آج کا سب سے بڑا مسئلہ
آج کے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ’’مشرف غداری‘‘ کیس ہے اس کیس پر میڈیا کے دانشوروں کے...
آج کے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ''مشرف غداری'' کیس ہے اس کیس پر میڈیا کے دانشوروں کے درمیان سخت معرکہ جاری ہے۔ اہل سیاست بھی اس مسئلے پر اپنی جانبدارانہ یا غیر جانبدارانہ آرا پیش کر رہے ہیں۔ کالم نگار حضرات بھی خاموش نہیں وہ بھی اچھا برا صحیح غلط کچھ نہ کچھ کہہ ہی رہے ہیں۔ آج دو بڑے سیاستدان جن میں ایک اس ملک کے عبوری وزیر اعظم بھی رہے ہیں کا مشرف کیس کے حوالے سے بڑا واضح موقف سامنے آیا ہے۔ سابق عبوری وزیر اعظم اور (ق) لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''مشرف کا ٹرائل 12 اکتوبر 1999ء سے ہونا چاہیے اور 12 اکتوبر سے ٹرائل ہوتا ہے تو اس ٹرائل میں مجھے، سابق چیف آف آرمی جنرل (ر) کیانی، جسٹس افتخار محمد چوہدری اور پرویز الٰہی کو بھی اس مقدمے کے ملزمان میں شامل ہونا چاہیے'' چوہدری صاحب نے سوال کیا ہے کہ اگر مقدمہ 3 نومبر سے چلایا جا رہا ہے تو اس مقدمے میں شریک تمام ملزمان کو کیوں گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے؟
یہ باتیں چوہدری شجاعت نے سینیٹ سے خطاب کے دوران کی ہیں۔ موصوف نے کہا ہے کہ مشرف غداری کیس میں وہ بطور ملزم اپنا نام پیش کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرف پر غداری کا مقدمہ بنانے والوں نے اسی کی حکومت میں انتخابات لڑے اور جیتنے کے بعد مشرف سے ہی حلف لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین میں غداری کا لفظ استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے آئین میں موجود لفظ ''ہائی ٹریزن'' کا مطلب کسی صورت بھی غداری نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کیس میں ملوث تمام افراد کو چھوڑ کر صرف مشرف کا ٹرائل کیا جاتا ہے تو دنیا کہے گی کہ یہ سب کچھ صرف ایک شخص کو سزا دلوانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی سابق نائب وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ''کوئی فوجی سربراہ نہ غدار ہو سکتا ہے نہ مشرف غدار ہیں'' انھوں نے سوال کیا ہے کہ ''وزارت کے لالچ میں مشرف سے حلف لینے والے (ن) لیگ کے وزراء بتائیں کہ کیا غدار سے حلف لیا جاتا ہے؟''
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ مشرف کا ٹرائل 12 اکتوبر سے ہونا چاہیے3 نومبر سے مشرف کے خلاف کارروائی کرنے سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت 5 جج بھی اس کیس میں ملوث ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اگر 3 نومبر سے ٹرائل ہوتا ہے تو کئی جج اور اعلیٰ فوجی افسران سمیت 40 سے 50 افراد بچ جائیں گے۔
ادھر متحدہ کے رہنما الطاف حسین نے کہا ہے کہ ''جنرل (ر) پرویز مشرف کی میڈیا میں جو تذلیل کی جا رہی ہے وہ صرف مشرف کے مہاجر ہونے کی وجہ سے کی جا رہی ہے اور پاکستان کے تین کروڑ مہاجر اس تذلیل کو برداشت نہیں کریں گے اس کا جواب تحریری زبانی اور جسمانی ہر طرح دیں گے''۔ اس تاریخی کیس کے حوالے سے جو بحث مباحثہ جاری ہے اس میں کسی بھی فریق کو درست یا غلط کہنے سے قطع نظر یہ بات بلا توقف بلاجھجھک کی جا سکتی ہے کہ یہ کیس اس قدر متنازعہ ہو گیا ہے کہ اس میں پیش رفت بہت ساری سنگین مشکلات اور آئینی اور قانونی الجھنوں کا باعث بن سکتی ہے اور حالات نے اس کیس کو اس قدر مشکل متنازعہ اور پیچیدہ بنا دیا ہے کہ خود عدلیہ ایک ایسی مشکل صورت حال سے دو چار ہو رہی ہے ۔
