اتحاد امت
اسلام، ملّت اسلامیہ میں یک جہتی کی وہ فضا دیکھنے کا خواہاں ہےجو تمام تفرقات سے پاک ہو، جہاں اخوّت ہو۔
جب انسانیت نے ارتقاء کی آخری منزل میں قدم رکھا۔ ذہن انسانی عروج کو پہنچ چکا، تو سلسلۂ رشد و ہدایت کی آخری کڑی ہادی کامل رسول معظم خاتم النبیین حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ مبعوث ہوئے اور خالق و مالک نے صراحت کے ساتھ اعلان فرما دیا کہ اب ہمارے مبعوث کیے ہوئے پیغمبرؐ کی تصدیق نہ کسی قوم و آبادی تک محدود ہے، نہ جغرافیائی حدود کی کوئی تقسیم ہے اور نہ ہی یہ آخری پیغام زمانے کی قید و بند میں محصور ہے۔ بل کہ اب جب تک خدا کی خدائی قائم ہے، یہی پیغام رشد و ہدایت ہی صراط مستقیم کا ضامن ہے۔ کیوں کہ آنے والے ہادیٔ کُل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اعلان فرما دیا ہے: ''اے لوگو! میں تم میں سب کی طرف اﷲ کا رسول بن کر آیا ہوں۔''
'' اور ہم نے آپ (ﷺ) کو تمام انسانوں کے لیے خوش خبری دیتا اور ڈر سناتا بھیجا ہے۔'' نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی دعوت میں رنگ و نسل اور زبان و وطن کے نام پر قائم کی گئی تمام تفریقات کی نفی اور نظریاتی قومیت کے اثبات کا اعلان ہے۔
اسلام کے نظریۂ حیات پر یقین رکھنے والا خواہ کالا ہو یا گورا، مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا، عربی ہو یا عجمی، جو زبان بھی وہ بولتا ہے، وہ ایک عالم گیر امت مسلمہ کا فرد ہے۔ اسلام کے نزدیک صرف دو قومیں اور دو طبقے ہیں۔ حزب اﷲ اور حزب الشیطٰن۔ جس نے اقرار توحید و رسالتؐ کیا وہ حزب اﷲ میں شامل ہوگیا اور جس نے انکار کیا وہ حزب الشیطٰن کی فہرست میں داخل ہوگیا۔ تاریخ اسلام پر ایک نظر ڈالیے، حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ فارس کے رہنے والے ہیں مگر وحدت کے سبب عظیم اعزاز سے سرفراز کیے جاتے ہیں۔
حضرت بلال رضی اﷲ عنہ حبشہ کے رہنے والے ہیں مگر اسلام نے انہیں عزت و احترام کے اس مقام پر فائز کیا کہ امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور با آواز بلند فرماتے ہیں: '' بلال رضی اﷲ عنہ ہمارے آقا ہیں اور ہمارے آقا ﷺ کے غلام ہیں۔'' پوری نوع انسانی کی یک جہتی ہو یا صرف ملت اسلامیہ کا اتفاق و اتحاد، اگر بہ نظر غائر جائزہ لیں تو چند بنیادی عناصر ہیں جو اتحاد و اتفاق کی فضا کو منتشر کرنے کا سبب بنتے ہیں اور وہ معروف ہیں۔ یعنی نسلی تمیز و تفاخر، علاقائی حد بندیاں، لسانی کش مکش اور مذہبی منافرت۔ جو لوگ دین اسلام کے پیروکار ہیں۔
ان کی یک جہتی اور اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرنے کے لیے داعی اسلام ﷺ نے اپنے پاکیزہ اُسوہ سے اُن عناصر کی بیخ کنی کر دی جو امت کا شیرازہ منتشر کرتے تھے۔ آپؐ نے امت کے افراد کو ایک تسبیح کے دانوں کی طرح یک جا کردیا اور ''عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر سرخ کو کالے پر اور کالے کو سر خ پر کوئی فضیلت نہیں۔ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہے اور آدم علیہ السلام مٹی سے ہیں۔'' کا انقلاب آفرین فرمان سنا کر رنگ و نسل کے تمام تفاخر کو خاک میں ملا دیا۔ اسی طرح حبشہ کے رہنے والے سیاہ فام غلام حضرت بلال رضی اﷲ عنہ اور فارس سے تشریف لانے والے حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ کو سینہ نبوتؐ سے لگا کر علاقائی بنیادوں پر پیدا ہونے والے امتیازات کو فلسفۂ اسلام سے یک سر خارج کردیا۔
