جہانگیر ترین شہباز شریف حکومت کیلئے بڑے سیاسی چیلنج

وزیر اعظم عمران خان کو سیاسی محاذ پر ،جہانگیر ترین اور شہباز شریف کی صورت میں دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو سیاسی محاذ پر ،جہانگیر ترین اور شہباز شریف کی صورت میں دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔فوٹو : فائل

ملکی سیاست میں جس طلاطم خیزی کا آغاز رمضان المبارک سے قبل ہوا تھا اس میں ماہ مقدس رمضان المبارک کی وجہ سے آنے والا تعطل ختم ہو گیا ہے ،حکومت اور اپوزیشن تازہ دم ہو کر ایکدوسرے کے خلاف صف آراء ہو چکی ہیں اور آئندہ ماہ بجٹ کی منظوری تک کئی سیاسی تبدیلیاں بھی متوقع ہیں جبکہ حکومت بھی اپنا تمام زور لگانے کو تیار ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو سیاسی محاذ پر ،جہانگیر ترین اور شہباز شریف کی صورت میں دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے میاں شہباز شریف کو ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی اجازت کے بعد حکومت نے اپنے ماتحت اداروں کے ذریعے شہباز شریف کو ایئرپورٹ پر روکا اور اب ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کردیا گیا ہے۔

مسلم لیگ(ن) نے حکومتی اقدامات کو عدالت میں چیلنج کردیا ہے اور بادی النظر میں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے حکومت کو معلوم ہے کہ آخر کار میاں شہباز شریف بیرون ملک جانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن حکومت اپنے اقدامات اور بیان بازی کے ذریعے اس تاثر کو مضبوط اور مقبول بنانا چاہتی ہے کہ میاں شہباز شریف کو کسی اور نے جانے دیا ،حکومت نے تو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔

اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے برعکس میاں شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات آج بھی عمدہ ہیں اور براہ راست روابط بھی بحال ہیں۔ حکومت اس خوف کا شکار ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے بعد اب میاں شہباز شریف کی پنڈی والوں سے بڑھتی ہوئی قربت ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے بالخصوص میاں شہباز شریف کے حوالے سے حکومت کو زیادہ تشویش ہے ۔حکومت میاں شہباز شریف کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کرے گی جو کہ میاں نواز شریف کے جانے سے شدید متاثر ہوئی تھی۔

دوسری جانب میاں شہباز شریف سمیت اپوزیشن حکومت کی انتقامی کارروائیوں کو اپنے بیانیہ کا مرکز بنائے گی جبکہ سب سے حساس اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود میاں شہباز شریف کو روکنے کی خاطر حکومت کی غیر معمولی مزاحمت سے حکومت اور عدلیہ کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا جبکہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان پہلے سے گرم سرد تعلقات کی نوعیت میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے ۔

ایک بات واضح ہے کہ میاں شہباز شریف کو مقتدر طاقتوں کی ''پسندیدگی'' بدستور حاصل ہے جبکہ قوی امکان ہے کہ میاں شہباز شریف اگر بیرون ملک گئے تو اپنی مقررہ مدت میں واپس لوٹ آئیں گے کیونکہ ان کی واپسی حکومت کے ایک مخصوص بیانیہ کا خاتمہ تصور ہو گی۔مسلم لیگ(ن) کی اندرونی سیاست بھی نشیب وفراز کا شکار ہے۔

میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اختیار کیئے ہوئے ہیں بالخصوص مریم نواز کا ریاستی اداروں کی قیادت کے بارے نہایت سخت موقف ہے جس کا اظہار وہ کرتی رہتی ہیں لیکن ابھی تک ان کی جارحانہ رویے نے ن لیگ کو فائدہ تو کوئی نہیں پہنچایا تاہم نقصان ضرور ہوا ہے۔

دوسری جانب ن لیگ کے بہت سے سینئر رہنماوں کو بھی مریم نواز کی جارحانہ حکمت عملی پر تحفظات ہیں اور بہت سے اہم ترین رہنما طویل عرصہ سے خاموش ہیں۔ن لیگی قیادت کی نمایاں اکثریت یہ موقف رکھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں ''ریڈلائن'' کراس نہیں کرنی چاہیے ۔یہ درست ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف نے اپنا ووٹ بنک بنایا ہے لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ آج بھی پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ(ن) ہے۔


اس کا ایک ثبوت گزشتہ کچھ عرصہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔وزیر اعظم عمران خان تمام تر سیاسی ،معاشی اور انتظامی نقصان برداشت کرنے کے باوجود پنجاب میں وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو قائم رکھنے کی ضد پر قائم ہیں لیکن ان کی یہ ہٹ دھرمی خود ان کی حکومت اور جماعت کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے ۔

پنجاب کے دارلحکومت میں سردار عثمان بزدار کی ناک کے نیچے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر موجود ہیں اور حکومت باغوں کے شہر کی صفائی کا موثر نظام بنانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے، رہائشی علاقوں کے پارکس اجڑ چکے ہیں ،گھاس جل چکی اور پودے کملا چکے ہیں ،سوسائٹیوں کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں ،پیچ ورک جیسا معمولی کام بھی بڑی سفارش کروانے کے بعد ہوتا ہے۔

