مظلوم فلسطینی اوراسرائیل بارے سید مودودیؒ کے خیالات

زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے


Tanveer Qaisar Shahid May 17, 2021
[email protected]

جب ظالم ، غاصب اور مسلح قوتیں بندوق کے زور پر نہتے، بے بس اور بیکس انسانوں سے گھر، جائیدادیں اور کاروبار چھیننے کی کوشش کریں اور مظلوموں کی حرمت پامال کرنے کی منصوبہ بند کوششیں کریں تو کیا مظلوم ، ظالم کے خلاف احتجاج بھی نہ کریں؟مظلوم و نہتے فلسطینیوں نے غاصب و قابض مسلح اسرائیلی فوج اور پولیس کے خلاف احتجاج کیا ہے تو انھیں گولیوں سے بھونا گیاہے۔ اُن کے گھروں پر بم پھینکے گئے ہیں۔

فلسطینیوں کی ہمت و استقامت اور دین سے گہری محبت کی داد دینی چاہیے کہ بے سروسامانی کے باوجود اُس وقت اسرائیلی بندوقوں اور میزائلوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئے جب حال ہی میں گزرے رمضان شریف میں اسرائیلی فوجوں نے بیت المقدس میں آتش زنی کی گھناؤنی وارداتیں کیں ، مسلمانوں کو بیت المقدس اور اس کے نورانی مضافات میں عبادت سے بندوق کی طاقت سے روکنے کی کوشش کی ۔ پچھلے ڈیڑھ ہفتے کے دوران 140سے زائد فلسطینی بچے، نوجوان اور خواتین اسرائیلی حملوں میں شہید ہو گئے ہیں۔

زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے ۔ بیت المقدس کا پاک فرش مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے لہو سے رنگین ہو چکا ہے۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف اقوامِ متحدہ بھی چیخ اُٹھا ہے، نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزی نے بھی اسرائیلی مظالم روکنے کی اپیل کی ہے اور او آئی سی بھی متحرک ہُوا ہے لیکن اسرائیل کسی کی بھی نہیں سُن رہا ۔ وزیر اعظم و صدرِ پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے کئی ممالک نے اسرائیل کی مذمت کی ہے۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی 11مئی کو اپنے سات رکنی وفدکے ساتھ اسلام آباد میں فلسطینی سفارتخانے گئے اور فلسطینی سفیر ،محترم احمد ربیع، سے مل کرفلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیا۔ لیکن دُنیا کے طاقتوروں کے نقار خانے میں کمزور مسلمانوں کا احتجاج طوطی کی آواز بن کررہ گیا ہے ۔

ایسے میں ایرانی سپریم لیڈر، جناب آیت اللہ خامنہ ای، نے بجا کہا ہے : ''اسرائیل ایک ملک نہیں ہے ۔ بلکہ یہ فلسطین اور دیگر مسلمان ممالک کے خلاف بروئے کار دہشت گردوں کا اڈہ ہے '' ترک صدر، طیب اردوان، نے کہاہے :''اسرائیل دہشت گرد ریاست ہے ۔ اس نے بے رحمی سے اور غیر اخلاقی طور پر بیت القدس میں مسلمانوں پر حملہ کیا ہے ''۔ مسلمان حکومتیں تو اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ، بس اللہ تعالیٰ ہی ظالم و جارح اسرائیل کو غارت کر سکتا ہے ۔ ہم ایسے کمزور مسلمان ایسی ہی اُمید رکھ سکتے ہیں ۔

اب تک سات مسلمان ممالک (ترکی، مصر، اُردن، متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، سوڈان) غاصب اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں ۔ ہم پاکستانی یہ مناظر بڑے دکھ کے ساتھ دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے تو تحریکِ پاکستان کے دوران ہی یہ بات واضح کر دی تھی کہ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں کیا جاتا، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا ۔ ایسے میں اگر ہم مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے ارشاداتِ گرامی پر مبنی معرکہ خیز کتاب '' مجالسِ سید مودودیؒ'' کا مطالعہ کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے برسوں قبل اسرائیل کے پھیلتے زہر سے ہم سب کو آگاہ کر دیا تھا ۔

مثال کے طور پر کتاب مذکور کے صفحہ 89پر مولانامودودی ؒکے یہ الفاظ :''افریقہ میں مسلمانوں کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان حکومتیں اس طرف مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ توجہ دیں۔ افریقہ کے تقریباً چار ہزار طلبہ اس وقت اسرائیلی ریاست کے اخراجات اور وظیفوں پر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

اس طرح اسرائیل بڑی تیزی کے ساتھ افریقہ میں اپنے اثرات میں اضافہ کررہا ہے۔ مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ ان میں سے ہر ایک مسلم افریقی طلبہ کو وظائف پر بلائے اور انھیں تعلیم و تربیت دی جائے۔ ایسے لوگ ہی واپس جا کر اپنے ملکوں میں عیسائی اقلیت سے بھی ٹکر لے سکتے ہیں اور یہودی اثرات کو بھی ختم کر سکتے ہیں ۔''اس قیمتی مشورے پر پاکستان سمیت کتنے مسلمان ممالک نے عمل کیا، یہ ہمارے سامنے ہے اور پھر اس غفلت کے نتائج بھی ۔

مولانا سید مودودیؒ یہ بات بھی افسوس سے کہتے تھے کہ اگر اسرائیل کے یہودی اپنے ہفتہ وار مذہبی دن (سبت) کی چھٹی کر سکتے ہیں اور اُن کا کاروبار بھی متاثر نہیں ہوتا تو ہم مسلمان ملک ہونے کے باوجود جمعہ کی چھٹی کیوں نہیں کر سکتے ؟ مولانا مرحوم نے اپنی عصری مجالس میں ایک بار یہ بات بھی تاسف کے ساتھ کہی: ''اسرائیلی یہودیوں نے عبرانی زبان کو، جو دُنیا میں کہیں نہیں بولی جاتی تھی اور بالکل ایک مردہ زبان تھی ، دوبارہ زندہ کیا۔ اب اس زبان میں بہت سے اسرائیلی اخبارات اور رسالے شایع ہوتے ہیں ۔ یہ ان کی قومی زبان ہے۔

ہم نہ جانے کیوں اُردو کو اختیار کرتے ہُوئے شرماتے ہیںجب کہ اُردو ، عبرانی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔''سید مودودیؒ نے یہ مشورہ آج سے تقریباً 50سال قبل دیا تھا کہ ''مجالسِ سید مودودیؒ '' 1965 سے 1968 تک کی مجالس کی رُوداد ہے۔

نصف صدی گزرنے کے باوجود ہم نے اُردو کو رتی برابر بھی اہمیت نہیں دی ۔ البتہ کئی پاکستانی حکومتوں نے اس بارے کئی خوش کن وعدے اور دعوے کئی بار کیے ہیں ۔ ایک مجلس میں مولانا سید مودودیؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا :''عربوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں کثرت سے اسرائیل کے جاسوس موجود ہیں ۔ یہ جاسوس یہودی ہوتے ہُوئے بھی عرب معلوم ہوتے ہیں کیونکہ یہ عربی مادری زبان کی طرح بولتے ہیں ۔ یہ لوگ دو تین پشتوں سے فلسطین کے علاقے میں اور عربوں کے درمیان رہائش پذیر رہے ہیں ۔ کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ اسرائیل کے جاسوس ہو سکتے ہیں، مگر گزشتہ جنگ( جون1967) میں اس کا پورا ثبوت مل گیا۔ اس کے مقابلے میں عربوں کا جاسوسی کا نظام بہت کمزور ہے ۔''(صفحہ206) ۔

جون1967کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر کے ساتھ شام اور اُردن بھی اسرائیل سے بُری طرح شکست کھا گئے تھے ۔ عالمِ اسلام میں عمومی طور پر اور عالمِ عرب میں خصوصی طور پر یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ مصر کو اسرائیل سے کیسے شکست ہو گئی حالانکہ جنگ سے پہلے مصر بڑے دھڑلے اور بلند آہنگی سے اسرائیل کے خلاف اپنی بھرپور جنگی تیاریوں کا بہت پروپیگنڈہ کرتا رہا تھا۔ مصر کے صدر جمال ناصر کے قائم کردہ مصری ریڈیو ''صوت العرب'' نے بھی اس سلسلے میں بہت شور مچا رکھا تھا لیکن میدانِ جنگ میں مصر ، اسرائیل سے پِٹ گیا ۔

مصری شکست کی وجہ کیا بنی؟ مولانا سید مودودیؒ نے اس کا تجزیہ کرتے ہُوئے فرمایا :''اسرائیل کے خلاف مصری صدر کے بلند آہنگ پروپیگنڈے ہی نے مصر کو مروایا۔ مصری پروپیگنڈے کے جواب میں اسرائیل نے دُنیا بھر میں واویلا مچایا کہ دیکھیے مصر ایسا بڑا ملک، اسرائیل ایسے چھوٹے سے ملک کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ اس واویلے سے متاثر ہو کر امریکا سمیت مغربی ممالک نے بھی اسرائیل کی خوب مالی اور عسکری مدد کی۔اور یوں مصر میدانِ جنگ میں بھی ہار گیا اور عالمی سفارتی میدان میں بھی ''۔یہ تجزیہ پڑھ کر راقم حیران رہ گیا ہے اور مولانا کے تجزیے کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے کاش، عالمِ اسلام کے حکمران مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تجاویز پر عمل کر سکتے۔سچی بات یہ ہے کہ آج اسرائیلی دہشت گردیوں کے سامنے سارا عالمِ اسلام بے بس ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں