سندھ کے عجائب گھر خود آثار قدیمہ میں تبدیل ہونے لگے

تعمیر ہونے والی بیشتر نئی عمارت ویران، آج تک افتتاحی تقریب ہی نہ ہو سکی۔

مہتمم اور نائب یا تو کراچی میں ہیں یا گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں، سرکاری افسران

جب صوبہ سندھ میں جا بجا عجائب گھروں کے قیخوام کا فیصلہ کیا گیا تو ایسا لگتا تھا کہ اس کے ذریعے صوبے میں فن و ثقافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا تاہم جب عجائب گھروں کی ان عمارات پر نظر ڈالیں تو یہ تمام امیدوں کے برعکس ثابت ہوئیں جو ان سے وابستہ تھیں۔

ان عجائب گھروں کی تعمیر کو مکمل ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں تاہم ان میں سے بیشتر کی آج تک افتتاحی تقریب بھی نہیں ہو سکی ہے جبکہ بہت سی عمارت کئی برس گزر جانے کے باوجود آج بھی زیر تکمیل ہیں۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سندھ کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ کے افسران کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے ان عجائب گھروں کے لیے مہتمم اور نائب مہتمم کی تعیناتی بھی کردی ہے تاہم تعینات ہونے والے یہ افراد یا تو شہر کراچی میں اپنے فرائض انجام دے رہیں یا بغیر کوئی کام کیے گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔

اس بارے میں ایک سرکاری افسر کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ شہر میں بننے والا شہید بے نظیر بھٹو میوزیم تقریبا نو سال قبل مکمل ہوا تاہم آج تک یہاں کسی بھی قسم کے کوئی نوادر اور تاریخی اشیا نہیں رکھی گئیں اور یہ عمارت تقریبا خالی ہی ہے۔


اسی طرح صرف ضلع خیرپور میں چار نئے عجائب گھر تعمیر کیے گئے جن میں خیرپور اسٹیٹ میوزیم، کوٹ ڈیجی میوزیم، کھوڑا میوزیم اور کمال ڈیرو میوزیم شامل ہیں تاہم یہ تمام آج تک ویران پڑے ہوئے ہیں۔ ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان عمارت میں سے ہر ایک کی تعمیر پر تقریبا چھ کروڑ روپے سے زائد کا خرچ آیا ہے۔

اس کے علاوہ ان میوزیم کے امور کی دیکھ بھال کے لیے ڈائرکٹر جنرل میوزیمز کا عہدہ بھی تخلیق کیا گیا تاکہ کسی کو اس عہدے پر تعینات کرکے ان میوزیم کا باقاعدہ آغاز کیا جاسکے تاہم آج تک اس عہدے پر کوئی تعیناتی نہیں ہوسکی ہے۔

اس بارے میں ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے سندھ محکمہ آثار قدیمہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل قاسم علی قاسم کا کہنا تھا کہ جہاں ایک طرف نئے تعمیر ہونے والے عجائب گھروں کی حالت خراب ہے وہیں جو عجائب گھر جو پہلے سے قائم ہیں ان کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ سندھ کے موجودہ ڈائریکٹر فتح شیخ نے ایکسپریس کو بتایا کہ محکمے کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہے کہ وہ نئے عجائب گھروں کے لیے آثار خرید سکیں یا پہلے سے موجود آثار کو ان عجائب گھروں تک منتقل کیا جا سکے۔ ہم نے محکمہ خزانہ سندھ سے درخواست کی ہے کہ وہ چار کروڑ 20 لاکھ روپے فوری طور پر جاری کر دے تاکہ یہ کام انجام دیا جاسکے تاہم آج تک ایسا نہیں ہوسکا۔
Load Next Story