ممتا بنرجی… سیکیولر قوتوں کی آواز

کمیونسٹ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ بنگال میں زرعی اصلاحات تھیں۔

tauceeph@gmail.com

ادیب ، موسیقار اور مصور ممتا بنرجی تیسری دفعہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئیں۔ ممتا بنرجی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہیں جنھوں نے ایک دفعہ پھر ریاستی انتخابات میں ہندو توا کے نعرہ کو شکست دی ہے اور بھارت کی سیکیولر قوتوں کے لیے امید کی کرن بن گئی ہیں۔

ممتا بنرجی 5 جنوری 1955 کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے 15 سال کی عمر سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ ممتا بنرجی جو ''دیدی'' کے نام سے مشہور ہیں انھوں نے Jogamayr Dev College میں تعلیم حاصل کی اور اسی کالج میں کانگریس کی طلبہ تنظیم یونین میں متحرک ہوئیں اور بھارتی کمیونسٹ پارٹی کی طلبہ تنظیم آل انڈیا ڈیموکریٹک آرگنائزیشن کو شکست دی۔ وہ 1998 تک کانگریس میں متحرک رہیں اورکوئلہ کے امورکی وزیر بنیں۔ وہ انسانی وسائل کی ترقی ، کھیلوں ، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر بنیں اور 1998 میں کانگریس سے علیحدہ ہوئیں۔

All India Trinamool Congress (AITC) قائم کی۔ ممتا بنرجی نے شادی نہیں کی۔ ان کے قریبی ذرایع کہتے ہیں کہ کالج کے دور میں ان کا افیئر ہوا تھا مگر وہ سیاست میں مشغول ہوگئیں اور ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز کانگریس سے ہوا۔ 1984 میں بنگال سے لوک سبھا کے انتخاب میں کامیاب ہوئیں۔

1991کی نرسما راؤ سرکار میں وزیر بنیں اور 1993 تک عہدہ پر فائز رہیں۔ ممتا بنرجی نے 1997 میں مشرقی بنگال میں انڈین نیشنل کانگریس سے علیحدگی اختیار کر کے ترنومول کانگریس قائم کی۔ جلد ہی ان کی پارٹی صوبہ کی اہم حزب اختلاف کی جماعت کے طور پر ابھری۔ 1999میں این ڈی اے حکومت میں شامل ہوئیں اور وزیر ریلوے بنیں اور کئی وزارتوں کی وزیر بنیں۔ مغربی بنگال میں 30 سال سے زائد عرصہ تک کمیونسٹ پارٹی مارکسٹ اور لیفٹ اتحادی تنظیموں کی حکومت تھی۔

اس کمیونسٹ پارٹی نے 2001 میں جب ریاست میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا۔ممتا بنرجی کی جماعت اور مخالف جماعتوں نے کسانوں کے ساتھ مل کر ایک احتجاجی تحریک شروع کی۔ اس احتجاج کی بناء پر کمیونسٹ حکومت کو ٹاٹا کار پروجیکٹ منسوخ کرنا پڑا۔ (اس وقت مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، انھوں نے ٹا ٹا کمپنی کو گجرات میں پلانٹ لگانے کی دعوت دی اور یہ پلانٹ لگ گیا) مگر ممتا بنرجی کی جماعت کو اس تنازعہ سے فائدہ ہوا۔ وہ 2011 میں مغربی بنگال کی پہلی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئیں۔

ممتا بنرجی ایک معروف مصنف اور آرٹسٹ ہیں۔ ان کی 90 سے زیادہ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ ان کی تصاویر کی قیمت 90 ملین روپے بتائی جاتی ہے۔ وہ ایک بہترین اورکامیاب موسیقار ہیں۔ مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ کی تنخواہ 2 ہزار ڈالر ماہانہ کے قریب ہے مگر ممتا بنرجی کہتی ہیں کہ انھوں نے کبھی لوک سبھا کے رکن کی حیثیت سے الاؤنس ، وفاقی وزیر اور وزیر اعلیٰ کی تنخواہیں وصول نہیں کی ، وہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اپنے ذاتی اخراجات بھی خود ادا کرتی ہیں۔ ان کا گزارا 90 کے قریب کتابوں سے ملنے والی رائلٹی سے ہوتا ہے۔

