فلسطین اسرائیل تنازعہ حقائق اور نسلی عصبیت
اسرائیل کا طرز حکمرانی اپنی حدود میں رہنے والے فلسطینی عربوں کے ساتھ 1948 سے نسلی عصبیت پر مبنی رہا ہے
پاکستان میں فلسطین کے حوالے سے جذباتیت تو بہت پائی جاتی ہے لیکن قوم کی اکثریت زمینی حقائق سے بے خبر ہے اور اسی ناواقفیت کی وجہ سے عجیب عجیب غلط فہمیاں سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگوں کے بیانیہ میں بھی نظر آتی ہیں۔
رائے عامہ دوسرے تنازعات کی طرح یہاں بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ لیکن دونوں حصے عام طور سے فلسطین کے پیچیدہ مسئلے کا ضرورت سے زیادہ سادہ منظرنامہ (انگریزی میں اوور سمپلی فائیڈ ورژن بھی کہا جاتا ہے) پیش کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو عموماً ایک مذہبی تنازعے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس منظرنامے کے تحت بیت المقدس میں یہود کا ہیکل سلیمانی موجود تھا اور اس طرح یہود کا حق فلسطین پر مذہبی لحاظ سے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو فلسطین سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔ جبکہ دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ یہ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی حرمت اور حفاظت کا مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تنازعے کو مذہبی رنگ دینے میں یہود کا فائدہ ہے۔ اس موقف کی کمزوری پر ہم آگے بحث کرتے ہیں۔
فی الحال اتنا سمجھ لیجئے کہ لاکھوں فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر ان کے گھروں سے نکالنا اور انہیں ہمسایہ ممالک اور غزہ میں پناہ لینے پر مجبور کرنا اصل میں انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور اسےبین الاقوامی قانون کے تناظر میں دیکھنا چاہیے اور یہی تناظر فلسطینیوں کے حق میں بھی جاتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کی حرمت مسلمانوں کےلیے یقیناً ایک جذباتی مسئلہ ہے لیکن اگر دنیا میں اس مسئلے کو اجاگر کرنا ہے تو اسے انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر پیش کرنا ہوگا اور عالمی انسانی حقوق کی اصطلاحات استعمال کرکے اسے خود بھی سمجھنا ہوگا اور سمجھانا ہوگا۔
بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں دیکھیں تو فلسطین کے منظرنامے میں کئی ایسے حقائق ہیں جنہیں آج کے قاری کےلیے سمجھنا ضروری ہے۔ ان میں سے ایک اسرائیل کی اپارٹائیڈ پالیسیز بھی ہیں۔ اپارٹائیڈ کا لفظ ایسے طرز حکمرانی کےلیے بولا جاتا ہے جس میں سرکاری سرپرستی میں نسلی عصبیت پر مبنی پالیسیاں باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت (institutionalized طریقے سے) اختیار کی جائیں اور ملک میں موجود دو قوموں یا نسلوں کے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جائے۔ ایسا ایک قوم کو دوسری قوم پر برتری دلانے کےلیے کیا جاتا ہے۔ اپارٹائیڈ انسانیت کے خلاف نسل کشی کے بعد دوسرا بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔
یہ لفظ سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں 1948 سے لے کر 1990 کی دہائی کے آغاز تک گوروں کی حکومت میں مقامی آبادی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کےلیے استعمال ہوا۔ حالیہ ادوار میں چین کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ چینی حکومت کے امتیازی سلوک کےلیے بھی یہ لفظ استعمال ہورہا ہے۔ اس نظام کے تحت سرکاری پالیسیوں میں ایک نسل (گورے، چینی، اسرائیلی یہودی) کی حیثیت سے دوسری نسل (کالے، ایغور، عرب، فلسطینی) سے اونچی ہوتی ہے، اس لیے سرکار کی پالیسیاں برتر نسل کی حمایت میں بنائی جاتی ہیں اور دوسری نسل کے ساتھ باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے۔ یہ امتیاز دوسری نسل کو مسلسل کمزور اور بنیادی حقوق اور زندگی گزارنے کے وسائل سے محروم کرتا چلا جاتا ہے۔
اپارٹائیڈ کا اردو ترجمہ نسلی عصبیت کیا جاتا ہے لیکن چونکہ بین الاقوامی قانون میں یہ ایک تکنیکی اصطلاح ہے اس لیے ہم اصل اصطلاح ہی استعمال کریں گے۔ اسرائیل کا طرز حکمرانی اپنی حدود میں رہنے والے فلسطینی عربوں کے ساتھ 1948 سے نسلی عصبیت پر مبنی رہا ہے اور اب دنیا بھی اس پر آواز اٹھانے لگی ہے۔
اپریل 2021 میں انسانی حقوق کے معروف ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 213 صفحات پر مبنی رپورٹ میں کہا کہ اسرائیل فلسیطنیوں کے خلاف اپارٹائیڈ یعنی نسلی عصبیت پر مبنی قوانین اور پالیسیز کا ارتکاب کر رہا ہے۔ رپورٹ میں ان اقدامات کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ اپارٹائیڈ اور جنگی جرائم میں 'ملوث افراد کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائی کا آغاز کرے'۔ مذکورہ رپورٹ سے چند ہفتے قبل آئی سی سی نے اسرائیل اور حماس دونوں کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا اعلان کیا۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس مطالبے کا خیر مقدم کیا، لیکن اسرائیل نے ان تحقیقات کو سامی مخالف یعنی یہود مخالف کہہ کر انہیں عدالت کے دائرۂ کار سے باہر قرار دے کر مسترد کردیا۔
