فلسطین
اس حوالے سے دوسری بڑی وجہ مسلم ملکوں کے اختلافات ہیں جو انھیں کمزور کر رہے ہیں۔
دنیا انسانوں کے رہنے کی جگہ ہے لیکن جب دنیا میں انسانوں کی جگہ حیوان آ جاتے ہیں تو دنیا جنت کی جگہ جہنم بن جاتی ہے، فلسطین میں ایک عرصے سے حیوانوں نے فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے، ایسی ہی حیوانیت کا مظاہرہ اسرائیلیوں نے 12 مئی کو کیا جب اچانک حملے کرکے 28فلسطینیوں کو شہید کردیا، اوراس سرزمین پر تاحال اسرائیلی میزائلوں کی بارش جاری ہے۔
فلسطین میں 70 سال سے خون خرابے کا سلسلہ جاری ہے اب تک ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ اسرائیل کی تاریخ بتاتی ہے کہ فلسطینیوں کو ہلاک و زخمی کرنے کے لیے کسی معقول وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی بغیر کسی وجہ کے اسرائیلی بھیڑیے معصوم فلسطینیوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اور درجنوں فلسطینیوں کو شہید کردیتے ہیں۔
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک اس کی پشت پر کھڑے رہتے ہیں اور اسرائیلی وحشی بے لگام ہو جاتے ہیں نام نہاد اقوام متحدہ ایسے موقعوں پر لاپتہ رہتی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل بے خوف ہو کر فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا رہتا ہے ۔ہمارے مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی ہرچند کہ ہے مگر نہیں ہے والا معاملہ ہے اس غیر فعال تنظیم سے کسی مسلم ملک کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اسے فوجی حوالے سے اتنا مضبوط کردیا گیا ہے کہ وہ سارے عرب ملکوں پر بھاری ہو گیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عربوں کی تیل کی دولت کے تحفظ کے لیے کسی ایسی طاقت کی ضرورت تھی جو علاقے میں رہتے ہوئے سامراجی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ اسرائیل 70 سالوں سے سامراجی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔
اسی لیے اس کو اس قدر طاقتور بنا دیا گیا ہے کہ وہ سارے عرب ملکوں پر چھایا ہوا ہے بدقسمتی سے مغرب کے ترقی یافتہ ملک انسانی حقوق کے بڑے دعوے تو کرتے ہیں لیکن انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مغرب کا پالا ہوا یہ جانور کسی خوف کے بغیر انسانی حقوق کی جس طرح خلاف ورزیاں کرتا ہے کیا مغرب کو یہ خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں؟ اب تک امریکا کا صدر ٹرمپ تھا جو ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں سے آزاد تھا امید کی جا رہی تھی کہ ٹرمپ کے جانے اور ایک نئے صدر کے آنے سے اسرائیل کی سرمستیوں میں کمی آئے گی لیکن یہ توقع بے کار تھی کہ ہر سربراہ غیر مشروط طور پر اسرائیل کی سرپرستی کرتا چلا آ رہا ہے۔
یوں اسرائیل اس قدر بے لگام ہو گیا ہے کہ وہ جب چاہتا ہے فلسطین پر چڑھ دوڑتا ہے اس کے لیے اسے کسی اخلاقی یا قانونی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسرائیل کو اسی طرح ہر روک ٹوک سے آزاد چھوڑ دیا گیا تو کیا مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک اسرائیل کی ستم کوشیوں سے بچ سکتا ہے؟
دنیا میں پچاس کے لگ بھگ مسلم ملک ہیں، ان میں ایک ایٹمی طاقت پاکستان بھی شامل ہے۔ کیا ان ملکوں کے مقابلے میں اسرائیل زیادہ طاقتور ہے؟ طاقتور تو نہیں ہے لیکن مسلم ملکوں میں اتحاد نہیں ہے جس کا فائدہ اسرائیل اٹھا رہا ہے، اگر مسلم ممالک اسی طرح بے کسی کا مظاہرہ کرتے رہے تو اسرائیل دوسرے مسلم ملکوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرسکتا ہے۔
اس حوالے سے دوسری بڑی وجہ مسلم ملکوں کے اختلافات ہیں جو انھیں کمزور کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملکوں کی بقا اور سالمیت سے زیادہ اہم یہ اختلافات ہیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہے لیکن حکمرانوں کے اپنے مفادات ہیں ۔
مسئلہ فلسطین کا نہیں بلکہ ساری مسلم دنیا کا ہے اور مسلم دنیا کا حال یہ ہے کہ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ والا معاملہ ہے، دور کیوں جائیں ،ذرا اپنے ملک ہی پر نظر ڈال لیں ہمارے سیاستدانوں کو صرف ایک بات کی فکر ہے اقتدار کیسے حاصل کیا جائے، اقتدار کو کیسے بچایا جائے یہ ہیں ہمارے اسلامی ملک ۔ ایک ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کے ملکوں میں کہیں قومی مفادات کا کوئی تصور نہیں، اس حوالے سے پاکستان پر نظر ڈالیںتو ہر سیاستدان کی زندگی کا واحد مقصد کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا ہے خواہ وہ کتنے ہی ناجائز طریقے سے کیوں نہ ہو۔ جب ہمارا یہ حال ہو تو ہم فلسطینیوں کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ ہاں ہمارے غریب لیکن بہادر عوام فلسطینیوں کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔
فلسطین میں 70 سال سے خون خرابے کا سلسلہ جاری ہے اب تک ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ اسرائیل کی تاریخ بتاتی ہے کہ فلسطینیوں کو ہلاک و زخمی کرنے کے لیے کسی معقول وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی بغیر کسی وجہ کے اسرائیلی بھیڑیے معصوم فلسطینیوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اور درجنوں فلسطینیوں کو شہید کردیتے ہیں۔
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک اس کی پشت پر کھڑے رہتے ہیں اور اسرائیلی وحشی بے لگام ہو جاتے ہیں نام نہاد اقوام متحدہ ایسے موقعوں پر لاپتہ رہتی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل بے خوف ہو کر فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا رہتا ہے ۔ہمارے مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی ہرچند کہ ہے مگر نہیں ہے والا معاملہ ہے اس غیر فعال تنظیم سے کسی مسلم ملک کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اسے فوجی حوالے سے اتنا مضبوط کردیا گیا ہے کہ وہ سارے عرب ملکوں پر بھاری ہو گیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عربوں کی تیل کی دولت کے تحفظ کے لیے کسی ایسی طاقت کی ضرورت تھی جو علاقے میں رہتے ہوئے سامراجی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ اسرائیل 70 سالوں سے سامراجی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔
اسی لیے اس کو اس قدر طاقتور بنا دیا گیا ہے کہ وہ سارے عرب ملکوں پر چھایا ہوا ہے بدقسمتی سے مغرب کے ترقی یافتہ ملک انسانی حقوق کے بڑے دعوے تو کرتے ہیں لیکن انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مغرب کا پالا ہوا یہ جانور کسی خوف کے بغیر انسانی حقوق کی جس طرح خلاف ورزیاں کرتا ہے کیا مغرب کو یہ خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں؟ اب تک امریکا کا صدر ٹرمپ تھا جو ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں سے آزاد تھا امید کی جا رہی تھی کہ ٹرمپ کے جانے اور ایک نئے صدر کے آنے سے اسرائیل کی سرمستیوں میں کمی آئے گی لیکن یہ توقع بے کار تھی کہ ہر سربراہ غیر مشروط طور پر اسرائیل کی سرپرستی کرتا چلا آ رہا ہے۔
یوں اسرائیل اس قدر بے لگام ہو گیا ہے کہ وہ جب چاہتا ہے فلسطین پر چڑھ دوڑتا ہے اس کے لیے اسے کسی اخلاقی یا قانونی جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسرائیل کو اسی طرح ہر روک ٹوک سے آزاد چھوڑ دیا گیا تو کیا مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک اسرائیل کی ستم کوشیوں سے بچ سکتا ہے؟
دنیا میں پچاس کے لگ بھگ مسلم ملک ہیں، ان میں ایک ایٹمی طاقت پاکستان بھی شامل ہے۔ کیا ان ملکوں کے مقابلے میں اسرائیل زیادہ طاقتور ہے؟ طاقتور تو نہیں ہے لیکن مسلم ملکوں میں اتحاد نہیں ہے جس کا فائدہ اسرائیل اٹھا رہا ہے، اگر مسلم ممالک اسی طرح بے کسی کا مظاہرہ کرتے رہے تو اسرائیل دوسرے مسلم ملکوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرسکتا ہے۔
اس حوالے سے دوسری بڑی وجہ مسلم ملکوں کے اختلافات ہیں جو انھیں کمزور کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملکوں کی بقا اور سالمیت سے زیادہ اہم یہ اختلافات ہیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہے لیکن حکمرانوں کے اپنے مفادات ہیں ۔
مسئلہ فلسطین کا نہیں بلکہ ساری مسلم دنیا کا ہے اور مسلم دنیا کا حال یہ ہے کہ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ والا معاملہ ہے، دور کیوں جائیں ،ذرا اپنے ملک ہی پر نظر ڈال لیں ہمارے سیاستدانوں کو صرف ایک بات کی فکر ہے اقتدار کیسے حاصل کیا جائے، اقتدار کو کیسے بچایا جائے یہ ہیں ہمارے اسلامی ملک ۔ ایک ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کے ملکوں میں کہیں قومی مفادات کا کوئی تصور نہیں، اس حوالے سے پاکستان پر نظر ڈالیںتو ہر سیاستدان کی زندگی کا واحد مقصد کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا ہے خواہ وہ کتنے ہی ناجائز طریقے سے کیوں نہ ہو۔ جب ہمارا یہ حال ہو تو ہم فلسطینیوں کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ ہاں ہمارے غریب لیکن بہادر عوام فلسطینیوں کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