مغربی بنگال بھارت کے مشرقی حصہ کی ایک ریاست ہے۔ بنگلہ دیش اور مغربی بنگال تاریخی خطہ بنگال کا حصہ ہیں۔ اس کے مشرق میں بنگلہ دیش ہے۔ شمال مشرق میں بھوٹان اور بھارتی ریاست آسام ، شمال میں سکم ، شمال مغرب میں نیپال ، مغرب میں بہار اور جھاڑ کھنڈ اور جنوب مغرب میں اڑیسہ ہے۔ خطہ بنگال اپنی تاریخ میں مختلف سلطنتوں کا حصہ رہنے کے بعد بالآخر 1757 کی جنگ پلاسی کے نتیجہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرِ انتظام آیا جب کہ اس دوران کافی عرصہ تک برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت رہا۔

1947 میں بنگال کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ مغربی بنگال بھارت کے کل رقبہ کا صرف 2.7 فیصد ہے۔ بھارت کی کل آبادی کا 7.8 فیصد یہاں آباد ہے۔ بنگال تاریخی طور پر حریت پسندوں کے حوالے سے تاریخ میں پایا جاتا ہے۔


عرب تاجروں نے بنگال میں اسلام پھیلانے میں اہم کردار اد کیا۔ مغلوں نے 1576میں بنگال پر قبضہ کیا مگر مغل بادشاہ اورنگزیب برسوں بنگال میں جنگ میں مصروف رہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانوی ہند حکومت میں بنگال کے مختلف حصوں میں مزاحمتی تحریکیں منظم ہوتی رہیں۔ برطانوی ہند حکومت کی ناقص پالیسی کی بناء پر 40ء کی دہائی میں بنگال میں خوفناک قحط پڑا۔ یہ اتنا برا زمانہ تھا کہ غریب لوگ کلکتہ کی سڑکوں پر خوراک نہ ملنے کی بناء پر مررہے تھے۔ ایک محتاط انداز ہ کے مطابق تقریباً 20 لاکھ افراد اس قحط کی نذر ہوئے۔

نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امریتا سین کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ غذائی اشیاء کی قلت نہیں بلکہ حکومت کی بد انتظامی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری گوداموں میں چاول اور گندم موجود تھی مگر حکومت نے یہ اشیاء عوام میں سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت تقسیم نہیں کیں۔

بٹوارہ کے وقت بنگال بدترین مذہبی فسادات کا شکار ہوا جس میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے۔ جب 60ء کی دہائی میں چین اور سوویت یونین کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو پوری دنیا میں کمیونسٹ پارٹیاں تقسیم ہوگئیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں بھی تقسیم ہوئی اورکمیونسٹ پارٹی مارکسٹ (CPIM) سی پی آئی ایم کے نام سے کمیونسٹوں نے ایک علیحدہ جماعت بنائی۔

جیوتی باسو سی پی آئی کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ سی پی آر ایم بنیادی طور پر بنگال ، تری پورہ، کیرالہ میں زیادہ مضبوط رہی۔ 1977 میں کمیونسٹ پارٹی مارکسٹ کی قیادت میں لیفٹ فرنٹ نے مغربی بنگال میں حکومت قائم کی تھی۔ کمیونسٹ لیڈر جیوتی باسو پہلے کمیونسٹ وزیر اعلیٰ بنے۔ لیفٹ فرنٹ کی حکومت 2007 تک رہی۔ کمیونسٹ پارٹی کے وزیر اعلیٰ جیوتی باسوکا تعلق امیر برہمن خاندان سے تھا مگر انھوں نے اپنی تمام زندگی کمیونسٹ پارٹی کے لیے وقف کردی تھی۔