اب آیئے چند سادہ تاریخی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔
فلسطین کی تقسیم کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے کچھ ہی مہینے بعد 1948 میں اسرائیل نے فلسطین کے اٹھہتر فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔ ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو اردن، لبنان اور شام ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ انہیں باہر نکال کر ان کی واپسی کے تمام راستے مسدود کیے گئے۔ ان کے گھروں کی قیمتی اشیاء لوٹ کر انہیں مسمار کردیا گیا۔ یہی نہیں ان کے پھلدار درختوں کو کاٹ کر وہاں ایسے درخت لگائے گئے جو کسی قسم کی غذا فراہم نہیں کرسکتے۔ ان گاؤں کے گرد باڑ لگا کر انہیں کلوز ملٹری زون ڈیکلیئر کیا گیا۔ جہاں کسی در انداز کی موجودگی کی صورت میں اسے فوراً شوٹ کیا جاسکتا ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ اگر لبنان، اردن سے کوئی فلسطینی مہاجر واپس آنے میں کامیاب بھی ہوجائے تو وہ اپنے گاؤں پہنچ کر دوبارہ اپنا گھر نہ بنا سکے اور ان کے درخت اور فصلیں انہیں زندہ رہنے کےلیے غذا فراہم نہ کرسکیں۔ اسرائیل نے ہجرت کرنے والے فلسطینیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت رائٹ آف ریٹرن کا حق دینے سے انکار کردیا۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو اسرائیل کی حدود میں رہنے والے عرب فلسطینی بھی ہیں، جن کی تعداد 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد ڈیڑھ لاکھ رہ گئی تھی۔ آج یہ اسرائیل کی آبادی کا بیس فیصد ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے خلاف اسرائیل کے صہیونی شہری وہی کررہے ہیں، جو انڈیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ جی ہاں عرب فلسطینیوں کی مآب لنچنگ کی کئی وارداتیں اسرائیل کے مختلف شہروں میں سامنے آئی ہیں۔ لیکن حالیہ تنازعے کے شور میں اس مآب لنچنگ کو وہ عالمی کوریج نہیں مل رہی جو ملنی چاہیے۔
یاد رہے اسرائیل کی آبادی کا بیس فیصد فلسطینی، ان فلسطینیوں کے علاوہ ہیں جو مغربی کنارے اور غزہ یعنی فلسطینی اتھارٹیز کے تحت ایک محصور زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ فلسطینی اتھارٹیز پر بھی حتمی کنٹرول اسرائیل کا ہی ہے کیونکہ انہیں الگ ملک تسلیم کرنے کے باوجود اسرائیلی ریاست ہی ان کے زمینی، فضائی، اور بحری راستے کنٹرول کررہی ہے۔ اس طرح عملاً یہ فلسطینی ایک اوپن ایئر کنسنٹریشن کیمپ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ اپنی ٹیکس کلیکشن تک کےلیے آزاد نہیں۔ یہ اپنے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تک اسرائیل کی مرضی کے بغیر ادا نہیں کرسکتے۔ ان شہریوں کی بجلی پانی تک اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔ اسرائیل جب چاہتا ہے ان کے فنڈز ادا کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ غزہ کے رہائشیوں نے چونکہ حماس کو منتخب کیا ہے جسے اسرائیل مزاحمت کے باعث دہشت گرد قرار دیتا ہے، اس لیے اسرائیل نے ان کی ناکہ بندی مغربی کنارے سے بہت زیادہ زیادہ سخت کر رکھی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کی حدود میں رہنے والے زیادہ تر وہ فلسطینی ہیں جو 1948 کے وقت اسرائیل کے شہروں میں مقیم تھے۔ یہ بظاہر اسرائیلی شہری ہیں۔ ان کے پاس ووٹ دینے کا حق بھی ہے اور اسرائیلی پاسپورٹ بھی۔ لیکن یہ بھی پچھلے بہتر سال سے مسلسل اپارٹائیڈ پالیسیز کا سامنا کر رہے ہیں۔ 1948 کے بعد سے ہی ان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں ہیں۔
اسرائیل کے ان جرائم کو بے نقاب کرنے کےلیے مغرب میں فلسطینی حامی مصنفین نے کئی کتابیں لکھیں۔ ناصرہ شہر میں مقیم معروف برطانوی صحافی جوناتھن کک جو 'فلسطین ایک مسئلے' پر تین کتب تحریر کرچکے ہیں، کے مطابق اسرائیل کے قیام کے بعد ان فلسطینیوں کو بغیر اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ انہیں کسی دوسرے علاقے میں کام کرنے کےلیے سرکاری اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت معمولی سی مثال ہے لیکن ایسی پابندیاں آپ کے روزگار اور معاش کے حق پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ لیکن ان اپارٹائیڈ پالیسیز کا سب سے زیادہ کریہہ پہلو فلسطینیوں سے ان کے گھر اور گاؤں خالی کروا کر وہاں مسلسل یہودی بستیاں بسانا یا ان کے گھروں میں یہودیوں کو آباد کرنا ہے۔