سڑکوں پر تجاوزات کی بھرمار ہے لیکن متعلقہ ٹاون انتظامیہ کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی ۔یہ سب کچھ لاہور میں ہو رہا ہے جہاں وزیر اعلی بھی موجود ہیں، گورنر بھی اور چیف سیکرٹری بھی جبکہ اس شہر سے تعلق رکھنے والے وفاقی وصوبائی وزراء، معاونین اور ارکان اسمبلی کی فوج ظفر موج بھی موجود ہے، پنجاب کے دیگر اضلاع کی صورتحال اس سے بھی ابتر ہے لیکن وزیر اعظم کو سب اچھا معلوم ہوتا ہے اور وہ اپنی تقاریر میں پنجاب حکومت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔

وزیر اعظم عمران خان اقتدار سنبھالنے کے بعد سے آج تک اپنے سیاسی مخالفین کے بارے سوچ رہے ہیں اور حکومتی کارکردگی اور عوامی رائے سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کیلئے تباہی کا سبب ہوگا۔تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی ،ٹکٹ ہولڈر ، پارٹی رہنما اور کارکنان اس تمام صورتحال سے پریشان ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہو رہی کیونکہ اس وقت پارٹی اور حکومت کی سطح پر ایک مخصوص سوچ کا ٹولہ حاوی ہے ،جو اپنی استعداد کے مطابق ''کارروائیاں'' ڈال رہا ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان بظاہر ''سیز فائر'' دکھائی دیتا ہے لیکن ابھی معاملات ''ریڈ زون'' سے باہر نہیں آئے ہیں۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر سینیٹر علی ظفر نے شوگر سکینڈل میں جہانگیر ترین کے کردار ،ایف آئی اے مقدمات بارے تمام متعلقہ افراد سے ان کا موقف معلوم کیا ہے، ایک غیر جانبدار مشاہدے کی بنیاد پر اپنی رائے بھی قائم کی ہے اور اب وہ آئندہ چند روز میں یہ رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کریں گے۔

جہانگیر ترین اور ان کے ہم خیال اراکین اسمبلی نے الزام عائد کیا تھا کہ جہانگیر ترین کے خلاف یکطرفہ انتقامی کارروائیوں کے پس منظر میں مبینہ طور پر شہزاد اکبر اور اعظم خان ملوث ہیں ۔جہانگیر ترین گروپ سمیت ہر ذی شعور فرد کو یہ ادراک ہے کہ عمران خان کے سب سے قریب سمجھے جانے والے جہانگیر ترین کے خلاف اس قسم کی کارروائی کوئی بھی سرکاری اہلکار یا حکومتی عہدیدار از خود نہیں کر سکتا ، عوامی و سیاسی حلقوں میںیہ عام تاثر موجود ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف جو کچھ بھی ہوا وہ ان کے ''دوست'' کی رضا مندی سے ہوا ہے۔

ایک ڈیزائن کے تحت شوگر سکینڈل کا پنڈورا بکس کھولا گیا، اچانک ہی اسد عمر کے بھائی محمد زبیر نے جہانگیر ترین کا نام چینی سکینڈل میں لینا شروع کیا، شیخ رشید بھی شوگر مافیا کا نام لیکر بیان بازی کرنے لگے، پھر ایک دن ایوان وزیر اعظم میں اعظم خان نے وزیر اعظم کی موجودگی میں جہانگیر ترین کے ساتھ تلخ کلامی کی اور پھر ایف آئی اے غیر معمولی طور پر متحرک ہو گیا۔دوسری جانب حکومت کا موقف ہے کہ وہ کسی فرد واحد کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی بلکہ عوامی مفاد میں شوگر مافیا کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔

تحریک انصاف کے اندر ایک بڑی اکثریت کہتی ہے کہ جس جہانگیر ترین نے گزشتہ گیارہ برس میں تحریک انصاف پر اربوں روپے خرچ کر ڈالے وہ چند کروڑ کی سبسڈی لینے کیلئے ایسی حرکت کیوں کرے گا۔جہانگیر ترین گروپ مستقبل کی سیاست میں اہم کردار کا حامل ہو سکتا ہے لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ تمام تر ناراضگی اور مخالفانہ اقدامات کے باوجود ،عمران خان اور جہانگیر ترین ایکدوسرے کے خلاف کھل کر میدان میں اتریں گے؟

میری رائے میں تو شاید ایسا نہ ہو کیونکہ عمران خان اور جہانگیر ترین دونوں ہی ''کنٹرولڈ مخالفت'' کر رہے ہیں اور وہ فی الوقت ایکدوسرے کے خلاف اعلانیہ اعلان جنگ نہیں کریں گے تاہم سیاست میں کس وقت کیا ہوجائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔حکومت کی کارکردگی اس کی سب سے بڑی دشمن ہے اور حکومت اپنے اس دشمن سے لڑنے کیلئے کچھ کرنا نہیں چاہتی۔ مقتدر حلقوں کے تحفظات بڑھ رہے ہیں اور عوامی بے اطمینانی کا پیمانہ بھی لبریز ہو رہا ہے لہذا حکومت کو باقی کی مدت اقتدار عوامی ایشوز کے حل کیلئے وقف کر دینا چاہئے۔
Load Next Story