فتح مکہ کے موقع پر اخوت اسلامی اور جغرافیائی حدود سے ماوراء اور اسلامی معاشرے کے قیام اور نظریے پر یقین و پختگی کی بنیاد پر ایک نئی قوم کے قیام کا فقید المثال عملی مظاہرہ چشم فلک نے دیکھا۔ اسلام، ملت اسلامیہ میں یک جہتی کی وہ فضا دیکھنے کا خواہاں ہے جو ان تمام تفرقات سے پاک ہو، جہاں اخوت ہو، مروت ہو، محبت اور پیار ہو، مسلمان جذبۂ ایثار سے سرشار ہو، ایک کا دکھ، سب کا دکھ اور ایک کی خوشی سب کی خوشی کا ساماں ہو۔ اسی نقطۂ اخوت کو قرآن حکیم نے اس طرح بیان کیا: ''بے شک مومن بھائی بھائی ہیں۔'' بل کہ اس رشتۂ اخوت اور اتحاد امت کو مضبوط بنانے کے لیے قرآن کریم جا بہ جا ارشاد فرماتا ہے : ''اور اﷲ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ پڑو اور اﷲ تعالیٰ کا احسان یاد کرو جو اُس نے تم پر کیا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اور اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ ڈال دیا اور تم آپس میں بھائی بن گئے۔''
احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیجیے! حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' ایمان والوں کا تعلق دوسرے ایمان والوں کے ساتھ ایک مضبوط عمارت کا ہونا چاہیے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں پھر آپؐ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں۔'' یہی وہ مضبوط تعلق اور نظریہ تھا اور اسی کی بنیاد پر یہ جذبۂ ایثار کار فرما تھا کہ ہجرت مدینہ کے موقع پر مدینہ کے میزبانوں نے مکہ کے مہمانوں کو گلے لگا لیا۔ اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں حاضر کردیا۔ ایک مدنی صحابی نے اپنے مکی بھائی سے عرض کی کہ میری دو بیویاں ہیں۔ ایک کو طلا ق دے دیتا ہوں اس سے تم نکاح کرلو۔ یہ ہے مواخات مدینہ کا وہ منظر اور یہ ہے ملی یک جہتی کی وہ مثال کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔
کو ئی شک نہیں کہ اسلام نے فرد کی حیثیت کو بہت ممتاز کیا ہے۔ فرد ہی اس کا ابتدائی اور حقیقی مخاطب ہے، جس طرح وہ تنہا پیدا ہوا ہے اسی طرح اﷲ کے احکام پر چل کر اپنی زندگی کو کام یاب بنانا بھی اس کی اپنی انفرادی ذمے داری ہے اور بارگاہ رب العزت میں اپنے عمل کی جواب دہی کے لیے اسے اکیلے ہی حاضر ہونا ہے۔ لیکن روح اسلام کو ایک نظر دیکھیے تو آپ یقین کی منزل پر پہنچ کر پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکیں گے کہ اسلام فرد کی اصلاح کے ساتھ ایک صالح اور اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام بھی عمل میں لانا چاہتا ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمے داریوں کو ادا کرے اور منشائے الہٰی کی تعمیل کے لیے منظم اور مجتمع ہوکر باطل قوتوں سے بر سر پیکار ہو۔ انسانی زندگی کا وہ شعبہ جسے عرف عام کے لحاظ سے عبادتی شعبہ کہنا چاہیے ایک ایسا شعبہ ہے۔
جہاں اجتماعیت کی رسائی کا تصور بھی مشکل سے کیا جاسکتا ہے۔ عبادت الہٰی کا نام لیجیے، آپ گوشوں اور تنہائی کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ انسان چاہتا ہے کہ تمام علائق دنیا سے آزاد ہو کر گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر وہ اپنے معبود کی عبادت بجا لائے لیکن اسلام نے عبادت کے اندر بھی اجتماعیت کا رنگ پیدا کیا۔
