جہانگیر ترین گروپ اور عمران خان کی پریشانی
جہانگیر ترین کا گروپ بناکر اس طرح عمران خان پر دباؤ ڈالنا کوئی معمولی بات نہیں ہے
کرکٹ سے فراغت کے بعد عمران خان نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ لوگوں کو انصاف دلانے کے نعرے پر 25 سال قبل 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کے نام سے پارٹی کی بنیاد رکھی۔ پی ٹی آئی کے قیام کے وقت وہ چہرے جو عمران خان کے دائیں بائیں ہوا کرتے تھے اب وہ چہرے نظر نہیں آرہے۔ بانی ممبران میں سے ایک ایک کرکے اب وہ نام پی ٹی آئی میں نہیں رہے۔ وقت بدلتا گیا اور تحریک انصاف میں پرانے چہروں کی جگہ نئے چہرے سامنے آتے رہے۔
1997 سے 2008 کے عام انتخابات تک تحریک انصاف کو مقبولیت نہیں ملی۔ 2013 کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کی مقبولیت بلندیوں کو چھونے لگی۔ 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کےلیے ایسا سیاسی ماحول نمودار ہوا جس سے لگ رہا تھا کہ پی ٹی آئی حکمران جماعت بن کر ابھرے گی۔ پی ٹی آئی حکومت تو نہیں بنا سکی لیکن دوسری بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔ 2013 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی میں وہ سیاسی پنچھی شامل ہونے لگے جو ہواؤں کا رخ بدلتا دیکھ کر اپنا سیاسی ٹھکانہ بدل لیتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی سے کئی نامور سیاسی شخصیات پی ٹی آئی کی کشتی میں سوار ہوگئیں۔ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو اکثریت ملی اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
2013 کے انتخابات سے 2018 کے انتخابات تک تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے عوام کو اتنے سبز باغ دکھائے کہ پاکستانی عوام عمران خان کو مسیحا سمجھنے لگے۔ مہنگائی، کرپشن کے خاتمے، سرکاری اداروں کی اصلاح، بے روزگاری کے خاتمے جیسے سنگین مسائل کے حل کی کنجی پی ٹی آئی کے پاس سمجھنے لگے۔ اقتدار ملنے کے بعد عوام کی امیدیں پی ٹی آئی سے جڑی رہیں لیکن ڈھائی سال کا عرصہ گزرنے کے بعد مہنگائی کی شرح کم ہونے کے بجائے بلندی کو چھونے لگی۔ روزگار ملنے کے بجائے بے روزگاری بڑھنے لگی۔ کرپشن کم ہونے کے بجائے پہلے سے بڑھ گئی۔ اداروں میں اصلاح کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوگیا اور اب عوام کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔
خود وزیراعظم عمران خان کو بھی معلوم ہے کہ وہ ڈلیور کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ ہر کابینہ کے اجلاس میں وزرا بھی مہنگائی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی بھی حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہوگئے ہیں، لیکن پارٹی پالیسی کے باعث حق گوئی نہیں کررہے۔ وزیراعظم کی کئی بار ہدایات کے باوجود مہنگائی کنٹرول کرنے کےلیے کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آرہے۔
دم توڑتی عوام کی توقعات ایک طرف، اب پی ٹی آئی کو اندرونی خلفشار کا بھی سامنا ہے۔ 2023 کے عام انتخابات میں تقریباً دو سال کا عرصہ رہ گیا ہے۔ اب عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہونے والی ہیں، ووٹ لینے کےلیے عوام سے رجوع کرنا ہے۔ ایسی صورتحال میں اب حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوگئے ہیں کہ انہوں نے عوام سے کس بنیاد پر ووٹ مانگنا ہے؟ ایسی صورتحال پی ٹی آئی کےلیے مشکل بنتی جارہی ہے۔ اب چونکہ عمران خان کے دیرینہ ساتھی جہانگیر ترین بھی عمران خان سے دور ہوچکے ہیں۔ چینی اسکینڈل پر جہانگیر ترین کا خیال ہے کہ انھیں پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے اور جہانگیر ترین کا خیال ہے کہ عمران خان کے اردگرد رہنے والوں نے عمران خان اور ان میں دوریاں پیدا کی ہیں۔ اب وہ بھی اپنی طاقت دکھانے کی کوشش میں ہیں۔ اسی لیے انہوں نے پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں اپنا الگ گروپ ظاہر کرکے اپنی موجودگی کا ثبوت دیا ہے۔
