حلف نہ اٹھانے کی سزا کیا ہونی چاہیے
اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ قانون اسحاق ڈار کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔
حکو مت اپوزیشن کو بار بار انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دے رہی ہے۔ تا ہم اپوزیشن اس وقت حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کے لیے تیار نظر نہیں آرہی ہے ۔اس ڈیڈ لاک کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان کے انتخابی قوانین میں اصلاحات کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کے انتخابی قوانین میں بہت اصلاحات کی ضرورت ہے جن کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ تاہم حکومت نے ملک کا سیاسی درجہ حرارت اس قدر گرم رکھا ہوا ہے کہ بات چیت کا ماحول ممکن ہی نہیں ہے۔
کہیں نہ کہیں حکومت کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ڈنڈے اور گن پوائنٹ پر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ ویسے تو حکومت نے انتخابی اصلاحات بذریعہ آرڈیننس شروع کر دی ہیں۔ ایوان صدر کی آرڈیننس فیکٹری سے انتخابی اصلاحات کے آرڈیننس نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔عید سے قبل ایوان صدر سے دو آرڈیننس جاری ہو چکے تھے اور توقع کی جا رہی ہے کہ عید کے بعد مزید آرڈیننس جاری ہونگے۔ یہ آرڈیننس کس قدر کار آمد ہیں۔ ان کے نتائج کتنے مثبت ہونگے۔ ان کے نتیجے میں کیا واقعی انتخابی اصلاحات ممکن ہو سکیں گی۔ یہ سوالات سب کے ذہن میں ہیں۔ تاہم حکومت اور اپوزیشن فی الوقت اس ضمن میں کسی بھی قسم کی باقاعدہ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ کچھ اصلاحات سے اختلاف ممکن ہے تاہم یہ بات کہ انتخابات جیتنے کے ساٹھ دن کے اندر حلف اٹھانا لازمی ہوگا۔ اور اگر جیتنے والے نے ساٹھ دن میں حلف نہیں اٹھایا تو سیٹ دوبارہ خالی تصور ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ درست اور ٹھیک بات ہے۔ ویسے تو ساٹھ دن کا وقت بھی زیادہ ہے۔ لیکن پھر بھی عام انتخابات کے بعد کئی بار اسمبلیوں کے اجلاس بلانے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس لیے ساٹھ روز کا وقت رکھا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو جیتنے والے پر یہ لازم ہونا چاہیے کہ وہ فوری طورپر حلف اٹھائے۔ اس ضمن میں کسی بھی قسم کی تاخیر کی بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
آپ دیکھیں چوہدری نثار علی خان نے آج تک پنجاب اسمبلی کے رکن کا حلف نہیں اٹھایا۔ اسی طرح اسحاق ڈار نے بھی سینیٹ سے حلف نہیںلیا۔ اسی طرح بیگم کلثوم نواز نے بھی ضمنی انتخابات جیتنے کے بعد قومی اسمبلی کا حلف نہیں لیا تھا۔ یہ درست ہے کہ کلثوم نواز اس قدر بیمار تھیں کہ وہ پاکستان آکر حلف نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ لیکن ایسا کوئی قانون بھی موجود نہیں تھا جو انھیں حلف اٹھانے پر مجبور کر سکتا۔ اسی طرح اسحاق ڈار بھی جلا وطنی کی وجہ سے حلف نہیں اٹھا سکے۔ لیکن اگر وہ جلا وطن ہی رہتے ہیں اور حلف نہیں اٹھاتے تو سیٹ خالی کیوں نہیں ہو سکتی۔ اب چوہدری نثار علی خان کو ہی دیکھ لیں ان کے حلف نہ اٹھانے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔
آجکل ایسی غیر مصدقہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ چوہدری نثار علی خان پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ حکومت ایک آرڈیننس جاری کرنے جا رہی ہے جس میں ہوگا کہ جو کوئی بھی انتخابات جیتنے کے ساٹھ روز کے اندر حلف نہیں اٹھائے گا اس کی جیت ختم ہو جائے گی اور وہاں دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ اس بارے میں بھی دو رائے ہیں کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ دوبارہ انتخابات کے چکر میں پڑنے کے بجائے دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دیا جائے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ جمہوریت کی بنیادی روح کے منافی ہوگا۔ دوبارہ انتخابات ہی جمہوریت کی روح ہے۔ جو ہار گیا اسے کسی بھی صورت کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ قانون اسحاق ڈار کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد حکومت سینیٹ میں اپنی ایک سیٹ بڑھانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن کیا اسحاق ڈار کا اس طرح ایک سیٹ پر براجمان ہونا جمہوری عمل ہے۔ اگر انھوں نے سینیٹر رہنا ہے تو پاکستان آنا چاہیے۔ اگر جلا وطنی کاٹنی ہے تو سینیٹر ہی نہیں بننا چاہیے۔ آپ پاکستان کی پارلیمان کے رکن بھی بننا چاہتے ہیں اور پاکستان میں رہنا بھی نہیں چاہتے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ اگر آپ حلف لے بھی لیں تو کیا ایوان سے غیر حاضری جائز ہو گی۔