نماز جسے دین کے ستون کا نام دیا گیا اور جسے کفر اور اسلام کا امتیاز قرار دیا گیا اس کے لیے اتنا ہی کافی نہیں کہ اکٹھے مل کر اور باجماعت ادا کر لی جائے بل کہ بخاری شریف کی حدیث کے مطابق ضروری ہے کہ لوگ صفیں باندھ کر اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں اور صفیں تِیر کی طرح سیدھی ہو ں۔ روزے کو لیجیے! اس میں اجتماعی شان دیکھیے! ایک ہی دن شروع کرنا اور ایک ہی دن عید منانا۔ ایک ہی وقت شروع کرنا اور ایک ہی وقت افطار کرنا۔ یہ مسلمان ملک میں اجتماع اور نظم و ضبط کی تعلیم نہیں تو اور کیا ہے۔
اور حج تو اپنے اندر اجتماعیت کی وہ شان رکھتا ہے کہ کسی بھی مذہب کی تاریخ اس کی نظیر پیش نہ کرسکے گی۔ مختلف رنگ، نسل اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ ایک ہی لباس میں ملبوس، ایک ہی معبود حقیقی کی پرستش میں مصروف نظر آتے ہیں اور سب کی زبان پر ایک ہی کلمہ جاری ہوتا ہے، لبّیک۔
حج ان احکام کا مجمل خلاصہ ہے جو اجتماعی نظم اور ملی اتحاد کے بارے میں اسلام نے اپنے پیروکاروں کو دے رکھے ہیں، اگر انہی چند ارشادات کو غور سے دیکھ لیا جائے تو اجتماعیت کی وہ قدر و قیمت جو اسے اسلام میں حاصل ہے بڑی حد تک واضح نظر آئے گی۔ ارشاد رسول کریم ﷺ ہے، مفہوم: '' جماعت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہو اور انتشار سے پوری طرح الگ رہو۔'' تمام اہل ایمان کا ایک خاص شیرازے میں بندھا رہنا اور تفرقے سے دور رہنا ضروری ہے، اجتماعیت سے بالشت بھر کی علیحدگی بھی مومن کی گردن کو اسلام کے حلقے سے محروم کر دیتی ہے۔غور فرمائیے کہ جس دین کی یہ تعلیم ہو اور جس دین کے داعی کا اُسوۂ حسنہ ایسا مبارک ہو۔ اس دین کے پیرو کار آج کس خلفشار کا شکار ہیں۔ اس کا شیرازہ کس حد تک منتشر ہوچکا ہے۔
آج عرب و عجم کی تفریقات پھر پیدا ہو چکی ہیں۔ آج نسل و زبان کے فتنے کی آگ پوری طرح بھڑک چکی ہے۔ مسلمان کے ہاتھ مسلمان کے خون سے رنگین ہیں۔ مسلمان کی آبرو مسلمان کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ ان ہی جغرافیائی، نسل اور لسانی تنازعات کے سبب مسلمانوں کی واحد نظریاتی مملکت دولخت ہوگئی اور آج ہم پھر زمانۂ جاہلیت میں جا پہنچے ہیں۔
وہی عصبیتیں ہم میں پھر عود کر آئی ہیں۔ ایک اﷲ، ایک رسولؐ اور ایک کتاب پر ایمان لانے والی امت نسل، رنگ، زبان اور علاقائی عصبیتوں کے مختلف خانوں میں بٹ چکی ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی جو مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے ناپاک عزائم میں ملوث ہیں ان کی نظروں سے شاید یہ ارشاد رسالت مآب ﷺ پوشیدہ ہے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں، مفہوم :''جو شخص اس اجتماعیت کو جب تک کہ وہ متحد ہو، پراگندہ کرنا چاہے اسے بہ درجہ آخر تلوار پر رکھ لو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔''
دوسری حدیث طیبہ میں ارشاد کا مفہوم ہے: '' نہیں ہے وہ ہم میں سے جس نے لوگوں کو کسی عصبیت کی طرف بلایا ۔''
دین اسلام سراسر دین رحمت اور دین وحدت ہے۔ شیوۂ رحمت غیروں کو اپنا بنانا اور نظریۂ وحدت عالم انسانی کو ایک مثبت بنیاد فراہم کرنا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے رحمت کے رویے سے اپنوں اور غیروں کو متاثر کیا اور اصول وحدت کے ذریعے سے انسانی دنیا کو اسلامی برادری کا نمونہ عطا کیا، اگر چہ لوگوں میں کالے اور گورے، عربی اور عجمی، بدوی اور شہری اور ایشیائی اور افریقی وغیرہ کے تشخصات موجود رہے لیکن محض شناخت کے لیے، ورنہ ان سب میں ایک جوہری وحدت پیدا کرکے ذہنوں اور دلوں کے فاصلے سمیٹ دیے۔ یہ سب کچھ اس جوہر وحدت کے طفیل ہوا جسے کلمۂ توحید کہا جاتا ہے اور آج اسی اصل و اساس کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔
گویا مقصد سے آگاہی ا س کی صداقت پر یقین اور پھر عمل کے لیے عزم صمیم ہی وہ قوتیں ہیں جو امت مسلمہ کو پھر سے متفق و متحد بنا سکتی ہیں۔ اسی میں ملتِ اسلامیہ کی بقا اور سربلندیٔ دینِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اسوۂ رسول ﷺ کے مطابق اتحاد امت سے سرشار فرمائے۔ آمین
'' اور ہم نے آپ (ﷺ) کو تمام انسانوں کے لیے خوش خبری دیتا اور ڈر سناتا بھیجا ہے۔'' نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی دعوت میں رنگ و نسل اور زبان و وطن کے نام پر قائم کی گئی تمام تفریقات کی نفی اور نظریاتی قومیت کے اثبات کا اعلان ہے۔
اسلام کے نظریۂ حیات پر یقین رکھنے والا خواہ کالا ہو یا گورا، مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا، عربی ہو یا عجمی، جو زبان بھی وہ بولتا ہے، وہ ایک عالم گیر امت مسلمہ کا فرد ہے۔ اسلام کے نزدیک صرف دو قومیں اور دو طبقے ہیں۔ حزب اﷲ اور حزب الشیطٰن۔ جس نے اقرار توحید و رسالتؐ کیا وہ حزب اﷲ میں شامل ہوگیا اور جس نے انکار کیا وہ حزب الشیطٰن کی فہرست میں داخل ہوگیا۔ تاریخ اسلام پر ایک نظر ڈالیے، حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ فارس کے رہنے والے ہیں مگر وحدت کے سبب عظیم اعزاز سے سرفراز کیے جاتے ہیں۔
حضرت بلال رضی اﷲ عنہ حبشہ کے رہنے والے ہیں مگر اسلام نے انہیں عزت و احترام کے اس مقام پر فائز کیا کہ امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور با آواز بلند فرماتے ہیں: '' بلال رضی اﷲ عنہ ہمارے آقا ہیں اور ہمارے آقا ﷺ کے غلام ہیں۔'' پوری نوع انسانی کی یک جہتی ہو یا صرف ملت اسلامیہ کا اتفاق و اتحاد، اگر بہ نظر غائر جائزہ لیں تو چند بنیادی عناصر ہیں جو اتحاد و اتفاق کی فضا کو منتشر کرنے کا سبب بنتے ہیں اور وہ معروف ہیں۔ یعنی نسلی تمیز و تفاخر، علاقائی حد بندیاں، لسانی کش مکش اور مذہبی منافرت۔ جو لوگ دین اسلام کے پیروکار ہیں۔
ان کی یک جہتی اور اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرنے کے لیے داعی اسلام ﷺ نے اپنے پاکیزہ اُسوہ سے اُن عناصر کی بیخ کنی کر دی جو امت کا شیرازہ منتشر کرتے تھے۔ آپؐ نے امت کے افراد کو ایک تسبیح کے دانوں کی طرح یک جا کردیا اور ''عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر سرخ کو کالے پر اور کالے کو سر خ پر کوئی فضیلت نہیں۔ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہے اور آدم علیہ السلام مٹی سے ہیں۔'' کا انقلاب آفرین فرمان سنا کر رنگ و نسل کے تمام تفاخر کو خاک میں ملا دیا۔ اسی طرح حبشہ کے رہنے والے سیاہ فام غلام حضرت بلال رضی اﷲ عنہ اور فارس سے تشریف لانے والے حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ کو سینہ نبوتؐ سے لگا کر علاقائی بنیادوں پر پیدا ہونے والے امتیازات کو فلسفۂ اسلام سے یک سر خارج کردیا۔
