کرپٹوکرنسی فراڈ کا بے تاج بادشاہ راولپنڈی سے گرفتار
ملزم اپنی یورپی پارٹنر کے ساتھ مل کر ’’ون کوائن‘‘ نامی کرپٹوکرنسی کی آڑ میں لوگوں سے اربوں روپے ٹھگ چکا ہے
ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ نے برطانیہ، متحدہ عرب امارات، پاکستان اور بھارت سمیت کئی ملکوں کے ہزاروں افراد کو لوٹنے والے، ڈیجیٹل کرنسی ''ون کوائن'' کے بے تاج بادشاہ ڈاکٹر ظفر کو راولپنڈی کے ایک پوش علاقے سے گرفتار کر لیا ہے۔
ڈاکٹر ظفر نے بلغارین نژاد جرمن خاتون رُوجا اگناتووا کے ساتھ مل کر ''ون کوائن'' نامی کرپٹو کرنسی کی آڑ میں لوگوں کو اربوں روپے سے محروم کردیا۔ ڈاکٹر روجا 2017 سے مفرور ہے جبکہ ڈاکٹر ظفر پاکستان آگیا اور مختلف شہروں میں بھیس بدل کر رہتا رہا۔
تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کو برطانیہ متحدہ عرب امارات اور پاکستان سے سیکڑوں افراد نے درخواستیں دی تھیں کہ ڈاکٹر ظفر ان کے ساتھ ون کوائن کی آڑ میں پرکشش منافع کا لالچ دیکر اربوں روپے کا فراڈ کر چکا ہے۔ ڈاکٹر ظفر نے روجا کے ساتھ مل کر، جو ایک بزنس کمپنی چلا رہی تھی، سال 2015 میں برطانیہ سے ون کوائن ڈیجیٹل کرنسی (کرپٹو کرنسی) کا کاروبار شروع کیا۔
اس کمپنی کے تحت ڈاکٹر ظفر کو برطانیہ میں مسلم کمیونٹی اور متحدہ عرب امارات سمیت پاکستان کا چیف ایگزیکٹو آفیسر مقرر کیا گیا جس نے نہ صرف برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں بلکہ سیکڑوں کی تعداد میں بھارتیوں کے بھی ون کوائن میں ڈائمنڈ، گولڈ اور سلور سمیت دیگر اکاؤنٹس اوپن کرائے اور ان سے اپنے اکاؤنٹس میں رقم وصول کرتا رہا۔
شروع میں لوگوں کو لالچ دینے کےلیے پرکشش منافع دیا پھر اچانک 2019 میں ون کوائن کی تمام ویب سائٹس اور دفاترز بند کر کے غائب ہوگیا۔
لاہور سمیت پورے پنجاب بلکہ پاکستان بھر سے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو سیکڑوں درخواستیں موصول ہوئیں جن پر تفتیش سے انکشاف ہوا کہ صرف پاکستانی ایف آئی اے کے سائبر کرائم وِنگ کو موصول ہونے والی درخواستوں کے مطابق، کیے گئے فراڈ کی مجموعی مالیت ڈیڑھ ارب روپے سے زیادہ ہے۔
ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ون کوائن کی انتظامیہ اور روجا اور ڈاکٹر ظفر کے خلاف قانونی کارروائی کےلیے متعلقہ اداروں کو درخواستیں دے رکھی ہیں۔
ڈاکٹر ظفر سال 2009 میں برطانیہ گیا جہاں اس نے روجا کے ساتھ مل کر یہ کاروبار شروع کیا۔ ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رضوان ارشد کے مطابق، جب ون کوائن فراڈ کی تحقیقات شروع کی گئیں تو معلوم ہوا کہ بڑے منظم طریقے سے لوگوں کو لوٹا گیا۔
ایف آئی اے نے اسے پکڑنے کےلیے لاہور، کراچی، فیصل آباد اور اسلام آباد میں بھی چھاپے مارے مگر یہ ہر بار فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا۔ تاہم اس مرتبہ سورس کی نشاندہی پر عید سے قبل راولپنڈی کے ایک پوش علاقے کے ایک گھر میں چھاپہ مار کر اسے گرفتار کر لیا جبکہ اس کے گھر سے مختلف پراپرٹیز کی دستاویزات، بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات اور دیگر ریکارڈ قبضہ میں لے لیا گیا۔
اس کی گرفتاری کی اطلاع ملتے ہی درجنوں مزید افراد نے رابطہ کیا ہے کہ ڈاکٹر ظفر اُن سے بھی کروڑوں روپے لے چکا ہے۔ اب تک ایف آئی اے کو جو درخواستیں موصول ہوئی ہیں ان میں کم سے کم رقم دو کروڑ جبکہ زیادہ سے زیادہ رقم بارہ سے پندرہ کروڑ روپے کی سامنے آئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی لالچ میں آکر عمر بھر کی جمع پونجی لُٹا چکے ہیں۔
سوشل اور انٹرنیشنل میڈیا پر معروف کرپٹو کرنسی ''بِٹ کوائن'' کی قیمت لاکھوں روپے ہوجانے کی خبریں سن کر لوگوں نے ون کوائن کو بھی سوشل میڈیا پر پروان چڑھانا اور لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا کیونکہ اکثر لوگ اس سے یکسر ناواقف تھے۔
ایف آئی اے نے ڈاکٹر ظفر کو گرفتارکرکے اس سے تفتیش شروع کر دی ہے جبکہ اس سلسلے میں دیگر متعلقہ دیگر اداروں کو بھی اطلاع کر دی گئی ہے۔
ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ ہوسکتا ہے برطانوی حکومت یا متحدہ عرب امارات کے وہ ادارے بھی ڈاکٹر ظفر تک رسائی مانگیں کیونکہ ڈاکٹر ظفر ان ممالک کے لوگوں کو بھی فراڈ کرکے اربوں روپے کی رقم سے محروم کرچکا ہے جبکہ رُوجا ابھی تک روپوش ہے۔
ڈاکٹر ظفر نے بلغارین نژاد جرمن خاتون رُوجا اگناتووا کے ساتھ مل کر ''ون کوائن'' نامی کرپٹو کرنسی کی آڑ میں لوگوں کو اربوں روپے سے محروم کردیا۔ ڈاکٹر روجا 2017 سے مفرور ہے جبکہ ڈاکٹر ظفر پاکستان آگیا اور مختلف شہروں میں بھیس بدل کر رہتا رہا۔
تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کو برطانیہ متحدہ عرب امارات اور پاکستان سے سیکڑوں افراد نے درخواستیں دی تھیں کہ ڈاکٹر ظفر ان کے ساتھ ون کوائن کی آڑ میں پرکشش منافع کا لالچ دیکر اربوں روپے کا فراڈ کر چکا ہے۔ ڈاکٹر ظفر نے روجا کے ساتھ مل کر، جو ایک بزنس کمپنی چلا رہی تھی، سال 2015 میں برطانیہ سے ون کوائن ڈیجیٹل کرنسی (کرپٹو کرنسی) کا کاروبار شروع کیا۔
اس کمپنی کے تحت ڈاکٹر ظفر کو برطانیہ میں مسلم کمیونٹی اور متحدہ عرب امارات سمیت پاکستان کا چیف ایگزیکٹو آفیسر مقرر کیا گیا جس نے نہ صرف برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں بلکہ سیکڑوں کی تعداد میں بھارتیوں کے بھی ون کوائن میں ڈائمنڈ، گولڈ اور سلور سمیت دیگر اکاؤنٹس اوپن کرائے اور ان سے اپنے اکاؤنٹس میں رقم وصول کرتا رہا۔
شروع میں لوگوں کو لالچ دینے کےلیے پرکشش منافع دیا پھر اچانک 2019 میں ون کوائن کی تمام ویب سائٹس اور دفاترز بند کر کے غائب ہوگیا۔
لاہور سمیت پورے پنجاب بلکہ پاکستان بھر سے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو سیکڑوں درخواستیں موصول ہوئیں جن پر تفتیش سے انکشاف ہوا کہ صرف پاکستانی ایف آئی اے کے سائبر کرائم وِنگ کو موصول ہونے والی درخواستوں کے مطابق، کیے گئے فراڈ کی مجموعی مالیت ڈیڑھ ارب روپے سے زیادہ ہے۔
ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ون کوائن کی انتظامیہ اور روجا اور ڈاکٹر ظفر کے خلاف قانونی کارروائی کےلیے متعلقہ اداروں کو درخواستیں دے رکھی ہیں۔
ڈاکٹر ظفر سال 2009 میں برطانیہ گیا جہاں اس نے روجا کے ساتھ مل کر یہ کاروبار شروع کیا۔ ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رضوان ارشد کے مطابق، جب ون کوائن فراڈ کی تحقیقات شروع کی گئیں تو معلوم ہوا کہ بڑے منظم طریقے سے لوگوں کو لوٹا گیا۔
ایف آئی اے نے اسے پکڑنے کےلیے لاہور، کراچی، فیصل آباد اور اسلام آباد میں بھی چھاپے مارے مگر یہ ہر بار فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا۔ تاہم اس مرتبہ سورس کی نشاندہی پر عید سے قبل راولپنڈی کے ایک پوش علاقے کے ایک گھر میں چھاپہ مار کر اسے گرفتار کر لیا جبکہ اس کے گھر سے مختلف پراپرٹیز کی دستاویزات، بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات اور دیگر ریکارڈ قبضہ میں لے لیا گیا۔
اس کی گرفتاری کی اطلاع ملتے ہی درجنوں مزید افراد نے رابطہ کیا ہے کہ ڈاکٹر ظفر اُن سے بھی کروڑوں روپے لے چکا ہے۔ اب تک ایف آئی اے کو جو درخواستیں موصول ہوئی ہیں ان میں کم سے کم رقم دو کروڑ جبکہ زیادہ سے زیادہ رقم بارہ سے پندرہ کروڑ روپے کی سامنے آئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی لالچ میں آکر عمر بھر کی جمع پونجی لُٹا چکے ہیں۔
سوشل اور انٹرنیشنل میڈیا پر معروف کرپٹو کرنسی ''بِٹ کوائن'' کی قیمت لاکھوں روپے ہوجانے کی خبریں سن کر لوگوں نے ون کوائن کو بھی سوشل میڈیا پر پروان چڑھانا اور لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا کیونکہ اکثر لوگ اس سے یکسر ناواقف تھے۔
ایف آئی اے نے ڈاکٹر ظفر کو گرفتارکرکے اس سے تفتیش شروع کر دی ہے جبکہ اس سلسلے میں دیگر متعلقہ دیگر اداروں کو بھی اطلاع کر دی گئی ہے۔
ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ ہوسکتا ہے برطانوی حکومت یا متحدہ عرب امارات کے وہ ادارے بھی ڈاکٹر ظفر تک رسائی مانگیں کیونکہ ڈاکٹر ظفر ان ممالک کے لوگوں کو بھی فراڈ کرکے اربوں روپے کی رقم سے محروم کرچکا ہے جبکہ رُوجا ابھی تک روپوش ہے۔