مظلوم فلسطین غاصب اسرائیل اور حماس
حماس اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے سویلین آبادی پر حملہ کیا جاتا ہے
اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر سے غزہ پر حملہ کیا ہے۔ رمضان المبارک کے آخری ایام میں شروع ہونے والی یہ جنگ ابھی تک جاری ہے۔ یہ جنگ شروع کیسے ہوئی؟ کیا فلسطینیوں نے اپنی زمینیں ماضی میں بیچی تھیں؟ اسرائیل کے آئرن ڈوم سمیت دیگر کئی سوالات کے جواب ذیل میں پیش کررہا ہوں۔
سب سے پہلے یہ سوال یا ایک لغو اعتراض کہ کیا اسرائیل کو زمینیں فلسطینیوں نے بیچی تھیں؟ ایسا نہیں ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ برطانیہ نے پہلے اسرائیلی ریاست کے قیام کےلیے یہودیوں بلکہ صہیونیوں کو زمینیں مہیا کیں۔ یہاں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ 1920 سے پہلے تک اس علاقے میں 6 ہزار سے بھی کم یہودی آباد تھے۔ ان زمینوں پر قبضے کےلیے بیس سال میں 22 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا خون کیا گیا بلکہ جو یہودی ان قبضوں کے خلاف تھے، انہیں بھی قتل کیا گیا اور اس طرح سے پھر برطانیہ اور امریکا کی مدد سے ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔
خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی۔ فلسطینیوں سے کئی کئی ایکڑ زمینیں مختلف بنیادوں پر ہتھیا کر، ریاستی جبر سے ضبط کرکے، مقامی آبادی کو شہید کرنے کے بعد اُس وقت صہیونیوں کو کوڑیوں کے دام فراہم کردی گئیں اور بعد ازاں اسرائیلی یہودیوں نے اردگرد کی زمینوں پر اسلحے کے زور پر بدمعاشی کرتے ہوئے قبضے شروع کردیے۔
یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ آج بھی یہودی آبادکاری کے نام پر زمینیں ہتھیائی جاتی ہیں، وہاں کی عمارتوں کو زمین بوس کیا جاتا ہے اور نئی عمارتیں بناکر یہودی بستیاں آباد کی جاتی ہیں۔
اس سال رمضان المبارک میں بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔ اسرائیل اب کی مرتبہ شیخ الجراح کے علاقے میں یہودی بستیاں آباد کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ علاقہ نسبتاً خوشحال اور پرسکون تھا۔ شیخ الجراح کی آبادی کا کچھ حصہ 1948 میں تلبیہ کے علاقے سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پر رہائش پذیر خاندانوں کے افراد بیرون ممالک بالخصوص امریکا، خلیج اور دیگر خوشحال ممالک میں بھی رہائش پذیر ہیں۔
اسرائیل نے 1972 میں اس زمین کی ملکیت السفریم نامی یہودی تنظیم کو منتقل کردی۔ کہا یہ گیا کہ یہاں پر آباد فلسطینی پناہ گزین کی حیثیت سے یہاں آئے تھے اور اِن کے پاس ملکیتی دستاویزات موجود نہیں۔ آپ اسرائیلی بدمعاشی کا لیول دیکھئے کہ فلسطینی دستاویزات کو اسرائیلی عدالتیں تسلیم ہی نہیں کرتی ہیں۔ السفریم اور اسرائیلی حکومت آپسی معاملے کی وجہ سے سپریم کورٹ میں چلے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے طویل عرصے کے بعد شیخ الجراح کو خالی کروانے کے آرڈرز جاری کیے۔ اسرائیلی حکومت نے اس معاملے پر سپریم کورٹ کو ایک بند لفافے میں یہ بتایا تھا کہ ان علاقوں کو خالی کروانے کی صورت میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بات نہ مانی اور ان علاقوں کو خالی کروانے کےلیے مصر رہی۔ جب یہاں پر آپریشن شروع کیا گیا تو یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور دنیا بھر میں اس پر احتجاج بھی شروع ہوگیا۔ یہ خبر سوشل میڈیا، مین اسٹریم میڈیا پر ڈسکس ہوتی رہی۔
