جی ایم سید اور خطے کا امن
جی ایم سید پاکستان کی سب سے زیادہ متنازعہ شخصیت تھے اور بلاشبہ دنیا کے تمام بڑے لوگ...
جی ایم سید پاکستان کی سب سے زیادہ متنازعہ شخصیت تھے اور بلاشبہ دنیا کے تمام بڑے لوگ، تمام غیر معمولی شخصیات متنازعہ ہوتی ہیں۔ وہ لوگ اس لیے متنازعہ ہوتے ہیں کہ وہ نئے خیالات پیش کرتے ہیں، ایسے خیالات جو اس وقت کی روایات اور تصورات کے خلاف ہوتے ہیں اور ایسے خیالات جو متعلقہ ریاست کے نظریات اور قوانین کو چیلنج کرنے والے ہوتے ہیں لیکن آگے چل کر وقت اور حالات ان خیالات کو سچا اور درست ثابت کرتے ہیں۔ اس لیے ہی یہ کل کے متنازعہ اشخاص آنے والے کل میں عظیم انسان تسلیم کیے جاتے ہیں، چاہے وہ مفکر و دانشور ہوں، سیاسی اور انقلابی لیڈر ہوں یا سائنسدان ہوں۔ اسی پس منظر میں جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ "All great truths start as blasphemies" یعنی تمام بڑے سچ شروع میں کفر ہوتے ہیں۔پاکستان بننے کے بعد سائیں جی ایم سید 48 برس زندہ رہے۔ اس عرصے کا آدھا وقت یعنی 24 برس انھوں نے سندھی سماج میں تبدیلیاں لانے کے ساتھ پاکستانی ریاست کو صحیح خطوط اور درست راستے پر چلانے کی کوشش میں صرف کیے اور بقایا 24 سال پاکستان میں درستی کے امکانات سے ناامید ہونے کے بعد ایک آزاد، خودمختار اور خوشحال سندھ کے حصول کے لیے جدوجہد میں گزارے جب کہ ان کی زندگی اور جدوجہد کی حتمی منزل عالمی امن، بھائی چارہ اور ترقی بنی نوع انسان رہے۔
اس تمام عرصے کے دوران انھوں نے ایسے خیالات پیش کیے اور ایسے مقاصد کے لیے جدوجہد کی جو اس خطے میں امن و بھائی چارے کے لیے اور اس میں رہنے والے انسانوں کی نجات، ترقی اور خوشحالی کے لیے تو کارآمد تھے لیکن وہ ریاستی پالیسیوں کے لیے ایک بڑا چیلنج پیش کر رہے تھے۔ نتیجے میں پاکستان کے تمام حکمران اور ادارے ان کے سخت مخالف بنے رہے۔ گزشتہ 66 برس کے دوران پاکستان میں مختلف طرح کے، مختلف پس منظر کے اور مختلف پروگرام کے حامل حکمران رہے ہیں۔ ان میں پاکستان کے بانی بھی تھے تو ملک کو بچانے والے بھی، عوامی نمایندے بھی، ڈکٹیٹر بھی تھے تو جمہوریت کے چیمپئن بھی، مرد بھی تھے تو خواتین بھی۔ اتنے مختلف الخیال ہونے کے باوجود وہ جی ایم سید کے حوالے سے ہم خیال اور ہمنوا تھے۔ وہ سب سید کو پاکستان دشمن، اسلام دشمن، عوام دشمن اور جمہوریت دشمن کہتے رہے اور خود کو پاکستان کا محافظ، اسلام کا شیدائی، عوام کا سچا خادم اور جمہوریت کا چیمپئن کہلواتے رہے۔ یہی سبب تھا کہ پاکستان کی زندگی کے پہلے دن سے لے کر جی ایم سید کی زندگی کے آخری دن تک سارے حکمرانوں نے ان کو قید میں رکھا اور سب ملا کر یہ عرصہ تقریباً 30 سال بنتا ہے یعنی پاکستان میں ان کی گزاری زندگی کا 60 فیصد۔
یہاں تک کہ ان کا انتقال بھی سنگینیوں کے سائے میں ہوا۔66 برس بعد آج پاکستان کی ریاست کس حال میں ہے، سماج کی کیا صورت حال ہے، اجتماعی طور پر اور انفرادی حیثیت میں لوگ کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور اسلام کے نام پر چلنے والے مسلمان اکثریت کے اس ملک میں مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ وقت آگیا ہے کہ ان سوالوں کا جائزہ لیا جائے۔ ملک کو چلانے کی پالیسیوں اور طور طریقوں کے بارے میں جی ایم سید کی کہی باتوں اور بتائے ہوئے راستوں کو ایک طرف اور حکمرانوں کے اختیار کیے گئے طریقہ کار کو دوسری طرف رکھ کر سامنے آنے والے نتائج کی بنیاد پر صورت حال کا تجزیہ کیا جائے۔سب سے پہلی اور اہم بات جو سید نے نئی وجود میں آنے والی پاکستانی ریاست کے بارے میں کہی وہ یہ تھی کہ ''پاکستان ایک قوم نہیں بلکہ زیادہ قوموں کا ملک ہے جن میں تاریخ، زبان اور کلچر کے حوالے سے بہت زیادہ فرق ہے۔ وہ صرف اس صورت میں اکٹھی رہ سکتی ہیں کہ ان کے جداگانہ قومی تشخص کو تسلیم کیا جائے، ان کی حیثیت، عزت اور اہمیت کو برابر تسلیم کیا جائے اور ملک کو ان کی مشترکہ آرا کے مطابق چلایا جائے۔ ''ایک اہم معاملہ جو پہلے دن سے اس ملک میں متنازعہ رہا ہے، وہ ہے مذہب اور ریاست کے درمیان تعلق کا مسئلہ۔
