ہم وہ کیوں نہیں بن سکتے
عوام نے 73 سالوں سے یہی دیکھا کہ ہر آنے والا پہلے سے بدتر ثابت ہوا
ISLAMABAD:
دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کے حامل ملک جرمنی کی 15 سال سے برسراقتدار حکمران چانسلر اینجلا مرکل کے طرز حکمرانی اور سادگی سے سبھی آگاہ ہیں جو چند ماہ بعد اپنا عہدہ اپنی مرضی سے چھوڑ رہی ہیں۔ میڈیا کے مطابق بھارت کی ایک اہم ریاست مغربی بنگال کی سالوں سے برسراقتدار جماعت کی سربراہ ممتا بنرجی ایک بار پھر بھاری اکثریت سے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئیں جنھیں ہرانے کے لیے بھارتی وزیر اعظم مودی اور بی جے پی نے بہت کوشش کی تھی۔
نومنتخب وزیر اعلیٰ کی سادگی اور طرز حکمرانی کی جو خبریں میڈیا میں آئی ہیں ان کے مطابق ممتا بنرجی حکومت سے کوئی تنخواہ یا مراعات نہیں لیتیں اور اپنے ذاتی وسائل سے اپنے اخراجات پورے کرتی ہیں اور سادہ زندگی گزار رہی ہیں جس کی وجہ سے عوام میں ان کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے جس کا ثبوت حالیہ ریاستی انتخاب میں ان کی جماعت کی شاندار کامیابی ہے۔ بھارت کی ایک ریاست پونڈے چیری کے سادگی پسند وزیر اعلیٰ رنگے سامی بھی ہیں جو 15 سال سے اقتدار میں ہیں اور اپنی سادگی اور عوام میں رہنے والے کے طور پر مشہور ہیں۔
بدقسمتی سے مذکورہ بالا حکمران غیر مسلم ہیں اور انھوں نے ہمارے نبی اور مسلمانوں کے آخری رسول کے حکم پر عمل کرکے دکھا دیا ہے جب کہ ہمارے نبی اکرمؐ نے مسلمانوں کو سادگی، اخلاق، ایمانداری اور محنت کا نہ صرف حکم دیا تھا بلکہ خود بھی اللہ کے ان احکامات پر عمل کرکے دکھایا تھا۔
ممکن ہے دنیا میں مزید کچھ غیر مسلم بھی ایسے حکمران ہوں مگر آج کے کسی مسلمان حکمران میں یہ خوبی دیکھی نہ سنی اور کوئی ایک حکمران، کوئی وزیر اعلیٰ اور کسی ضلع کا حکمران ڈپٹی کمشنر بھی سادگی میں مذکورہ بالا غیر مسلم حکمرانوں جیسا ثابت ہوا ہو۔ سادگی کی ترغیب ہمیں اللہ اور اس کے نبی آخرالزماںؐ سے ملی مگر عمل پیرا غیر مسلم حکمران ہیں۔ جب حکمران ہی ایسی مثال بنتے ہیں تو عوام میں بھی کسی حد تک اس کی تقلید ہوتی ہے۔
جاپان میں جب زلزلہ آیا تھا تو وہاں کے عوام نے ہمیں دکھا دیا تھا کہ منظم قوم کیسی ہوتی ہے جب کہ ہمارے یہاں رمضان المبارک میں 2008 میں جو زلزلہ آیا تھا اس پر جو غیر ملکی امداد آئی تھی وہ عوام اور متاثرین تک کم پہنچی تھی اور سرکاری افسروں اور سیاسی رہنماؤں کی بندر بانٹ کی نذر ہوگئی تھی اور سرکاری افطار پارٹی میں بھی امداد میں ملی کھجوریں نظر آئی تھیں اور متاثرین تک یہ اعلیٰ کھجوریں تک نہیں پہنچنے دی گئی تھیں اور امدادی سامان کی طرح کھجوریں بھی خرد برد کرکے کیمپوں کے بجائے سرکاری بنگلوں کی زینت بنائی گئی تھیں۔
حال ہی میں ایران کی ایک تصویر میڈیا میں آئی ہے جہاں ضرورت مندوں کے لیے راشن کے تھیلے بنوا کر کھلے میدان میں رکھ دیے گئے تھے اور ضرورت مند کسی وی آئی پی کے بجائے لینے کے لیے خود اٹھا رہے تھے اور وہاں کوئی فوٹو سیشن نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارے یہاں تو سرکاری ہی نہیں نجی اداروں کے اکثر فلاحی اور امدادی پروگرام میڈیا کے آئے بغیر شروع نہیں ہوتے۔
