بلوچ اور بلوچستان
بلوچی بولنے والوں کی تعداد کا اندازہ ڈیڑھ سے دو کروڑ کے درمیان ہے۔ بروہی اور بلوچ کافی حد تک مل گئے ہیں۔
بلوچ اچانک روئے زمین پر وارد ہونے والی قوم نہیں بلکہ سیکڑوں برس قبل بھی ان کا ذکر تاریخی کتب میں ملتا ہے۔ بلوچ قوم اپنی بود و باش ، لباس ، اقدار ، تہذیب و ثقافت اپنے اردگرد موجود دیگر اقوام سے مختلف ہے۔ بلوچ قوم پر بہت کتب لکھی گئیں لیکن میں اپنی تحریر میں بلوچ قوم کی مختصر تاریخ پیش کر رہا ہوں۔
بلوچوں کے بارے میں ایک مورخ ترکمان نسل سے بتاتے ہیں ، دوسرے ایک مورخ کا کہنا ہے کہ یہ عرب نسل سے ہیں ، کسی نے انھیں راجپوت بھی لکھا۔ ایک پروفیسر کا خیال ہے یہ تاجک نسل سے ہیں۔ یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ بلوچ مکران کے قدیم باشندوں کی باقیات ہیں۔ سب نے اپنا اپنا نظریہ پیش کیا، یہ بھی نظریہ ہے کہ بلوچ مکرانی اور بابلی ہیں اور مشہور حکمران کی نسل میں سے ہیں۔ بابل بال عظیم ، یونانی بیلوت ، عہد قدیم میں بلوچ کو بعوث، بلوص اور بلوشن لکھا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں ایرانی لفظ ''بلوچ'' رائج ہوا۔ دراصل یہ لفظ ''بلوشن'' ہے جسے ایرانیوں نے بلوچ لکھا۔
بلوچوں کے پاس سوائے ایک نظم کے کوئی اور قدیمی مواد موجود نہیں ، اس نظم میں تحریر ہے کہ وہ ''امیر حمزہ'' کی اولاد ہیں جو ''حلب'' سے آئے۔ مزید اس میں یہ بیان کیا گیا کہ انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسینؓ کا ساتھ دیا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد وہ تمام '' سیستان '' اور '' مکران '' چلے آئے۔ زرکس کے عہد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے دربار میں آئے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ لیکن بعد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے لیے خطرہ بن گئے۔ اس لیے انھوں نے نہایت بے دردی سے بلوچوں کے خلاف مہم جوئی کی، اس کا تذکرہ فردوسی نے شاہ نامہ میں تفصیل سے کیا ہے۔ گمان ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں بلوچوں کی قوت اس علاقے میں پسپا ہوگئی اور مجبوراً جنوب و مشرق کے پہاڑوں میں جا بسے۔
بلوچوں کے بارے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انھوں نے دو بار ہجرت کی جس کی وجہ ایک بڑے علاقے میں نئے فاتحین کی پیش قدمی تھی۔ پہلی ہجرت اس وقت ہوئی '' فارس'' میں سلجوقیوں کے ہاتھوں جولی ہی اور غزنوی طاقتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس موقع پر یہ لوگ '' کرمان '' کہ '' سیستان '' اور '' جنوبی مکران '' کے علاقوں میں آکر آباد ہوگئے۔ دوسری بار انھوں نے اس علاقے کو چھوڑ کر '' مشرقی مکران'' اور '' سندھ '' کا رخ کیا۔ یہ ہجرت چنگیز خان کے حملوں اور جلال الدین منگول کی وجہ سے ہوئی۔ اس دوسری ہجرت کے نتیجے میں انھوں نے پہلی بار وادی سندھ میں قدم رکھا جس سے ان کے لیے تیسری اور آخری ہجرت کا راستہ ہموار ہوا۔
آخری ہجرت نے ان کے بڑے حصے کو ہندوستان کے میدانی علاقوں میں منتشر کردیا۔ اس آخری ہجرت کا زمانہ ہندوستان پر تیمور لنگ کے حملے اور بابر کی یورش کا زمانہ ہے۔ بعض قبائل نے قلات پر قابض ہو کر بلوچوں کو سندھ اور پنجاب کے درمیانی علاقوں میں جانے پر مجبورکردیا۔ یہ واقعہ بلوچوں کی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے۔ اس واقعے کے بعد یہ قوم دو گروپوں کے درمیان تقسیم ہوگئی اور اب مشرقی اور مغربی بلوچوں کے درمیان میں قلات کے بروہی بھی نظر آتے ہیں۔
