کیا امریکا کی عالمی برتری ختم ہو رہی ہے

کشور محبوبانی کی کتاب Has China Won? کی روشنی میں ایک تجزیہ

کشور محبوبانی کی کتاب Has China Won? کی روشنی میں ایک تجزیہ

افراد اور بعض اوقات قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب قدرت انھیں ایسی کامیابیاں عطا کرتی ہے کہ وہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ وہ کامیابی کی اس اوج ثریا پر ہیں جہاں تک تاریخ میں نہ کوئی پہنچا ہے اور نہ آئندہ کوئی پہنچے گا۔

امریکا کی زندگی میں بھی ماضی قریب میں ایک ایسا موقع آیا جب آج سے کوئی30 برس پہلے اس کا حریف سوویت یونین کمزور پڑ کر ٹکرے ٹکرے ہوگیا ۔ بلا شبہ سرد جنگ کا خاتمہ امریکا کی تاریخ کی بڑی کامیابی تھی لیکن آج ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ در اصل امریکا کی تنزلی کا نقطہ آغاز تھا۔

''کیا چین جیت گیا '' کے مصنف کشور محبوبانی کا تعلق ایک ہندو سندھی گھرانے سے ہے جو تقسیم کے وقت سندھ سے سنگا پور منتقل ہو گیا ۔ کشور نے اپنی تعلیم سنگاپور ہی سے مکمل کی اور وہ طویل عرصے سنگاپور میں ڈپلومیٹ رہے، اس دوران اقوام متحدہ میں سنگاپور کی نمائندگی کی اور مختصر عرصے کے لئے سلامتی کونسل کے سربراہ بھی رہے۔ کشور ہارورڈ اور لی کوان یونیورسٹی میں تدریس بھی کرتے رہے ہیں اور عالمی منظر نامے میں چین کے ابھرنے کے موضوع پر متعدد کتابیں بھی تحریر کیں۔

ان کی حالیہ کتاب Has China Won? سن 2020ء میں شائع ہوئی اور امریکا اور مغربی دنیا میں بحث کا مرکز بنی ہوئی ہے ۔ اس میں ان کا کہنا ہے کہ امریکا سپر پاور کی حیثیت کھو رہا ہے اور اس کی جگہ کمیونسٹ چین لے رہا ہے۔ اس سلسلے میں وہ امریکا اور مغرب کی متعدد غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے اگر امریکا اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے اور ان کا مداوا کرنے کی کوشش کرے تو وہ دنیا میں اپنی حیثیت برقرار رکھ سکتا ہے ۔ وہ خود کو امریکا اور چین دونوں کا دوست کہتے ہیں اور ان کے مابین حالیہ تناؤ کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی کتاب کو اور دلائل کو امریکا میں بہت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے متعدد امریکی تھنک ٹینک اور یونیورسٹیز انھیں اس موضوع پر تبادلہ خیال کے لئے مدعو کر چکی ہیں ۔

زیر نظر کتاب میں کشور کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے بعد پچھلے تیس سال میں امریکا کی50 فیصد آبادی کے معیار زندگی اور آمدنی میں مسلسل کمی آئی ہے اور اسی 30 سال میں چین میں سات سو ملین کی آبادی کوغربت سے نکالا گیا ہے ۔ کمیونسٹ پارٹی کی حکومت نے چینیوں کو غذا تعلیم ، صحت، روزگار اور انفرا سٹرکچر کی صورت میں جو معیارزندگی دیا، وہ چین کی ہزاروں سالہ تاریخ میں کبھی چینیوں کو نصیب نہیں ہوا تھا جبکہ اس عرصے میں امریکا اس معاشی حقیقت کو نظر انداز کرکے چینیوں کو کمیونسٹ نظام سے نکلنے کی تلقین کرتا رہا ہے۔