جہانگیر ترین کا گروپ بناکر اس طرح عمران خان پر دباؤ ڈالنا کوئی معمولی بات نہیں۔ عمران خان کو باور کرا دیا گیا ہے کہ تین سال کے عرصے میں وہ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترے اور جہانگیر ترین گروپ آنے والے دنوں میں سیاسی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اب متبادل کے طور پر سوچا جانے لگا ہے۔ درپردہ ملاقاتوں اور یقین دہانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ معاملات کس حد تک اور کس سے طے ہوتے ہیں؟ پنجاب میں چوہدری نثار علی خان بھی صوبائی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کےلیے تیار ہوگئے ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ خیبرپختونخوا میں بھی سرگرم ہوگیا ہے۔ خیبرپختونخوا پی ٹی آئی کا بنی گالا سمجھا جاتا ہے اور یہیں سے پی ٹی آئی کے اقتدار کی کہانی شروع ہوئی تھی۔ قومی اسمبلی میں جہانگیر ترین گروپ کے پارلیمانی لیڈر راجہ ریاض کے مطابق پی ٹی آئی کے پانچ ارکان اسمبلی نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جبکہ اطلاعات یہ ہیں کہ جہانگیر ترین گروپ سے رابطے کرنے والے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ ارکان اسمبلی جو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے نظر آرہے ہیں، انھیں کابینہ میں نمائندگی نہیں دی اور اقتدار سے دور رکھا گیا، وہ بھی جہانگیر کیمپ کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔
سیاسی افق پر تبدیلی کے اشارے ضمنی انتخابات سے بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے حلقہ پی کے 63 میں پی ٹی آئی کو شکست بڑا دھچکا ہے۔ اسی طرح کراچی میں این اے 249 میں بھی پی ٹی آئی کی ناکامی، پی ٹی آئی کے گراف کی نشاندہی کررہی ہے۔ جہانگیر ترین گروپ اگرچہ اب تک پی ٹی آئی سے خود کو الگ تصور نہیں کررہا، لیکن عمران خان کے سر پر جہانگیر ترین گروپ کی تلور لٹکنا شروع ہوگئی ہے۔ اسی لیے کچھ روز قبل اسد عمر انٹرویو میں یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان پر دباؤ ڈالا گیا تو وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ اور اب موجودہ سیاسی صورتحال پر اسی طرح کا ماحول بنتا نظر آرہا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اگر وزیراعظم اسمبلیاں توڑنے کی جانب سے جاتے ہیں تو فوری انتخابات کی جانب نہیں جایا جائے گا اور کچھ عرصے کےلیے عبوری دور گزارا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملکی سیاسی صورتحال کس جانب کروٹ لیتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
1997 سے 2008 کے عام انتخابات تک تحریک انصاف کو مقبولیت نہیں ملی۔ 2013 کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کی مقبولیت بلندیوں کو چھونے لگی۔ 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کےلیے ایسا سیاسی ماحول نمودار ہوا جس سے لگ رہا تھا کہ پی ٹی آئی حکمران جماعت بن کر ابھرے گی۔ پی ٹی آئی حکومت تو نہیں بنا سکی لیکن دوسری بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔ 2013 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی میں وہ سیاسی پنچھی شامل ہونے لگے جو ہواؤں کا رخ بدلتا دیکھ کر اپنا سیاسی ٹھکانہ بدل لیتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی سے کئی نامور سیاسی شخصیات پی ٹی آئی کی کشتی میں سوار ہوگئیں۔ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو اکثریت ملی اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
2013 کے انتخابات سے 2018 کے انتخابات تک تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے عوام کو اتنے سبز باغ دکھائے کہ پاکستانی عوام عمران خان کو مسیحا سمجھنے لگے۔ مہنگائی، کرپشن کے خاتمے، سرکاری اداروں کی اصلاح، بے روزگاری کے خاتمے جیسے سنگین مسائل کے حل کی کنجی پی ٹی آئی کے پاس سمجھنے لگے۔ اقتدار ملنے کے بعد عوام کی امیدیں پی ٹی آئی سے جڑی رہیں لیکن ڈھائی سال کا عرصہ گزرنے کے بعد مہنگائی کی شرح کم ہونے کے بجائے بلندی کو چھونے لگی۔ روزگار ملنے کے بجائے بے روزگاری بڑھنے لگی۔ کرپشن کم ہونے کے بجائے پہلے سے بڑھ گئی۔ اداروں میں اصلاح کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوگیا اور اب عوام کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔
خود وزیراعظم عمران خان کو بھی معلوم ہے کہ وہ ڈلیور کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ ہر کابینہ کے اجلاس میں وزرا بھی مہنگائی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی بھی حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہوگئے ہیں، لیکن پارٹی پالیسی کے باعث حق گوئی نہیں کررہے۔ وزیراعظم کی کئی بار ہدایات کے باوجود مہنگائی کنٹرول کرنے کےلیے کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آرہے۔
دم توڑتی عوام کی توقعات ایک طرف، اب پی ٹی آئی کو اندرونی خلفشار کا بھی سامنا ہے۔ 2023 کے عام انتخابات میں تقریباً دو سال کا عرصہ رہ گیا ہے۔ اب عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہونے والی ہیں، ووٹ لینے کےلیے عوام سے رجوع کرنا ہے۔ ایسی صورتحال میں اب حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوگئے ہیں کہ انہوں نے عوام سے کس بنیاد پر ووٹ مانگنا ہے؟ ایسی صورتحال پی ٹی آئی کےلیے مشکل بنتی جارہی ہے۔ اب چونکہ عمران خان کے دیرینہ ساتھی جہانگیر ترین بھی عمران خان سے دور ہوچکے ہیں۔ چینی اسکینڈل پر جہانگیر ترین کا خیال ہے کہ انھیں پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے اور جہانگیر ترین کا خیال ہے کہ عمران خان کے اردگرد رہنے والوں نے عمران خان اور ان میں دوریاں پیدا کی ہیں۔ اب وہ بھی اپنی طاقت دکھانے کی کوشش میں ہیں۔ اسی لیے انہوں نے پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں اپنا الگ گروپ ظاہر کرکے اپنی موجودگی کا ثبوت دیا ہے۔
جہانگیر ترین کا گروپ بناکر اس طرح عمران خان پر دباؤ ڈالنا کوئی معمولی بات نہیں۔ عمران خان کو باور کرا دیا گیا ہے کہ تین سال کے عرصے میں وہ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترے اور جہانگیر ترین گروپ آنے والے دنوں میں سیاسی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اب متبادل کے طور پر سوچا جانے لگا ہے۔ درپردہ ملاقاتوں اور یقین دہانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ معاملات کس حد تک اور کس سے طے ہوتے ہیں؟ پنجاب میں چوہدری نثار علی خان بھی صوبائی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کےلیے تیار ہوگئے ہیں۔ جہانگیر ترین گروپ خیبرپختونخوا میں بھی سرگرم ہوگیا ہے۔ خیبرپختونخوا پی ٹی آئی کا بنی گالا سمجھا جاتا ہے اور یہیں سے پی ٹی آئی کے اقتدار کی کہانی شروع ہوئی تھی۔ قومی اسمبلی میں جہانگیر ترین گروپ کے پارلیمانی لیڈر راجہ ریاض کے مطابق پی ٹی آئی کے پانچ ارکان اسمبلی نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جبکہ اطلاعات یہ ہیں کہ جہانگیر ترین گروپ سے رابطے کرنے والے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ ارکان اسمبلی جو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے نظر آرہے ہیں، انھیں کابینہ میں نمائندگی نہیں دی اور اقتدار سے دور رکھا گیا، وہ بھی جہانگیر کیمپ کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔
سیاسی افق پر تبدیلی کے اشارے ضمنی انتخابات سے بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے حلقہ پی کے 63 میں پی ٹی آئی کو شکست بڑا دھچکا ہے۔ اسی طرح کراچی میں این اے 249 میں بھی پی ٹی آئی کی ناکامی، پی ٹی آئی کے گراف کی نشاندہی کررہی ہے۔ جہانگیر ترین گروپ اگرچہ اب تک پی ٹی آئی سے خود کو الگ تصور نہیں کررہا، لیکن عمران خان کے سر پر جہانگیر ترین گروپ کی تلور لٹکنا شروع ہوگئی ہے۔ اسی لیے کچھ روز قبل اسد عمر انٹرویو میں یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان پر دباؤ ڈالا گیا تو وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ اور اب موجودہ سیاسی صورتحال پر اسی طرح کا ماحول بنتا نظر آرہا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اگر وزیراعظم اسمبلیاں توڑنے کی جانب سے جاتے ہیں تو فوری انتخابات کی جانب نہیں جایا جائے گا اور کچھ عرصے کےلیے عبوری دور گزارا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملکی سیاسی صورتحال کس جانب کروٹ لیتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