیت کے مطابق عید کے کے لیے ملبوسات خریدے جن میں شلوار قمیض ، کرتا شلوار ، پینٹ شرٹ شامل ہیں۔
جوتے فروخت کرنے والے ایک دکاندار شاہد احمد نے بتایا کہ رواں عید پر زیادہ تر افراد نے مختلف اقسام کی چپلوں اور سینڈلز خریدنے کو ترجیح دی جبکہ بچوں کے لیے بھی مختلف اقسام کے جوتے اور خواتین کے لیے فلیٹ چپل زیادہ فروخت ہوئیں، دکانداروں کا کہنا ہے کہ رواں عید پر کورونا لاک ڈاون کے باعث ان کا سیزن شدید متاثر ہوا ہے اور ماضی کے مقابلے میں ایک اندازے کے مطابق 30 سے 40 فیصد خریداری کم ہوئی ہے۔
عید پر کھانے پینے کی اشیا مہنگے داموں فروخت
عیدالفطر کے حوالے سے روایتی پکوانوں کی تیاری کے حوالے سے شہریوں کی بڑی تعداد نے پہلے ہی اشیائے خور ونوش خرید لی تھیں، شہر کے بیشتر علاقوں میں عوام نے عید کی مناسبت سے بچھیا ، بکرے اور مرغی کے گوشت ، آٹا ، دالیں ، چینی ، چاول ، تیل ، دودھ ، دہی ، ہرے مصالحہ جات اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کی خریداری کی جس کا سلسلہ عید پر بھی جاری رہا۔
شہر کے بیشتر علاقوں میں اشیائے خوردو نوش کی دکانوں پر رش دیکھنے میں آیا، ان خریداری کے مقامات پر عوام کی جانب سے کورونا ایس او پیز کی مکمل خلاف ورزی کی گئی، بیشتر افراد نے ماسک نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی سماجی دوری کا خیال کیا گیا، شہریوں نے یہ شکوہ کیا کہ عید کے موقع پر کئی کھانے پینے کی اشیا مہنگے داموں فروخت ہوئی۔
خواتین بناؤ سنگھار کے لیے روایتی تیاریاں نہ کر سکیں
عیدالفطر کے موقع پر لاک ڈائون کے سبب خواتین اپنے بنائو سنگھار کے لیے روایتی تیاریاں نہیں کرسکیں، کورونا لاک ڈاون کے سبب بیوٹی پارلرز بند ہونے کی وجہ سے خواتین کو عید کی تیاریوں کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،عید کا اعلان تاخیر سے ہونے کے سبب چاند رات اور ایام عید میں شہر کے مختلف علاقوں میں مقامی سطح پر گھروں میں موجود بیوٹی پارلرز میں خواتین کی تیاریوں کے حوالے سے انتظامات کیے گئے تھے۔
مقامی بیوٹیشن ردا شعیب نے بتایا کہ عید کے حوالے سے خواتین اور بچیاں ہر سال بیوٹی سروسز کے لیے پارلرز کا رخ کرتی ہیں لیکن اس مرتبہ لاک ڈاون کی وجہ سے بیوٹی پارلرز بند ہیں ، جس کی وجہ سے خواتین کو عید تیاریوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اکثر علاقوں میں بیوٹیشنز نے گھروں میں گروپ کی شکل میں یا انفرادی طور پر خواتین کو تیار کرنے کے لیے اپنی خدمات فراہم کیں، عید کے حوالے سے خواتین بالوں کی کٹنگ کے علاوہ فیشل ، تھریڈنگ ، آئی برو اور دیگر تیاریوں کے ساتھ مہندی ، لازمی لگواتی ہیں لیکن اس مرتبہ خواتین کی بڑی تعداد صرف مہندی ہی لگوا سکی جبکہ وہ روایتی تیاریوں سے محروم رہیں،کچھ خواتین نے اپنے گھروں پر ازخود تیار ہوئیں۔
عید کی روایتی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی
عید الفطر سے قبل کراچی میں کورونا لاک ڈاون کے باعث روایتی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی، کاروبار اور مارکیٹیں بند ہونے کے سبب شہر کے اکثر علاقوں میں سناٹے کا راج رہا، شہریوں کی اکثر تعداد نے کورونا لاک ڈاون سے قبل ہی عید کی خریداری مکمل کر لی تھی۔