فلسطینی باب دمشق کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں جاتے ہیں۔ 10 مئی کو صہیونیوں نے 1967 میں بیت المقدس پر قبضے کی سالگرہ ''یروشلم ڈے'' منایا۔ رمضان المبارک کی وجہ سے مسلمانوں نے یہودیوں سے یہ درخواست کی تھی کہ آپ یہ دن رمضان کے بعد منالیں تاکہ تراویح بغیر کسی خلل کے ادا کی جاسکے۔ لیکن شاید صہیونی تصادم کا فیصلہ کرچکے تھے اور اس کےلیے راہ ہموار کی جارہی تھی۔ اُس شام کو منظر یہ تھا کہ ایک جانب صہیونی دیوار گریہ پر اکٹھے ہو رہے تھے تو دوسری جانب مسلمان بھی بیت المقدس میں تراویح کی ادائیگی میں مشغول تھے۔ صہیونیوں نے پوری پلاننگ کے تحت دیوار گریہ میں عبادت کے بجائے شور شرابا شروع کردیا۔ اس پر مسلمانوں نے اُن کو منع کیا تو تلخ کلامی بعد ازاں ہاتھا پائی میں بدل گئی۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج اور پولیس مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوگئی اور انہوں نے وہاں پر گرینیڈ اور گولیاں بھی چلائیں۔ آپریشن میں صرف مسلمانوں کی گرفتاریاں کی گئیں اور اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نماز تراویح پر پابندی لگادی۔
ردعمل میں اگلے ہی روز مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد دوبارہ مسجد اقصیٰ پہنچ گئی اور اسرائیلی فوج کے آپریشن میں سیکڑوں مسلمان زخمی بھی ہوئے اور گرفتار بھی ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے پورا احاطہ سیل کرکے وہاں فوج تعینات کردی۔ اس موقع پر حماس میدان عمل میں آئی۔ اُس نے اسرائیل کو ایک گھنٹے کا الٹی میٹم دیا اور اس نے 3 مطالبات رکھے۔ ایک تو شام کو 6 بجے سے پہلے اسرائیلی فوج کو مسجد اقصیٰ کے احاطے سے نکالا جائے۔ دوسرا گرفتار مسلمانوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور تیسرا کہ شیخ الجراح میں جاری آپریشن فوری طور پر روکا جائے۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ مطالبات نہ ماننے کی صورت میں حالات خراب ہوسکتے ہیں۔
اسرائیل نے حماس کے جائز مطالبات کو تسلیم نہیں کیا اور الٹا شیخ الجراح میں وحشیانہ طاقت کا اندھا استعمال کرتے ہوئے آپریشن کو مزید تیز کردیا۔ اب حماس کے پاس بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ لہٰذا پھر شام کو 6 بجے کے بعد غزہ کے مختلف مقامات سے حماس نے ایک سو سے زائد راکٹس اسرائیل کی جانب یکے بعد دیگرے فائر کیے۔ ان میں سے 70 فیصد راکٹس کو اسرائیلی ایئر ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم نے فضا میں ہی تباہ کردیا۔ لیکن جو 30 فیصد راکٹس اسرائیل میں گرے، انہوں نے اسرائیل میں بوکھلاہٹ اور تھرتھلی پیدا کردی۔ اسرائیل اس حملے میں 10 افراد کی موت کو تسلیم کررہا ہے جبکہ تعداد اس سے زیادہ تصور کی جارہی ہے۔
شیخ الجراح کے بعد اسرائیل کی جانب سے پھر غزہ پر بھی حملہ کیا گیا، جس میں اب تک تقریباً 3 سو فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، انفرااسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے، زخمیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ حماس اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے سویلین آبادی پر حملہ کیا جاتا ہے۔ تاہم یہاں ایک خاص بات آئرن ڈوم کا فیل ہونا ہے۔
آئرن ڈوم کیا ہے؟
