یوکرائن تنازعہ پر نیٹو اتحاد روس سے ٹکر لے گا
دنیا میں ایک بار پھر پانیوں میں جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
25 اپریل 2021 ء کی عالمی اطلاعات کے مطابق روس نے یوکرائن کی سرحد پر تقریباً ایک لاکھ فوج جدید اور ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ کھڑی کر دی ہے اور ساتھ ہی بحیرہ اسود یعنی بلیک سی میں اپنا بیڑا اور بڑے بحری جنگی جہاز لا کر مارچ ہی میں مشقیں شروع کر دی تھیں جب یوکرائن کی جانب سے عالمی سطح پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تو پھر سیٹلائٹ اور ڈرون کی مدد سے امریکہ اور برطانیہ نے یہ دیکھا کہ روس نے بغیر اعلان کے یہاں سے بھاری ٹینک میزائل اور دیگر بھاری اسلحہ اور کچھ فوجی واپس روس بلوا لئے کیونکہ اپریل کے آغاز سے روس کی فوجی مشقوں کی اعلان کردہ مدت بھی پوری ہو گئی تھی، مگر پھر یو کرائن نے شور مچایا کہ روسی فوجیں تو اپنے بھاری اور جدید ہتھیاروں کے ساتھ موجود ہیں اور واقعی ایسا ہے۔
روس کے صدر پیو ٹن نے اس موقع پر دوسری جنگ ِ عظم کے دوران بر طانیہ کے وزیر اعظم چرچل کا داؤ استعمال کیا یعنی یہاں مصنوعی ہتھیار ''ڈی کوائڈز'' جو پلاسٹک کے ہوتے ہیں اور اِن میں ھیلیم گیس بھر دی جاتی ہے انہیں فوج کی واپسی کے لیے استعمال کیا اور یوں مصنوعی ہتھیا ر ٹینک ، میزائل بکتربند اور بھاری توپ خانہ سب سیٹلائٹ اور جاسوسی ڈرون سے با لکل اصلی دکھائی دئیے۔
اس صورتحال پر اب برطانیہ اور امریکہ نے یو کرائن کی آزادی وخود مختاری کی حفاظت کے لیے بلیک سی میں اپنے بحری بیڑے اور بڑے جہاز بھیجنے کا اعلان کردیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ مئی 2021 ء میں بحیرہ روم میں داخل ہو کر ترکی کی آبنائے باسفورس سے بحیرہ اسود میں روسی افواج کے مقابل آجائیں گے۔
اس سے قبل میں نے آبنائے ہرمز اور ساؤتھ چائنہ سی کے حوالے سے یہ بتایا تھا کہ دنیا میں پھر پانیوں میں جنگ کے اندیشے بڑھ گئے ہیں،آبنائے ہرمز پر خلیج فارس، خلیج عمان، بحیرہ عرب پر، ایران ، امریکہ اور اس کے ساتھ سلطنتِ عمان، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب الجھتے رہے ہیں مگر کوئی جنگ نہیں ہوئی ساوتھ چائنہ سی میں چین نے تائیوان اور اس سمندر پر تاریخی پس منظر کے لحاظ سے دعویٰ کر دیا ہے اور اس کے لیے طاقت کا مظاہرہ بھی کر رہا ہے ۔
چین نے یہاں اپنے ساحل کے قریب اپنے جزائر اور کچھ مصنوعی جزیرے بنا کر بھاری ہتھیاروں کے ساتھ ایک چیلنج کھڑا کر دیا ۔ اس کے مقابلے میں QUAD یعنی امریکہ، جاپان ، آسٹریلیا اور بھارت چار طاقتی اتحاد مقابلے پر آگیا ہے جو ویتنام ، فلپائن ، تائیوان اور دیگر علاقائی ملکوں کا تعاون بھی حاصل کر رہا ہے ، مگر اب عالمی ماہرین جنگ کے آغاز کے اعتبار سے جنوبی بحیرہ چین کی بجائے بحیرہ اسود کو زیادہ خطرناک قرار دے رہے ہیں ، جہاں 2014 ء میں پہلے ہی روس جنگ کر کے یو کرائن سے کریمیا کا علاقہ چھین چکا ہے ۔ اس پوری صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس علاقے کے تاریخی پس منظر کا جا ئزہ لیں ۔