عید سے قبل شہریوں کی بڑی تعداد نے دکانیں بند ہونے کی وجہ سے مختلف علاقوں میں لگائے گئے اسٹالز اور گاڑیوں پر فروخت ہونے والے اشیا کے حوالے سے عید خریداری کی کیماڑی ، کھارادر، اورنگی ٹائون ، بنارس ، بلدیہ ٹائون ، لانڈھی ، کورنگی ، ملیر ، نیو کراچی ، سرجانی ٹائون سمیت دیگر علاقوں میں مختلف نوجوانوں اور افراد نے تیار شدہ ملبوسات جوتے ، کاسمیٹکس اور دیگر اشیا کے حوالے سے گلیوں اور محلوں میں اسٹالز لگا رکھے تھے، جہاں ان افراد نے عید کے حوالے سے کپڑے ، جوتے اور دیگر اشیا خریدیں ، جو عید کی تیاریوں سے فی الحال محروم رہے تھے، انھوں نے مختلف علاقوں میں خریداری کی جس کی وجہ سے وہاں کچھ گہما گہمی نظر آئی تاہم پولیس اور سکیورٹی اداروں کے خوف کے سبب یہ اشیا فروخت کرنے والے افراد چھپ کر اپنا سامان فروخت کرتے نظر آئے۔
کھانے پینے کی اشیا ہوم ڈیلیوری کرنے کا کام چمک اٹھا
حکومت سندھ کی جانب سے عیدالفطر سے قبل ہوٹلوں اور ریستوران کو ٹیک اوے کی اجازت دینے کے بعد شہر میں کچھ گہما گہمی دیکھنے میں آئی اور شہری اپنے اہل خانہ کے لیے روایتی پکوان ، باربی کیو اور دیگر کھانے پینے کی اشیا خریدنے میں مصروف نظر آئے۔
اس موقع پر ان مقامات پر شہریوں اور ریسٹورنٹ کا عملہ حکومتی ایس او پیز پر عمل درآمد کرتا ہوا نظر آیا جبکہ کئی مقامات پر ان ایس او پیز کو نظر انداز کر دیا گیا، ٹیک اوے کی اجازت دینے کے سبب ڈلیوری کا کام کرنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو عید کے موقع پر روزگار میسر آیا اور ان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
گھروں میں فرمائشی کھانے پکے
عیدالفطر کے موقع پر شہریوں کی بڑی تعداد گھروں میں رہ کر روایتی پکوانوں سے لطف اندوز ہوتے رہے، کچن سروس کے کام سے وابستہ خاتون شہناز خان نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے سبب عید پر خواتین کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ زیادہ تر لوگ گھر پر موجود رہے اسی لیے بچے اور بڑے اپنے گھر کی خواتین سے فرمائشی کھانے پکواتے رہے، عید کے موقع پر گھروں بریانی ، کڑھائی ، کباب،مختلف اقسام کے میٹھے اور دیگر پکوان تیار کیے گئے، انھوں نے بتایا کہ کہ لاک ڈاؤن کے سبب اس عید پر خواتین پر گھریلو ذمے داریاں زیادہ رہیں۔
تفریحی مراکز اور ساحل سمندر پر پابندی رہی، سیکیورٹی اہلکاروں کا گشت
کورونا لاک ڈاون کے سبب عید کے موقع پر کراچی کے تمام تفریحی مراکز اور ساحل سمندر پر گھومنے پھر نے پر پابندی عائد رہی، لاک ڈاؤن اور تعطیلات کے باعث تفریحی مقامات پر سناٹے کا راج رہا، بیشتر تفریحی مقامات پر پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکار تعینات تھے جنھوں نے شہریوں کو تفریح گاہوں کی طرف آنے سے روک دیا،لاک ڈاؤن کے سبب شہریوں کی اکثریت عید پر روایتی تفریح سے محروم رہی،شہریوں کی اکثریت عید تعطیلات کے موقع پر گھروں میں سوشل میڈیا کی مختلف ایپس کی بدولت اپنے دوست و احباب اور رشتے داروں سے رابطوںمیں مصروف نظر آئی۔