اس مسئلے پر اظہار خیال کرنے والے واضح طور پر دو حصوں میں بٹتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جو مشرف کو ہر حال میں سزا دلوانا چاہتا ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے جو مشرف کے ٹرائل کو انتقامی کارروائی قرار دے رہا ہے اور بدقسمتی سے اس حصے میں ایسی بڑی جماعتوں کے سربراہ شامل ہیں جن کی رائے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ان میں طاہر القادری جیسے رہنما بھی شامل ہیں جن کی تحویل میں ہر وقت لاکھ دو لاکھ معتقدین رہتے ہیں اور وہ جب چاہیں انھیں سڑکوں پر لا سکتے ہیں اسی طرح متحدہ ہے جس کے قائد جب مناسب سمجھیں لاکھوں عوام کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔ میں یہ سوچ کر حیران ہو رہا ہوں کہ اس ملک کے سب سے مقبول رہنما ذوالفقار علی بھٹو پر جب مقدمہ چل رہا تھا اور انھیں گرفتار کر کے جیل کے ایک تنگ و تاریک کمرے میں رکھا گیا تھا حتیٰ کہ جب انھیں سزائے موت سنا دی گئی تھی تو ان کی گرفتاری اور ان کی سزائے موت پر اس وقت ملک نہ دو حصوں میں بٹا تھا نہ ان کی گرفتاری اور سزائے موت کو اس طرح متنازعہ بنایا گیا تھا جس طرح مشرف کی گرفتاری کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے؟ یہ سوال کوئی جیومیٹری یا الجبرا کا نہیں بلکہ ایک مقبول عوامی رہنما اور ایک فوجی ڈکٹیٹر کے مقدمے میں فرق کا سوال ہے؟ اور اس سوال کے اندر ایک جہان معنی پوشیدہ ہے کیا اس کیس پر بحث کرنے والے اس جہان معنی پر غور کرنے کی زحمت کریں گے؟
جنرل مشرف پر ایک منتخب رہنما نواز شریف سے غیر جمہوری طریقے سے اقتدار چھین لینے کا الزام ہے اور اسی الزام کے تحت یہ مقدمہ چل رہا ہے۔ آئین میں اس جرم کی سزا موت مقرر ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سابق صدر لغاری اور غلام اسحق خان نے بے نظیر اور نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا تھا کیا یہ اقدام آرٹیکل 6 کے تحت آتا ہے؟ اس صورت حال میں صرف یہ فرق رہ جاتا ہے کہ بے نظیر اور نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے والے غیر فوجی تھے اور 12 اکتوبر کو نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے والا ایک فوجی جنرل تھا اس حوالے سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ دونوں صورتوں میں منتخب رہنماؤں کو اقتدار سے الگ کیا گیا۔ اور ایک جمہوری حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ اگر اس حوالے سے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ ایک جمہوری حکومت کو ختم کر کے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار دیا گیا تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرف نے بھی ایک وقفے کے بعد ملک میں انتخابات کروائے جس میں سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا اور اقتدار منتخب حکومت کو منتقل کر دیا گیا۔ اس وقفے کو مشرف نے پی سی او سے پر کیا اور لغاری اور اسحٰق نے عبوری حکومتوں کے ذریعے پر کیا۔ کیا ان اقدامات میں کوئی معنوی فرق ہے؟ کیا اسحق خان اور فاروق لغاری کو ان کے ان غیر جمہوری اقدامات میں آئینی تحفظ حاصل ہونا چاہیے؟ یہ ایسے سوال ہیں جو آج قانون اور انصاف کے رکھوالوں سیاستدانوں اور دانشوروں اور آئین بنانے والوں سے جواب مانگ رہے ہیں۔