1917 ء کے اشتراکی انقلاب میں روس کے ساتھ یو کرائن اور بلاروس کا بھی بہت بنیاد ی کردار تھا، اس کی ایک بڑ ی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں ریاستیں سوویت یونین سے قبل زار شاہی سلطنت کی دیگر ریاستوں میں زیادہ اہم یورپی ریاستیں تھیں ، یو کرائن کے عوام نے بھی ماضی قریب میں روس اور بلاروس کی طرح سلطنت ِ زار روس کی کئی جنگوں کے علاوہ جنگ عظیم اوّل اور دوئم میں لاکھوں افراد کی قربانیاں دیں ۔ 1783 ء سے یوکرائن زار شاہی روس سلطنت کا حصہ بنا اور یہ طے پایا تھا کہ یو کرائن کو روس میں رہتے ہوئے آزادی اور خود مختاری حاصل رہے گی مگر ایسا کبھی نہیں ہوا، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس دور میں یوکرائن اور کریمیا کے علاقوں میں خاصی تعمیر و ترقی ہوئی جس کے منہ بولتے ثبوت آج بھی یہاں زار بادشاہوں کے بلند و بالا اور عظیم محلات کی پُر شکوہ عمارتوں سے ملتے ہیں۔
جنگ عظیم اوّل میں روس 1914 ء سے 1917ء کے انقلاب تک شامل رہا جس میں یو کرائن کے تقریباّ 35 لاکھ افراد ہلاک ہوئے ۔ 1917ء سے 1923ء تک روس میں انقلا ب کے حامی اور مخالفین کے درمیان خانہ جنگی جاری رہی ، محتاط اندازوں کے مطابق یو کرائن میں اس خانہ جنگی کے دوران 15 لاکھ افراد ہلا ک ہوئے ، پھر 1930ء کی دہائی میں اسٹالن کی سخت پالیسیوں کے نفاذ اور شدید قحط کی وجہ سے یہاں بھی لاکھوں افراد مارے گئے ۔
جنگِ عظیم دوئم شروع ہوئی تھی تو پہلے اسٹالن نے ہٹلر کے ساتھ مل کر پولینڈ پر حملہ کر کے پولینڈ کو آپس میں تقسیم کر لیا مگر تھوڑے ہی عرصے بعد جرمنی نے روس ہی پر حملہ کر دیا اور روس مغربی اتحاد میں شامل ہو گیا ۔ 22 جون 1941ء کو جرمن فوجوں نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا تو یوکرائن جو سوویت یونین کی ریاست تھی یہاں اس ریاست کے دارالحکو مت Kiev کیف ہی میں Battle of Kiev کیف کی لڑائی میں 600000 یوکرائینی باشندے ہلاک ہوئے اور اس شہر کو بہادری سے مزاحمت کرنے پر ہیرو سٹی کا خطاب دیا گیا ۔ دوسری جنگِ عظیم میں یو کرائن بالکل تباہ ہو گیا تھا، اس کے 700 سے زیادہ شہر او ر قصبات اور 28000 دیہا ت ملیامیٹ ہو چکے تھے ، پھر جنگ کے فوراً بعد انفرا سٹرکچر برباد ہونے کی وجہ سے یہاں خشک سالی اور قحط سے بھی لاکھوں افراد ہلاک ہوئے ۔ 2 مئی 1945ء کو سابق سوویت یونین کی فاتح فوجیں برلن میں داخل ہو گئیں ۔
جنگ عظیم دوئم کے اختتام سے قبل اور جنگ کے فوراً بعد تین بڑوں کی تین اہم ملاقاتیں اور کانفرنسیں ہوئیں، پہلی کانفرنس 28 نومبر سے یکم دسمبر تک تہران میں سوویت یونین کے سفارتخانے میں ہوئی، دوسری اہم کا نفرنس سابق سوویت یونین کی ریاست کریمیا کے مقام یالٹا میں 4 فروری سے11 فروری 1945 ء میں زار بادشاہوں کے مختلف محلات میں منعقد ہوئی تھی۔
اس کی میزبانی سوویت یونین نے کی تھی اس کانفرنس کا کوڈ نیم Argonaut آرگوناوٹ تھا، اس میں بھی سوویت یونین کے جوزف اسٹالن ، بر طانیہ کے ونسٹن چرچل اور امریکہ کے فرینک ڈی روزولٹ نے شرکت کی تھی ۔ یہ کانفرنس جرمنی کے ہتھیار ڈالنے سےتقریباً دو مہینے اٹھائیس دن قبل شروع ہوئی تھی اور اس کا دورانیہ دس دن تھا جس کے دوران کئی سیشن ہوئے۔
یا لٹا کانفرنس میں جنگ کے بعد جرمنی اور یورپ میں امن و امان اور یورپی ملکوں کی آزادی و خودمختاری پر بھی بات چیت ہوئی تھی ۔ تین بڑوں کی تیسری اور آخری کانفرنس جاپان پر امریکہ کی جانب سے ایٹم بم گر ائے جانے اور دوسری جنگ ِعظیم کے خاتمے کے باقاعدہ اعلان سے چند روز قبل جرمنی کے شہر Postadam پوسٹیڈم میں ہوئی تھی اور اسی لیے اس کانفرنس کو پوسٹیڈم کانفرنس کہا جاتا ہے، اس کانفرنس میں امریکی صدر ہنری ٹرومین ، بر طانیہ کے وزیر اعظم چرچل اور کیلیمن ایٹلی اور سوویت یونین کے اسٹالن نے شر کت کی، یہ کانفرنس 17 جو لائی 1945ء سے2 اگست 1945ء تک جاری رہی۔
اس کانفرنس میں ان تین بڑوں کی بیٹھک کے ساتھ ساتھ اِن تینوں ملکوں کے وزرا خارجہ کی بھی سائیڈلائن بات چیت ہوئی اور ان کے ساتھ اس کانفرنس میں اعلیٰ فوجی حکام بھی شامل تھے، جنہوں نے جنگ کے مختلف محاذوں پر فوجوں کی کمانڈ کی تھی۔ یہ تینوں کانفرنسیں متضاد نظریات اور نظام رکھنے والی تین قوتوں کے درمیان ہوئیں۔ برطانیہ اُس وقت دنیا کی سب سے بڑی نوآبادیاتی قوت تھی، امر یکہ سرمایہ دارانہ آزاد معیشت اور مارکیٹ کا عالمی سر براہ تھا اور سوویت یونین پوری دنیا میں اشتراکی نظریات اور نظا م کا محافظ تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران دنیا میں اِن تین متضاد ، زاویوں کی ایک مثلث بن رہی تھی جو جنگ عظیم میں ضرورت کے تحت تشکیل پائی تھی جہاں تک تعلق برطانیہ کا تھا تو یہ حقیقت ہے کہ برطانوی معاشرہ جمہوریت کی بنیاد پر دنیا کا سب سے حقیقت پسند معاشرہ ہے اور اسی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ میں جنگ کے بعد سیاسی نو آبادیاتی نظام کے خلا کو پُر کرنے کے لیئے اقتصادی نوآبادیا تی نظام پہلے ہی سے تیار کر لیا گیا تھا اور سوویت یونین کا اشتراکی نظام اس کی ضد تھا۔
اس لیے برطانیہ اور امریکہ تو کزن کنٹری بن گئے اور اِن کے مقابل سوویت یونین سے مقابلہ براہ راست نہیں کیا گیا بلکہ سرد جنگ کے پورے دورانیے میں براہ راست ٹکراؤ سے گریز کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 4 فروی تا11 فروری 1945ء کی یالٹا کانفرنس اور 17 جولائی سے2 اگست 1945ء میں پوسٹیڈم کانفرنس میں بھی اقوام متحدہ کی تشکیل کے امور بھی زیر بحث آئے۔
24 اکتوبر 1945 ء کو اقوام متحدہ کی تشکیل نے حتمی شکل اختیار کی تو سوویت سوشلسٹ یونین کو تو اقوام متحدہ کی عام رکنیت یعنی جنرل اسمبلی کی رکنیت کے ساتھ سیکو رٹی کونسل میں مستقل رکنیت اور ویٹو پاور دیا گیا تو ساتھ ہی سوویت یونین نے اقوام متحدہ کے بانی 51 ملکوں میں بلاروس اور یوکرائن سوشل ری پبلک کے ناموں سے اقوام متحدہ کی رکنیت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا، اُس وقت سوویت یونین نے اس عمل کو اپنے حق میں یوں بہتر جانا کہ اس طرح سوویت یونین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مزید دو ووٹوں کی حمایت حاصل رہے گی اور ایسا 1990ء تک ہوتا رہا مگر اس کی وجہ سے یوکرائن کی آزادی و خود مختاری عالمی اور قومی دونوں سطحوں پر قانوناً تسلیم شدہ تھی ۔ سوویت یونین کے دساتیر میں یونین میں شامل ہر ریاست کو علیحدگی اور خود مختاری کا حق تھا۔