کئی لوگ انٹرنیٹ پر مختلف گیمز کھیلتے نظر آئے،شہریوں کے لیے واحد تفریح رات کے اوقات میں اس وقت نظر آئی، جب لوگ محلوں،گلیوں اور فلیٹوں کی چھتوں پر آپس میں خوش گپیوں میں مصروف رہے اور اجتماعی سطح پر مختلف مقامات پر لذیذ پکوانوں کی دعوتوں کا بھی اہتمام کیا گیا،اس موقع پر جمع ہونے والے افراد نے لوڈو اور دیگر انڈور گیمز کھیل کر اپنے وقت کو یاد گار بنایا۔
روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد شدید پریشان رہے
عیدالفطر کے موقع پر روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد شدید مالی پریشانی کا شکار رہے، شہر کے مضافاتی علاقوں میں اندرون ملک کراچی روزگار کمانے کے لیے آنے والے افراد جو عید پر اپنے گھروں کو نہیں جا سکے تھے ، وہ اپنی رہائش گاہوں یا ڈیروں پر موجود رہے، زیادہ تر لوگوں نے ازخود کھانوں کا اہتمام کیا یا پھر قریبی ہوٹلوں سے پارسل کے ذریعہ کھانا حاصل کرکے اپنی بھوک کو مٹایا، مالی پریشانیوں کے سبب یہ پردیسی عید کی روایتی خوشیوں سے محروم رہے، شہر کے مختلف علاقوں میں وہ افراد جن کے پاس سر چھپانے کا ٹھکانہ نہیں ہے ، وہ عید پر مختلف سایہ دار جگہوں یا پلوں کے نیچے کھلے مقامات پر آرام کرتے ہوئے نظر آئے اور انھوں نے اپنی بھوک فلاحی اداروں کے دستر خوانوں سے مٹائی۔
سڑکوں پر رش کم رہا، گدا گروں کا ''عید سیزن'' بھی خراب
کورونا کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں کو متاثر کیا، وہیں ملک کے مختلف حصوں سے خصوصی طور پر کراچی آنے والے گدا گروں کا عید سیزن بھی لاک ڈاؤن کی نذر ہو گیا، رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شہر کی مصروف ترین شاہراہوں اور بازاروں کے باہر ٹولیوں کی شکل میں گھومنے والے گدا گر اس مرتبہ بہت محدود تعداد میں نظر آئے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ پیشہ ور گدا گروں کے نہ ہونے کے باعث شہریوں نے اس مرتبہ اپنے مستحق رشتہ داروں اور محلوں والوں کی امداد کی، لیاقت آباد میں بھیگ مانگے والی گدا گر خاتون مائی دینہ نے بتایا کہ زیادہ تر گدا گر رمضان کے اوائل میں کراچی آئے تھے، لاک ڈاؤن اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے گدا گروں کا سیزن شدید متاثر ہوا اور بیشتر گدا گر ادھار لے کر اپنی کمائی کم ہونے کے سبب اپنے آبائی علاقوں کی طرف لوٹ گئے۔
پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے پر شہری شدید پریشان
عیدالفطر کے تینوں ایام کے موقع پر شہر قائد میں کورونا لاک ڈاؤن کے سبب سناٹے کا راج رہا، شہر کے تمام تجارتی کاروباری مراکز عید سے ایک ہفتہ قبل ہی بند کر دیے گئے تھے، عید الفطر کے موقع پر پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھی ، جس کے سبب شہریوں کو آمدو رفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو رکشہ ٹیکسی سڑکوں پر رواں دواں تھے ، انھوں نے اضافی کرائے وصول کیے، لاک ڈاؤن کے سبب شہریوں کی بڑی تعداد روایتی طریقے سے عید نہیں منا سکی شہریوں کی بڑی تعداد عید تعطیلات کے موقع پر گھروں میں رہی یا جن کے پاس اپنی ٹرانسپورٹ تھی ، وہ عید کی مبارکباد دینے اپنے عزیز و اقارب کے گھر پر گئے ، جہاں دعوتوں کا اہتمام کیا گیا اور لذیذ کھانوں سے ان کی تواضع کی گئی۔