اس مسئلے پر جی ایم سید اور پاکستان کے حکمرانوں کے رویے اور پالیسیاں ایک دوسرے کے بالکل متضاد رہی ہیں۔ جی ایم سید نے پہلے دن سے کہا اور مسلسل کہتے رہے، تحریر اور تقریر کے ذریعے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی فورموں پر بھی کہا کہ مذہب کو ریاستی معاملات سے علیحدہ رکھا جائے جب کہ حکمرانوں نے پاکستان کو ایک مذہبی ریاست قرار دیا اور مذہبی انتہاپسند قوتوں کے ساتھ مل کر یہ مہم چلاتے رہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے بعد پوری دنیا پر مسلمانوں کی حاکمیت قائم کی جائے گی۔ پین اسلام ازم کی ایسی سوچ اور ایسی تحریک میں پنہاں خطرات کا پہلے سے ادراک کرتے ہوئے سید نے بہت پہلے پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کو بھی ان امکانی خطرات و نتائج سے خبردار کیا تھا، وہ امکانی نتائج وہی تھے جن کا سامنا آج پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک کر رہے ہیں۔ آج مختلف مذاہب کے درمیان اور ایک مذہب (اسلام) کے مختلف فرقوں کے درمیان جاری کشمکش میں چلنے والی بحث سید کے خیالات کی اہمیت اور ضرورت کو پہلے سے زیادہ نمایاں کردیا ہے۔ سیکولر سوچ، ترقی پسند خیالات اور عوام دوست کردار کی وجہ سے سارے حکمران جی ایم سید کے مخالف بنے رہے، انھیں جیل اور نظربندی میں رکھا۔جنرل ضیا نے اپنے ناجائز اقتدار کو جائز بنانے اور اسے طول دینے کی غرض سے مذہب کا جو استعمال کیا اس کی بابت کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
اس کے آمرانہ، جابرانہ، متشددانہ اور فرقہ وارانہ طرز حکومت کے خلاف پاکستان روشن خیال، امن پسند اور جمہوریت پسند لوگوں نے بہت بڑی جدوجہد کی اور زبردست قربانیاں دیں۔ جنرل کی موت کے بعد 1988 میں ہونے والے انتخابات اس بنیاد پر ایک قسم کا ریفرنڈم تھے۔ ان میں لوگوں نے مذہبی تفریق اور تشدد پر مبنی پالیسیوں کو رد کرتے ہوئے ان سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دیے جو سیکولر چہرہ رکھتی تھیں لیکن افسوس کہ اس الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا اس کے بعد منتخب ہونے والی حکومتیں، ان سب نے ضیا الحق والا نظام ہی جاری رکھا۔اب پاکستانی ریاست اور معاشرہ جس مذہبی انتہاپسندی کی لپیٹ میں ہے اس کے پس منظر میں ایک طرف حکمرانوں کا ریاستی پالیسیوں اور فیصلوں کو مذہبی رنگ دینا ہے اور دوسری طرف جی ایم سید کی سیکولرازم، رواداری اور برابری پر مبنی فکر اور ریاست کو مذہبی بنانے میں پنہاں خطرات کے بارے میں ان کے خدشات اور پیش بینی ہے۔ ویسے تو سید نے ان معاملات کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا لیکن 1952 میں آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والی عالمی امن کانفرنس میں کی گئی ان کی تقریر ایک تاریخی اور یادگار تقریر ہے۔اب جائزہ لیں کہ 66 سالہ خارجہ پالیسی کے نتیجے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔
نصف صدی سے زیادہ پہلے جی ایم سید کی طرف سے بتائے گئے امکانات اور ظاہر کیے گئے خدشات حقیقتوں کا روپ دھار کر سامنے کھڑے ہیں۔ پڑوسیوں سے دشمنی اور امریکا سے دوستی کی حکومتی پالیسی کا نتیجہ سرحدوں کے اندر انتشار اور سرحدوں کے ساتھ بحران ہے جب کہ امریکا دن بہ دن پاکستان کے ''دشمن'' بھارت کے ساتھ دوستی بڑھا رہا ہے۔ بھارت سے ''تحفظ'' کے لیے بنایا گیا ایٹم بم امریکا کی وجہ سے ''غیر محفوظ'' ہے۔ آج پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں کے آگے سوال یہ ہے کہ کیا وہ اختیار کی گئی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے نتائج سے کوئی سبق سیکھنے اور سید کی معقولیت کی آواز پر کان دھرنے کو تیار ہیں؟ اور آج کے لیے سید کا پیغام یہ ہے کہ خطے میں امن، بھائی چارے، ترقی اور خوشحالی کے لیے لازمی ہے کہ بالادستی کی سوچ کو ختم کیا جائے اور تمام قوموں کو آزاد اور خودمختار حیثیت میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