یہ سیلف ایئر ڈیفنس سسٹم ہے۔ سیلف ایئر ڈیفنس سسٹم دنیا میں 6 ممالک کے پاس ہے، ان میں امریکا، چین، روس، فرانس، اسرائیل اور بھارت شامل ہیں۔ آئرن ڈوم کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا حصہ آر ڈی یو یعنی ریڈار ڈیٹیکشن یونٹ کہلاتا ہے۔ یہ کسی بھی حرکت کرنے والے آبجیکٹ یعنی میزائل یا راکٹ کی بروقت اطلاع اسرائیل کی حدود میں داخل ہونے سے کئی کلومیٹر پہلے دے دیتا ہے۔ دوسرا حصہ بی ایم سی ہے، جو کہ آنے والے خطرے کو فوری بھانپ کر سگنلز پیدا کرتے ہوئے دیگر یونٹس کو ایکٹیو کرتا ہے اور تیسرا حصہ ایم ایف یو یعنی میزائل فائرنگ یونٹ ہے، جو کہ سگنلز ملنے کے فوری بعد ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے میزائل فائر کرتا ہے، جو کہ آنے والے راکٹس یا میزائل کو فضا میں اسرائیل کی حدود سے باہر ہی تباہ کردیتے ہیں۔
آئرن ڈوم میں استعمال ہونے والے میزائل خاص ہوتے ہیں، جن میں خودکار سسٹم جس میں ہیٹ، اسپیڈ، فضا میں ہی رخ بدلنا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ ایسے ایک راکٹ کی قیمت 40 سے 60 ہزار امریکی ڈالر ہوتی ہے، جبکہ آئرن ڈوم کی قیمت 50 ملین یعنی 5 کروڑ ڈالر تک ہوتی ہے۔ اس وقت جدید ترین آئرن ڈوم 2021 میں مختلف تجربات کے بعد اسرائیلی فوج کے حوالے کیا گیا ہے اور ایسے 12 سسٹم اسرائیل کے مختلف مقامات پر نصب ہیں۔
دوسری جانب حماس کے پاس دیسی ساختہ راکٹس ہوتے ہیں، جو کہ مقامی ورکشاپس میں کئی عشروں پرانی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے خام لوہے یا لوہے کے پائپوں سے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان راکٹس کی قیمت 50 ڈالر سے 3 سو ڈالر تک ہوسکتی ہے۔ حماس نے ابتدا میں جب راکٹ حملے شروع کیے تو ان کی رینج ایک کلومیٹر تھی، جو کہ اب بہت بہتر ہوکر 250 کلومیٹر تک ہوچکی ہے، بلکہ اطلاعات کے مطابق حماس کے پاس اس وقت میڈیم اور لانگ رینج راکٹس بھی موجود ہیں۔ اب کی مرتبہ حماس نے مختلف سمتوں سے ایک ساتھ کئی سو راکٹ فائر کیے تھے جس کی وجہ سے آئرن ڈوم 30 فیصد کے قریب فلاپ ہوگیا۔
اسرائیلی فورسز کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگر میں آج سے 10 سال پہلے یہ کہتا کہ حماس کے راکٹس تل ابیب کو نشانہ بنائیں گے تو یقیناً آپ مجھ پر ہنستے۔ لیکن آج حماس کے راکٹس تل ابیب کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ حماس کے پاس دس سال پہلے تک راکٹس کا تصور بھی نہیں تھا لیکن اب وہ ایک کلومیٹر سے 250 کلومیٹر تک مار کرنے والے راکٹس رکھتا ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ حماس کے پاس گائیڈڈ میزائل موجود ہیں۔ اس حوالے سے حماس نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر حملوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو وہ اس گائیڈڈ میزائل سے اسرائیل کے نیوکلیئر ری ایکٹر کو نشانہ بنائے گا۔ اس گائیڈڈ میزائل کا توڑ اسرائیل کے آئرن ڈوم کے پاس نہیں ہے۔ اس کےلیے امریکا کا ایک سسٹم وہاں نصب کیا گیا ہے لیکن اس سسٹم کی ایکوریسی بھی اتنی خاص نہیں ہے۔ ابھی جاری جنگ میں حماس نے ایک قریب کے ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد وہاں سے 250 کلومیٹر دور ایک اور ایئرپورٹ کو فعال کیا گیا۔ حماس نے اس ایئرپورٹ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ حماس دیسی ساختہ راکٹس سے آئرن ڈوم کا توڑ کرچکا ہے، تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر گائیڈڈ میزائل فائر ہوتا ہے تو اسرائیل میں کیسی تباہی آسکتی ہے۔ اسرائیل بھی اس خطرے کو سمجھتا ہے۔