عید پر بچے بھی اپنی روایتی تفریح سے محروم رہے
عید کے موقع پر بچے بھی اپنی روایتی تفریح سے محروم رہے، عید کے تینوں ایام میں بہت ہی محدود تعداد میں کچھ علاقوںمیں عید کے موقع پر اونٹ ، گھوڑا گاڑی اور دیگر جھولے والے نظر آئے، رواں عید پر لاک ڈاون اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے بچوں کی بڑی تعداد کورونا پستول استعمال کرنے سے بھی محروم رہی اور نہ ہی شہر میں کھلونے ، پستولوں کے اسٹال نظر آئے ، تاہم کئی مقامات پر بچے کھلونا پستولوں سے کھیلتے ہوئے نظر آئے۔
جھولوں کے کام سے وابستہ ایک شخص لال دین کا کہنا تھا کہ عید پر لاک ڈاؤن کے سبب جھولے والوں کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوا ہے اور شہر میں اکثر علاقوں میں روایتی طور پر تفریح کی فراہمی کے لیے آنے والے گھوڑا اور اونٹ والے بھی اس مرتبہ زیادہ تعداد میں نظر نہیں آئے۔
ہیر ڈریسر ز نے گھروں میں جا کر بال کاٹے
عیدالفطر کے ایام میں مرد حضرات اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ہیئر ڈریسر کو ڈھونڈنے میں مصروف نظر آئے، لاک ڈاون کے سبب شہر کے بیشتر ہیئر سلون بند تھے جو چھپ کر کھلے ہوئے تھے ، وہاں پر رش دیکھنے میں آیا یا لوگ ٹائم لے کر اپنے اور بچوں کے بال کٹوانے ہیئر ڈریسر کے پاس پہنچے۔
مقامی ہیئر سلون میں کام کرنے والے نوجوان فیصل نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے سبب زیادہ تر افراد نے چھٹیوں میں ہوم سروس لے کر اپنے بال کٹوائے اور کئی افراد نے شیو اور خط بنوا لیے تھے تاکہ وہ عید پر اس پر کام سے بچ سکیں۔
انھوں نے بتایا کہ لاک ڈاون کے سبب دکانیں بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد عید کے ایام سے اپنے بال کٹوانے یا شیو اور خط بنوانے سے محروم رہی تاہم اب ہوم سروس کے ذریعہ یہ کام محدود پیمانے پر جاری ہے،زیادہ لوگ دکانیں کھلنے کے بعد اپنے سر کے بال بنوائیں گے۔
عیدالفطر کے لیے طبقہ اشرافیہ متوسط اور غریب طبقوں میں اپنی مالی حیثیت کے مطابق تیاری کی، شہریوں کی بڑی تعداد نے کورونا لاک ڈاؤن سے قبل ہی عید کے لیے ملبوسات جوتے اور دیگر اشیا خرید لی تھیں، رواں عید پر غریب اور متوسط طبقے نے اپنے اہلخانہ کے لیے تیار شدہ ملبوسات خریدنے کو ترجیح دی۔
اس حوالے سے ملبوسات فروخت کرنے والے دکاندار محمد محسن نے بتایا کہ کورونا لاک ڈاؤن کے سبب عیدالفطر کے موقع پر کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد عید کی خریداری نہیں کرسکے جن افراد کو خریداری کا موقع ملا انھوں نے اپنے اور اہل خانہ کے تیار شدہ ملبوسات کی خریداری کو ترجیح دی،عید کے ملبوسات گرمی کے سبب ہلکے رنگوں اور کپڑے کی مناسبت سے خریدے گئے۔
شہر قائد کے باسیوں نے اس بار مردانہ ملبوسات کی خریداری میں تیار شدہ کرتا شلوار اور شلوار قمیض خریدی ہیں، یہ شلوار قمیض اور کرتا شلوار بچوں ، نوجوانوں ، بزرگوں نے خریدے، زیادہ تر تیار شدہ ملبوسات ایک ہزار سے 2 ہزار روپے تک کے درمیان فروخت ہوئے۔