1500 میں بلوچوں کے دو قبائل رند ، لاشاری ساتھ ساتھ وسطی بلوچستان کی طرف بڑھے ، جو لوگ اس کے مقابلے پر تھے وہ قتل کردیے گئے یا انھوں نے اطاعت قبول کر لی۔ میر چاکر خان کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں آگیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ میر چاکر خان ایک عظیم بلوچ تھا وہ امیر جلال خان کی اولاد میں سے تھا۔ اس نے خضدار ، درہ بولان ، کچھ کے میدان اور ڈاڈر پر قابض ہونے کے بعد سبی کو فتح کیا اس کے بعد ان دونوں قبائل رند اور لاشاری میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔
بلوچوں کی زبان ''بلوچی'' ہے جو جنوب ، مغربی ایرانی زبان ہے یہ مسلمان ہیں ، ایک اندازے کے مطابق ستر فیصد بلوچ پاکستان میں آباد ہیں۔ پاکستان کے علاوہ بلوچ قوم ایران ، عمان ، افغانستان ، متحدہ عرب امارات ، بھارت اور ترکمانستان میں بھی آباد ہیں۔ بلوچی بولنے والوں کی تعداد کا اندازہ ڈیڑھ سے دو کروڑ کے درمیان ہے۔ بروہی اور بلوچ کافی حد تک مل گئے ہیں۔ تاہم ابھی تک بروہی الگ قبیلہ مانا جاتا ہے۔ بلوچوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو سرائیکی ، سندھی اور بروہی بولتے ہیں۔
اس سے ان کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے، بہت سے بلوچ جو بلوچستان سے باہر رہتے ہیں وہ ایک سے زائد زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ یہ لوگ سندھی ، بروہی ، ایرانیوں اور پشتونوں سے گھل مل گئے ہیں۔ بلوچوں کے بڑے قبائل '' مری '' اور '' بگٹی '' بلوچی زبان بولتے ہیں۔ لانگوں قبیلہ جو وسطیٰ بلوچستان میں رہتا ہے بلوچی کو مادری اور بروہی کو ثانوی زبان کی طرح بولتے ہیں۔ بزنجو اور محمد ثانی قبائل بھی دونوں زبانیں استعمال کرتے ہیں۔
بنگول زئی قبیلہ بھی بروہی بولتا ہے جب کہ گورشانی جو راجن پور میں بلوچوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے بلوچی زبان بولتے ہیں۔ لغاری قبیلہ ڈیرہ اسماعیل خان میں بلوچی اور رحیم یار خان میں سرائیکی بولتے ہیں ، جب کہ سندھ میں رہنے والے لغاری سندھی زبان بولتے ہیں۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے، جس کا کل رقبہ تین لاکھ سینتالیس ہزار ایک سو نوے مربع میٹر ہے۔ یہ محل وقوع کے لحاظ سے بھی اہم صوبہ ہے، شمال میں افغانستان ، خیبرپختونخوا ، جنوب میں بحیرہ عرب ، مشرق میں سندھ اور پنجاب جب کہ مغرب میں ایران شامل ہے۔ 832 کلومیٹر رقبہ ایران کی سرحد کے ساتھ ملحق ہے۔ بلوچستان کی قدیم تاریخ کا اندازہ آثار قدیمہ سے لگایا جاسکتا ہے ، کیونکہ 7000 سال قبل از مسیح کے زمانے کی آبادی و ثقافت کے نشان ملتے ہیں۔
ماضی کے کئی سال تک مکمل طور پر بلوچستان گورنر جنرل کے زیر نگیں رہا۔ بعد ازاں 1956 کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں شامل کردیا گیا۔ 1970 میں عام انتخابات ہوئے تو اس کو پہلی بار علیحدہ ایک صوبے کی حیثیت حاصل ہوئی۔ آواران، فاران، بولان، چاغی، چمن، ڈیرہ بگٹی، گوادر، جعفر آباد، جھل مگسی، قلات، کولہو، خضدار، پسنی، پنج گور، تربت، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، لسبیلہ، لورالائی، مستونگ، نصیر آباد، مشکی، پشین، کوئٹہ، سبی، زیارت بلوچستان میں شامل ہیں۔ کوئٹہ بلوچستان کا صدر مقام ہے، بلوچستان میں تیل، گیس ودیگر معدنیات موجود ہیں۔