وزیر اعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو انھیں میڈیا میں اس وقت کے حکمرانوں کی تصاویر سرکاری اشتہاروں میں بہت ہی بری لگتی تھیں اور کہتے تھے کہ اشتہارات پر خرچ ہونے والی سرکاری رقم کیا ان کا ذاتی مال ہے۔ اب اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنی بے پناہ تشہیر سے بھی مطمئن نہیں انھوں نے اپنی ایک بڑی میڈیا ٹیم بنا رکھی ہے۔ وہ اپنے چار وفاقی وزرائے اطلاعات سے بھی مطمئن نظر نہیں آتے اور اخبارات اور چینلز وزیر اعظم اور پنجاب و کے پی وزرائے اعلیٰ کی تصاویر سے بھرے پڑے ہیں مگر شہرت کی طلب کم نہیں ہو رہی۔
غیر مسلم حکمران تنخواہ اور مراعات نہیں لیتے اور ہمارے یہاں زکوٰۃ تک خرد برد کرلی جاتی ہے اور سرکاری افسران اپنی بیگمات کو غریب و مستحق بنا کر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رقم دلانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور غریبوں کا حق اپنا ذاتی مال سمجھ کر وصول کراتے رہے۔
ریاست مدینہ کے دعویدار ہر وقت غریبوں کی بات کرتے نہیں تھکتے مگر ان کی حکومت میں غریبوں کے ساتھ جو مظالم ہوئے ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایمانداری کا دعویٰ کرنے والے حکمران کے دور میں بھی کرپشن بڑھی اور اقربا پروری جاری ہے اور عوام کا جینا حرام کردیا گیا ہے۔
عوام نے 73 سالوں سے یہی دیکھا کہ ہر آنے والا پہلے سے بدتر ثابت ہوا۔ بڑی امیدوں سے لائے جانے والے ایماندار وزیر اعظم نے قوم کو مایوس کیا۔ دوسرے ملکوں کی مثالیں دینے والے ملک کو جرمنی تو کیا بناتے ان کی حکومت میں معیشت ہی تباہ ہوگئی۔ وہ چانسلر جرمنی کے نقش قدم پر کیا چلتے ان سے بھارتی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی بھی تقلید نہ ہوئی اور وہ ماضی کے حکمرانوں سے بھی بڑھ گئے اور ثابت کردیا کہ ہم وہ نہیں بن سکتے جو عوام کے خیر خواہ ہوں۔
دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کے حامل ملک جرمنی کی 15 سال سے برسراقتدار حکمران چانسلر اینجلا مرکل کے طرز حکمرانی اور سادگی سے سبھی آگاہ ہیں جو چند ماہ بعد اپنا عہدہ اپنی مرضی سے چھوڑ رہی ہیں۔ میڈیا کے مطابق بھارت کی ایک اہم ریاست مغربی بنگال کی سالوں سے برسراقتدار جماعت کی سربراہ ممتا بنرجی ایک بار پھر بھاری اکثریت سے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئیں جنھیں ہرانے کے لیے بھارتی وزیر اعظم مودی اور بی جے پی نے بہت کوشش کی تھی۔
نومنتخب وزیر اعلیٰ کی سادگی اور طرز حکمرانی کی جو خبریں میڈیا میں آئی ہیں ان کے مطابق ممتا بنرجی حکومت سے کوئی تنخواہ یا مراعات نہیں لیتیں اور اپنے ذاتی وسائل سے اپنے اخراجات پورے کرتی ہیں اور سادہ زندگی گزار رہی ہیں جس کی وجہ سے عوام میں ان کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے جس کا ثبوت حالیہ ریاستی انتخاب میں ان کی جماعت کی شاندار کامیابی ہے۔ بھارت کی ایک ریاست پونڈے چیری کے سادگی پسند وزیر اعلیٰ رنگے سامی بھی ہیں جو 15 سال سے اقتدار میں ہیں اور اپنی سادگی اور عوام میں رہنے والے کے طور پر مشہور ہیں۔
بدقسمتی سے مذکورہ بالا حکمران غیر مسلم ہیں اور انھوں نے ہمارے نبی اور مسلمانوں کے آخری رسول کے حکم پر عمل کرکے دکھا دیا ہے جب کہ ہمارے نبی اکرمؐ نے مسلمانوں کو سادگی، اخلاق، ایمانداری اور محنت کا نہ صرف حکم دیا تھا بلکہ خود بھی اللہ کے ان احکامات پر عمل کرکے دکھایا تھا۔