کشور کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا اپنے جمہوری نظام پر ناز کرتا ہے لیکن اس نے اس بات کو نظر انداز کیا ہے کہ کمیونسٹ چین جمہوریت کے بجائے meritocracy (میرٹ کی بنیاد پر حکمران کا انتخاب) کے اصول پر چلتا ہے جس کی وجہ سے انہیں ذہین اور قابل ترین افراد کی قیادت میسر ہے جو ملک کے مفاد میں بہترین فیصلے کرتی ہے۔ اس نظام کے مطابق کمیونسٹ پارٹی کے قابل ترین کارکنوں کو فیصلہ کرنے والے عہدوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ میرٹ یعنی قابلیت کی یہ قدر جمہوری نظام میں نا ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک اعشاریہ چار بلین آبادی کے ملک کو چلانا اور متحد رکھنا آسان کام نہیں جو چین کی کمیونسٹ پارٹی پچھلے ستر سال سے بخوبی انجام دے رہی ہے۔

ان کا سب سے دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ سی سی پی کو چین کی کمیونسٹ پارٹی کے بجائے چین کی civilizational یعنی چینی تہذیب کی پارٹی سمجھنا چاہیے کیونکہ اس کا ہدف چین کی تاریخی اور قدیم شان و شوکت کا احیاء ہے۔ کشور یہ بھی کہتے ہیں کہ مغرب کا عروج صرف200 سالہ پرانا ہے جبکہ انڈیا اور چین دنیا کی تاریخ میں ہزاروں سال بڑی طاقتیں رہی ہیں۔ ایسے میں یہ قدرتی بات ہے کہ ان قوموں میں دوبارہ عروج اور اپنی تہذیب میں دوبارہ جان ڈالنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ ایسا کہتے ہوئے کشور اسلامی دنیا کی نشاۃ ثانیہ اور اس سے قبل کے سمیری، فارسی، رومی اور یونانی ادوار کو فراموش کر جاتے ہیں۔

کشور کا کہنا ہے کہ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت سے رعونت کا شکار ہوگیا اور طاقت کے نشے میں گرفتار ہو گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانسس فوکو یاما کی' اینڈ آف ہسٹری' نامی کتاب اور اس میں بیان کردہ فلسفہ اس رعونت کا ثبوت ہیں جس کے مطابق سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اور کمیونزم کی ناکامی کے بعد مغرب کی جمہوری اور لبرل اقدار انسان کے نظریاتی ارتقا کی معراج اور نقطہء اختتام ہیں ۔

امریکا کی تاریخ کا دوسرا اہم موڑ وہ نائن الیون کو قرار دیتے ہیں جب امریکا شدید غم و غصے کا شکار ہوگیا اور اس کیفیت میں وہ عالمی معیشت کے ایک اہم واقعہ کو فراموش کرگیا یعنی چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن(ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت جس سے عالمی لیبر منڈی میں 900 ملین تربیت یافتہ کام کرنے والے عالمی معیشت کا حصہ بنے جس سے امریکا اور دنیا بھر کے ورکرز کے لئے مقابلہ بڑھ گیا جبکہ امریکا اپنے ورکر کی مہارت بڑھنے پر توجہ نہیں دے سکا۔

ایک اہم تبدیلی لانے والا فیکٹر چین کی سستی لیبر ہے جس کے لالچ میں امریکی سرمایہ چین اور دیگر ایشیائی مملک منتقل ہوا ۔ پچھلے تیس سالوں کے معاشی زوال ، درمیانے اور کم آمدنی والے طبقات کی فرسٹریشن کے نتیجے میں ٹرمپ کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا جو بجائے خود امریکی ریاست کے لئے ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہوا ۔ اسی معاشی فرسٹریشن کی وجہ سے امریکا بلکہ پورے مغرب میں معاشی مسائل سے نظر ہٹانے کے لئے اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلا ئی جا رہی ہے۔

کشور کا کہنا ہے کہ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ امریکا اور مغرب اب بھی سنبھل سکتا ہے تاہم وہ امریکا کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ minimalist اپروچ اپنائے یعنی دنیا کے معاملات میں اپنی مداخلت کو انتہائی ضرورت تک محدود کر دے۔ اس کی مداخلت سے اس کے خلاف نفرت پیدا ہو رہی ہے خصوصاً مسلم ممالک میں، ان کا دوسرا مشورہ یہ ہے کہ امریکا اپنے ڈیفنس بجٹ کو کم کرے اور اپنے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بجٹ کو بڑھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا کے پاس تیرا ائیر کرافٹ کیرئیر بحری جہاز ہیں جن میں سے ہر ایک کی قیمت کئی سو بلین ڈالر ہے۔ ان کی مینٹی ننس پر روزانہ کئی ملین ڈالرز خرچ ہوتے ہیں۔ وہ ہارورڈ کے ایک پروفیسر ٹم کولٹن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ جنگ کی صورت میں دشمن کا ایک لاکھ ڈالر کا میزائل ایک ایئر کرافٹ کیریر جہاز کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔


تیسرا مشورہ وہ یہ دیتے ہیں کہ مغرب دنیا میں بہتری لانے کی جو ذمہ داری محسوس کرتا ہے اسے اس سے چھٹکارا پانا ہوگا ۔ مغربی ممالک دنیا کی آبادی کا صرف بارہ فیصد ہیں۔ اسے یہ بوجھ اکیلے نہیں اٹھانا چاہئے بلکہ باقی دنیا سے مخاصمت کے ماحول کو ختم کر کے اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہیے۔



کشور کے مطابق چین امریکا تناؤ میں چین کی بھی غلطیاں شامل ہیں جن میں امریکی بزنس مین کو نظرانداز کرنا سرفہرست ہے۔ اس سے قبل جب بھی امریکی حکومت، چین کے خلاف کوئی اقدام کرنا چاہتی تھی امریکی تاجر اس کے راستے کی رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا تھا کہ چین سے مخاصمت اس کے مفادات کے خلاف تھی لیکن پچھلے چند سالوں میں چین نے امریکی بزنس مین پر متعدد تجارتی پابندیاں لگائی ہیں جس کی وجہ سے اب امریکی تاجر چین کا حمایتی نہیں رہا ۔

کشور کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا چین کی کمزوریوں سے واقف ہے لیکن اس کی مثبت صلاحیتوں سے واقف نہیں جبکہ خود اپنی قوتوں کا ادراک رکھتا ہے لیکن اپنی کمزوریوں سے واقف نہیں۔ کشور کا یہ تجزیہ حقیقت پر مبنی محسوس نہیں ہوتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو امریکا اپنے زوال کی پیشن گوئی کرنے والے دانش وروں کی باتوں کو نظر انداز کر دیتا جبکہ خود کشور اور ان سے پہلے امریکا کے زوال کی پیش گوئی کرنے والے متعدد تجزیہ نگاروں جن میں فرید زکریا بھی شامل ہیں کو امریکہ میں بہت پزیرائی ملی۔

کشور پہلے دانشور نہیں جنہوں نے امریکا کے زوال کی بات کی ہو۔ اس سے قبل انڈین نژاد امریکن معروف جریدے ' نیوز ویک' کے ایڈیٹر اور امریکی چینل سی این این کے میزبان فرید زکریا کی 2008ء کی کتاب Post American World ( امریکا کے بعد کی دنیا ) کو بھی سنجیدہ حلقوں میں بہت پزیرائی حاصل ہوئی جس میں انھوں نے پشین گوئی کی تھی کہ امریکا کا دور اب ختم ہو گیا۔ اب مستقبل کی سپر پاور چین اور بھارت ہوںگے۔ یاد رہے کہ یہ کتاب آج سے تیرہ سال قبل لکھی گئی تھی۔

اس کے علاوہ نوبل انعام یافتہ ماہر معیشت جوزف اسٹلگٹز بھی شد و مد سے چین کے عروج اور امریکی معیشت کے زوال کی بات کرتے رہے ہیں۔ اسٹلگٹز بھی سرد جنگ کے خاتمے کو امریکا کے زوال کا آغاز قرار دیتے ہیں۔

وہ روس کے دوبارہ عالمی منظر نامے پر نمودار ہونے کو بھی امریکا کے لئے چیلنج قرار دیتے ہیں جو اپنے معدنیاتی وسائل اور تیل کے ذخائر کے باعث چین سے زیادہ پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے لیکن اس سلسلے کے ایک دلچسپ تجزیہ پر مبنی ایک کتاب The Myth of American Decline کے نام سے 2014ء میں ایک جرمن ماہر سیاسیات جوزف جوفے کی سامنے آئی جس کا کہنا ہے کہ امریکی زوال کی کہانی ایک افسانہ ہے اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ امریکی زوال کی پیشن گوئیاں کی گئی ہوں۔

