فلسطین اور عالمی اضطراب

اسرائیل کی شہری آبادیوں اور میڈیا ہاؤسز پر بمباری، گولہ باری اور معصوم بچوں کی ہلاکتیں ہولو کاسٹ کا حالیہ تقابل ہیں۔


Editorial May 20, 2021
اسرائیل کی شہری آبادیوں اور میڈیا ہاؤسز پر بمباری، گولہ باری اور معصوم بچوں کی ہلاکتیں ہولو کاسٹ کا حالیہ تقابل ہیں۔ فوٹو: فائل

امریکا کے سابق وزیر خارجہ اور معروف دانشور ہنری کسنجر کا کہنا ہے کہ دنیا تیسری عالمگیر جنگ کی جانب سرکتی جا رہی ہے، چین و امریکا کے درمیان تجارتی میدان جنگ سجنے والا ہے۔

سیاسی مبصرین، سفارت کار لفظی جنگوں میں مضمر بیانیے کی تفصیلات اپنے تجزیوں میں پیش کر رہے ہیں، ان کے تجزیوں کے مطابق امریکا و چین آپس میں کسی کو رعایت دینے پر تیار نہیں، سخت مسابقت جاری ہے، بیجنگ اور واشنگٹن کی کشیدگی عالمی مبصرین کے نزدیک دنیا کے اقتصادی منظرنامہ کو بربادی کے ایک نئے بحران سے دوچار کریگی۔

کسی کو شاید یاد ہو ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں چین و امریکا میں پرنٹ میڈیا وار اپنے عروج پر تھی، دنیا کی دو سپر پاورز لفظی جنگ میں آگ کے شعلے نکال رہی تھیں، چین امریکا کو کاغذی شیر کہتا تھا اور امریکا چین کو دھمکی آمیز اور دہشت ناک سرخیوں کی زد میں لے رہا تھا، پھر دنیا نے سرد جنگ کا دریا عبور کیا، روس اور امریکا اسلحہ اور بیلسٹک میزائلوں کی دوڑ کی کشمکش میں انسانیت کو للکارنے لگے۔

آج میڈیا وار ہے، انفارمیشن ایکسپلوژن ٹی وی کی بریکنگ نیوز نے گلوبل ولیج کو بے چینی کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچا دیا ہے، ایک طرف مشرق وسطیٰ میں سیاسی تناؤ ہے، ایران اور سعودی عرب میں قدیم دشمنی کا باب بند ہوا ہے، ایران اور سعودی عرب میں مسلم امہ کی اجتماعی طاقت، اسلامی اخوت و یکجہتی کا زم زم بہہ رہا ہے، اسرائیل نے اسی مسلم مفاہمت، والہانہ پن کو فلسطینیوں اور غزہ کی مظلومیت کا نیا دردناک عنوان بنا دیا ہے، وہ وحشت اور دہشت پھیلائی ہے کہ ظلم و بربریت کو دشنام ترین الفاظ نہیں مل رہے کہ اسرائیل کی نسل پرست اور فلسطینی ہولوکاسٹ کے سیاق وسباق میں دہشتگردی کو بیان کیا جا سکے۔

لیکن ایک حقیقت واضح ہو چکی کہ مغرب مسلمان دشمنی اور انسانیت کو خون سے لالہ زار کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہا۔ جوبائیڈن بھی صہیونیت کے ہمدم دیرینہ اور اسرائیل کو امریکی اسلحے سے لیس کرنے کے لیے پیش پیش نکلے، اس لیے کہ خون مسلم ارزاں ہے، تاہم مسلم دنیا کو ادراک ہونے لگا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر آگ، خون اور بارود کی بارش کیوں برسائی ہے، کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانا ضروری تھا، یہ ''مس پلیسیڈ'' سیاسی حقیقت پسندی دراصل عالم اسلام کو گہری نیند سے جگانے کے لیے کافی ہے۔

مسلم مورخین، اہل درد سیاسی مفکرین مشرق وسطیٰ اور اسرائیل کی ظلم پرستی کے پس پردہ عالمی سیاست اور جنگی عفریت کی خوں آشامی کو محض نیشن اسٹیٹ کا مسئلہ نہ سمجھیں، مسلمان حکومتیں، عرب دنیا اور جمہوری قوتیں نئے امکانات اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنے اندر عزم و عمل کے نئے سنگ میل تلاش کریں، اپنی اس سیاسی، دفاعی اور اسلامی طاقت و اتحاد کا سراغ لگائیں جو اگر چالیس اسلامی ملکوں کے اجتماعی دست وبازو بن جائیں تو اسرائیل کو کبھی فلسطین و غزہ کو نرم لقمہ بنانے کا خیال نہ آئے۔ عالم اسلام اور متحدہ اسلامی ملکوں کے لیے اب بھی سوچ اور عزم و عمل کے درمیان فیصلہ کی کلید یہیں کہیں موجود ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق کورونا کے بعد پاکستانی معیشت کی بحالی میں سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ریاستوں کا کردار اہم ترین ہوگا۔ پاکستانی مزدوروں کو خلیجی منڈیوں تک رسائی کی ضرورت ہے اور پاکستان کو زرِ مبادلہ کی۔ پاکستان کی نئی 'جیو اکنامک' حکمتِ عملی میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ پاکستان کو کس طرح خلیجی ممالک کے لیے پرکشش تجارتی شراکت دار بنایا جائے۔ پاکستان کو قابلِ تجدید توانائی کے ان منصوبوں کی بھی شدید ضرورت ہے جن منصوبوں کو سعودی امداد مل سکتی ہے۔

