کشمیر اورفلسطین
دنیا کا کوئی ایسا جنگی محاذ نہیں جس میں مسلمان نشانہ نہ بن رہے ہوں۔
عالمی طاقتیں پاکستان کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد اور مسلمہ ایٹمی طاقت ہے جو ان طاقتوں کو کسی صورت قبول نہیں ہے۔ پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی دشمن بھی ورثے میں مل گیا یہ ورثہ انگریز چھوڑ گیا اور ایسی مضبوط منصوبہ بندی کر گیا کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ ہے۔
قیام پاکستان کے بعد عالمی طاقتیں نوزائیدہ بھارت کی حمایت نہ کرتیں تو آج کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے دنیا باخبر ہے لیکن چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ گزشتہ دوبرس سے کشمیری بھارت کے جابرانہ قبضہ کا شکار اور اپنے ہی گھروں میں محصور ہیں ۔
بااثر قوتیں پاکستان کو دنیا کے لیے ایک خطرناک ملک کے طورپر پیش کرنے اور اسے اپنے زیر اثر رکھنے کے لیے نت نئے منصوبے تراشتی رہتی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوارلٹکانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ان عالمی مخالفانہ کارروائیوں نے ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور ہماری بااختیار صفوں میں اپنے ایجنٹ گھسا دیے ہیں جو قومی نجات کی ہرکوشش کو سبوتاژ کر دیتے ہیں۔ ہماری ترقی کے راستوں میں دہکتے ہوئے انگارے بچھے ہیں اور ہم بڑی مشکل سے زندگی کاٹ رہے ہیں۔
ہمارے ناگوار اور ناپسندیدہ حادثات سے بھرے ہوئے برتن میں ایک قطرے کی بھی گنجائش نہیں ہے ،کجا کہ ہم کسی قسم کی معاشی پابندی کو برداشت کر سکیں لیکن ایک مجبور اور قرض دار ملک اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے کہ وہ ساہوکاروں کی شرائط پر من و عن عمل کرے۔
دنیا کا کوئی ایسا جنگی محاذ نہیں جس میں مسلمان نشانہ نہ بن رہے ہوں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ غیر مسلم عالمی طاقتیں جنگ کا ہر محاذ مسلمانوں کے خلاف ہی کھولتی ہیں، اس میں کسی مخصوص خطے کی تفریق نہیں ہوتی، مسلمانوں کے خلاف یہ کام بلا تفریق ہوتا ہے۔
افغانستان ہو ، عراق ہو یا افریقہ ہو ، چیچنیا ہو، یورپ کے مسلمان ملک ہوں، ایران ہو، ترکی ہو یا پاکستان ، ہر ملک میں مختلف حکمت عملی سے مسلمانوں کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں۔ تازہ ترین آگ اسرائیل نے فلسطین میں بھڑکائی ہے اور صیہونی فوج نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی مسلمان مرد وخواتین اور بچوں کو شہید کرنے کے ایک نئے سلسلے کا آغاز کیا ہے ۔ اس پر مسلمان ممالک نے زبانی کلامی مذمتی بیانیوں کے علاوہ کسی ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا ہے۔ عرب دنیا بھی شاید اس لیے خاموش ہے کہ کچھ عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی روابط کا آغاز کیا ہے۔
اسرائیل دنیا کے نقشے پر ایک نقطہ کی صورت میں موجود ہے لیکن اس کو امریکا بہادر کی اعلانیہ حمایت حاصل ہے اسرائیلی یہودیوں نے امریکی کی معیشت میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں۔ آسان لفظوں میں اسرائیل نے امریکا کی مشکیں کس رکھی ہیں اور وہ ان کو ڈھیلا کرنے پر تیار نہیں بلکہ اب وہ اتنا آگے نکل چکا ہے کہ وہ امریکا کو آزاد نہیں کر سکتا اور امریکا کی مجبوری بن چکا ہے ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین کی موجودہ صورتحال پر اسرائیل کی امریکی حمایت اس کا کھلم کھلا اظہار ہے۔
جس طرح بھارت نے پاکستان کی طرف سے مطمئن ہوکر کشمیریوں کاقتل عام جاری رکھا ہوا ہے، اسی طرح اسرائیل ایک عرصہ سے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے اور ان کی باقی ماندہ زمینوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو ایک پائیدار حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔
مسلم دنیا کے بڑوں کواپنے باہمی اختلافات بھلا کر اس نازک موقع پر یک زبان ہو کر اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑا ہو جانا چاہیے اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مذمتی قراردادوں سے نکل کر عملی قدم اٹھاتے ہوئے فلسطین اور کشمیرکی تازہ ترین صورتحال پر ایک ایسی حکمت عملی مرتب کرنی ہو گی جس پر عمل درآمد بھی ممکن ہو اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب مسلمان حکمران متحد ہوں۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسرائیل اپنی سلامتی کی خاطر دور و نزدیک کی مسلم دنیا میں بے بسی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھنا چاہتا اور اس مقصد کے لیے اسے امریکا جیسا کارگر اور مضبوط ہتھیار بھی میسر ہے۔ اس طر ح بظاہر مسلمان دنیا پر بڑا بھاری وقت آیا ہوا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک اس کے جوان خوفزدہ نہیں ہوئے ، اس کے بزرگ اپنی سوچوں میں مسلمان ہیں، اس کی خواتین جذبہ جہاد سے سرشار بہادر بیٹے جن رہی ہیں۔
پتھروں سے لیس فلسطینی آزادی کی جنگ جس بہادری سے لڑ رہے ہیں اس کا اندازہ آپ اس نوجوان لڑکی کی تصویر سے لگا سکتے ہیں جو اسرائیلی فوجیوں کی بربریت سے ذرہ برابر بھی خوفزدہ دکھائی نہیں دیتی اوراس کی مسکراہٹ ان کا مذاق اڑا رہی ہے ۔ ایسی بہادر قوم کو شکست دینا اسرائیل یا اس کے کسی آقا کے بس میں نہیں ہے ۔