ایک طرف یہ قانون ہے کہ اگر پارلیمان کا رکن گرفتار بھی ہو تب بھی اسے ایوان کی کارروائی میں حصہ لینے کا حق ہے۔ پروڈکشن آرڈر کا قانون اسی لیے بنایا گیا ہے کہ گرفتار رکن پارلیمنٹ بھی پارلیمان کی کارروائی میں مکمل طور پر حصہ لے سکے۔
اس لیے اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ میں گرفتاری کے خوف سے نہیں آرہا اور اس لیے حلف نہیں اٹھا رہا۔یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت نے پروڈکشن آرڈر کے قانون پر من و عن عمل نہیں کیا۔ آپ دیکھیں قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی شہباز شریف کی لمبی قید کے دوران ان کے پروڈکشن آرڈر نہیں جاری کیے گئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ قانون موجود نہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے پروڈکشن آرڈر کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا تھا۔ اور پھر اسپیکر کو پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پڑے تھے۔ اس لیے گرفتار ارکان پارلیمنٹ اپنے فرائض ادا کر سکتے ہیں۔
اب چوہدری نثار علی خان کا کیس سب سے دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے حلقہ میں ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے اس لیے وہ صوبائی اسمبلی کی جیتی ہوئی سیٹ سے بھی حلف نہیں اٹھا رہے۔ اگر آپ سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر دھاندلی ہوئی ہے تو آپ اس ضمن میں عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں لیکن اس موقف میں صوبائی اسمبلی سے حلف نہ اٹھانے کا کیا مقصد ہے۔ آپ دیکھیں اس کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ خالی ہے ۔
دوستوں کا خیال ہے کہ چوہدری نثار علی خان شائد اس لیے حلف لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ ان کے وزیر اعلیٰ بننے کا کوئی امکان پیدا ہو گیا ہے۔ میں ایسا نہیں سمجھتا، ن لیگ ان کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوگی۔ اور عمران خان بھی ایسا نہیں کریں گے۔
آج کے سیاسی حالات میں چوہدری نثار علی خان عمران خان کی چوائس نہیں ہو سکتے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کو کنٹرول کرنا مشکل ہے اور انتخابی سال میں ایسا وزیر اعلیٰ سیاسی طور پر ممکن نہیں۔ ویسے بھی چوہدری پرویز الہیٰ کی موجودگی میں چوہدری نثار علی خان اسٹبلشمنٹ کی چوائس نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اگر چوہدری نثار علی خان نے پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھایا تو وہ کوئی وزیر اعلیٰ بننے کے لیے نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اپنا حلقہ پکا رکھنا چاہتے ہونگے۔ حلقہ میں ضمنی انتخابات ان کے لیے سیاسی اعتبار سے درست نہیں ہے۔
ن لیگ بھی امیدوار دے گی۔ تحریک انصاف بھی امیدوار دے گی۔ ایسے میں اگر چوہدری نثار علی خان اپنی جگہ کسی اور کو کھڑا کر بھی دیتے ہیں تو اس کے ہارنے کے قوی امکانات ہونگے۔ اب تو وہ ماحول بھی نہیں ہے کہ آپ جیپ کا نشان لے کر لوگوں کو تاثر دیں کہ آپ کو اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے بے شک چوہدری نثار علی خان یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حلف نہیں اٹھائیں گے لیکن اگر آرڈیننس آرہا ہے تو انھیں حلف اٹھا لینا چاہیے۔ ان کے لیے یہی بہتر ہے۔ ورنہ ان کا مزید سیاسی نقصان ہو جائے گا۔ سیاست کی گاڑی کسی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر کھڑی نہیں رہتی۔