اسرائیل میں اس وقت داخلی بحران بھی موجود ہے۔ موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو پر کرپشن کے الزامات ہیں، اپوزیشن اس کو ہٹانا چاہتی ہے۔ اسرائیل میں سے سیاح تیزی سے بھاگ رہے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے ساتھ ساتھ 60 کلومیٹر کے علاقے میں کرفیو لگا رکھا ہے اور اس 60 کلومیٹر میں بسنے والے ہزاروں لوگ تیزی سے اسرائیل کے اندرونی علاقوں کی جانب بھاگ رہے ہیں۔ کرفیو لگانے کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کو حماس کی جانب سے زمینی کارروائی کا خطرہ ہے۔
ناجائز طریقے سے قائم کیے گئے ملک کے دفاع میں اسرائیل کا خرچ بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا اسرائیل کی معیشت لمبی جنگ کو سہنے کے قابل نہیں ہے۔ فلسطینی تو ستر سال سے شہادتیں پیش کر رہے ہیں اور ان میں سے موت کا خوف ختم ہوچکا ہے۔ لیکن اسرائیلیوں میں موت کا خوف موجود ہے۔ حماس کے راکٹ حملوں کی وجہ سے عام اسرائیلی بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔ یہ خوف ان میں فرسٹریشن پیدا کررہا ہے اور رپورٹس کے مطابق وہ اب فلسطین سے جنگ کے بجائے ہر قیمت پر امن چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل کی پارلیمنٹ میں بھی اسرائیلی دفاع پر شدید تنقید ہوتی ہے اور پارلیمنٹ سے بھی امن اور صلح کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ اب بھی اسرائیل امریکی مدد سے حماس کے ساتھ جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ حماس اپنے مطالبات پر قائم ہے۔
کیا حماس حملے غلط کررہی ہے؟ عام فلسطینی حماس کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟ عام مسلمان قبلہ اول سے محبت کیوں کرتا ہے اور یہ محبت دلیل کے ساتھ نئی نسل کے سینوں میں منتقل کرنا کیوں ضروری ہے؟ انشااللہ ان سب سوالوں کے جواب اگلے بلاگ میں دیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سب سے پہلے یہ سوال یا ایک لغو اعتراض کہ کیا اسرائیل کو زمینیں فلسطینیوں نے بیچی تھیں؟ ایسا نہیں ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ برطانیہ نے پہلے اسرائیلی ریاست کے قیام کےلیے یہودیوں بلکہ صہیونیوں کو زمینیں مہیا کیں۔ یہاں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ 1920 سے پہلے تک اس علاقے میں 6 ہزار سے بھی کم یہودی آباد تھے۔ ان زمینوں پر قبضے کےلیے بیس سال میں 22 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا خون کیا گیا بلکہ جو یہودی ان قبضوں کے خلاف تھے، انہیں بھی قتل کیا گیا اور اس طرح سے پھر برطانیہ اور امریکا کی مدد سے ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔
خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی۔ فلسطینیوں سے کئی کئی ایکڑ زمینیں مختلف بنیادوں پر ہتھیا کر، ریاستی جبر سے ضبط کرکے، مقامی آبادی کو شہید کرنے کے بعد اُس وقت صہیونیوں کو کوڑیوں کے دام فراہم کردی گئیں اور بعد ازاں اسرائیلی یہودیوں نے اردگرد کی زمینوں پر اسلحے کے زور پر بدمعاشی کرتے ہوئے قبضے شروع کردیے۔
یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ آج بھی یہودی آبادکاری کے نام پر زمینیں ہتھیائی جاتی ہیں، وہاں کی عمارتوں کو زمین بوس کیا جاتا ہے اور نئی عمارتیں بناکر یہودی بستیاں آباد کی جاتی ہیں۔
اس سال رمضان المبارک میں بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔ اسرائیل اب کی مرتبہ شیخ الجراح کے علاقے میں یہودی بستیاں آباد کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ علاقہ نسبتاً خوشحال اور پرسکون تھا۔ شیخ الجراح کی آبادی کا کچھ حصہ 1948 میں تلبیہ کے علاقے سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پر رہائش پذیر خاندانوں کے افراد بیرون ممالک بالخصوص امریکا، خلیج اور دیگر خوشحال ممالک میں بھی رہائش پذیر ہیں۔
اسرائیل نے 1972 میں اس زمین کی ملکیت السفریم نامی یہودی تنظیم کو منتقل کردی۔ کہا یہ گیا کہ یہاں پر آباد فلسطینی پناہ گزین کی حیثیت سے یہاں آئے تھے اور اِن کے پاس ملکیتی دستاویزات موجود نہیں۔ آپ اسرائیلی بدمعاشی کا لیول دیکھئے کہ فلسطینی دستاویزات کو اسرائیلی عدالتیں تسلیم ہی نہیں کرتی ہیں۔ السفریم اور اسرائیلی حکومت آپسی معاملے کی وجہ سے سپریم کورٹ میں چلے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے طویل عرصے کے بعد شیخ الجراح کو خالی کروانے کے آرڈرز جاری کیے۔ اسرائیلی حکومت نے اس معاملے پر سپریم کورٹ کو ایک بند لفافے میں یہ بتایا تھا کہ ان علاقوں کو خالی کروانے کی صورت میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بات نہ مانی اور ان علاقوں کو خالی کروانے کےلیے مصر رہی۔ جب یہاں پر آپریشن شروع کیا گیا تو یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور دنیا بھر میں اس پر احتجاج بھی شروع ہوگیا۔ یہ خبر سوشل میڈیا، مین اسٹریم میڈیا پر ڈسکس ہوتی رہی۔
فلسطینی باب دمشق کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں جاتے ہیں۔ 10 مئی کو صہیونیوں نے 1967 میں بیت المقدس پر قبضے کی سالگرہ ''یروشلم ڈے'' منایا۔ رمضان المبارک کی وجہ سے مسلمانوں نے یہودیوں سے یہ درخواست کی تھی کہ آپ یہ دن رمضان کے بعد منالیں تاکہ تراویح بغیر کسی خلل کے ادا کی جاسکے۔ لیکن شاید صہیونی تصادم کا فیصلہ کرچکے تھے اور اس کےلیے راہ ہموار کی جارہی تھی۔ اُس شام کو منظر یہ تھا کہ ایک جانب صہیونی دیوار گریہ پر اکٹھے ہو رہے تھے تو دوسری جانب مسلمان بھی بیت المقدس میں تراویح کی ادائیگی میں مشغول تھے۔ صہیونیوں نے پوری پلاننگ کے تحت دیوار گریہ میں عبادت کے بجائے شور شرابا شروع کردیا۔ اس پر مسلمانوں نے اُن کو منع کیا تو تلخ کلامی بعد ازاں ہاتھا پائی میں بدل گئی۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج اور پولیس مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوگئی اور انہوں نے وہاں پر گرینیڈ اور گولیاں بھی چلائیں۔ آپریشن میں صرف مسلمانوں کی گرفتاریاں کی گئیں اور اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نماز تراویح پر پابندی لگادی۔
ردعمل میں اگلے ہی روز مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد دوبارہ مسجد اقصیٰ پہنچ گئی اور اسرائیلی فوج کے آپریشن میں سیکڑوں مسلمان زخمی بھی ہوئے اور گرفتار بھی ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے پورا احاطہ سیل کرکے وہاں فوج تعینات کردی۔ اس موقع پر حماس میدان عمل میں آئی۔ اُس نے اسرائیل کو ایک گھنٹے کا الٹی میٹم دیا اور اس نے 3 مطالبات رکھے۔ ایک تو شام کو 6 بجے سے پہلے اسرائیلی فوج کو مسجد اقصیٰ کے احاطے سے نکالا جائے۔ دوسرا گرفتار مسلمانوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور تیسرا کہ شیخ الجراح میں جاری آپریشن فوری طور پر روکا جائے۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ مطالبات نہ ماننے کی صورت میں حالات خراب ہوسکتے ہیں۔
اسرائیل نے حماس کے جائز مطالبات کو تسلیم نہیں کیا اور الٹا شیخ الجراح میں وحشیانہ طاقت کا اندھا استعمال کرتے ہوئے آپریشن کو مزید تیز کردیا۔ اب حماس کے پاس بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ لہٰذا پھر شام کو 6 بجے کے بعد غزہ کے مختلف مقامات سے حماس نے ایک سو سے زائد راکٹس اسرائیل کی جانب یکے بعد دیگرے فائر کیے۔ ان میں سے 70 فیصد راکٹس کو اسرائیلی ایئر ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم نے فضا میں ہی تباہ کردیا۔ لیکن جو 30 فیصد راکٹس اسرائیل میں گرے، انہوں نے اسرائیل میں بوکھلاہٹ اور تھرتھلی پیدا کردی۔ اسرائیل اس حملے میں 10 افراد کی موت کو تسلیم کررہا ہے جبکہ تعداد اس سے زیادہ تصور کی جارہی ہے۔
شیخ الجراح کے بعد اسرائیل کی جانب سے پھر غزہ پر بھی حملہ کیا گیا، جس میں اب تک تقریباً 3 سو فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، انفرااسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے، زخمیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ حماس اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے سویلین آبادی پر حملہ کیا جاتا ہے۔ تاہم یہاں ایک خاص بات آئرن ڈوم کا فیل ہونا ہے۔
آئرن ڈوم کیا ہے؟
یہ سیلف ایئر ڈیفنس سسٹم ہے۔ سیلف ایئر ڈیفنس سسٹم دنیا میں 6 ممالک کے پاس ہے، ان میں امریکا، چین، روس، فرانس، اسرائیل اور بھارت شامل ہیں۔ آئرن ڈوم کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا حصہ آر ڈی یو یعنی ریڈار ڈیٹیکشن یونٹ کہلاتا ہے۔ یہ کسی بھی حرکت کرنے والے آبجیکٹ یعنی میزائل یا راکٹ کی بروقت اطلاع اسرائیل کی حدود میں داخل ہونے سے کئی کلومیٹر پہلے دے دیتا ہے۔ دوسرا حصہ بی ایم سی ہے، جو کہ آنے والے خطرے کو فوری بھانپ کر سگنلز پیدا کرتے ہوئے دیگر یونٹس کو ایکٹیو کرتا ہے اور تیسرا حصہ ایم ایف یو یعنی میزائل فائرنگ یونٹ ہے، جو کہ سگنلز ملنے کے فوری بعد ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے میزائل فائر کرتا ہے، جو کہ آنے والے راکٹس یا میزائل کو فضا میں اسرائیل کی حدود سے باہر ہی تباہ کردیتے ہیں۔
آئرن ڈوم میں استعمال ہونے والے میزائل خاص ہوتے ہیں، جن میں خودکار سسٹم جس میں ہیٹ، اسپیڈ، فضا میں ہی رخ بدلنا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ ایسے ایک راکٹ کی قیمت 40 سے 60 ہزار امریکی ڈالر ہوتی ہے، جبکہ آئرن ڈوم کی قیمت 50 ملین یعنی 5 کروڑ ڈالر تک ہوتی ہے۔ اس وقت جدید ترین آئرن ڈوم 2021 میں مختلف تجربات کے بعد اسرائیلی فوج کے حوالے کیا گیا ہے اور ایسے 12 سسٹم اسرائیل کے مختلف مقامات پر نصب ہیں۔
دوسری جانب حماس کے پاس دیسی ساختہ راکٹس ہوتے ہیں، جو کہ مقامی ورکشاپس میں کئی عشروں پرانی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے خام لوہے یا لوہے کے پائپوں سے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان راکٹس کی قیمت 50 ڈالر سے 3 سو ڈالر تک ہوسکتی ہے۔ حماس نے ابتدا میں جب راکٹ حملے شروع کیے تو ان کی رینج ایک کلومیٹر تھی، جو کہ اب بہت بہتر ہوکر 250 کلومیٹر تک ہوچکی ہے، بلکہ اطلاعات کے مطابق حماس کے پاس اس وقت میڈیم اور لانگ رینج راکٹس بھی موجود ہیں۔ اب کی مرتبہ حماس نے مختلف سمتوں سے ایک ساتھ کئی سو راکٹ فائر کیے تھے جس کی وجہ سے آئرن ڈوم 30 فیصد کے قریب فلاپ ہوگیا۔
اسرائیلی فورسز کے ترجمان نے کہا ہے کہ اگر میں آج سے 10 سال پہلے یہ کہتا کہ حماس کے راکٹس تل ابیب کو نشانہ بنائیں گے تو یقیناً آپ مجھ پر ہنستے۔ لیکن آج حماس کے راکٹس تل ابیب کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ حماس کے پاس دس سال پہلے تک راکٹس کا تصور بھی نہیں تھا لیکن اب وہ ایک کلومیٹر سے 250 کلومیٹر تک مار کرنے والے راکٹس رکھتا ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ حماس کے پاس گائیڈڈ میزائل موجود ہیں۔ اس حوالے سے حماس نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر حملوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو وہ اس گائیڈڈ میزائل سے اسرائیل کے نیوکلیئر ری ایکٹر کو نشانہ بنائے گا۔ اس گائیڈڈ میزائل کا توڑ اسرائیل کے آئرن ڈوم کے پاس نہیں ہے۔ اس کےلیے امریکا کا ایک سسٹم وہاں نصب کیا گیا ہے لیکن اس سسٹم کی ایکوریسی بھی اتنی خاص نہیں ہے۔ ابھی جاری جنگ میں حماس نے ایک قریب کے ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد وہاں سے 250 کلومیٹر دور ایک اور ایئرپورٹ کو فعال کیا گیا۔ حماس نے اس ایئرپورٹ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ حماس دیسی ساختہ راکٹس سے آئرن ڈوم کا توڑ کرچکا ہے، تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر گائیڈڈ میزائل فائر ہوتا ہے تو اسرائیل میں کیسی تباہی آسکتی ہے۔ اسرائیل بھی اس خطرے کو سمجھتا ہے۔
اسرائیل میں اس وقت داخلی بحران بھی موجود ہے۔ موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو پر کرپشن کے الزامات ہیں، اپوزیشن اس کو ہٹانا چاہتی ہے۔ اسرائیل میں سے سیاح تیزی سے بھاگ رہے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کے ساتھ ساتھ 60 کلومیٹر کے علاقے میں کرفیو لگا رکھا ہے اور اس 60 کلومیٹر میں بسنے والے ہزاروں لوگ تیزی سے اسرائیل کے اندرونی علاقوں کی جانب بھاگ رہے ہیں۔ کرفیو لگانے کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کو حماس کی جانب سے زمینی کارروائی کا خطرہ ہے۔
ناجائز طریقے سے قائم کیے گئے ملک کے دفاع میں اسرائیل کا خرچ بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا اسرائیل کی معیشت لمبی جنگ کو سہنے کے قابل نہیں ہے۔ فلسطینی تو ستر سال سے شہادتیں پیش کر رہے ہیں اور ان میں سے موت کا خوف ختم ہوچکا ہے۔ لیکن اسرائیلیوں میں موت کا خوف موجود ہے۔ حماس کے راکٹ حملوں کی وجہ سے عام اسرائیلی بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔ یہ خوف ان میں فرسٹریشن پیدا کررہا ہے اور رپورٹس کے مطابق وہ اب فلسطین سے جنگ کے بجائے ہر قیمت پر امن چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل کی پارلیمنٹ میں بھی اسرائیلی دفاع پر شدید تنقید ہوتی ہے اور پارلیمنٹ سے بھی امن اور صلح کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ اب بھی اسرائیل امریکی مدد سے حماس کے ساتھ جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ حماس اپنے مطالبات پر قائم ہے۔
کیا حماس حملے غلط کررہی ہے؟ عام فلسطینی حماس کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟ عام مسلمان قبلہ اول سے محبت کیوں کرتا ہے اور یہ محبت دلیل کے ساتھ نئی نسل کے سینوں میں منتقل کرنا کیوں ضروری ہے؟ انشااللہ ان سب سوالوں کے جواب اگلے بلاگ میں دیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