روس کے اسپٹنک سٹیلائٹ کی لانچ کے بعد1960ء کے عشرے میں یہی باتیں کی گئیں کہ امریکا نمبرون کی حیثیت کھو رہا ہے۔1970ء کے عشرے میں ویت نام کی جنگ کے بعد یہی باتیں کی گئیں کہ امریکا شکست سے دو چار ہے۔1980ء کے عشرے میں جاپان کی امریکا پر سبقت کی باتیں کی گئیں۔ پھر مغربی یورپ اور 2001ء میںگولڈ مین ساش نامی معاشی کنسلٹنٹ گروپ نے پانچ ملکوں کے بلاک BRICS جس میں برازیل، روس ، انڈیا، چین، اور جنوبی افریقہ کہلاتا ہے ، کے بارے میں کہا کہ یہ امریکا کے ساتھ دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معاشی طاقتیں ہیں لیکن اب تک امریکا کی حیثیت دفاعی طاقت، اور جی ڈی پی سمیت بہت سے حوالوں سے نمبر ون ہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکا سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سرد جنگ کے بعد وہ رعونت کا شکار ہوا۔ وائٹ ہاؤس پر جنگی جنون کا شکار اور عسکری میدان میں امریکا کو منوانے کے شوقین neoconservative کا غلبہ ہوا جن کا صیہونی لابی اور اسلاموفوبیا کا شکار کرسچن فنڈامینٹلسٹ لابی کے ساتھ ایک فطری اتحاد تھا اور اس اتحاد نے اسرائیل کی بقا اور کسی ممکنہ مسلم طاقت کو پنپنے کے خطرے کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں تباہی مچائی، افغانستان اور عراق کو تباہ کیا گیا، اپنے عرب اتحادوں کو ساتھ ملا کر شام، یمن، لیبیا میں تباہی مچائی گئی۔

یہ طاقت کے مظاہرے اگرغلطیاں تھیں تو بھی سوچی سمجھی غلطیاں محسوس ہوتی ہیں۔ اس میں اسرائیلی اور نیو کنزرویٹو لابی کی خواہشات، کے ساتھ ساتھ امریکی اسلحہ کی فیکٹریوں سے بے پناہ منافع کے لالچ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن کی کھپت کے لئے جنگیں ضروری ہیں۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ مسلم دنیاکو تباہ کرنے کی اس پر جوش مہم میں امریکا نے چین اور بھارت کی ابھرتی ہوئی طاقت کے خطرات کو بالکل نظر انداز کیا۔

لیکن ان سب کو اگر غلطی مان بھی لیا جائے تو اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آج بھی امریکی جی ڈی پی دنیا میں بلند ترین جی ڈی پی ہے۔ چین بھارت اور سپر پاور کے امیدوار تمام ممالک بڑی تعداد میں اپنے نوجوانوں کو تعلیم اور ریسرچ کے لئے امریکی یونیورسٹیز ہی بھیجتے ہیں۔ صرف چینی طلبہ کی ادا کردہ فیسوں سے ہی امریکی معیشت کوکئی بلین ڈالر سالانہ حاصل ہوتے ہیں۔ کشور اور دوسرے دانش ور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان ممالک کی ترقی میں ان گریجویٹس اور محققین کا بہت کردار ہے جنہیں امریکی یونیورسٹیز میں تعلیم اور تحقیق کا موقع ملا۔

کشور اپنی مغربی تعلیم کو بھی اپنی خوش نصیبی قرار دیتے ہیں اور جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی پرورش کے ساتھ اپنی سندھی ہندو خاندانی شناخت پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ چین کی سر بلندی کے دعوے کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کے دوست ہیں، وہ جو بھی باتیں کر رہے ہیں وہ مغرب کے فائدے کے لئے کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا نے غور و فکر کر کے دنیا کو دلیل کی بنیاد پر تجزیہ کرنا سکھایا۔ اب اسے خود کو زوال سے بچانے کے لئے دنیا میں اپنی حیثیت کے بارے میں حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری عالمی طاقتوں کی حیثیت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔
Load Next Story