1967 کی جنگ میں کامیابی اور فلسطین کے سو فیصد رقبے پر قبضے کے بعد اسرائیل نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے درمیاں یہودی بستیاں قائم کیں تاکہ فلسطینیوں کو مسلسل تقسیم کیا جائے۔ پچھلے 54 سال سے فلسطینی آبادیوں کی تقسیم کا سلسلہ مسلسل جاری یے۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے علاوہ خود مغربی کنارے میں بھی لاتعداد صہیونی بستیاں قائم کی گئیں۔ اس طرح فلسطینی آبادیوں کو مسلسل ایک دوسرے سے کاٹ کر گھیٹوز میں تبدیل کیا گیا اور انہیں اپنی ضروریات کےلیے خود انحصار نہیں رہنے دیا گیا۔ فلسطینی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کبھی کبھی اسکول، صحت کے مراکز اور اسپتال جانے کےلیے بھی اسرائیلی چیک پوسٹوں سے گزرتے ہیں، جو اپارٹائیڈ پالیسیز کی ہی ایک شکل ہے۔ فلسطینی گاؤں کو سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جدا کیا گیا ہے، جن پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔
دنیا نے اسرائیل کے قیام کو تو تسلیم کرلیا لیکن 1967 میں اسرائیل نے فلسطین کے باقی ماندہ بائیس فیصد پر جو قبضہ کیا وہ عالمی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے۔ وہ تمام علاقہ جو اس جنگ کے بعد ہضم کیا گیا ہے اور وہ تمام بستیاں جن کی تعمیر اس کے بعد کی گئی عالمی برادری اور بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔
1993 میں اوسلو امن مذاکرات کا آغاز کیا گیا تو دنیا اور یاسر عرفات کی لیڈرشپ کا خیال تھا کہ اسرائیل مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کی بائیس فیصد رقبے پر فلسطینی ریاست کی تشکیل کےلیے سنجیدہ ہے۔ لیکن نوے کی دہائی میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں تیزی آگئی۔ مذاکرات جاری تھے اور باقی ماندہ فلسطین میں بستیوں کی تعداد بھی جاری تھی، جس سے فلسطین مزید زمین کھوتے جارہے تھے۔
2000 میں اسرائیل کے وزیراعظم ایہود بارک نے فلسطینیوں کو پیشکش کی کہ وہ اس بائیس فیصد میں سے 80 فیصد رقبہ قبول کرلیں اور مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں جو یہودی بستیاں بسائی گئی ہیں، ان کا خیال دل سے نکال دیں۔ یہ پیشکش کیمپ ڈیوڈ میں یاسر عرفات کو کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی یروشلم کے بجائے اس کے قریب ایک گاؤں میں فلسطینی اتھارٹی کا دارالحکومت بنانے کی اور گاؤں کا نام القدس رکھنے کی پیشکش بھی کی گئی۔ ظاہر ہے اس شاندار پیشکش کو یاسر عرفات قبول نہ کرسکے۔
ان مذاکرات کی ناکامی کا ذمے دار امریکا اور اسرائیل نے یاسر عرفات کو ٹھہرایا۔ ایک اسرائیلی سیاست دان کا کہنا تھا کہ ''فلسطینی کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے جانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔'' یہی بات ہمارے کچھ دانشور بھی دہراتے ہیں کہ فلسطینی خود ہی اسرائیل سے امن کےلیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
لیکن اسرائیل کی جوع فی العرض یعنی زمین کی حرص ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ 2002 میں ویسٹ بینک اور غزہ میں فلسطینیوں کو اس 80 فیصد کے بھی محض 42 فیصد میں عملاً محصور کرنے کےلیے آہنی دیواریں تعمیر کی گئیں۔ یعنی اب فلسطینیوں کے پاس عملاً فلسطین کی سرزمین کے سو فیصد کا بائیس فیصد کا 80 فیصد کا محض بیالیس فیصد ہے۔
اس طرح ان دو علاقوں کو اسرائیلی آبادی سے الگ کردیا گیا جس نے ان آبادیوں کے مسائل میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ بعد ازاں غزہ کی پٹی (جو اٹھائیس کلومیٹر لمبی اور چھ کلومیٹر چوڑی اور تقریباً بیس لاکھ کی آبادی کا مسکن ہے) سے تو اسرائیل نے اپنی غیر قانونی بستیاں ختم کرلی ہیں لیکن مغربی کنارے میں اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیاں بنا کر صہیونی آبادکاریاں جاری ہیں۔ اور اس عمل کے نتیجے میں جو بائیس فیصد حصہ 1967 سے پہلے فلسطین کے پاس تھا، ان میں بھی اسرائیل کا کنٹرول مزید طاقت ور ہوتا جارہا ہے۔
جس چیز کو ہمارے دانشور سمجھنے میں ناکام ہیں وہ یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو آزاد اور خودمختار اسٹیٹ کے اختیارات دینے پر راضی نہیں ہے۔ اس باقی ماندہ زمین کے فضائی، بحری اور زمینی راستوں پر پوری طرح اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ فلسطینی نہ اپنی مرضی سے کہیں جا سکتے ہیں، نہ آسکتے نہ تجارت کر سکتے ہیں۔ انہیں اپنی بھری حدود میں مچھلیاں پکڑنے کی بھی اجازت نہیں۔
ماہرین کے مطابق ایسا مستقبل میں کسی بھی فلسطینی ریاست کو قیام میں عمل میں آنے سے روکنے کےلیے کیا گیا۔ ہمارے سادہ لوح بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کا جھگڑا بس حماس سے ہے۔ اگر حماس اپنی کارروائیوں سے باز آجائے تو ''اسرائیل تو فلسطینی ریاست کے قیام میں سنجیدہ ہے''۔