مشترکہ معاشی فوائد کو پاک سعودی تعلقات کی بنیاد ہونا چاہیے تاہم بدلتے ہوئے عالمی سیاسی و جغرافیائی حقائق کی وجہ سے فوری طور پر ان تعلقات کی سمت درست کرنے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے۔ تجزیہ کاروں نے پاکستان اور ترکی کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور خلیجی ممالک کی بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کی وجہ سے پاکستان کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو رد کر دیا تھا۔ لیکن اب یہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔

غزہ اور اسرائیل میں جاری خوفناک صورتحال خلیجی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ نرمی پر سوالیہ نشان اٹھائے گی۔ اس طرح پاکستان کو اسرائیل کے حوالے سے اپنے سخت مؤقف کے ساتھ خلیجی پالیسی سے تعلق پر کم تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کشمیر کے بارے میں اختلاف (جو اسرائیل، یمن، قطر اور ایران کے مسئلے پر اختلاف کے بعد سامنے آیا ہے) رجحان کے بجائے رعایت بن سکتا ہے اور اسلام آباد اور ریاض اس پر اختلاف کرنے پر اتفاق کر سکتے ہیں۔

قطر کے ساتھ ایل این جی کے معاہدوں اور مزدوروں کو روزگار کی فراہمی کے معاملات سمیت قطر کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے باوجود سعودی عرب اور قطر کے تعلقات میں بہتری سے پاکستان کو بھی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات مزید بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں امریکا کی واپسی، ایران میں آنے والے صدارتی انتخابات اور سعودی ولی عہد کے اقدامات پر امریکا کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار ایسے نکات ہیں جو مشرق وسطیٰ میں موجود فرقہ وارانہ تقسیم کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

سیاسی تناظر میں یہ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اس طرح پاکستان کو بھی سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو ازسرِ نو ترتیب دینے کا موقع مل جائے گا۔ سعودی عرب کے لیے پاکستان کی سب سے زیادہ اہمیت دفاعی شراکت میں رہے گی۔ لیکن یہاں ذکر کی گئی تبدیلی کا مطلب ہے کہ شاید ہی ایسا کوئی موقع آئے جس میں دفاعی معاملات پر پاکستان اور سعودی عرب مقابل نہ کھڑے ہوں۔ انسداد دہشتگردی ایک ایسی چیز ہے جس میں دونوں ممالک کی شراکت میں اضافہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستان بھی شدت پسندی کے خطرے سے دوبارہ دوچار ہو۔

مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں پاکستانی مفادات کے تحفظ کی ایک ہی صورت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایک آزاد، واضح اور مستقبل سے ہم آہنگ خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے۔جتنا مضبوط اسکرپٹ ہوگا کرداروں کی کارکردگی بھی اتنی ہی جاندار ہوگی۔ ایک اچھی خارجہ پالیسی میں تعلقات میں رخنہ لانے والی خامیوں کو دور کیا جاتا ہے۔ ایک ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو بالخصوص سعودی عرب اور بالعموم خلیجی ممالک کے ساتھ معلومات اور ثقافتی روابط کا بھی احاطہ کرے گی۔ اگر ہمارا اصل مقصد اپنے مزدوروں کو روزگار فراہم کرنا یا تجارت میں اضافہ کرنا ہے تو ہمیںاس سلسلے میں اپنی پالیسیوں کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ یہ دنیا مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔

امریکا اب پیچھے ہٹ کر اندرونی مسائل کے حل کی کوششیں کر رہا ہے، چین آگے بڑھ رہا ہے لیکن اسے ابھی کئی عالمی مسائل پر اپنا مؤقف واضح کرنا ہے اور ان مسائل میں خلیج میں جاری سیاسی اور فرقہ وارانہ مسائل بھی شامل ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور چین بھی قریبی تعلقات کے لیے پر تول رہے ہیں اور یوں پاکستان کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کا دلچسپ موقعہ میسر آ رہا ہے۔ ہم اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان تعلقات میں بہتری سے ہمیں بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے اور ان میں بگاڑ سے خاطر خواہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کے بڑھتے ہوئے سیاسی، اقتصادی اور عسکری تناؤ میں اسرائیل کے فلسطین میں دہشتگردی کے ایجنڈے کو آسان ٹارگٹ نہیں سمجھنا چاہیے، فلسطین عشروں اور دہائیوں کا تنازعہ ہے، اسے پان اسلام ازم اور عہد حاضر کے سیاسی تنازعات میں آتش فشانی پوائنٹ آف نو ریٹرن کی سی وسعت ملنی چاہیے، دنیا بھر کی مسلم طاقتیں سلامتی کونسل پر انحصار کرتے ہوئے اپنی گم گشتہ اجتماعیت کی بازیابی پر توجہ دیں، مسلم دنیا اس حقیقت کا ادراک کرے کہ مغرب اسرائیل کی فسطائیت، بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات پر سراسیمہ کیوں نہیں ہوتا، مغرب کے لیے فلسطینیوں کا ''خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا'' کب تک بنتا رہے گا۔

اسرائیل کی شہری آبادیوں اور میڈیا ہاؤسز پر بمباری، گولہ باری اور معصوم بچوں کی ہلاکتیں ہولو کاسٹ کا حالیہ تقابل ہیں، اسرائیل نے ویسٹرن موویز کی طرح Killings کا درد انگیز منظر پیش کیا ہے، عالمی قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں، سلامتی کونسل اسرائیلی سفاکی کی مذمت کرے، روایتی اجلاس سے ماورا انسانی کارروائی کا درجہ دے، اسرائیل حکومت کو جنگی مجرم کے طور پر عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، مسلم دنیا اسرائیلی بربریت پر خاموش بیٹھنے کے بجائے فلسطینی کیس کی کارروائی پر زور دے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں