کسان ’فوڈ سکیورٹی‘ کا ضامن۔۔۔ زراعت کے مسائل حل کرنے کیلئے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنا ہوگی
حکومت اور کسانوں کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
پاکستان زرعی ملک ہے اور زراعت ہماری خوشحالی ،برآمدات میں اضافے اور زر مبادلہ کمانے کا اہم ترین ذریعہ ہے یعنی اس شعبے کی ترقی ملکی ترقی کی ضامن ہے۔
کسان، زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اگر کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا اور معیشت مضبوط ہوگی۔ بدقسمتی سے زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم و دیگر اجناس درآمد کی جا رہی ہیں جبکہ کسان کی حالت بھی ابتر ہے اور اسے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ موجودہ حکومت شعبہ زراعت کی ترقی اور کسانوں کے مسائل کے حل کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے، اس کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور کسانوں کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
حسین جہانیاں گردیزی
(صوبائی وزیر زراعت پنجاب)
زرعی شعبے کی ترقی کے لیے زراعت کو صنعت کا درجہ دینا ناگزیر ہے لہٰذا اس کے لیے قانون سازی کریں گے۔ زرعی ترقی ہماری ترجیحات میں شامل ہے ،اس حوالے سے بڑے اقدامات کیے جارہے ہیں اور مختلف مسائل کاجائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔ معیاری بیج کی عدم دستیابی ہمارے کسانوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ماضی میں ہمارے سائنسدانوں نے اچھا کام کیا مگر بدقسمتی سے اب نہیں ہورہا لہٰذا ہم معیاری بیج کی تیاری کے لیے سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، انہیں مراعات دی جارہی ہیں، یہ طے کرلیا گیا ہے کہ جو سائنسدان معیاری بیج تیار کرے گا، اسے اس کی رائلٹی دی جائے گی۔
بدقسمتی سے ریسرچ کے ادارے تباہ ہوچکے، بیشتر اداروں کی عمارتیں مخدوش ہوچکی ہیں جس سے پسماندگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ریسرچ کے بغیر زرعی شعبے کی ترقی اور مسائل کا حل ممکن نہیں لہٰذا ہم ریسرچ پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ 12 برس بعد پنجاب ایگری کلچر ریسرچ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو کی تعیناتی کر دی گئی ہے، ہم تمام متعلقہ اداروں کو سٹریم لائن کر رہے ہیں تاکہ زراعت کو بہتر بنایا جاسکے۔
زراعت میں میکانائزیشن بہت اہم ہے۔ دنیا میں جدید مشینری موجود ہے مگر ہمارے ہاں ٹریکٹر اور مقامی تیار کردہ آلات کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ جدید مشینری کی تیاری اور زرعی شعبے کو ''اپ لفٹ'' کرنے کیلئے ہم نے انجینئرز سے کہا ہے کہ وہ جدید مشینری منگواکر ریورس انجینئرنگ کریں، یہاں مشینیں تیار کریں اور کسانوں کو سہولیات دیں۔ ہمارے ہاں فی ایکٹر 40 سے 50 کلو گندم بوئی جاتی ہے، اگر جدید مشینری ہو تو 15 کلو سے ہی اتنی فصل اُگائی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے سابق حکومتوں نے زراعت پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے اس شعبے کا برا حال ہوا۔ کسان کی حالت بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوئی۔ ہماری توجہ کسان کی حالت بہتر کرنے اور زراعت کے شعبے کو ترقی دینے پر مرکوز ہے، یقین ہے اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔
زراعت، جی ڈی پی کا 20 فیصد ہے جبکہ 45 فیصد لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے، اگر اس میں سے آدھے بھی بے روزگار ہوجائیں تو ملک میں قیامت آجائے گی۔ ہمیں زراعت کی اہمیت کو ہائی لائٹ کرنا ہوگا اور کسانوں کو عزت دینا ہوگی۔ گندم بحران کی وجہ سے سب کو خدشہ تھا کہ بیج نہیں ملے گا مگر ہم نے محنت کی اور کم ریٹ پر فراوانی سے بیج مہیا کیا،ہم نے کھاد کی دستیابی بھی یقینی بنائی اور یہ خوش آئند ہے کہ اس مرتبہ گزشتہ برس کی نسبت اس کی بوائی زیادہ ہوئی ہے۔
بھارت باسمتی رائس کو اپنی پراڈکٹ قرار دلوانے کیلئے یورپی یونین گیا ہے، میری نشاندہی پر اس مسئلے کوحکومت پاکستان نے ''ٹیک اپ'' کیا ہے اور اب اس کی پیروی کی جا رہی ہے۔ کپاس ہمارا ''وائٹ گولڈ'' ہے جس کی پیداوار عدم توجہی کی وجہ سے کم ہوگئی، کپاس کی سب سے لمبی ویلیو چین ہے جس سے بے شمار کاروبار چلتے ہیں اور لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ ہم اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لہٰذا اس کی دوبارہ بحالی پر کام جاری ہے جس سے یقینا ملک و قوم کا فائدہ ہوگا۔
خالد محمود کھوکھر
(صدر پاکستان کسان اتحاد )
کسان سب سے زیادہ محب وطن ہیں، ان کا جینا ،مرنا، اولاد، جائیداد، تعلیم صحت، ایمان ،سب کچھ پاکستان میں ہے۔ کاشتکار ،فوڈ سکیورٹی کا ضامن ہے۔ 9/11 اور ایٹمی دھماکوں کے بعد ہم پر لگنے والی پابندیوں، دہشت گردی کی طویل جنگ اور کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن میں کسانوں نے دن رات محنت کی اور کسی کو بھی بھوک سے مرنے نہیں دیا مگر افسوس ہے کہ کسان کی اپنی حالت خراب ہے، اس کا خاندان تعلیم، صحت و دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہے لہٰذا کسانوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے زرعی ایمرجنسی نافذ کرنا ہوگی۔
ہماری پیداواری لاگت زیادہ ہے، گندم کے علاوہ کسی فصل کی سپورٹ پرائس نہیں جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں کسانوں کو 30 کے قریب اجناس پر سپورٹ پرائس ملتی ہے، مفت بجلی اور اربوں روپے کی سبسڈی الگ ہے، ہمارے ہاں بھی اجناس پر سپورٹ پرائس اور سبسڈی دینی چاہیے۔ بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے زراعت پر توجہ نہیں دی، زراعت پر عدم توجہ کا مطلب پاکستان پر توجہ نہ دینا ہے۔ موجودہ حکومت نے کسانوں کو وزیر لگایا ہے لہٰذا امید ہے یہ کسانوں کے مسائل حل کریں گے۔
کورونا وائرس کی مشکل گھڑی میں وزیراعظم نے 1200 ارب کی سبسڈی دی جس میں سے 50 ارب کسانوں کے لیے رکھے گئے مگر افسوس ہے کہ تاحال کاشتکاروں کو یہ رقم نہیں مل سکی۔ کپاس ہمارا وائٹ گولڈ ہے مگر اس پر توجہ نہ دینے سے اس کا تقریباََ خاتمہ ہوچکا ہے،اگر اب اس فصل کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی جائے تو کم از کم 6 برس لگیں گے۔
2019ء میں کپاس پر سپورٹ پرائس دینے کی قرارداد منظور ہوئی مگر اس پر کچھ نہیں ہوسکا، مافیاز جیت گئے اور پارلیمنٹ ہار گئی ۔ ہماری معیشت کا دارومدآر زراعت پر ہے ، کسان ملک کو مضبوط کرتا ہے مگر اس کی اپنی عزت ہے اور نہ ہی اسے سہولیات مل رہی ہیں لہٰذا کسان کو عزت دی جائے۔ زراعت کی بہتری کیلئے ریسرچ کے شعبے کو بہتر کیا جائے، بیج پر کام کیا جائے، پیداواری لاگت کم کی جائے، کسانوں کو جدید سہولیات دی جائیں اور مارکیٹنگ میکنزم بھی بنایا جائے۔
