ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
علم سے ہماری دوری نے ہمیں معاشی طور پر کمزور کر دیا۔
فلسطین میں یہودیوں کی بربریت اپنے عروج پر ہے۔ نہتے مسلمان ان کے مظالم کا شکار ہیں اور عالمی ضمیر خواب خرگوش کے مزے لوٹنے میں مصروف ہے۔ عالمی ضمیرکی بے حسی اپنی جگہ لیکن افسوس اور دکھ تو اس پر کیا جانا چاہیے کہ دنیا میں 50 سے زائد اسلامی ممالک اور ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کی آبادی ہے۔
جہاں مسلمانوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے علاوہ بھی ایک تنظیم بنا رکھی ہے۔ جس کے باقاعدگی سے اجلاس بھی منعقد ہوتے ہیں۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ فلسطین کا مسئلہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے یہ تو پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے یہودیوں سے کیے گئے اپنے وعدے کیمطابق انھیں فلسطین میں آباد کیا۔
وہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں نے لالچ میں آکر بھاری قیمتوں میں اپنی زمینیں یہودیوں کو فروخت کیں اور یہودی اس مخصوص علاقے کی زمینیں خریدتے چلے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں اگر چہ ہٹلر نے ان کو بے پناہ جانی و مالی نقصان پہنچایا لیکن یہودی اپنی ریاست کے قیام کے لیے یکسو رہے اور بالآخر انھوں نے اپنی علیحدہ آزاد ریاست اسرائیل کی بنیاد رکھ دی۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد اپنے آپ کو سمیٹنا شروع کیا تو جاتے ہوئے اسرائیل کو بطور ایک ریاست کے تسلیم کر لیا۔
اس کے بعد کئی مغربی ممالک اور پھر اس کے بعد اقوامِ متحدہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ انھیں امریکا کی مکمل حمایت حاصل رہی جو آج تک جاری ہے۔ یہودیوں کی کل آبادی 70 لاکھ ہے جو فلسطین پر مکمل قبضہ کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی ریاست اسرائیل کے جغرافیہ میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ فلسطینی مسلمان اپنے ہاتھوں میں پتھر لیے اپنے آبائی وطن کے دفاع میں مشغول جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی افواج کے سامنے سینہ سپر ہیں۔
فلسطینی مسلمانوں کے اس جذبے کو قابل رشک تو کہا جا سکتا ہے لیکن جدید ہتھیاروں کے اس دور میں ان کا یہ طرز عمل ناقابل فہم ضرور ہے۔ اس پوری صورتحال کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ساری اسلامی دنیا ان کے خلاف ہونیوالے مظالم پر ان کی کسی طرح کی عملی مدد کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی حمایت کے لیے صرف OIC اور اقوامِ متحدہ کے اجلاس کا انعقاد وہاں سے قرارداد مذمت کی منظوری اور اپنے ممالک میں مظاہرے کروانے کے علاوہ کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔
کیا یہ مناسب وقت نہیں کہ ہم اس امر کا جائزہ لے سکیں کہ آخر پوری اسلامی امہ کی جانب سے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس اور انتہائی مقدس مسجد اقصیٰ پر اسرائیلیوں کے قبضہ پر ہماری اجتماعی بے بسی کے اسباب کیا ہیں؟ ہم آج 50 سے زائد اسلامی ممالک اپنے مقدس مقامات کے تحفظ اور اس امر پر دنیا کی توجہ حاصل کرنے سے کیوں محروم ہیں؟ شاید اس لیے کہ ہم بطور اسلامی امہ زندگی کے ہر شعبے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم نے خلافت اور بادشاہت کے ادوار میں تعلیم ، علم وحرفت کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔
پھر صنعتی انقلاب کے بعد کی جدید دنیا میں کہ جب پرانی ایمپائرز ٹوٹیں اور اس کے نتیجے میں نئی ریاستیں وجود میں آئیں۔ ہمارے معاشروں کے طاقتور طبقات نے عالمی طاقتوں سے گٹھ جوڑکرکے اپنی اپنی ریاستوں میں اقتدار تو حاصل کر لیا لیکن اپنی ریاست اور قوم کی ترقی کو کسی بھی درجہ میں نہیں رکھا۔ اس طرح ہم اپنے خاندانوں اور طبقات کے اقتدار اور مفادات کے حصول اور اس کے تحفظ ہی کے خواہشمند رہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔
ہمارے اس طرزِ عمل نے ریاست اور قوم دونوں ہی کوکمزور اور اندر سے کھوکھلا کر دیا۔اب ہم معاشی طور پر بہت کمزور ہیں۔ آج جدید دنیا کی ترقی جدید تعلیم سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمیں یہ غور کرنا ہوگا کہ پوری اسلامی دنیا نے گزشتہ دو تین سو سالوں میں کتنے فلسفی اور محققین پیدا کیے؟ کتنے سائنس دان پیدا کیے؟ کتنے ڈاکٹرز اور انجینئرز پیدا کیے؟ ہم نے تو جدید علوم اور تحقیق کے ذریعے ترقی کرنے کی صدیوں سے کوئی کوشش ہی نہیں کی بلکہ ہمارے حکمرانوں نے حصول علم پر ایسے پہرے لگائے کہ جہاں حصول علم ، تحقیق اور سوال کرنے کو غیر اعلانیہ طور پر جرم کا درجہ قرار دے دیا گیا۔
ان کا خیال یہی تھا کہ اپنے ذاتی اقتدارکو قائم رکھنے کے لیے صرف اسلامی تعلیم ہی کے مواقع دیے جائیں ورنہ ان کا خیال یہی رہا کہ کسی تعلیم یافتہ معاشرے کو زیادہ عرصے تک کس طرح حقوق سے محروم رکھا جاسکتا ہے۔
لہذا ان کی اس سوچ نے مسلم معاشرے کو ترقی کے عمل سے دور کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ہم علمی طور پر بھی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے اور معاشی طور پر بھی ، ہم بحیثیت اسلامی امہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے قابل نہیں رہے۔ صد افسوس کہ ہم اپنے دریاؤں ، سمندروں، پہاڑوں، صحراؤں، ریگستانوں اور جنگلات میں قدرت کی طرف سے عطا کی گئی معدنیات کے پوشیدہ خزانوں سے استفادہ تک کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس کے لیے بھی ہمیں بیرونی دنیا کے ماہرین ہی درکار رہتے ہیں۔
علم سے ہماری دوری نے ہمیں معاشی طور پر کمزور کر دیا۔ ہم نے اپنی ریاستوں میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دے کر عوام کو امور مملکت سے دور رکھا۔ ریاستی امور پر قابض ایک خاص طبقے نے عوام کے نام پر صرف اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کیا۔ اگر کسی اسلامی ملک میں عوام کو شامل اقتدار کرنے کی کوئی تحریک چلی تو اسے ریاست پر قابض بالادست طبقے نے طاقت کے بل بوتے پر کچل دیا لیکن معاشرے میں سیاسی جماعتوں کو نہ بننے دیا اور نہ انھیں پنپنے دیا۔ نتیجہ آج ہم غیر مستحکم سیاسی نظام کی بنا پر دنیا سے بیشمار فوائد حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
آج کی سرمایہ دار دنیا میں ان ہی ممالک میں سرمایہ کاری ہوتی ہے کہ جہاں کے سیاسی نظام میں تسلسل ہو لیکن ہم اپنے ممالک میں سرمایہ کاری کا محفوظ ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہے لہذا آج ہمارے بیشتر اسلامی ممالک سخت معاشی دباؤکا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش کی صورت حال کچھ مختلف ہے اور اس کے اسباب یہی ہیں کہ انھوں نے پاکستان سے علیحدگی کے کچھ ہی عرصہ بعد جمہوری نظام حکومت کے بارے میں فیصلہ کرلیا جس پر وہ اب تک سختی سے کاربند ہیں لہذا وہاں کے حالات باقی ماندہ اسلامی دنیا سے مختلف ہیں۔
یہ سب کچھ آج اچانک نہیں ہو رہا بلکہ صدیوں کا تسلسل ہے اور یہ ہمارا اپنا پیدا کردہ بحران ہے ، اگر ہم اب بھی دنیا میں وقار اور احترام کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اپنے ممالک میں تعلیم اور تحقیق کو اہمیت دینے کے علاوہ فوری طور پر حقیقی جمہوریتوں کو نافذ کر کے امور مملکت عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے سپرد کرنا ہوگا۔ جب اسلامی ممالک اقوامِ متحدہ کے فورم پر فلسطین، کشمیر یا اس جیسے دیگر مسائل کو اجاگرکریں گے تو اقوامِ متحدہ یقینی طور پر 50 سے زائد اسلامی ممالک کے مشترکہ مطالبہ کو ہرگز نظر انداز نہیں کر سکے گا ۔