کمیونسٹ حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ بنگال میں زرعی اصلاحات تھیں۔ کمیونسٹ حکومت نے نچلی سطح تک اختیارکی منتقلی کے لیے تین سطحوں کا بلدیاتی نظام نافذ کیا تھا۔ زرعی اصلاحات کے نتیجہ میں بڑے زمینداروں کا خاتمہ ہوا اور لاکھوں کسانوں کو زرعی زمین میسر آئی ، یوں ایک خاموش انقلاب برپا ہوا تھا۔ اس طرح مزدوروں کے حقوق کے لیے بنیادی قوانین نافذ کیے گئے تھے۔

کمیونسٹ دور میں جنس اور مذہب کی بنیاد پر امتیازکا خاتمہ ہوا تھا۔ سی پی آئی ایم کی ان اصلاحات کا سب سے زیادہ فائدہ نچلے طبقے کے دلت باشندوں کو ہوا تھا ، جب کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ ہوا تو مغربی بنگال کی 84 فیصد زرعی اراضی کے مالک 2.5 ایکڑ سے 15ایکڑ والے غریب کسان تھے۔ اسی طرح تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب خواتین کو زمینوں کے مالکانہ حقوق حاصل ہوئے تھے۔ کمیونسٹ حکومت کی سیکیولر پالیسی کے نتیجے میں بنگال میں مذہبی فسادات نہیں ہوئے۔

سینئر صحافی سعید حسن خان اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کمیونسٹ حکومت کے دور میں بدنظمی، بد امنی اور کرپشن کی شکایات ملنے لگیں۔ سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی نہ کرنے کی بناء پر روزگارکے مواقعے کم ہوگئے جس سے سب سے زیادہ متوسط طبقہ متاثر ہوا۔ ایک مسلمان نوجوان کو برہمن لڑکی سے پسندکی شادی پر قتل کیا گیا مگر پولیس نے اس قتل پر توجہ نہ دی۔ مسلمان کمیونسٹ حکومت سے دور ہوئے۔ کمیونسٹ پارٹی پر انتہا پسندوں کا غلبہ ہوا اور جیوتی باسو جیسے لوگ مایوس ہوئے۔

بنگال کی حکومت نے ریاست میں نجی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک نجی ادارہ ٹا ٹا کارکمپنی کو پلانٹ لگانے کے لیے زمین دی جس پر سخت احتجاج ہوا۔ ممتا بنرجی اس احتجاج میں ابھر کر سامنے آئیں۔ انھوں نے کمیونسٹ دورکے 34 برسوں کی پالیسیوں کی خرابیوں کو بھرپور طور پر اجاگر کیا۔ ممتا بنرجی کی جماعت ایک سیکیولر جماعت ہے، یوں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے ہندو توا کے اثرات کو روکنے کے لیے ممتا بنر جی کی جماعت سے کوئی مفاہمت نہیں کی۔

اس لیے گزشتہ ماہ ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی کوئی نشست حاصل نہ کر پائی اور اس کی اتحادی کانگریس کو ایک نشست ملی۔ ممتا بنرجی اپنی نشست ہار گئیں مگر ان کی جماعت نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست سے ہمکنارکیا ، یوں ممتا بنرجی سیکیولر قوتوں کی امید بن گئیں۔ ممتا بنرجی کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بنگال میں جنتا پارٹی کوکامیاب نہیں ہونے دیں گی۔ اب اگر بھارت کی سیکیولر قوتیں حالات کا درست تجزیہ کرتی ہیں اور ممتا بنرجی کے ساتھ ایک متحدہ محاذ قائم کرتی ہیں تو آیندہ چناؤ میں ہندو انتہاپسندی کو شکست ہوسکتی ہے۔
Load Next Story