ان یہودی بستیوں کی آبادکاری میں بھی شدید بے رحمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ گھر والوں کو چند دن قبل اطلاع دے دی جاتی ہے کہ وہ اپنا گھر خالی کردیں ورنہ سرکار کسی جانی یا مالی نقصان کی ذمے دار نہیں ہوگی۔ امریکی امن ایکٹوسٹ راشیل کوری کی کہانی بہتوں کو یاد ہوگی جو گھروں کو مسمار کرنے سے روکنے کےلیے بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہوگئی اور بالآخر خود بھی بلڈوز ہوکر جان سے گئی۔ اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیز کس قدر بے رحم اور بے لچک ہیں۔ جب ایک امریکی لڑکی کے احتجاج کے سامنے بلڈوزر نہ رک سکا تو فلسطینیوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہوگا۔ ذرا تصور کیجئے کہ آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سرکار آپ کا گھر مسمار کرنے فلاں دن بلڈوزر بھیجے گی۔ آپ اپنے گھر والوں، بچوں، مال اور مستقبل میں اپنی رہائش کے خود ذمے دار ہیں۔ اب آپ اپنا سامان اور بال بچے سمیٹ کر اسرائیل کی حدود سے باہر جہاں بھی جانا چاہیں آزاد ہیں۔ خوش حال فلسطینی کرائے کا گھر افورڈ کرسکتے ہیں، لیکن بہت سی یہودی بستیوں میں انہیں کورٹ کے فیصلے کے باوجود گھر کرائے پر نہیں دیا جاتا۔
حالیہ تنازع جو اب پوری طرح جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے، بھی مشرق بیت المقدس میں شیخ جراح نامی گاؤں میں فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے واقعے کے بعد مسجد اقصیٰ میں اس کے خلاف نہتے سویلین عوام کے احتجاج سے شروع ہوا۔ جس کے بعد اسرائیل نے مسجد اقصیٰ میں پولیس آپریشن کے ذریعے اس احتجاج کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی۔
پاکستان میں فلسطین کے پیچیدہ مسئلے کی تصویرکشی ایک مذہبی تنازعے کے طور پر کی جاتی ہے کہ یہ تین مذاہب کا مشترکہ مقدس مقام ہے۔ یہاں مسجد اقصیٰ سے پہلے یہود کا ہیکل سلیمانی موجود تھا، بنی اسرائیل اور عیسائیوں کے مذہبی مقامات موجود تھے، اور اس طرح یہود کا حق فلسطین پر مذہبی لحاظ سے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو فلسطین سے دست بردار ہوجانا چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی حرمت اور حفاظت کا مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تنازعے کو مذہبی رنگ دینے میں یہود کا فائدہ ہے۔
فلسطین پر پہلا حق کس کا؟
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ آرکیالوجی اور عالمی تاریخ کے مطابق یہاں بنی اسرائیل سے قبل کنعانی رہتے تھے۔ ان کنعانیوں نے بنی اسرائیل کا مذہب اپنایا۔ معروف اسرائیلی صحافی، امن ایکٹوسٹ اور فلسطینیوں کے خلاف 1948 میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے سابق سپاہی والے اوری ایونری کے مطابق خود اسرائیل کے اپنے محققین کی تحقیق کے مطابق فلسطین کی آبادی قدیم زمانوں سے تبدیل نہیں ہوئی۔ اپنے ایک مضمون 'Whose Acre' میں اونری لکھتے ہیں کہ خود اسرائیل کے دوسرے صدر یتزک بن زیوی کی ریسرچ کے مطابق فلسطین کی سرزمین کی آبادی تاریخ کے ابتدائی زمانوں سے لے کر انیسویں صدی کے اواخر میں صہیونی بستیوں کے قیام تک تبدیل ںہیں ہوئی تھی۔ کنعانی آبادی، بنی اسرائیل (حضرت یعقوب کی اولاد جو بعد ازاں یہودی کہلائے) کے ساتھ مدغم ہوئی اور یہودی ہوگئی۔ رومی سلطنت میں عیسائیت پھیلنے کے بعد یہ عیسائی ہوگئے۔ دور فاروقی کی مسلم فتح کے بعد آبادی کی اکثریت ںے اسلام قبول کیا اور عرب کلچر اور زبان کو اپنا لیا۔ یوری اونری کے مطابق یورپ کے اشکنازی یہودیوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت سے پہلے یہاں جو عربی بولنے والے یہودی، عیسائی اور مسلمان آباد تھے وہی دراصل اس سرزمین کے اصل وارث تھے۔
یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل کے قیام کی جدوجہد کرنے والے صہیونی یہودیوں کی اکثریت سیکولر نظریات کی حامل ہے، جو مذہب کو ریاست سے الگ پرائیویٹ معاملہ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے یروشلم میں ہر سال گے (ہم جنسوں کی) پریڈ ہوتی ہے، جس کے مذہبی یہودی شدید مخالف ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل میں عرب یہودیوں کے خلاف بھی شدید امتیاز اور تفریق برتی جاتی ہے۔ اسرائیلی صحافی اور محقق شوشانہ مدمونی نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے۔ عرب یہودیوں کے ساتھ اسرائیلی ریاست کے سلوک پر راقم کا ایک تفصیلی فیچر موجود ہے۔
اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تاریخ گواہ ہے اور خود عرب فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ بالفور ڈیکلریشن سے پہلے فلسطین میں مسلمان، عیسائی اور یہودی مل جل کر رہتے تھے۔ عربی بولنے والے عیسائی اور یہودی، فلسطین میں ہمیشہ ایک معقول تعداد میں موجود رہے اور ان کے اور فلسطینی مسلمانوں کے درمیان کبھی دنگے فساد نہیں ہوئے۔ جبکہ یورپ سے آئے یہودیوں کی بستیوں کے قیام سے قبل ان میں نوے فیصد سے زائد مسلمان تھے۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطین پر یہودیوں کا حق ہے، کیونکہ ان کے آباؤاجداد دو ہزار سال پہلے یہاں رہتے تھے اور مذہبی کتب میں بنی اسرائیل کو فلسطین کا وارث کہا گیا ہے، وہ ذرا اس سوال کا جواب دیں کہ کیا پاکستان کے شہر لاہور کے رہنے والے یہ پسند کریں گے کہ بھارت سے چند لاکھ ہندو آکر اس بات کا دعویٰ کریں کہ دو ہزار سال پہلے ان کے پرکھے اس سرزمین کے وارث تھے، اس لیے اب اس علاقے سے اس کے مکینوں کو ہندوؤں کے حق میں دستبردار ہوجانا چاہیے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