فتح مکہ کے موقع پر اخوت اسلامی اور جغرافیائی حدود سے ماوراء اور اسلامی معاشرے کے قیام اور نظریے پر یقین و پختگی کی بنیاد پر ایک نئی قوم کے قیام کا فقید المثال عملی مظاہرہ چشم فلک نے دیکھا۔ اسلام، ملت اسلامیہ میں یک جہتی کی وہ فضا دیکھنے کا خواہاں ہے جو ان تمام تفرقات سے پاک ہو، جہاں اخوت ہو، مروت ہو، محبت اور پیار ہو، مسلمان جذبۂ ایثار سے سرشار ہو، ایک کا دکھ، سب کا دکھ اور ایک کی خوشی سب کی خوشی کا ساماں ہو۔ اسی نقطۂ اخوت کو قرآن حکیم نے اس طرح بیان کیا: ''بے شک مومن بھائی بھائی ہیں۔'' بل کہ اس رشتۂ اخوت اور اتحاد امت کو مضبوط بنانے کے لیے قرآن کریم جا بہ جا ارشاد فرماتا ہے : ''اور اﷲ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ پڑو اور اﷲ تعالیٰ کا احسان یاد کرو جو اُس نے تم پر کیا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اور اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ ڈال دیا اور تم آپس میں بھائی بن گئے۔''
احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیجیے! حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' ایمان والوں کا تعلق دوسرے ایمان والوں کے ساتھ ایک مضبوط عمارت کا ہونا چاہیے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں پھر آپؐ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں۔'' یہی وہ مضبوط تعلق اور نظریہ تھا اور اسی کی بنیاد پر یہ جذبۂ ایثار کار فرما تھا کہ ہجرت مدینہ کے موقع پر مدینہ کے میزبانوں نے مکہ کے مہمانوں کو گلے لگا لیا۔ اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں حاضر کردیا۔ ایک مدنی صحابی نے اپنے مکی بھائی سے عرض کی کہ میری دو بیویاں ہیں۔ ایک کو طلا ق دے دیتا ہوں اس سے تم نکاح کرلو۔ یہ ہے مواخات مدینہ کا وہ منظر اور یہ ہے ملی یک جہتی کی وہ مثال کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔
کو ئی شک نہیں کہ اسلام نے فرد کی حیثیت کو بہت ممتاز کیا ہے۔ فرد ہی اس کا ابتدائی اور حقیقی مخاطب ہے، جس طرح وہ تنہا پیدا ہوا ہے اسی طرح اﷲ کے احکام پر چل کر اپنی زندگی کو کام یاب بنانا بھی اس کی اپنی انفرادی ذمے داری ہے اور بارگاہ رب العزت میں اپنے عمل کی جواب دہی کے لیے اسے اکیلے ہی حاضر ہونا ہے۔ لیکن روح اسلام کو ایک نظر دیکھیے تو آپ یقین کی منزل پر پہنچ کر پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکیں گے کہ اسلام فرد کی اصلاح کے ساتھ ایک صالح اور اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام بھی عمل میں لانا چاہتا ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمے داریوں کو ادا کرے اور منشائے الہٰی کی تعمیل کے لیے منظم اور مجتمع ہوکر باطل قوتوں سے بر سر پیکار ہو۔ انسانی زندگی کا وہ شعبہ جسے عرف عام کے لحاظ سے عبادتی شعبہ کہنا چاہیے ایک ایسا شعبہ ہے۔
جہاں اجتماعیت کی رسائی کا تصور بھی مشکل سے کیا جاسکتا ہے۔ عبادت الہٰی کا نام لیجیے، آپ گوشوں اور تنہائی کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ انسان چاہتا ہے کہ تمام علائق دنیا سے آزاد ہو کر گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر وہ اپنے معبود کی عبادت بجا لائے لیکن اسلام نے عبادت کے اندر بھی اجتماعیت کا رنگ پیدا کیا۔
نماز جسے دین کے ستون کا نام دیا گیا اور جسے کفر اور اسلام کا امتیاز قرار دیا گیا اس کے لیے اتنا ہی کافی نہیں کہ اکٹھے مل کر اور باجماعت ادا کر لی جائے بل کہ بخاری شریف کی حدیث کے مطابق ضروری ہے کہ لوگ صفیں باندھ کر اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں اور صفیں تِیر کی طرح سیدھی ہو ں۔ روزے کو لیجیے! اس میں اجتماعی شان دیکھیے! ایک ہی دن شروع کرنا اور ایک ہی دن عید منانا۔ ایک ہی وقت شروع کرنا اور ایک ہی وقت افطار کرنا۔ یہ مسلمان ملک میں اجتماع اور نظم و ضبط کی تعلیم نہیں تو اور کیا ہے۔