جہاں مسلمانوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے علاوہ بھی ایک تنظیم بنا رکھی ہے۔ جس کے باقاعدگی سے اجلاس بھی منعقد ہوتے ہیں۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ فلسطین کا مسئلہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے یہ تو پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے یہودیوں سے کیے گئے اپنے وعدے کیمطابق انھیں فلسطین میں آباد کیا۔
وہاں صدیوں سے آباد مسلمانوں نے لالچ میں آکر بھاری قیمتوں میں اپنی زمینیں یہودیوں کو فروخت کیں اور یہودی اس مخصوص علاقے کی زمینیں خریدتے چلے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں اگر چہ ہٹلر نے ان کو بے پناہ جانی و مالی نقصان پہنچایا لیکن یہودی اپنی ریاست کے قیام کے لیے یکسو رہے اور بالآخر انھوں نے اپنی علیحدہ آزاد ریاست اسرائیل کی بنیاد رکھ دی۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد اپنے آپ کو سمیٹنا شروع کیا تو جاتے ہوئے اسرائیل کو بطور ایک ریاست کے تسلیم کر لیا۔
اس کے بعد کئی مغربی ممالک اور پھر اس کے بعد اقوامِ متحدہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ انھیں امریکا کی مکمل حمایت حاصل رہی جو آج تک جاری ہے۔ یہودیوں کی کل آبادی 70 لاکھ ہے جو فلسطین پر مکمل قبضہ کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی ریاست اسرائیل کے جغرافیہ میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ فلسطینی مسلمان اپنے ہاتھوں میں پتھر لیے اپنے آبائی وطن کے دفاع میں مشغول جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی افواج کے سامنے سینہ سپر ہیں۔
فلسطینی مسلمانوں کے اس جذبے کو قابل رشک تو کہا جا سکتا ہے لیکن جدید ہتھیاروں کے اس دور میں ان کا یہ طرز عمل ناقابل فہم ضرور ہے۔ اس پوری صورتحال کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ساری اسلامی دنیا ان کے خلاف ہونیوالے مظالم پر ان کی کسی طرح کی عملی مدد کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کی حمایت کے لیے صرف OIC اور اقوامِ متحدہ کے اجلاس کا انعقاد وہاں سے قرارداد مذمت کی منظوری اور اپنے ممالک میں مظاہرے کروانے کے علاوہ کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔
کیا یہ مناسب وقت نہیں کہ ہم اس امر کا جائزہ لے سکیں کہ آخر پوری اسلامی امہ کی جانب سے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس اور انتہائی مقدس مسجد اقصیٰ پر اسرائیلیوں کے قبضہ پر ہماری اجتماعی بے بسی کے اسباب کیا ہیں؟ ہم آج 50 سے زائد اسلامی ممالک اپنے مقدس مقامات کے تحفظ اور اس امر پر دنیا کی توجہ حاصل کرنے سے کیوں محروم ہیں؟ شاید اس لیے کہ ہم بطور اسلامی امہ زندگی کے ہر شعبے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم نے خلافت اور بادشاہت کے ادوار میں تعلیم ، علم وحرفت کو وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔
پھر صنعتی انقلاب کے بعد کی جدید دنیا میں کہ جب پرانی ایمپائرز ٹوٹیں اور اس کے نتیجے میں نئی ریاستیں وجود میں آئیں۔ ہمارے معاشروں کے طاقتور طبقات نے عالمی طاقتوں سے گٹھ جوڑکرکے اپنی اپنی ریاستوں میں اقتدار تو حاصل کر لیا لیکن اپنی ریاست اور قوم کی ترقی کو کسی بھی درجہ میں نہیں رکھا۔ اس طرح ہم اپنے خاندانوں اور طبقات کے اقتدار اور مفادات کے حصول اور اس کے تحفظ ہی کے خواہشمند رہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔
ہمارے اس طرزِ عمل نے ریاست اور قوم دونوں ہی کوکمزور اور اندر سے کھوکھلا کر دیا۔اب ہم معاشی طور پر بہت کمزور ہیں۔ آج جدید دنیا کی ترقی جدید تعلیم سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمیں یہ غور کرنا ہوگا کہ پوری اسلامی دنیا نے گزشتہ دو تین سو سالوں میں کتنے فلسفی اور محققین پیدا کیے؟ کتنے سائنس دان پیدا کیے؟ کتنے ڈاکٹرز اور انجینئرز پیدا کیے؟ ہم نے تو جدید علوم اور تحقیق کے ذریعے ترقی کرنے کی صدیوں سے کوئی کوشش ہی نہیں کی بلکہ ہمارے حکمرانوں نے حصول علم پر ایسے پہرے لگائے کہ جہاں حصول علم ، تحقیق اور سوال کرنے کو غیر اعلانیہ طور پر جرم کا درجہ قرار دے دیا گیا۔
ان کا خیال یہی تھا کہ اپنے ذاتی اقتدارکو قائم رکھنے کے لیے صرف اسلامی تعلیم ہی کے مواقع دیے جائیں ورنہ ان کا خیال یہی رہا کہ کسی تعلیم یافتہ معاشرے کو زیادہ عرصے تک کس طرح حقوق سے محروم رکھا جاسکتا ہے۔
لہذا ان کی اس سوچ نے مسلم معاشرے کو ترقی کے عمل سے دور کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ہم علمی طور پر بھی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے اور معاشی طور پر بھی ، ہم بحیثیت اسلامی امہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے قابل نہیں رہے۔ صد افسوس کہ ہم اپنے دریاؤں ، سمندروں، پہاڑوں، صحراؤں، ریگستانوں اور جنگلات میں قدرت کی طرف سے عطا کی گئی معدنیات کے پوشیدہ خزانوں سے استفادہ تک کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس کے لیے بھی ہمیں بیرونی دنیا کے ماہرین ہی درکار رہتے ہیں۔
علم سے ہماری دوری نے ہمیں معاشی طور پر کمزور کر دیا۔ ہم نے اپنی ریاستوں میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دے کر عوام کو امور مملکت سے دور رکھا۔ ریاستی امور پر قابض ایک خاص طبقے نے عوام کے نام پر صرف اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کیا۔ اگر کسی اسلامی ملک میں عوام کو شامل اقتدار کرنے کی کوئی تحریک چلی تو اسے ریاست پر قابض بالادست طبقے نے طاقت کے بل بوتے پر کچل دیا لیکن معاشرے میں سیاسی جماعتوں کو نہ بننے دیا اور نہ انھیں پنپنے دیا۔ نتیجہ آج ہم غیر مستحکم سیاسی نظام کی بنا پر دنیا سے بیشمار فوائد حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
آج کی سرمایہ دار دنیا میں ان ہی ممالک میں سرمایہ کاری ہوتی ہے کہ جہاں کے سیاسی نظام میں تسلسل ہو لیکن ہم اپنے ممالک میں سرمایہ کاری کا محفوظ ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہے لہذا آج ہمارے بیشتر اسلامی ممالک سخت معاشی دباؤکا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش کی صورت حال کچھ مختلف ہے اور اس کے اسباب یہی ہیں کہ انھوں نے پاکستان سے علیحدگی کے کچھ ہی عرصہ بعد جمہوری نظام حکومت کے بارے میں فیصلہ کرلیا جس پر وہ اب تک سختی سے کاربند ہیں لہذا وہاں کے حالات باقی ماندہ اسلامی دنیا سے مختلف ہیں۔
یہ سب کچھ آج اچانک نہیں ہو رہا بلکہ صدیوں کا تسلسل ہے اور یہ ہمارا اپنا پیدا کردہ بحران ہے ، اگر ہم اب بھی دنیا میں وقار اور احترام کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اپنے ممالک میں تعلیم اور تحقیق کو اہمیت دینے کے علاوہ فوری طور پر حقیقی جمہوریتوں کو نافذ کر کے امور مملکت عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے سپرد کرنا ہوگا۔ جب اسلامی ممالک اقوامِ متحدہ کے فورم پر فلسطین، کشمیر یا اس جیسے دیگر مسائل کو اجاگرکریں گے تو اقوامِ متحدہ یقینی طور پر 50 سے زائد اسلامی ممالک کے مشترکہ مطالبہ کو ہرگز نظر انداز نہیں کر سکے گا ۔