رائے عامہ دوسرے تنازعات کی طرح یہاں بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ لیکن دونوں حصے عام طور سے فلسطین کے پیچیدہ مسئلے کا ضرورت سے زیادہ سادہ منظرنامہ (انگریزی میں اوور سمپلی فائیڈ ورژن بھی کہا جاتا ہے) پیش کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو عموماً ایک مذہبی تنازعے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس منظرنامے کے تحت بیت المقدس میں یہود کا ہیکل سلیمانی موجود تھا اور اس طرح یہود کا حق فلسطین پر مذہبی لحاظ سے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو فلسطین سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔ جبکہ دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ یہ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی حرمت اور حفاظت کا مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تنازعے کو مذہبی رنگ دینے میں یہود کا فائدہ ہے۔ اس موقف کی کمزوری پر ہم آگے بحث کرتے ہیں۔
فی الحال اتنا سمجھ لیجئے کہ لاکھوں فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر ان کے گھروں سے نکالنا اور انہیں ہمسایہ ممالک اور غزہ میں پناہ لینے پر مجبور کرنا اصل میں انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور اسےبین الاقوامی قانون کے تناظر میں دیکھنا چاہیے اور یہی تناظر فلسطینیوں کے حق میں بھی جاتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کی حرمت مسلمانوں کےلیے یقیناً ایک جذباتی مسئلہ ہے لیکن اگر دنیا میں اس مسئلے کو اجاگر کرنا ہے تو اسے انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر پیش کرنا ہوگا اور عالمی انسانی حقوق کی اصطلاحات استعمال کرکے اسے خود بھی سمجھنا ہوگا اور سمجھانا ہوگا۔
بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں دیکھیں تو فلسطین کے منظرنامے میں کئی ایسے حقائق ہیں جنہیں آج کے قاری کےلیے سمجھنا ضروری ہے۔ ان میں سے ایک اسرائیل کی اپارٹائیڈ پالیسیز بھی ہیں۔ اپارٹائیڈ کا لفظ ایسے طرز حکمرانی کےلیے بولا جاتا ہے جس میں سرکاری سرپرستی میں نسلی عصبیت پر مبنی پالیسیاں باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت (institutionalized طریقے سے) اختیار کی جائیں اور ملک میں موجود دو قوموں یا نسلوں کے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جائے۔ ایسا ایک قوم کو دوسری قوم پر برتری دلانے کےلیے کیا جاتا ہے۔ اپارٹائیڈ انسانیت کے خلاف نسل کشی کے بعد دوسرا بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔
یہ لفظ سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں 1948 سے لے کر 1990 کی دہائی کے آغاز تک گوروں کی حکومت میں مقامی آبادی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کےلیے استعمال ہوا۔ حالیہ ادوار میں چین کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ چینی حکومت کے امتیازی سلوک کےلیے بھی یہ لفظ استعمال ہورہا ہے۔ اس نظام کے تحت سرکاری پالیسیوں میں ایک نسل (گورے، چینی، اسرائیلی یہودی) کی حیثیت سے دوسری نسل (کالے، ایغور، عرب، فلسطینی) سے اونچی ہوتی ہے، اس لیے سرکار کی پالیسیاں برتر نسل کی حمایت میں بنائی جاتی ہیں اور دوسری نسل کے ساتھ باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے۔ یہ امتیاز دوسری نسل کو مسلسل کمزور اور بنیادی حقوق اور زندگی گزارنے کے وسائل سے محروم کرتا چلا جاتا ہے۔
اپارٹائیڈ کا اردو ترجمہ نسلی عصبیت کیا جاتا ہے لیکن چونکہ بین الاقوامی قانون میں یہ ایک تکنیکی اصطلاح ہے اس لیے ہم اصل اصطلاح ہی استعمال کریں گے۔ اسرائیل کا طرز حکمرانی اپنی حدود میں رہنے والے فلسطینی عربوں کے ساتھ 1948 سے نسلی عصبیت پر مبنی رہا ہے اور اب دنیا بھی اس پر آواز اٹھانے لگی ہے۔
اپریل 2021 میں انسانی حقوق کے معروف ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 213 صفحات پر مبنی رپورٹ میں کہا کہ اسرائیل فلسیطنیوں کے خلاف اپارٹائیڈ یعنی نسلی عصبیت پر مبنی قوانین اور پالیسیز کا ارتکاب کر رہا ہے۔ رپورٹ میں ان اقدامات کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ اپارٹائیڈ اور جنگی جرائم میں 'ملوث افراد کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائی کا آغاز کرے'۔ مذکورہ رپورٹ سے چند ہفتے قبل آئی سی سی نے اسرائیل اور حماس دونوں کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا اعلان کیا۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس مطالبے کا خیر مقدم کیا، لیکن اسرائیل نے ان تحقیقات کو سامی مخالف یعنی یہود مخالف کہہ کر انہیں عدالت کے دائرۂ کار سے باہر قرار دے کر مسترد کردیا۔