اور حج تو اپنے اندر اجتماعیت کی وہ شان رکھتا ہے کہ کسی بھی مذہب کی تاریخ اس کی نظیر پیش نہ کرسکے گی۔ مختلف رنگ، نسل اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ ایک ہی لباس میں ملبوس، ایک ہی معبود حقیقی کی پرستش میں مصروف نظر آتے ہیں اور سب کی زبان پر ایک ہی کلمہ جاری ہوتا ہے، لبّیک۔
حج ان احکام کا مجمل خلاصہ ہے جو اجتماعی نظم اور ملی اتحاد کے بارے میں اسلام نے اپنے پیروکاروں کو دے رکھے ہیں، اگر انہی چند ارشادات کو غور سے دیکھ لیا جائے تو اجتماعیت کی وہ قدر و قیمت جو اسے اسلام میں حاصل ہے بڑی حد تک واضح نظر آئے گی۔ ارشاد رسول کریم ﷺ ہے، مفہوم: '' جماعت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہو اور انتشار سے پوری طرح الگ رہو۔'' تمام اہل ایمان کا ایک خاص شیرازے میں بندھا رہنا اور تفرقے سے دور رہنا ضروری ہے، اجتماعیت سے بالشت بھر کی علیحدگی بھی مومن کی گردن کو اسلام کے حلقے سے محروم کر دیتی ہے۔غور فرمائیے کہ جس دین کی یہ تعلیم ہو اور جس دین کے داعی کا اُسوۂ حسنہ ایسا مبارک ہو۔ اس دین کے پیرو کار آج کس خلفشار کا شکار ہیں۔ اس کا شیرازہ کس حد تک منتشر ہوچکا ہے۔
آج عرب و عجم کی تفریقات پھر پیدا ہو چکی ہیں۔ آج نسل و زبان کے فتنے کی آگ پوری طرح بھڑک چکی ہے۔ مسلمان کے ہاتھ مسلمان کے خون سے رنگین ہیں۔ مسلمان کی آبرو مسلمان کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ ان ہی جغرافیائی، نسل اور لسانی تنازعات کے سبب مسلمانوں کی واحد نظریاتی مملکت دولخت ہوگئی اور آج ہم پھر زمانۂ جاہلیت میں جا پہنچے ہیں۔
وہی عصبیتیں ہم میں پھر عود کر آئی ہیں۔ ایک اﷲ، ایک رسولؐ اور ایک کتاب پر ایمان لانے والی امت نسل، رنگ، زبان اور علاقائی عصبیتوں کے مختلف خانوں میں بٹ چکی ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی جو مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے ناپاک عزائم میں ملوث ہیں ان کی نظروں سے شاید یہ ارشاد رسالت مآب ﷺ پوشیدہ ہے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں، مفہوم :''جو شخص اس اجتماعیت کو جب تک کہ وہ متحد ہو، پراگندہ کرنا چاہے اسے بہ درجہ آخر تلوار پر رکھ لو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔''
دوسری حدیث طیبہ میں ارشاد کا مفہوم ہے: '' نہیں ہے وہ ہم میں سے جس نے لوگوں کو کسی عصبیت کی طرف بلایا ۔''
دین اسلام سراسر دین رحمت اور دین وحدت ہے۔ شیوۂ رحمت غیروں کو اپنا بنانا اور نظریۂ وحدت عالم انسانی کو ایک مثبت بنیاد فراہم کرنا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے رحمت کے رویے سے اپنوں اور غیروں کو متاثر کیا اور اصول وحدت کے ذریعے سے انسانی دنیا کو اسلامی برادری کا نمونہ عطا کیا، اگر چہ لوگوں میں کالے اور گورے، عربی اور عجمی، بدوی اور شہری اور ایشیائی اور افریقی وغیرہ کے تشخصات موجود رہے لیکن محض شناخت کے لیے، ورنہ ان سب میں ایک جوہری وحدت پیدا کرکے ذہنوں اور دلوں کے فاصلے سمیٹ دیے۔ یہ سب کچھ اس جوہر وحدت کے طفیل ہوا جسے کلمۂ توحید کہا جاتا ہے اور آج اسی اصل و اساس کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔
گویا مقصد سے آگاہی ا س کی صداقت پر یقین اور پھر عمل کے لیے عزم صمیم ہی وہ قوتیں ہیں جو امت مسلمہ کو پھر سے متفق و متحد بنا سکتی ہیں۔ اسی میں ملتِ اسلامیہ کی بقا اور سربلندیٔ دینِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اسوۂ رسول ﷺ کے مطابق اتحاد امت سے سرشار فرمائے۔ آمین