بہر حال جیتنے کے بعد جان بوجھ کر حلف نہ اٹھانے کی سخت سزا ہونی چاہیے۔ یہ پاکستان کی جمہوریت اور پارلیمان کی توہین ہے۔ ایسے امیدوار کو جو جیت کا جان بوجھ کر حلف نہ اٹھائے اسے تا حیات نا اہل کرنا چاہیے۔ اس سے اس حلقہ میں جتنا بھی خرچ ہوا ہے ۔ تمام وصول کرنا چاہیے اور اگلے انتخابات کا خرچ بھی لینا چاہیے۔ پاکستان کی جمہوریت اور پارلیمان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
کہیں نہ کہیں حکومت کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ڈنڈے اور گن پوائنٹ پر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ ویسے تو حکومت نے انتخابی اصلاحات بذریعہ آرڈیننس شروع کر دی ہیں۔ ایوان صدر کی آرڈیننس فیکٹری سے انتخابی اصلاحات کے آرڈیننس نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔عید سے قبل ایوان صدر سے دو آرڈیننس جاری ہو چکے تھے اور توقع کی جا رہی ہے کہ عید کے بعد مزید آرڈیننس جاری ہونگے۔ یہ آرڈیننس کس قدر کار آمد ہیں۔ ان کے نتائج کتنے مثبت ہونگے۔ ان کے نتیجے میں کیا واقعی انتخابی اصلاحات ممکن ہو سکیں گی۔ یہ سوالات سب کے ذہن میں ہیں۔ تاہم حکومت اور اپوزیشن فی الوقت اس ضمن میں کسی بھی قسم کی باقاعدہ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ کچھ اصلاحات سے اختلاف ممکن ہے تاہم یہ بات کہ انتخابات جیتنے کے ساٹھ دن کے اندر حلف اٹھانا لازمی ہوگا۔ اور اگر جیتنے والے نے ساٹھ دن میں حلف نہیں اٹھایا تو سیٹ دوبارہ خالی تصور ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ درست اور ٹھیک بات ہے۔ ویسے تو ساٹھ دن کا وقت بھی زیادہ ہے۔ لیکن پھر بھی عام انتخابات کے بعد کئی بار اسمبلیوں کے اجلاس بلانے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس لیے ساٹھ روز کا وقت رکھا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو جیتنے والے پر یہ لازم ہونا چاہیے کہ وہ فوری طورپر حلف اٹھائے۔ اس ضمن میں کسی بھی قسم کی تاخیر کی بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
آپ دیکھیں چوہدری نثار علی خان نے آج تک پنجاب اسمبلی کے رکن کا حلف نہیں اٹھایا۔ اسی طرح اسحاق ڈار نے بھی سینیٹ سے حلف نہیںلیا۔ اسی طرح بیگم کلثوم نواز نے بھی ضمنی انتخابات جیتنے کے بعد قومی اسمبلی کا حلف نہیں لیا تھا۔ یہ درست ہے کہ کلثوم نواز اس قدر بیمار تھیں کہ وہ پاکستان آکر حلف نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ لیکن ایسا کوئی قانون بھی موجود نہیں تھا جو انھیں حلف اٹھانے پر مجبور کر سکتا۔ اسی طرح اسحاق ڈار بھی جلا وطنی کی وجہ سے حلف نہیں اٹھا سکے۔ لیکن اگر وہ جلا وطن ہی رہتے ہیں اور حلف نہیں اٹھاتے تو سیٹ خالی کیوں نہیں ہو سکتی۔ اب چوہدری نثار علی خان کو ہی دیکھ لیں ان کے حلف نہ اٹھانے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔
آجکل ایسی غیر مصدقہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ چوہدری نثار علی خان پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ حکومت ایک آرڈیننس جاری کرنے جا رہی ہے جس میں ہوگا کہ جو کوئی بھی انتخابات جیتنے کے ساٹھ روز کے اندر حلف نہیں اٹھائے گا اس کی جیت ختم ہو جائے گی اور وہاں دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ اس بارے میں بھی دو رائے ہیں کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ دوبارہ انتخابات کے چکر میں پڑنے کے بجائے دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دیا جائے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ جمہوریت کی بنیادی روح کے منافی ہوگا۔ دوبارہ انتخابات ہی جمہوریت کی روح ہے۔ جو ہار گیا اسے کسی بھی صورت کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ قانون اسحاق ڈار کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد حکومت سینیٹ میں اپنی ایک سیٹ بڑھانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن کیا اسحاق ڈار کا اس طرح ایک سیٹ پر براجمان ہونا جمہوری عمل ہے۔ اگر انھوں نے سینیٹر رہنا ہے تو پاکستان آنا چاہیے۔ اگر جلا وطنی کاٹنی ہے تو سینیٹر ہی نہیں بننا چاہیے۔ آپ پاکستان کی پارلیمان کے رکن بھی بننا چاہتے ہیں اور پاکستان میں رہنا بھی نہیں چاہتے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ اگر آپ حلف لے بھی لیں تو کیا ایوان سے غیر حاضری جائز ہو گی۔
ایک طرف یہ قانون ہے کہ اگر پارلیمان کا رکن گرفتار بھی ہو تب بھی اسے ایوان کی کارروائی میں حصہ لینے کا حق ہے۔ پروڈکشن آرڈر کا قانون اسی لیے بنایا گیا ہے کہ گرفتار رکن پارلیمنٹ بھی پارلیمان کی کارروائی میں مکمل طور پر حصہ لے سکے۔
اس لیے اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ میں گرفتاری کے خوف سے نہیں آرہا اور اس لیے حلف نہیں اٹھا رہا۔یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت نے پروڈکشن آرڈر کے قانون پر من و عن عمل نہیں کیا۔ آپ دیکھیں قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی شہباز شریف کی لمبی قید کے دوران ان کے پروڈکشن آرڈر نہیں جاری کیے گئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ قانون موجود نہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے پروڈکشن آرڈر کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا تھا۔ اور پھر اسپیکر کو پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پڑے تھے۔ اس لیے گرفتار ارکان پارلیمنٹ اپنے فرائض ادا کر سکتے ہیں۔
اب چوہدری نثار علی خان کا کیس سب سے دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے حلقہ میں ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے اس لیے وہ صوبائی اسمبلی کی جیتی ہوئی سیٹ سے بھی حلف نہیں اٹھا رہے۔ اگر آپ سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر دھاندلی ہوئی ہے تو آپ اس ضمن میں عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں لیکن اس موقف میں صوبائی اسمبلی سے حلف نہ اٹھانے کا کیا مقصد ہے۔ آپ دیکھیں اس کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ خالی ہے ۔
دوستوں کا خیال ہے کہ چوہدری نثار علی خان شائد اس لیے حلف لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ ان کے وزیر اعلیٰ بننے کا کوئی امکان پیدا ہو گیا ہے۔ میں ایسا نہیں سمجھتا، ن لیگ ان کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوگی۔ اور عمران خان بھی ایسا نہیں کریں گے۔
آج کے سیاسی حالات میں چوہدری نثار علی خان عمران خان کی چوائس نہیں ہو سکتے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان کو کنٹرول کرنا مشکل ہے اور انتخابی سال میں ایسا وزیر اعلیٰ سیاسی طور پر ممکن نہیں۔ ویسے بھی چوہدری پرویز الہیٰ کی موجودگی میں چوہدری نثار علی خان اسٹبلشمنٹ کی چوائس نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اگر چوہدری نثار علی خان نے پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھایا تو وہ کوئی وزیر اعلیٰ بننے کے لیے نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اپنا حلقہ پکا رکھنا چاہتے ہونگے۔ حلقہ میں ضمنی انتخابات ان کے لیے سیاسی اعتبار سے درست نہیں ہے۔
ن لیگ بھی امیدوار دے گی۔ تحریک انصاف بھی امیدوار دے گی۔ ایسے میں اگر چوہدری نثار علی خان اپنی جگہ کسی اور کو کھڑا کر بھی دیتے ہیں تو اس کے ہارنے کے قوی امکانات ہونگے۔ اب تو وہ ماحول بھی نہیں ہے کہ آپ جیپ کا نشان لے کر لوگوں کو تاثر دیں کہ آپ کو اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے بے شک چوہدری نثار علی خان یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حلف نہیں اٹھائیں گے لیکن اگر آرڈیننس آرہا ہے تو انھیں حلف اٹھا لینا چاہیے۔ ان کے لیے یہی بہتر ہے۔ ورنہ ان کا مزید سیاسی نقصان ہو جائے گا۔ سیاست کی گاڑی کسی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر کھڑی نہیں رہتی۔
بہر حال جیتنے کے بعد جان بوجھ کر حلف نہ اٹھانے کی سخت سزا ہونی چاہیے۔ یہ پاکستان کی جمہوریت اور پارلیمان کی توہین ہے۔ ایسے امیدوار کو جو جیت کا جان بوجھ کر حلف نہ اٹھائے اسے تا حیات نا اہل کرنا چاہیے۔ اس سے اس حلقہ میں جتنا بھی خرچ ہوا ہے ۔ تمام وصول کرنا چاہیے اور اگلے انتخابات کا خرچ بھی لینا چاہیے۔ پاکستان کی جمہوریت اور پارلیمان سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