دوسری جانب صاحب حیثیت اور دیگر افراد نے اپنی من پسند کے بغیر سلے کپڑے خرید کر اپنی مرضی کے ڈیزائن اور رنگوں کی مناسبت سے کرتا شلوار اور شلوار قمیض درزیوں سے سلوائے۔
خواتین کے ملبوسات فروخت کرنیوالے دکاندار سید زوہیب احمد نے بتایا کہ عید کے حوالے سے خواتین نے لان ، کاٹن اور دیگر اقسام کے بغیر سلے ملبوسات خریدنے زیادہ ترجیح دی۔
خواتین کی بڑی تعداد نے اپنے علاقوں میں مقامی ٹیلروں اور گھروں میں سلائی کرنے والی خواتین سے اپنی پسند کے ڈیزائن کے مطابق ملبوسات تیار کرائے جبکہ مختلف اقسام کے کپڑوں اور رنگوں سمیت مختلف ڈیزائن والے ملبوسات بھی خواتین نے کی بڑی تعداد نے اپنی مالی حیثیت کے مطابق خریدے۔
ایک اور دکاندار شاہ زیب علی نے بتایا کہ عید کی تیاری کے حوالے سے بچوں کے لیے تیار شدہ ملبوسات والدین کی ترجیح رہے۔ بچوں نے اپنی مرضی تاہم والدین کی مالی حیثیت کے مطابق عید کے کے لیے ملبوسات خریدے جن میں شلوار قمیض ، کرتا شلوار ، پینٹ شرٹ شامل ہیں۔
جوتے فروخت کرنے والے ایک دکاندار شاہد احمد نے بتایا کہ رواں عید پر زیادہ تر افراد نے مختلف اقسام کی چپلوں اور سینڈلز خریدنے کو ترجیح دی جبکہ بچوں کے لیے بھی مختلف اقسام کے جوتے اور خواتین کے لیے فلیٹ چپل زیادہ فروخت ہوئیں، دکانداروں کا کہنا ہے کہ رواں عید پر کورونا لاک ڈاون کے باعث ان کا سیزن شدید متاثر ہوا ہے اور ماضی کے مقابلے میں ایک اندازے کے مطابق 30 سے 40 فیصد خریداری کم ہوئی ہے۔
عید پر کھانے پینے کی اشیا مہنگے داموں فروخت
عیدالفطر کے حوالے سے روایتی پکوانوں کی تیاری کے حوالے سے شہریوں کی بڑی تعداد نے پہلے ہی اشیائے خور ونوش خرید لی تھیں، شہر کے بیشتر علاقوں میں عوام نے عید کی مناسبت سے بچھیا ، بکرے اور مرغی کے گوشت ، آٹا ، دالیں ، چینی ، چاول ، تیل ، دودھ ، دہی ، ہرے مصالحہ جات اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کی خریداری کی جس کا سلسلہ عید پر بھی جاری رہا۔
شہر کے بیشتر علاقوں میں اشیائے خوردو نوش کی دکانوں پر رش دیکھنے میں آیا، ان خریداری کے مقامات پر عوام کی جانب سے کورونا ایس او پیز کی مکمل خلاف ورزی کی گئی، بیشتر افراد نے ماسک نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی سماجی دوری کا خیال کیا گیا، شہریوں نے یہ شکوہ کیا کہ عید کے موقع پر کئی کھانے پینے کی اشیا مہنگے داموں فروخت ہوئی۔
خواتین بناؤ سنگھار کے لیے روایتی تیاریاں نہ کر سکیں
عیدالفطر کے موقع پر لاک ڈائون کے سبب خواتین اپنے بنائو سنگھار کے لیے روایتی تیاریاں نہیں کرسکیں، کورونا لاک ڈاون کے سبب بیوٹی پارلرز بند ہونے کی وجہ سے خواتین کو عید کی تیاریوں کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،عید کا اعلان تاخیر سے ہونے کے سبب چاند رات اور ایام عید میں شہر کے مختلف علاقوں میں مقامی سطح پر گھروں میں موجود بیوٹی پارلرز میں خواتین کی تیاریوں کے حوالے سے انتظامات کیے گئے تھے۔