ممکن ہے دنیا میں مزید کچھ غیر مسلم بھی ایسے حکمران ہوں مگر آج کے کسی مسلمان حکمران میں یہ خوبی دیکھی نہ سنی اور کوئی ایک حکمران، کوئی وزیر اعلیٰ اور کسی ضلع کا حکمران ڈپٹی کمشنر بھی سادگی میں مذکورہ بالا غیر مسلم حکمرانوں جیسا ثابت ہوا ہو۔ سادگی کی ترغیب ہمیں اللہ اور اس کے نبی آخرالزماںؐ سے ملی مگر عمل پیرا غیر مسلم حکمران ہیں۔ جب حکمران ہی ایسی مثال بنتے ہیں تو عوام میں بھی کسی حد تک اس کی تقلید ہوتی ہے۔
جاپان میں جب زلزلہ آیا تھا تو وہاں کے عوام نے ہمیں دکھا دیا تھا کہ منظم قوم کیسی ہوتی ہے جب کہ ہمارے یہاں رمضان المبارک میں 2008 میں جو زلزلہ آیا تھا اس پر جو غیر ملکی امداد آئی تھی وہ عوام اور متاثرین تک کم پہنچی تھی اور سرکاری افسروں اور سیاسی رہنماؤں کی بندر بانٹ کی نذر ہوگئی تھی اور سرکاری افطار پارٹی میں بھی امداد میں ملی کھجوریں نظر آئی تھیں اور متاثرین تک یہ اعلیٰ کھجوریں تک نہیں پہنچنے دی گئی تھیں اور امدادی سامان کی طرح کھجوریں بھی خرد برد کرکے کیمپوں کے بجائے سرکاری بنگلوں کی زینت بنائی گئی تھیں۔
حال ہی میں ایران کی ایک تصویر میڈیا میں آئی ہے جہاں ضرورت مندوں کے لیے راشن کے تھیلے بنوا کر کھلے میدان میں رکھ دیے گئے تھے اور ضرورت مند کسی وی آئی پی کے بجائے لینے کے لیے خود اٹھا رہے تھے اور وہاں کوئی فوٹو سیشن نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارے یہاں تو سرکاری ہی نہیں نجی اداروں کے اکثر فلاحی اور امدادی پروگرام میڈیا کے آئے بغیر شروع نہیں ہوتے۔
وزیر اعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو انھیں میڈیا میں اس وقت کے حکمرانوں کی تصاویر سرکاری اشتہاروں میں بہت ہی بری لگتی تھیں اور کہتے تھے کہ اشتہارات پر خرچ ہونے والی سرکاری رقم کیا ان کا ذاتی مال ہے۔ اب اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنی بے پناہ تشہیر سے بھی مطمئن نہیں انھوں نے اپنی ایک بڑی میڈیا ٹیم بنا رکھی ہے۔ وہ اپنے چار وفاقی وزرائے اطلاعات سے بھی مطمئن نظر نہیں آتے اور اخبارات اور چینلز وزیر اعظم اور پنجاب و کے پی وزرائے اعلیٰ کی تصاویر سے بھرے پڑے ہیں مگر شہرت کی طلب کم نہیں ہو رہی۔
غیر مسلم حکمران تنخواہ اور مراعات نہیں لیتے اور ہمارے یہاں زکوٰۃ تک خرد برد کرلی جاتی ہے اور سرکاری افسران اپنی بیگمات کو غریب و مستحق بنا کر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رقم دلانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور غریبوں کا حق اپنا ذاتی مال سمجھ کر وصول کراتے رہے۔
ریاست مدینہ کے دعویدار ہر وقت غریبوں کی بات کرتے نہیں تھکتے مگر ان کی حکومت میں غریبوں کے ساتھ جو مظالم ہوئے ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایمانداری کا دعویٰ کرنے والے حکمران کے دور میں بھی کرپشن بڑھی اور اقربا پروری جاری ہے اور عوام کا جینا حرام کردیا گیا ہے۔
عوام نے 73 سالوں سے یہی دیکھا کہ ہر آنے والا پہلے سے بدتر ثابت ہوا۔ بڑی امیدوں سے لائے جانے والے ایماندار وزیر اعظم نے قوم کو مایوس کیا۔ دوسرے ملکوں کی مثالیں دینے والے ملک کو جرمنی تو کیا بناتے ان کی حکومت میں معیشت ہی تباہ ہوگئی۔ وہ چانسلر جرمنی کے نقش قدم پر کیا چلتے ان سے بھارتی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی بھی تقلید نہ ہوئی اور وہ ماضی کے حکمرانوں سے بھی بڑھ گئے اور ثابت کردیا کہ ہم وہ نہیں بن سکتے جو عوام کے خیر خواہ ہوں۔