سپنا اوبرائے
(ڈائریکٹر فارمرز ایوسی ایشن آف پاکستان)
کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے لاک ڈاؤن سے لے کر اب تک، سبزی منڈیاں، دودھ اور فروٹ وغیرہ کی دکانیں کھلی رہی، اب بھی کھلی ہیں اور وہاں ہر چیز وافر مقدار میں موجود ہے۔ کورونا وائرس کی مشکل گھڑی میں اصل فرنٹ لائن سولجرز کسان ہیں جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دن رات کام کر رہے ہیں اور لوگوں کی خوارک کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔
ملکی زراعت کا 70 فیصد انحصار زراعت پر ہے مگر ملک میں کوئی زرعی پالیسی نہیں ہے۔ یہاں زرعی یونیورسٹیاں بھی بنی مگر افسوس ہے کہ کوئی کام نہیں ہورہا، بیج باہر سے آرہا ہے جبکہ گندم روس سے درآمد کی جارہی ہے جو ایک زرعی ملک کے لیے افسوسناک ہے۔ اگر کسان کو فری ہینڈ دیا جائے تو تمام اجناس سرپلس ہوجائیں گی۔ فخر امام اور حسین جہانیاں گردیزی کو وزیر بنایا گیا تو خوشی ہوئی کہ یہ ہم میں سے ہیں اور اب ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
گندم کے بیج کے مسئلے کا خدشہ تھا تو حسین جہانیاں گردیزی نے محنت کی اور سب کو بروقت بیج ملا۔کسان خود پرآسائش زندگی نہیں گزار سکتا مگر جن لوگوں کو پرآسائش زندگی دیتا ہے وہ اس کی قدر نہیں کرتے بلکہ ہمیں ''پینڈو'' کہا جاتا ہے۔ بھارتی کسانوں کو 23 اجناس پر سبسڈی ملتی ہے، اب وہ 3 بلز کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ، سب ان کے ساتھ کھڑے ہیں، وہاں ایک صوبہ اٹھا تو پورے ملک نے ان کا ساتھ دیا، وہ سمجھتے ہیں کہ رزق ہمیں خدا نے دیا ہے مگر ذمہ داری کسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے۔
جتنا ٹیکس کسان دیتا ہے کوئی اور نہیں دیتا، روڈ ٹیکس، ٹول ٹیکس، تیل، کھاد، کیڑے مار ادویات و دیگر اشیاء پر ٹیکس کسان پر بوجھ ہے، پانی کے حوالے سے مسائل علیحدہ ہیں۔ سرکاری افسران کی جانب سے ناجائز جرمانے و معاملات الگ ہیںجبکہ کسان کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی ۔ ٹڈی دل میں کسانوں کی فصلیں تباہ ہوئیں مگر کسی نے نہیں پوچھا، اسی طرح جب وائرس آتا ہے تب کوئی نہیں بتاتا مگر جب باغ تیار ہوجاتا ہے تو کسانوں کو وائرس کا کہہ دیا جاتا ہے۔
افسوس ہے کہ نقصان کسان کا ہوتا ہے اور فائدہ فیکٹریاں اٹھالیتی ہے۔ کسانوں کے مسائل حل کیے جائیں، انہیں سہولیات دی جائیں اور کھاد پر سبسڈی دی جائے۔ کسان محب وطن ہیں، اس کی جرت اپنی زمین سے ہے لہٰذا اگر حکومت کچھ نہ بھی دے تو کسان کہیں نہیں جائے گا۔ فصل تباہ ہو تو کسان دوبارہ لگاتا ہے، قرض لیا ہو تو زمین کا ٹکڑا بیچ کر رقم ادا کرتا ہے مگر کاشتکاری نہیں چھوڑتا، ہمیں امید ہے کہ اب ہم نے جنہیں چنا ہے وہ ہم میں سے ہیں، انہیں ہمارے مسائل کا درست ادراک بھی ہے لہٰذا اب ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ زراعت کو صنعت کا درجہ دینے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ ہے لہٰذا زراعت کو صنعت کا درجہ دیکر کسانوں کے مسائل حل کیے جائیں، یہ ملک کیلئے بھی بہتر ہوگا۔