مقامی بیوٹیشن ردا شعیب نے بتایا کہ عید کے حوالے سے خواتین اور بچیاں ہر سال بیوٹی سروسز کے لیے پارلرز کا رخ کرتی ہیں لیکن اس مرتبہ لاک ڈاون کی وجہ سے بیوٹی پارلرز بند ہیں ، جس کی وجہ سے خواتین کو عید تیاریوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اکثر علاقوں میں بیوٹیشنز نے گھروں میں گروپ کی شکل میں یا انفرادی طور پر خواتین کو تیار کرنے کے لیے اپنی خدمات فراہم کیں، عید کے حوالے سے خواتین بالوں کی کٹنگ کے علاوہ فیشل ، تھریڈنگ ، آئی برو اور دیگر تیاریوں کے ساتھ مہندی ، لازمی لگواتی ہیں لیکن اس مرتبہ خواتین کی بڑی تعداد صرف مہندی ہی لگوا سکی جبکہ وہ روایتی تیاریوں سے محروم رہیں،کچھ خواتین نے اپنے گھروں پر ازخود تیار ہوئیں۔
عید کی روایتی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی
عید الفطر سے قبل کراچی میں کورونا لاک ڈاون کے باعث روایتی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی، کاروبار اور مارکیٹیں بند ہونے کے سبب شہر کے اکثر علاقوں میں سناٹے کا راج رہا، شہریوں کی اکثر تعداد نے کورونا لاک ڈاون سے قبل ہی عید کی خریداری مکمل کر لی تھی۔
عید سے قبل شہریوں کی بڑی تعداد نے دکانیں بند ہونے کی وجہ سے مختلف علاقوں میں لگائے گئے اسٹالز اور گاڑیوں پر فروخت ہونے والے اشیا کے حوالے سے عید خریداری کی کیماڑی ، کھارادر، اورنگی ٹائون ، بنارس ، بلدیہ ٹائون ، لانڈھی ، کورنگی ، ملیر ، نیو کراچی ، سرجانی ٹائون سمیت دیگر علاقوں میں مختلف نوجوانوں اور افراد نے تیار شدہ ملبوسات جوتے ، کاسمیٹکس اور دیگر اشیا کے حوالے سے گلیوں اور محلوں میں اسٹالز لگا رکھے تھے، جہاں ان افراد نے عید کے حوالے سے کپڑے ، جوتے اور دیگر اشیا خریدیں ، جو عید کی تیاریوں سے فی الحال محروم رہے تھے، انھوں نے مختلف علاقوں میں خریداری کی جس کی وجہ سے وہاں کچھ گہما گہمی نظر آئی تاہم پولیس اور سکیورٹی اداروں کے خوف کے سبب یہ اشیا فروخت کرنے والے افراد چھپ کر اپنا سامان فروخت کرتے نظر آئے۔
کھانے پینے کی اشیا ہوم ڈیلیوری کرنے کا کام چمک اٹھا
حکومت سندھ کی جانب سے عیدالفطر سے قبل ہوٹلوں اور ریستوران کو ٹیک اوے کی اجازت دینے کے بعد شہر میں کچھ گہما گہمی دیکھنے میں آئی اور شہری اپنے اہل خانہ کے لیے روایتی پکوان ، باربی کیو اور دیگر کھانے پینے کی اشیا خریدنے میں مصروف نظر آئے۔
اس موقع پر ان مقامات پر شہریوں اور ریسٹورنٹ کا عملہ حکومتی ایس او پیز پر عمل درآمد کرتا ہوا نظر آیا جبکہ کئی مقامات پر ان ایس او پیز کو نظر انداز کر دیا گیا، ٹیک اوے کی اجازت دینے کے سبب ڈلیوری کا کام کرنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو عید کے موقع پر روزگار میسر آیا اور ان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
گھروں میں فرمائشی کھانے پکے
عیدالفطر کے موقع پر شہریوں کی بڑی تعداد گھروں میں رہ کر روایتی پکوانوں سے لطف اندوز ہوتے رہے، کچن سروس کے کام سے وابستہ خاتون شہناز خان نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے سبب عید پر خواتین کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ زیادہ تر لوگ گھر پر موجود رہے اسی لیے بچے اور بڑے اپنے گھر کی خواتین سے فرمائشی کھانے پکواتے رہے، عید کے موقع پر گھروں بریانی ، کڑھائی ، کباب،مختلف اقسام کے میٹھے اور دیگر پکوان تیار کیے گئے، انھوں نے بتایا کہ کہ لاک ڈاؤن کے سبب اس عید پر خواتین پر گھریلو ذمے داریاں زیادہ رہیں۔
