ٹیم کے لیے ٹی20کوچ کا مطالبہ زورپکڑنے لگا
مصباح الحق کو صرف طویل طرز کے فارمیٹ تک محدود کرنا چاہیے،رمیزراجہ
پاکستان ٹیم کیلیے ٹی 20 کوچ کے تقرر کا مطالبہ زور پکڑنے لگا جب کہ سابق کپتان رمیز راجہ نے بھی سفید اور سرخ بالز کے الگ الگ کوچز کی حمایت کردی۔
سابق اوپنر رمیز راجہ نے ایک بار پھر پاکستان کرکٹ کی بہتری کیلیے درست سمت میں قدم اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، حال ہی میں بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان نے جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے ٹور میں فتوحات سمیٹیں، مگر رمیز گرین کیپس کی زمبابوے سے ٹیسٹ فتوحات سے زیادہ متاثر نہیں، وہ اسے بے جوڑ مقابلے سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ٹیسٹ اور محدود اوورز کے فارمیٹس کیلیے الگ الگ کوچز کی تقرری پر بھی زور دیا۔
رمیز نے کہاکہ اگر آپ شکست سے ڈرنا شروع کردیں تو انجام ناکامی کی صورت میں ہی برآمد ہوتا ہے، جب تک آپ انڈر 19، اے ٹیم، اکیڈمیز، فرسٹ کلاس ٹیم اور پاکستان لیول پر کوچنگ سسٹم بہتر نہیں بناتے بڑے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹی 20 کوچز اور پاور ہٹنگ ماہرین کی ضرورت ہے، آپ مصباح الحق کو ٹیسٹ کوچ برقرار رکھ سکتے ہیں مگر ٹی 20 کیلیے کسی اور کی ضرورت ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں مستقل بنیادوں پر زیادہ کوچز نہیں رکھنا چاہیئں، مثال کے طور پر اگر آپ کو جنوبی افریقہ جانا ہے تو وہاں کے کسی مقامی کرکٹر کی خدمات حاصل کریں جو کنڈیشنز کے بارے میں زیادہ بہتر معلومات فراہم کرسکے، طویل مدت کی تقرریاں پہلے ہی ناکام ہوچکی ہیں، مختصر مدت اور ٹورز کے لحاظ سے کوچز کا تقرر کرنا مناسب ہوگا۔
سابق اوپنر رمیز راجہ نے ایک بار پھر پاکستان کرکٹ کی بہتری کیلیے درست سمت میں قدم اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، حال ہی میں بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان نے جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے ٹور میں فتوحات سمیٹیں، مگر رمیز گرین کیپس کی زمبابوے سے ٹیسٹ فتوحات سے زیادہ متاثر نہیں، وہ اسے بے جوڑ مقابلے سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ٹیسٹ اور محدود اوورز کے فارمیٹس کیلیے الگ الگ کوچز کی تقرری پر بھی زور دیا۔
رمیز نے کہاکہ اگر آپ شکست سے ڈرنا شروع کردیں تو انجام ناکامی کی صورت میں ہی برآمد ہوتا ہے، جب تک آپ انڈر 19، اے ٹیم، اکیڈمیز، فرسٹ کلاس ٹیم اور پاکستان لیول پر کوچنگ سسٹم بہتر نہیں بناتے بڑے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹی 20 کوچز اور پاور ہٹنگ ماہرین کی ضرورت ہے، آپ مصباح الحق کو ٹیسٹ کوچ برقرار رکھ سکتے ہیں مگر ٹی 20 کیلیے کسی اور کی ضرورت ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں مستقل بنیادوں پر زیادہ کوچز نہیں رکھنا چاہیئں، مثال کے طور پر اگر آپ کو جنوبی افریقہ جانا ہے تو وہاں کے کسی مقامی کرکٹر کی خدمات حاصل کریں جو کنڈیشنز کے بارے میں زیادہ بہتر معلومات فراہم کرسکے، طویل مدت کی تقرریاں پہلے ہی ناکام ہوچکی ہیں، مختصر مدت اور ٹورز کے لحاظ سے کوچز کا تقرر کرنا مناسب ہوگا۔