بدلتی سیاسی صورتحال پی ڈی ایم حکومت مخالف تحریک شروع کر سکے گی
پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں نہ سہی البتہ مذہبی جماعتیں اس ایشو پر خاموش نہیں بیٹھ سکتیں۔
حکومت مخالف پی ڈی ایم تحریک دو پارٹیوں کے اتحاد سے انخلاء اورپھر ماہ رمضان شروع ہونے کی وجہ سے رک کر رہ گئی تھی اور امکان یہی تھا کہ عید کے بعد یہ تحریک دوبارہ شروع ہوگی تاہم اب اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں پر حملوں کی وجہ سے صورت حال قدرے تبدیل ہوگئی ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں نہ سہی البتہ مذہبی جماعتیں اس ایشو پر خاموش نہیں بیٹھ سکتیں اور انہوں نے بہرصورت میدان میں نکلنا ہی تھا یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام نے21 مئی کو اس سلسلے میں یوم احتجاج منانے کا اعلان کر دیا ہے اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن خود پشاور میں احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کریں گے۔
پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں اس ایشو پر خاموش ہیں اور ان کے میدان میں نکلنے کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ تاہم پی ڈی ایم سے ہٹ کر جماعت اسلامی نے بھی اس ایشو پر میدان میں نکلنے کا اعلان کیا ہے اور 30 مئی کو احتجاج کا اعلان کرنے کے علاوہ فلسطینی عوام کی مدد کے لیے چندہ جمع کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا جا رہا ہے، مذکورہ صورت حال کی وجہ سے پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک فوری طور پر دوبارہ شروع ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ۔
فلسطین کا معاملہ،گرمی اور پھر ساتھ ہی اگلے مالی سال کے بجٹ،ان تینوں ایشوز کی وجہ سے پی ڈی ایم کی تحریک پیچھے چلی جائے گی اور ممکنہ طور پر یہ تحریک اب اگر شروع ہو بھی پائی تو اس میں وقت لگے گا بلکہ بعض حلقے تو ستمبر، اکتوبر کی بات کر رہے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن شاید ہی اتنا طویل انتظار کر پائیں البتہ یہ اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ کب میدان میں نکلنے کے لیے تیار ہوتی ہیں۔
اس سال اگست میں موجودہ حکومتوں کے تین سال بھی مکمل ہو رہے ہیں اور وہ اپنے چوتھے سال میں داخل ہو جائیں گی جس کے ساتھ ویسے ہی آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا تاہم یہ حالات پر منحصر ہے کہ کہ آیا اپوزیشن جماعتیں مزید دو سال انتظار کرتی ہیں یا پھر پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے پورا زور لگاتی ہیں ، اس ضمن میں یہ واضح رہے کہ اس بات کا انحصار مسلم لیگ ن کی پالیسی پر بھی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کے پی ڈی ایم سے الگ ہونے کے بعد اب اتحاد کی روح رواں مسلم لیگ (ن) ہی ہے جس پر سب کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں ۔
دوسری جانب حکومت کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان نے ماہ رمضان میں حکومتی اداروں کی کارکردگی جانچنے اور عوام کو درپیش مشکلات اور مسائل کوکم کرنے کے لیے تھانوں سمیت مختلف سرکاری اداروں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے ان چھاپوں کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہے۔ کچھ حلقوں کے خیال میں یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے عوام کو ریلیف ملا ہے، کچھ حلقوں کے خیال میں یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ مناسب نہیں اور ایسا وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو یا تو پولیس کے ہمدرد ہیں یا پھر جمود کا شکار ،جو چاہتے ہیں کہ تھانوں اور سرکاری اداروں میں جو جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلتا رہے تاکہ ان جیسے لوگوں کی دکانداری بھی چلتی رہے تاہم جہاں تک معاملہ ہے وزیراعلیٰ کا ہے تو وہ میدان میں ہیں اور انہوں نے اب عیدکے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے تاکہ سرکاری اداروں کے حوالے سے عوام کو درپیش مشکلات اور مسائل میں کمی آتی رہے ۔
معاملہ بجٹ کی تیاری یا اسے پیش کرنے کے حوالے سے درپیش نہیں بلکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ بجلی منافع بقایاجات کا حصول ممکن بنانے کے علاوہ وہ اس بات کے لیے بھی کوشاں ہیں کہ قبائلی اضلاع کے لیے مرکز اور دیگر صوبوں سے اضافی وسائل کا حصول ممکن بنائیں لیکن ایسا تب ہی ہو سکتا تھا کہ اگر نیا قومی مالیاتی ایوارڈ جاری ہو پاتا لیکن نیا ایوارڈ چونکہ جاری نہیں ہوا اس لیے بات وہیں کی وہیں رہ گئی ہے ، دیگر تینوں صوبوں کی جانب سے قبائلی اضلاع کے لیے تین فیصد اضافی وسائل کی فراہمی کے حوالے سے جو بھی باتیں تھیںوہ زبانی کلامی تھیں جنھیں کوئی قانونی و آئینی کور حاصل نہیں تھا اور یہی صورت حال اب اگلے مالی سال کے حوالے سے بھی ہو گی کیونکہ اگلے مالی سال کے لیے بھی مرکز اورصوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت ہی ہوگی۔
اگر دسواں ایوارڈ جاری ہوجاتا تو اس میں ضم شدہ اضلاع کے لیے کوئی راہ نکالی جا سکتی تھی لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے یہ بوجھ اب بھی مرکز اور خیبرپختونخوا کو ہی اپنے طور پر اٹھانا ہوگا ۔ جہاں صوبہ کو یہ بوجھ اٹھانا ہے وہیں صوبہ پر یہ بھی دباؤ ہے کہ نئے صوبائی مالیاتی ایوارڈ میں صوبہ کے بندوبستی کے ساتھ قبائلی اضلاع کو بھی شامل کرتے ہوئے ان کے لیے بھی وسائل کی تقسیم کی جائے اور قرائن بتا رہے ہیں کہ صوبائی حکومت اگلے مالی سال کے لیے صوبہ اور اضلاع کے مابین وسائل کی تقسیم میں ضم شدہ اضلاع کو بھی شامل کرے گی بصورت دیگر صوبہ کے اندر ہی سے صوبائی حکومت کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں گی جن سے بچنے کے لیے صوبائی حکومت کو یہی راہ لینی ہوگی ۔
بزرگ سیاستدان ،خاتون آہن، بیگم نسیم ولی خان بھی اس دارفانی سے کوچ کرگئی ہیں ،بیگم نسیم ولی خان نے بڑی جوانمردی کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پارٹی اور اپنے خاندان پر ٹوٹنے والے مصائب کا مقابلہ کیا اور بعد میں اے این پی کے قیام کے بعد پارٹی کی صوبائی صدر کی حیثیت سے بڑی مضبوط گرفت رکھتے ہوئے میدان سیاست میں سرگرم رہیں۔ لیکن پھر وقت بدلاتو قدموں میں بچھی رہنے والی نظریں بھی بدل گئیں اور پارٹی کے اندر بغاوت برپا کرتے ہوئے بیگم نسیم ولی خان کومنظر سے ہٹا دیا گیا۔
اپنے پرائے ہوئے تو ان کے لیے سیاست کے دروازے بھی بند ہوتے چلے گئے اور رہی سہی کسر اے این پی کے دوراقتدار نے پوری کر دی جس کے خاتمے پر وہ اے این پی ولی کا علم اٹھائے میدان میں دوبارہ اتریں تو سہی لیکن پیرانہ سالی کے باعث نہ تو ان کی سانسیں ان کا ساتھ دے پا رہی تھیں اور نہ ہی آئرن لیڈی کے وہ آہنی اعصاب باقی رہے تھے کہ جن کی بنیاد پر وہ سامنے والوں کو بخوبی پچھاڑ دیا کرتی تھیں یہی وجہ ہے کہ اپنے ہی خاندان کے بچے ،بڑوں کے درمیان اختلافات ختم کراتے ہوئے انھیں پھر سے ایک کرنے کے لیے سرگرم ہوئے تو بیگم نسیم ولی خان نے بھی سرتسلیم خم کردیا اور منتشر خاندان کوپھر سے ایک کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کر لی کیونکہ کئی بیماریوں اور اکلوتے صاحبزادے کی موت کا غم اپنے اندر لیے مزید جدوجہد ان کے بس کی بات نہیں رہی تھی اوراب وہ خاک کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سوگئی ہیں لیکن اپنی سیاسی جدوجہد اور جمہوریت کے لیے خدمات کی وجہ سے انھیں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا اور صرف خیبرپختونخوا نہیں بلکہ ملکی سیاسی تاریخ ان کے تذکرے کے بغیر کبھی بھی مکمل نہیں ہو پائے گی ۔
پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں نہ سہی البتہ مذہبی جماعتیں اس ایشو پر خاموش نہیں بیٹھ سکتیں اور انہوں نے بہرصورت میدان میں نکلنا ہی تھا یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام نے21 مئی کو اس سلسلے میں یوم احتجاج منانے کا اعلان کر دیا ہے اور ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن خود پشاور میں احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کریں گے۔
پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں اس ایشو پر خاموش ہیں اور ان کے میدان میں نکلنے کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ تاہم پی ڈی ایم سے ہٹ کر جماعت اسلامی نے بھی اس ایشو پر میدان میں نکلنے کا اعلان کیا ہے اور 30 مئی کو احتجاج کا اعلان کرنے کے علاوہ فلسطینی عوام کی مدد کے لیے چندہ جمع کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا جا رہا ہے، مذکورہ صورت حال کی وجہ سے پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک فوری طور پر دوبارہ شروع ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ۔
فلسطین کا معاملہ،گرمی اور پھر ساتھ ہی اگلے مالی سال کے بجٹ،ان تینوں ایشوز کی وجہ سے پی ڈی ایم کی تحریک پیچھے چلی جائے گی اور ممکنہ طور پر یہ تحریک اب اگر شروع ہو بھی پائی تو اس میں وقت لگے گا بلکہ بعض حلقے تو ستمبر، اکتوبر کی بات کر رہے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن شاید ہی اتنا طویل انتظار کر پائیں البتہ یہ اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ کب میدان میں نکلنے کے لیے تیار ہوتی ہیں۔
اس سال اگست میں موجودہ حکومتوں کے تین سال بھی مکمل ہو رہے ہیں اور وہ اپنے چوتھے سال میں داخل ہو جائیں گی جس کے ساتھ ویسے ہی آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا تاہم یہ حالات پر منحصر ہے کہ کہ آیا اپوزیشن جماعتیں مزید دو سال انتظار کرتی ہیں یا پھر پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے پورا زور لگاتی ہیں ، اس ضمن میں یہ واضح رہے کہ اس بات کا انحصار مسلم لیگ ن کی پالیسی پر بھی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کے پی ڈی ایم سے الگ ہونے کے بعد اب اتحاد کی روح رواں مسلم لیگ (ن) ہی ہے جس پر سب کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں ۔
دوسری جانب حکومت کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان نے ماہ رمضان میں حکومتی اداروں کی کارکردگی جانچنے اور عوام کو درپیش مشکلات اور مسائل کوکم کرنے کے لیے تھانوں سمیت مختلف سرکاری اداروں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے ان چھاپوں کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہے۔ کچھ حلقوں کے خیال میں یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے عوام کو ریلیف ملا ہے، کچھ حلقوں کے خیال میں یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ مناسب نہیں اور ایسا وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو یا تو پولیس کے ہمدرد ہیں یا پھر جمود کا شکار ،جو چاہتے ہیں کہ تھانوں اور سرکاری اداروں میں جو جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلتا رہے تاکہ ان جیسے لوگوں کی دکانداری بھی چلتی رہے تاہم جہاں تک معاملہ ہے وزیراعلیٰ کا ہے تو وہ میدان میں ہیں اور انہوں نے اب عیدکے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے تاکہ سرکاری اداروں کے حوالے سے عوام کو درپیش مشکلات اور مسائل میں کمی آتی رہے ۔
معاملہ بجٹ کی تیاری یا اسے پیش کرنے کے حوالے سے درپیش نہیں بلکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ بجلی منافع بقایاجات کا حصول ممکن بنانے کے علاوہ وہ اس بات کے لیے بھی کوشاں ہیں کہ قبائلی اضلاع کے لیے مرکز اور دیگر صوبوں سے اضافی وسائل کا حصول ممکن بنائیں لیکن ایسا تب ہی ہو سکتا تھا کہ اگر نیا قومی مالیاتی ایوارڈ جاری ہو پاتا لیکن نیا ایوارڈ چونکہ جاری نہیں ہوا اس لیے بات وہیں کی وہیں رہ گئی ہے ، دیگر تینوں صوبوں کی جانب سے قبائلی اضلاع کے لیے تین فیصد اضافی وسائل کی فراہمی کے حوالے سے جو بھی باتیں تھیںوہ زبانی کلامی تھیں جنھیں کوئی قانونی و آئینی کور حاصل نہیں تھا اور یہی صورت حال اب اگلے مالی سال کے حوالے سے بھی ہو گی کیونکہ اگلے مالی سال کے لیے بھی مرکز اورصوبوں کے مابین وسائل کی تقسیم ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت ہی ہوگی۔
اگر دسواں ایوارڈ جاری ہوجاتا تو اس میں ضم شدہ اضلاع کے لیے کوئی راہ نکالی جا سکتی تھی لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے یہ بوجھ اب بھی مرکز اور خیبرپختونخوا کو ہی اپنے طور پر اٹھانا ہوگا ۔ جہاں صوبہ کو یہ بوجھ اٹھانا ہے وہیں صوبہ پر یہ بھی دباؤ ہے کہ نئے صوبائی مالیاتی ایوارڈ میں صوبہ کے بندوبستی کے ساتھ قبائلی اضلاع کو بھی شامل کرتے ہوئے ان کے لیے بھی وسائل کی تقسیم کی جائے اور قرائن بتا رہے ہیں کہ صوبائی حکومت اگلے مالی سال کے لیے صوبہ اور اضلاع کے مابین وسائل کی تقسیم میں ضم شدہ اضلاع کو بھی شامل کرے گی بصورت دیگر صوبہ کے اندر ہی سے صوبائی حکومت کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں گی جن سے بچنے کے لیے صوبائی حکومت کو یہی راہ لینی ہوگی ۔
بزرگ سیاستدان ،خاتون آہن، بیگم نسیم ولی خان بھی اس دارفانی سے کوچ کرگئی ہیں ،بیگم نسیم ولی خان نے بڑی جوانمردی کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پارٹی اور اپنے خاندان پر ٹوٹنے والے مصائب کا مقابلہ کیا اور بعد میں اے این پی کے قیام کے بعد پارٹی کی صوبائی صدر کی حیثیت سے بڑی مضبوط گرفت رکھتے ہوئے میدان سیاست میں سرگرم رہیں۔ لیکن پھر وقت بدلاتو قدموں میں بچھی رہنے والی نظریں بھی بدل گئیں اور پارٹی کے اندر بغاوت برپا کرتے ہوئے بیگم نسیم ولی خان کومنظر سے ہٹا دیا گیا۔
اپنے پرائے ہوئے تو ان کے لیے سیاست کے دروازے بھی بند ہوتے چلے گئے اور رہی سہی کسر اے این پی کے دوراقتدار نے پوری کر دی جس کے خاتمے پر وہ اے این پی ولی کا علم اٹھائے میدان میں دوبارہ اتریں تو سہی لیکن پیرانہ سالی کے باعث نہ تو ان کی سانسیں ان کا ساتھ دے پا رہی تھیں اور نہ ہی آئرن لیڈی کے وہ آہنی اعصاب باقی رہے تھے کہ جن کی بنیاد پر وہ سامنے والوں کو بخوبی پچھاڑ دیا کرتی تھیں یہی وجہ ہے کہ اپنے ہی خاندان کے بچے ،بڑوں کے درمیان اختلافات ختم کراتے ہوئے انھیں پھر سے ایک کرنے کے لیے سرگرم ہوئے تو بیگم نسیم ولی خان نے بھی سرتسلیم خم کردیا اور منتشر خاندان کوپھر سے ایک کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کر لی کیونکہ کئی بیماریوں اور اکلوتے صاحبزادے کی موت کا غم اپنے اندر لیے مزید جدوجہد ان کے بس کی بات نہیں رہی تھی اوراب وہ خاک کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سوگئی ہیں لیکن اپنی سیاسی جدوجہد اور جمہوریت کے لیے خدمات کی وجہ سے انھیں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا اور صرف خیبرپختونخوا نہیں بلکہ ملکی سیاسی تاریخ ان کے تذکرے کے بغیر کبھی بھی مکمل نہیں ہو پائے گی ۔