کسی بھی ملک کے قانون انصاف اور آئین کا بنیادی مقصد قانون انصاف اور آئین کی برتری قائم رکھنا ہوتا ہے تا کہ معاشرے انارکی کے شکار نہ ہوں۔ لیکن ذرا گہرائی میں جا کر دیکھیں تو قانون انصاف اور آئین کی روح اور بنیادی مقصد مظلوم کو انصاف دلانا ہی ہوتا ہے اور اگر یہ دلیل اور جواز درست ہے تو پھر اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام سب سے بڑے مظلوم ہیں۔ اگر اٹھارہ کروڑ عوام مظلوم ہیں تو ان پر ظلم کی نوعیت کیا ہے؟ مہنگائی بے روزگاری تعلیم علاج سے محرومی گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ اور جان و مال کے تحفظ سے محرومی۔ کیا یہ بیماریاں ظلم کی تعریف میں آتی ہیں؟
اور آئین سازی اور اقتدار میں آنے کا حق عوام اپنے ووٹ سے سیاستدانوں کو دیتے ہیں۔ یعنی اقتدار کے اصل مالک عوام ہوتے ہیں اس تناظر میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا جمہوری حکومتوں کے ادوار میں عوام پر یہ ظلم زیادہ ڈھائے گئے یا فوجی حکومتوں کے دور میں عوام پر زیادہ ظلم ڈھائے گئے؟ اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بھٹو جیسے سب سے زیادہ مقبول عوامی لیڈر کی گرفتاری اور سزا کیوں اس قدر متنازعہ نہیں بنی اور مشرف کی گرفتاری اور سزا کیوں اس قدر متنازعہ بن گئی ہے؟ بھٹو کی گرفتاری اور سزائے موت پر عوام کیوں خاموش رہے سیاستدانوں کی زبان کیوں بند رہی؟ آج عوام میں اضطراب کیوں ہے اور سیاستدان اس مسئلے پر کیوں بول رہے ہیں اور کیا بول رہے ہیں؟ چوہدری شجاعت حسین نے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا مشرف کیس عوام کی توجہ ان کے سنگین مسائل سے ہٹانے کی ایک کوشش یا سازش تو نہیں؟ کیا چوہدری صاحب کی بات میں وزن ہے؟
سرمایہ دارانہ نظام میں جمہوریت سرمایہ دارانہ طبقاتی استحصال کو چھپانے کا کام انجام دیتی ہے اور اس عوامی خدمت کے عوض سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں کو اربوں روپوں کی لوٹ مار کی چھوٹ دیتی ہے ان تلخ حقائق کو سمجھے بغیر جمہوریت کا راگ الاپنا اور اس عوام دشمن جمہوریت کو آئینی تحفظ فراہم کرنا سب سے بڑی غداری نہیں ہے؟ آئین کا احترام ضروری ہے اور آئین کی برتری کے لیے مشرف کو پھانسی پر لٹکانا بالکل جائز ہے لیکن عوام کو صرف یہ اعتراض ہے کہ ماضی میں فوجی آمروں کے خلاف آرٹیکل 6 پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ اور آج اس پر عملدرآمد پر اصرار کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا آج مشرف کو سزائے موت دینے پر اصرار کرنے والے ایوب خان یحییٰ خان ضیا الحق کی غداری کی سزا پر اصرار کرتے رہے؟ اگر نہیں کرتے رہے تو اس کی وجہ کیا تھی؟
یہ باتیں چوہدری شجاعت نے سینیٹ سے خطاب کے دوران کی ہیں۔ موصوف نے کہا ہے کہ مشرف غداری کیس میں وہ بطور ملزم اپنا نام پیش کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرف پر غداری کا مقدمہ بنانے والوں نے اسی کی حکومت میں انتخابات لڑے اور جیتنے کے بعد مشرف سے ہی حلف لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین میں غداری کا لفظ استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے آئین میں موجود لفظ ''ہائی ٹریزن'' کا مطلب کسی صورت بھی غداری نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کیس میں ملوث تمام افراد کو چھوڑ کر صرف مشرف کا ٹرائل کیا جاتا ہے تو دنیا کہے گی کہ یہ سب کچھ صرف ایک شخص کو سزا دلوانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی سابق نائب وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ''کوئی فوجی سربراہ نہ غدار ہو سکتا ہے نہ مشرف غدار ہیں'' انھوں نے سوال کیا ہے کہ ''وزارت کے لالچ میں مشرف سے حلف لینے والے (ن) لیگ کے وزراء بتائیں کہ کیا غدار سے حلف لیا جاتا ہے؟''