تفریحی مراکز اور ساحل سمندر پر پابندی رہی، سیکیورٹی اہلکاروں کا گشت
کورونا لاک ڈاون کے سبب عید کے موقع پر کراچی کے تمام تفریحی مراکز اور ساحل سمندر پر گھومنے پھر نے پر پابندی عائد رہی، لاک ڈاؤن اور تعطیلات کے باعث تفریحی مقامات پر سناٹے کا راج رہا، بیشتر تفریحی مقامات پر پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکار تعینات تھے جنھوں نے شہریوں کو تفریح گاہوں کی طرف آنے سے روک دیا،لاک ڈاؤن کے سبب شہریوں کی اکثریت عید پر روایتی تفریح سے محروم رہی،شہریوں کی اکثریت عید تعطیلات کے موقع پر گھروں میں سوشل میڈیا کی مختلف ایپس کی بدولت اپنے دوست و احباب اور رشتے داروں سے رابطوںمیں مصروف نظر آئی۔
کئی لوگ انٹرنیٹ پر مختلف گیمز کھیلتے نظر آئے،شہریوں کے لیے واحد تفریح رات کے اوقات میں اس وقت نظر آئی، جب لوگ محلوں،گلیوں اور فلیٹوں کی چھتوں پر آپس میں خوش گپیوں میں مصروف رہے اور اجتماعی سطح پر مختلف مقامات پر لذیذ پکوانوں کی دعوتوں کا بھی اہتمام کیا گیا،اس موقع پر جمع ہونے والے افراد نے لوڈو اور دیگر انڈور گیمز کھیل کر اپنے وقت کو یاد گار بنایا۔
روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد شدید پریشان رہے
عیدالفطر کے موقع پر روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد شدید مالی پریشانی کا شکار رہے، شہر کے مضافاتی علاقوں میں اندرون ملک کراچی روزگار کمانے کے لیے آنے والے افراد جو عید پر اپنے گھروں کو نہیں جا سکے تھے ، وہ اپنی رہائش گاہوں یا ڈیروں پر موجود رہے، زیادہ تر لوگوں نے ازخود کھانوں کا اہتمام کیا یا پھر قریبی ہوٹلوں سے پارسل کے ذریعہ کھانا حاصل کرکے اپنی بھوک کو مٹایا، مالی پریشانیوں کے سبب یہ پردیسی عید کی روایتی خوشیوں سے محروم رہے، شہر کے مختلف علاقوں میں وہ افراد جن کے پاس سر چھپانے کا ٹھکانہ نہیں ہے ، وہ عید پر مختلف سایہ دار جگہوں یا پلوں کے نیچے کھلے مقامات پر آرام کرتے ہوئے نظر آئے اور انھوں نے اپنی بھوک فلاحی اداروں کے دستر خوانوں سے مٹائی۔
سڑکوں پر رش کم رہا، گدا گروں کا ''عید سیزن'' بھی خراب
کورونا کے باعث لگنے والے لاک ڈاؤن نے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں کو متاثر کیا، وہیں ملک کے مختلف حصوں سے خصوصی طور پر کراچی آنے والے گدا گروں کا عید سیزن بھی لاک ڈاؤن کی نذر ہو گیا، رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شہر کی مصروف ترین شاہراہوں اور بازاروں کے باہر ٹولیوں کی شکل میں گھومنے والے گدا گر اس مرتبہ بہت محدود تعداد میں نظر آئے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ پیشہ ور گدا گروں کے نہ ہونے کے باعث شہریوں نے اس مرتبہ اپنے مستحق رشتہ داروں اور محلوں والوں کی امداد کی، لیاقت آباد میں بھیگ مانگے والی گدا گر خاتون مائی دینہ نے بتایا کہ زیادہ تر گدا گر رمضان کے اوائل میں کراچی آئے تھے، لاک ڈاؤن اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے گدا گروں کا سیزن شدید متاثر ہوا اور بیشتر گدا گر ادھار لے کر اپنی کمائی کم ہونے کے سبب اپنے آبائی علاقوں کی طرف لوٹ گئے۔
پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے پر شہری شدید پریشان
عیدالفطر کے تینوں ایام کے موقع پر شہر قائد میں کورونا لاک ڈاؤن کے سبب سناٹے کا راج رہا، شہر کے تمام تجارتی کاروباری مراکز عید سے ایک ہفتہ قبل ہی بند کر دیے گئے تھے، عید الفطر کے موقع پر پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھی ، جس کے سبب شہریوں کو آمدو رفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جو رکشہ ٹیکسی سڑکوں پر رواں دواں تھے ، انھوں نے اضافی کرائے وصول کیے، لاک ڈاؤن کے سبب شہریوں کی بڑی تعداد روایتی طریقے سے عید نہیں منا سکی شہریوں کی بڑی تعداد عید تعطیلات کے موقع پر گھروں میں رہی یا جن کے پاس اپنی ٹرانسپورٹ تھی ، وہ عید کی مبارکباد دینے اپنے عزیز و اقارب کے گھر پر گئے ، جہاں دعوتوں کا اہتمام کیا گیا اور لذیذ کھانوں سے ان کی تواضع کی گئی۔
عید پر بچے بھی اپنی روایتی تفریح سے محروم رہے
عید کے موقع پر بچے بھی اپنی روایتی تفریح سے محروم رہے، عید کے تینوں ایام میں بہت ہی محدود تعداد میں کچھ علاقوںمیں عید کے موقع پر اونٹ ، گھوڑا گاڑی اور دیگر جھولے والے نظر آئے، رواں عید پر لاک ڈاون اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے بچوں کی بڑی تعداد کورونا پستول استعمال کرنے سے بھی محروم رہی اور نہ ہی شہر میں کھلونے ، پستولوں کے اسٹال نظر آئے ، تاہم کئی مقامات پر بچے کھلونا پستولوں سے کھیلتے ہوئے نظر آئے۔
جھولوں کے کام سے وابستہ ایک شخص لال دین کا کہنا تھا کہ عید پر لاک ڈاؤن کے سبب جھولے والوں کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوا ہے اور شہر میں اکثر علاقوں میں روایتی طور پر تفریح کی فراہمی کے لیے آنے والے گھوڑا اور اونٹ والے بھی اس مرتبہ زیادہ تعداد میں نظر نہیں آئے۔
ہیر ڈریسر ز نے گھروں میں جا کر بال کاٹے
عیدالفطر کے ایام میں مرد حضرات اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ہیئر ڈریسر کو ڈھونڈنے میں مصروف نظر آئے، لاک ڈاون کے سبب شہر کے بیشتر ہیئر سلون بند تھے جو چھپ کر کھلے ہوئے تھے ، وہاں پر رش دیکھنے میں آیا یا لوگ ٹائم لے کر اپنے اور بچوں کے بال کٹوانے ہیئر ڈریسر کے پاس پہنچے۔
مقامی ہیئر سلون میں کام کرنے والے نوجوان فیصل نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے سبب زیادہ تر افراد نے چھٹیوں میں ہوم سروس لے کر اپنے بال کٹوائے اور کئی افراد نے شیو اور خط بنوا لیے تھے تاکہ وہ عید پر اس پر کام سے بچ سکیں۔
انھوں نے بتایا کہ لاک ڈاون کے سبب دکانیں بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد عید کے ایام سے اپنے بال کٹوانے یا شیو اور خط بنوانے سے محروم رہی تاہم اب ہوم سروس کے ذریعہ یہ کام محدود پیمانے پر جاری ہے،زیادہ لوگ دکانیں کھلنے کے بعد اپنے سر کے بال بنوائیں گے۔