پاکستان میں سنجیدہ تجارتی پالیسی اور حکمت عملی کا فقدان

ان شعبوں پر توجہ کیوں نہیں جنھیں ٹیکسٹائل کی طرح سبسڈیز اور تحفظ کی ضرورت نہیں

تجارتی پالیسی ٹویٹس اور ٹیکسٹائل سے آگے نکل کر فعال اور بروقت اقدامات پر مبنی ہونی چاہیے ۔ فوٹو: فائل

پاکستان بین الاقوامی تجارت سے دراصل کیا حاصل کرنا چاہتاہے اس بارے میں طویل مدتی اہداف، حکمت عملی اور متعلقہ پالیسی اقدامات کُلی طور پر واضح نہیں ہیں۔

ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ تمام عالمی مارکیٹیں پاکستان کے لیے کھلی ہیں، تو ہم کسے اور کیا برآمد کرسکتے ہیں اور ہماری سپلائی کی گنجائش کیا ہے؟ کیا ہمیں دیگر مسابقتی مارکیٹوں میں لاک ڈاؤن کے بعد آرڈرز میں عارضی اضافہ ہونے پر خام مال اور افرادی قوت کی کمی کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ' ہاتھ پاؤں پھول جانا' یاد نہیں۔


اگر خام مال ، کپاس اور افرادی قوت کی کمی نہ بھی ہو تو بھی کیا ٹیکسٹائل سیکٹر کی انسٹالڈ کپیسٹی کتنی ہے؟ ہم ان شعبوں کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے جنھیں ٹیکسٹائل کی طرح سبسڈیز اور تحفظ کی ضرورت نہیں ہے ، مثال کے طور پر خدمات اور زرعی خوراک کے شعبے۔ ہم نئی مارکیٹیں کیوں تلاش نہیں کرسکتے؟ ہم نتیجہ خیز کمرشل ڈپلومیسی اپروچ کیوں نہیں اپناتے۔ دوسری بات یہ کہ ٹریڈ ڈپلومیسی کس کی ذمہ داری ہے، وزارت خارجہ یا پھر وزارت تجارت کی؟ مخصوص اور منتخب شدہ اعدادوشمار کے ساتھ ( بالخصوص ٹیکسٹائل سے متعلق) ٹویٹس کے تسلسل اور گذشتہ مالی سال سے موازنے کے علاوہ، جبکہ عالمی سطح پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں بے حد محدود تھیں۔

پاکستان میں کوئی سنجیدہ تجارتی حکمت عملی یا پالیسی اقدامات نظر نہیں آتے۔ طویل عرصے سے سننے میں آرہا ہے کہ وزارت تجارت اسٹریٹجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک ( ایس ٹی پی ایف) پرکام کررہی ہے مگر پچھلے تین سال میں اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں پاکستان نے دوطرفہ تجارت کا کوئی معاہدہ نہیں کیاجبکہ موجودہ صورتحال میں ممالک علاقائی اور دوطرفہ مارکیٹیں تلاش کررہے ہیں۔

ہمارے ہمسایہ ممالک نے سب سے بڑا علاقائی تجارت کا معاہدہRCEP تشکیل دیا مگر ہم نے اس میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کی۔ ہم بریگزٹ کے بعد برطانیہ سے ڈیل کرنے کی کوشش کرسکتے تھے مگر نہیں کی۔ اور اب یورپی پارلیمان میں منظورشدہ قرارداد کی وجہ سے جی ایس پی پلس اسٹیٹ کی توسیع میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ تجارتی پالیسی ٹویٹس اور ٹیکسٹائل سے آگے نکل کر فعال اور بروقت اقدامات پر مبنی ہونی چاہیے۔
Load Next Story