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ مشرف کا ٹرائل 12 اکتوبر سے ہونا چاہیے3 نومبر سے مشرف کے خلاف کارروائی کرنے سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت 5 جج بھی اس کیس میں ملوث ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اگر 3 نومبر سے ٹرائل ہوتا ہے تو کئی جج اور اعلیٰ فوجی افسران سمیت 40 سے 50 افراد بچ جائیں گے۔
ادھر متحدہ کے رہنما الطاف حسین نے کہا ہے کہ ''جنرل (ر) پرویز مشرف کی میڈیا میں جو تذلیل کی جا رہی ہے وہ صرف مشرف کے مہاجر ہونے کی وجہ سے کی جا رہی ہے اور پاکستان کے تین کروڑ مہاجر اس تذلیل کو برداشت نہیں کریں گے اس کا جواب تحریری زبانی اور جسمانی ہر طرح دیں گے''۔ اس تاریخی کیس کے حوالے سے جو بحث مباحثہ جاری ہے اس میں کسی بھی فریق کو درست یا غلط کہنے سے قطع نظر یہ بات بلا توقف بلاجھجھک کی جا سکتی ہے کہ یہ کیس اس قدر متنازعہ ہو گیا ہے کہ اس میں پیش رفت بہت ساری سنگین مشکلات اور آئینی اور قانونی الجھنوں کا باعث بن سکتی ہے اور حالات نے اس کیس کو اس قدر مشکل متنازعہ اور پیچیدہ بنا دیا ہے کہ خود عدلیہ ایک ایسی مشکل صورت حال سے دو چار ہو رہی ہے ۔
اس مسئلے پر اظہار خیال کرنے والے واضح طور پر دو حصوں میں بٹتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جو مشرف کو ہر حال میں سزا دلوانا چاہتا ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے جو مشرف کے ٹرائل کو انتقامی کارروائی قرار دے رہا ہے اور بدقسمتی سے اس حصے میں ایسی بڑی جماعتوں کے سربراہ شامل ہیں جن کی رائے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ان میں طاہر القادری جیسے رہنما بھی شامل ہیں جن کی تحویل میں ہر وقت لاکھ دو لاکھ معتقدین رہتے ہیں اور وہ جب چاہیں انھیں سڑکوں پر لا سکتے ہیں اسی طرح متحدہ ہے جس کے قائد جب مناسب سمجھیں لاکھوں عوام کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔ میں یہ سوچ کر حیران ہو رہا ہوں کہ اس ملک کے سب سے مقبول رہنما ذوالفقار علی بھٹو پر جب مقدمہ چل رہا تھا اور انھیں گرفتار کر کے جیل کے ایک تنگ و تاریک کمرے میں رکھا گیا تھا حتیٰ کہ جب انھیں سزائے موت سنا دی گئی تھی تو ان کی گرفتاری اور ان کی سزائے موت پر اس وقت ملک نہ دو حصوں میں بٹا تھا نہ ان کی گرفتاری اور سزائے موت کو اس طرح متنازعہ بنایا گیا تھا جس طرح مشرف کی گرفتاری کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے؟ یہ سوال کوئی جیومیٹری یا الجبرا کا نہیں بلکہ ایک مقبول عوامی رہنما اور ایک فوجی ڈکٹیٹر کے مقدمے میں فرق کا سوال ہے؟ اور اس سوال کے اندر ایک جہان معنی پوشیدہ ہے کیا اس کیس پر بحث کرنے والے اس جہان معنی پر غور کرنے کی زحمت کریں گے؟
جنرل مشرف پر ایک منتخب رہنما نواز شریف سے غیر جمہوری طریقے سے اقتدار چھین لینے کا الزام ہے اور اسی الزام کے تحت یہ مقدمہ چل رہا ہے۔ آئین میں اس جرم کی سزا موت مقرر ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سابق صدر لغاری اور غلام اسحق خان نے بے نظیر اور نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا تھا کیا یہ اقدام آرٹیکل 6 کے تحت آتا ہے؟ اس صورت حال میں صرف یہ فرق رہ جاتا ہے کہ بے نظیر اور نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے والے غیر فوجی تھے اور 12 اکتوبر کو نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے والا ایک فوجی جنرل تھا اس حوالے سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ دونوں صورتوں میں منتخب رہنماؤں کو اقتدار سے الگ کیا گیا۔ اور ایک جمہوری حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ اگر اس حوالے سے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ ایک جمہوری حکومت کو ختم کر کے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار دیا گیا تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرف نے بھی ایک وقفے کے بعد ملک میں انتخابات کروائے جس میں سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا اور اقتدار منتخب حکومت کو منتقل کر دیا گیا۔ اس وقفے کو مشرف نے پی سی او سے پر کیا اور لغاری اور اسحٰق نے عبوری حکومتوں کے ذریعے پر کیا۔ کیا ان اقدامات میں کوئی معنوی فرق ہے؟ کیا اسحق خان اور فاروق لغاری کو ان کے ان غیر جمہوری اقدامات میں آئینی تحفظ حاصل ہونا چاہیے؟ یہ ایسے سوال ہیں جو آج قانون اور انصاف کے رکھوالوں سیاستدانوں اور دانشوروں اور آئین بنانے والوں سے جواب مانگ رہے ہیں۔
کسی بھی ملک کے قانون انصاف اور آئین کا بنیادی مقصد قانون انصاف اور آئین کی برتری قائم رکھنا ہوتا ہے تا کہ معاشرے انارکی کے شکار نہ ہوں۔ لیکن ذرا گہرائی میں جا کر دیکھیں تو قانون انصاف اور آئین کی روح اور بنیادی مقصد مظلوم کو انصاف دلانا ہی ہوتا ہے اور اگر یہ دلیل اور جواز درست ہے تو پھر اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام سب سے بڑے مظلوم ہیں۔ اگر اٹھارہ کروڑ عوام مظلوم ہیں تو ان پر ظلم کی نوعیت کیا ہے؟ مہنگائی بے روزگاری تعلیم علاج سے محرومی گیس بجلی کی لوڈشیڈنگ دہشت گردی ٹارگٹ کلنگ اور جان و مال کے تحفظ سے محرومی۔ کیا یہ بیماریاں ظلم کی تعریف میں آتی ہیں؟
اور آئین سازی اور اقتدار میں آنے کا حق عوام اپنے ووٹ سے سیاستدانوں کو دیتے ہیں۔ یعنی اقتدار کے اصل مالک عوام ہوتے ہیں اس تناظر میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا جمہوری حکومتوں کے ادوار میں عوام پر یہ ظلم زیادہ ڈھائے گئے یا فوجی حکومتوں کے دور میں عوام پر زیادہ ظلم ڈھائے گئے؟ اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بھٹو جیسے سب سے زیادہ مقبول عوامی لیڈر کی گرفتاری اور سزا کیوں اس قدر متنازعہ نہیں بنی اور مشرف کی گرفتاری اور سزا کیوں اس قدر متنازعہ بن گئی ہے؟ بھٹو کی گرفتاری اور سزائے موت پر عوام کیوں خاموش رہے سیاستدانوں کی زبان کیوں بند رہی؟ آج عوام میں اضطراب کیوں ہے اور سیاستدان اس مسئلے پر کیوں بول رہے ہیں اور کیا بول رہے ہیں؟ چوہدری شجاعت حسین نے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا مشرف کیس عوام کی توجہ ان کے سنگین مسائل سے ہٹانے کی ایک کوشش یا سازش تو نہیں؟ کیا چوہدری صاحب کی بات میں وزن ہے؟
سرمایہ دارانہ نظام میں جمہوریت سرمایہ دارانہ طبقاتی استحصال کو چھپانے کا کام انجام دیتی ہے اور اس عوامی خدمت کے عوض سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں کو اربوں روپوں کی لوٹ مار کی چھوٹ دیتی ہے ان تلخ حقائق کو سمجھے بغیر جمہوریت کا راگ الاپنا اور اس عوام دشمن جمہوریت کو آئینی تحفظ فراہم کرنا سب سے بڑی غداری نہیں ہے؟ آئین کا احترام ضروری ہے اور آئین کی برتری کے لیے مشرف کو پھانسی پر لٹکانا بالکل جائز ہے لیکن عوام کو صرف یہ اعتراض ہے کہ ماضی میں فوجی آمروں کے خلاف آرٹیکل 6 پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ اور آج اس پر عملدرآمد پر اصرار کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا آج مشرف کو سزائے موت دینے پر اصرار کرنے والے ایوب خان یحییٰ خان ضیا الحق کی غداری کی سزا پر اصرار کرتے رہے؟ اگر نہیں کرتے رہے تو اس کی وجہ کیا تھی؟