اب آیئے چند سادہ تاریخی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔
فلسطین کی تقسیم کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے کچھ ہی مہینے بعد 1948 میں اسرائیل نے فلسطین کے اٹھہتر فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔ ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو اردن، لبنان اور شام ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ انہیں باہر نکال کر ان کی واپسی کے تمام راستے مسدود کیے گئے۔ ان کے گھروں کی قیمتی اشیاء لوٹ کر انہیں مسمار کردیا گیا۔ یہی نہیں ان کے پھلدار درختوں کو کاٹ کر وہاں ایسے درخت لگائے گئے جو کسی قسم کی غذا فراہم نہیں کرسکتے۔ ان گاؤں کے گرد باڑ لگا کر انہیں کلوز ملٹری زون ڈیکلیئر کیا گیا۔ جہاں کسی در انداز کی موجودگی کی صورت میں اسے فوراً شوٹ کیا جاسکتا ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ اگر لبنان، اردن سے کوئی فلسطینی مہاجر واپس آنے میں کامیاب بھی ہوجائے تو وہ اپنے گاؤں پہنچ کر دوبارہ اپنا گھر نہ بنا سکے اور ان کے درخت اور فصلیں انہیں زندہ رہنے کےلیے غذا فراہم نہ کرسکیں۔ اسرائیل نے ہجرت کرنے والے فلسطینیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت رائٹ آف ریٹرن کا حق دینے سے انکار کردیا۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو اسرائیل کی حدود میں رہنے والے عرب فلسطینی بھی ہیں، جن کی تعداد 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد ڈیڑھ لاکھ رہ گئی تھی۔ آج یہ اسرائیل کی آبادی کا بیس فیصد ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے خلاف اسرائیل کے صہیونی شہری وہی کررہے ہیں، جو انڈیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ جی ہاں عرب فلسطینیوں کی مآب لنچنگ کی کئی وارداتیں اسرائیل کے مختلف شہروں میں سامنے آئی ہیں۔ لیکن حالیہ تنازعے کے شور میں اس مآب لنچنگ کو وہ عالمی کوریج نہیں مل رہی جو ملنی چاہیے۔
یاد رہے اسرائیل کی آبادی کا بیس فیصد فلسطینی، ان فلسطینیوں کے علاوہ ہیں جو مغربی کنارے اور غزہ یعنی فلسطینی اتھارٹیز کے تحت ایک محصور زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ فلسطینی اتھارٹیز پر بھی حتمی کنٹرول اسرائیل کا ہی ہے کیونکہ انہیں الگ ملک تسلیم کرنے کے باوجود اسرائیلی ریاست ہی ان کے زمینی، فضائی، اور بحری راستے کنٹرول کررہی ہے۔ اس طرح عملاً یہ فلسطینی ایک اوپن ایئر کنسنٹریشن کیمپ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ اپنی ٹیکس کلیکشن تک کےلیے آزاد نہیں۔ یہ اپنے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تک اسرائیل کی مرضی کے بغیر ادا نہیں کرسکتے۔ ان شہریوں کی بجلی پانی تک اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔ اسرائیل جب چاہتا ہے ان کے فنڈز ادا کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ غزہ کے رہائشیوں نے چونکہ حماس کو منتخب کیا ہے جسے اسرائیل مزاحمت کے باعث دہشت گرد قرار دیتا ہے، اس لیے اسرائیل نے ان کی ناکہ بندی مغربی کنارے سے بہت زیادہ زیادہ سخت کر رکھی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کی حدود میں رہنے والے زیادہ تر وہ فلسطینی ہیں جو 1948 کے وقت اسرائیل کے شہروں میں مقیم تھے۔ یہ بظاہر اسرائیلی شہری ہیں۔ ان کے پاس ووٹ دینے کا حق بھی ہے اور اسرائیلی پاسپورٹ بھی۔ لیکن یہ بھی پچھلے بہتر سال سے مسلسل اپارٹائیڈ پالیسیز کا سامنا کر رہے ہیں۔ 1948 کے بعد سے ہی ان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں ہیں۔
اسرائیل کے ان جرائم کو بے نقاب کرنے کےلیے مغرب میں فلسطینی حامی مصنفین نے کئی کتابیں لکھیں۔ ناصرہ شہر میں مقیم معروف برطانوی صحافی جوناتھن کک جو 'فلسطین ایک مسئلے' پر تین کتب تحریر کرچکے ہیں، کے مطابق اسرائیل کے قیام کے بعد ان فلسطینیوں کو بغیر اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ انہیں کسی دوسرے علاقے میں کام کرنے کےلیے سرکاری اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت معمولی سی مثال ہے لیکن ایسی پابندیاں آپ کے روزگار اور معاش کے حق پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ لیکن ان اپارٹائیڈ پالیسیز کا سب سے زیادہ کریہہ پہلو فلسطینیوں سے ان کے گھر اور گاؤں خالی کروا کر وہاں مسلسل یہودی بستیاں بسانا یا ان کے گھروں میں یہودیوں کو آباد کرنا ہے۔
1967 کی جنگ میں کامیابی اور فلسطین کے سو فیصد رقبے پر قبضے کے بعد اسرائیل نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے درمیاں یہودی بستیاں قائم کیں تاکہ فلسطینیوں کو مسلسل تقسیم کیا جائے۔ پچھلے 54 سال سے فلسطینی آبادیوں کی تقسیم کا سلسلہ مسلسل جاری یے۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے علاوہ خود مغربی کنارے میں بھی لاتعداد صہیونی بستیاں قائم کی گئیں۔ اس طرح فلسطینی آبادیوں کو مسلسل ایک دوسرے سے کاٹ کر گھیٹوز میں تبدیل کیا گیا اور انہیں اپنی ضروریات کےلیے خود انحصار نہیں رہنے دیا گیا۔ فلسطینی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کبھی کبھی اسکول، صحت کے مراکز اور اسپتال جانے کےلیے بھی اسرائیلی چیک پوسٹوں سے گزرتے ہیں، جو اپارٹائیڈ پالیسیز کی ہی ایک شکل ہے۔ فلسطینی گاؤں کو سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جدا کیا گیا ہے، جن پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔
دنیا نے اسرائیل کے قیام کو تو تسلیم کرلیا لیکن 1967 میں اسرائیل نے فلسطین کے باقی ماندہ بائیس فیصد پر جو قبضہ کیا وہ عالمی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے۔ وہ تمام علاقہ جو اس جنگ کے بعد ہضم کیا گیا ہے اور وہ تمام بستیاں جن کی تعمیر اس کے بعد کی گئی عالمی برادری اور بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔
1993 میں اوسلو امن مذاکرات کا آغاز کیا گیا تو دنیا اور یاسر عرفات کی لیڈرشپ کا خیال تھا کہ اسرائیل مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کی بائیس فیصد رقبے پر فلسطینی ریاست کی تشکیل کےلیے سنجیدہ ہے۔ لیکن نوے کی دہائی میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں تیزی آگئی۔ مذاکرات جاری تھے اور باقی ماندہ فلسطین میں بستیوں کی تعداد بھی جاری تھی، جس سے فلسطین مزید زمین کھوتے جارہے تھے۔
2000 میں اسرائیل کے وزیراعظم ایہود بارک نے فلسطینیوں کو پیشکش کی کہ وہ اس بائیس فیصد میں سے 80 فیصد رقبہ قبول کرلیں اور مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں جو یہودی بستیاں بسائی گئی ہیں، ان کا خیال دل سے نکال دیں۔ یہ پیشکش کیمپ ڈیوڈ میں یاسر عرفات کو کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی یروشلم کے بجائے اس کے قریب ایک گاؤں میں فلسطینی اتھارٹی کا دارالحکومت بنانے کی اور گاؤں کا نام القدس رکھنے کی پیشکش بھی کی گئی۔ ظاہر ہے اس شاندار پیشکش کو یاسر عرفات قبول نہ کرسکے۔
ان مذاکرات کی ناکامی کا ذمے دار امریکا اور اسرائیل نے یاسر عرفات کو ٹھہرایا۔ ایک اسرائیلی سیاست دان کا کہنا تھا کہ ''فلسطینی کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے جانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔'' یہی بات ہمارے کچھ دانشور بھی دہراتے ہیں کہ فلسطینی خود ہی اسرائیل سے امن کےلیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
لیکن اسرائیل کی جوع فی العرض یعنی زمین کی حرص ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ 2002 میں ویسٹ بینک اور غزہ میں فلسطینیوں کو اس 80 فیصد کے بھی محض 42 فیصد میں عملاً محصور کرنے کےلیے آہنی دیواریں تعمیر کی گئیں۔ یعنی اب فلسطینیوں کے پاس عملاً فلسطین کی سرزمین کے سو فیصد کا بائیس فیصد کا 80 فیصد کا محض بیالیس فیصد ہے۔
اس طرح ان دو علاقوں کو اسرائیلی آبادی سے الگ کردیا گیا جس نے ان آبادیوں کے مسائل میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ بعد ازاں غزہ کی پٹی (جو اٹھائیس کلومیٹر لمبی اور چھ کلومیٹر چوڑی اور تقریباً بیس لاکھ کی آبادی کا مسکن ہے) سے تو اسرائیل نے اپنی غیر قانونی بستیاں ختم کرلی ہیں لیکن مغربی کنارے میں اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیاں بنا کر صہیونی آبادکاریاں جاری ہیں۔ اور اس عمل کے نتیجے میں جو بائیس فیصد حصہ 1967 سے پہلے فلسطین کے پاس تھا، ان میں بھی اسرائیل کا کنٹرول مزید طاقت ور ہوتا جارہا ہے۔
جس چیز کو ہمارے دانشور سمجھنے میں ناکام ہیں وہ یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو آزاد اور خودمختار اسٹیٹ کے اختیارات دینے پر راضی نہیں ہے۔ اس باقی ماندہ زمین کے فضائی، بحری اور زمینی راستوں پر پوری طرح اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ فلسطینی نہ اپنی مرضی سے کہیں جا سکتے ہیں، نہ آسکتے نہ تجارت کر سکتے ہیں۔ انہیں اپنی بھری حدود میں مچھلیاں پکڑنے کی بھی اجازت نہیں۔
ماہرین کے مطابق ایسا مستقبل میں کسی بھی فلسطینی ریاست کو قیام میں عمل میں آنے سے روکنے کےلیے کیا گیا۔ ہمارے سادہ لوح بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کا جھگڑا بس حماس سے ہے۔ اگر حماس اپنی کارروائیوں سے باز آجائے تو ''اسرائیل تو فلسطینی ریاست کے قیام میں سنجیدہ ہے''۔
ان یہودی بستیوں کی آبادکاری میں بھی شدید بے رحمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ گھر والوں کو چند دن قبل اطلاع دے دی جاتی ہے کہ وہ اپنا گھر خالی کردیں ورنہ سرکار کسی جانی یا مالی نقصان کی ذمے دار نہیں ہوگی۔ امریکی امن ایکٹوسٹ راشیل کوری کی کہانی بہتوں کو یاد ہوگی جو گھروں کو مسمار کرنے سے روکنے کےلیے بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہوگئی اور بالآخر خود بھی بلڈوز ہوکر جان سے گئی۔ اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیز کس قدر بے رحم اور بے لچک ہیں۔ جب ایک امریکی لڑکی کے احتجاج کے سامنے بلڈوزر نہ رک سکا تو فلسطینیوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہوگا۔ ذرا تصور کیجئے کہ آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سرکار آپ کا گھر مسمار کرنے فلاں دن بلڈوزر بھیجے گی۔ آپ اپنے گھر والوں، بچوں، مال اور مستقبل میں اپنی رہائش کے خود ذمے دار ہیں۔ اب آپ اپنا سامان اور بال بچے سمیٹ کر اسرائیل کی حدود سے باہر جہاں بھی جانا چاہیں آزاد ہیں۔ خوش حال فلسطینی کرائے کا گھر افورڈ کرسکتے ہیں، لیکن بہت سی یہودی بستیوں میں انہیں کورٹ کے فیصلے کے باوجود گھر کرائے پر نہیں دیا جاتا۔
حالیہ تنازع جو اب پوری طرح جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے، بھی مشرق بیت المقدس میں شیخ جراح نامی گاؤں میں فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے واقعے کے بعد مسجد اقصیٰ میں اس کے خلاف نہتے سویلین عوام کے احتجاج سے شروع ہوا۔ جس کے بعد اسرائیل نے مسجد اقصیٰ میں پولیس آپریشن کے ذریعے اس احتجاج کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی۔
پاکستان میں فلسطین کے پیچیدہ مسئلے کی تصویرکشی ایک مذہبی تنازعے کے طور پر کی جاتی ہے کہ یہ تین مذاہب کا مشترکہ مقدس مقام ہے۔ یہاں مسجد اقصیٰ سے پہلے یہود کا ہیکل سلیمانی موجود تھا، بنی اسرائیل اور عیسائیوں کے مذہبی مقامات موجود تھے، اور اس طرح یہود کا حق فلسطین پر مذہبی لحاظ سے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو فلسطین سے دست بردار ہوجانا چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی حرمت اور حفاظت کا مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تنازعے کو مذہبی رنگ دینے میں یہود کا فائدہ ہے۔
فلسطین پر پہلا حق کس کا؟
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ آرکیالوجی اور عالمی تاریخ کے مطابق یہاں بنی اسرائیل سے قبل کنعانی رہتے تھے۔ ان کنعانیوں نے بنی اسرائیل کا مذہب اپنایا۔ معروف اسرائیلی صحافی، امن ایکٹوسٹ اور فلسطینیوں کے خلاف 1948 میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے سابق سپاہی والے اوری ایونری کے مطابق خود اسرائیل کے اپنے محققین کی تحقیق کے مطابق فلسطین کی آبادی قدیم زمانوں سے تبدیل نہیں ہوئی۔ اپنے ایک مضمون 'Whose Acre' میں اونری لکھتے ہیں کہ خود اسرائیل کے دوسرے صدر یتزک بن زیوی کی ریسرچ کے مطابق فلسطین کی سرزمین کی آبادی تاریخ کے ابتدائی زمانوں سے لے کر انیسویں صدی کے اواخر میں صہیونی بستیوں کے قیام تک تبدیل ںہیں ہوئی تھی۔ کنعانی آبادی، بنی اسرائیل (حضرت یعقوب کی اولاد جو بعد ازاں یہودی کہلائے) کے ساتھ مدغم ہوئی اور یہودی ہوگئی۔ رومی سلطنت میں عیسائیت پھیلنے کے بعد یہ عیسائی ہوگئے۔ دور فاروقی کی مسلم فتح کے بعد آبادی کی اکثریت ںے اسلام قبول کیا اور عرب کلچر اور زبان کو اپنا لیا۔ یوری اونری کے مطابق یورپ کے اشکنازی یہودیوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت سے پہلے یہاں جو عربی بولنے والے یہودی، عیسائی اور مسلمان آباد تھے وہی دراصل اس سرزمین کے اصل وارث تھے۔
یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل کے قیام کی جدوجہد کرنے والے صہیونی یہودیوں کی اکثریت سیکولر نظریات کی حامل ہے، جو مذہب کو ریاست سے الگ پرائیویٹ معاملہ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے یروشلم میں ہر سال گے (ہم جنسوں کی) پریڈ ہوتی ہے، جس کے مذہبی یہودی شدید مخالف ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل میں عرب یہودیوں کے خلاف بھی شدید امتیاز اور تفریق برتی جاتی ہے۔ اسرائیلی صحافی اور محقق شوشانہ مدمونی نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے۔ عرب یہودیوں کے ساتھ اسرائیلی ریاست کے سلوک پر راقم کا ایک تفصیلی فیچر موجود ہے۔
اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تاریخ گواہ ہے اور خود عرب فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ بالفور ڈیکلریشن سے پہلے فلسطین میں مسلمان، عیسائی اور یہودی مل جل کر رہتے تھے۔ عربی بولنے والے عیسائی اور یہودی، فلسطین میں ہمیشہ ایک معقول تعداد میں موجود رہے اور ان کے اور فلسطینی مسلمانوں کے درمیان کبھی دنگے فساد نہیں ہوئے۔ جبکہ یورپ سے آئے یہودیوں کی بستیوں کے قیام سے قبل ان میں نوے فیصد سے زائد مسلمان تھے۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطین پر یہودیوں کا حق ہے، کیونکہ ان کے آباؤاجداد دو ہزار سال پہلے یہاں رہتے تھے اور مذہبی کتب میں بنی اسرائیل کو فلسطین کا وارث کہا گیا ہے، وہ ذرا اس سوال کا جواب دیں کہ کیا پاکستان کے شہر لاہور کے رہنے والے یہ پسند کریں گے کہ بھارت سے چند لاکھ ہندو آکر اس بات کا دعویٰ کریں کہ دو ہزار سال پہلے ان کے پرکھے اس سرزمین کے وارث تھے، اس لیے اب اس علاقے سے اس کے مکینوں کو ہندوؤں کے حق میں دستبردار ہوجانا چاہیے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