عالمی سطح پر اقوام متحدہ کا رکن ہونے کی وجہ سے یوکرائن کی آزادی و خود مختاری عالمی سطح پر تسلیم شدہ تھی لیکن یہ ضرور تھا کہ 1783ء سے یوکرائن کریمیا اور بلاروس، پہلے زار شاہی روس میں پھر سوویت یونین میں ایک بہت وسیع ملک کے اہم صوبوں یا ریاستوں کی حیثیت سے شامل رہے اور یوکرائن روسی سرحدی ملاپ سے روس اور یوکرائن میں ثقافتی، تہذیبی اشتراک کے ساتھ آبادی میں روسی ، نسلی ، لسانی اور قومی تناسب سوویت یونین کی باقی ریاستوں کے مقا بلے میں کچھ زیادہ رہا۔ 8 دسمبر1991ء کویوکرائن کے صدر Leonid Kravchak لیونڈکراویچاک اور روسی صدر بورس یلسن نے یوکرائن کی آزادی کی دستاویزات پر دستخط کر کے اس کی آزادی کا اعلان کر دیا۔
اُس وقت خود مختار ملک یوکرائن کا رقبہ 602628 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 41660982 تھی، اس آبادی میں 77.8% یوکرائینی باشندے ہیں جب کہ 17.3% روسی اور 4.9% دیگر قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی لحاظ سے87.3% آبادی عیسائی ہے ۔ شمال اور شمال مشرق میں اس کی سرحدیں روس ، بلاروس سے ملتی ہیں ، جنوب میں بلیک سی اور سی آف ایزوا، اور کریمیا واقع ہیں اور جنوب اور جنوب مغرب میں پولینڈ ، مولدڈوا رومانیہ، ہنگری اور سلواکیہ ہیں ۔ کریمیا کی وجہ سے روس کے یورپی ممالک سے سمندری رابطے ہیں یوں یوکرائن کی اہمیت غیر معمولی ہوجاتی ہے۔ یوکرائن جب 1991ء میں خود مختار ملک کی حیثیت سے سامنے آیا تو اس کو اقوام متحدہ کی رکنیت کی ضرورت نہیں تھی ۔
اس کے اشترکی نظام کے زیر اثر ملکوں میں سے پولینڈ نے 1979-80 میں سب سے پہلے اس نظام سے کنارہ کشی اختیار کی جبکہ 1994 تک سابق ورسا گروپ کے رکن ممالک ہنگری، چیک جمہوریہ کے ساتھ نیٹو میں شامل ہوگیا۔ 2004ء میں بلغاریہ ،اسٹونیا، لتھو نیا، رومانیہ اور سلواکیہ بھی نیٹو میں شامل ہو گئے اور 2009ء میں البانیہ بھی نیٹو میں آگیا۔
اسی طرح ان سابق کیمونسٹ ملکوں میں سے بہت سے یورپی یونین میں بھی شامل ہوئے۔ اس بدلی ہوئی صورت میں خارجہ تعلقات کے اعتبار سے روس کی وہ پوزیشن نہیں رہی جو سابق سوویت یونین کی تھی، یوں یوکر ائن کی آزادی اور خود مختاری کے بعد یوکرائن میں روس نے اپنے اثر ورسوخ کو روسی آبادی کے تناسب اور دو سو سالہ مشترکہ تاریخی، ثقافتی، سماجی، سیاسی اقتصادی قربت کی بنیاد پر بڑھانے کی کوشش کی اور ابتدائی برسوں میں روس کو یہاں کامیابی بھی ہوئی اور روس کے حمایتی صدارتی امیدوار کامیاب ہوئے مگر یہاں جمہوری سیاسی پارٹیوں میں یہ خیالات اور تصورات پختہ ہونے لگے کہ یوکرائن کو بھی روس کے اثر سے مکمل طور پر نکل کر نیٹو اور یورپی یونین میں شامل ہو کر اپنی الگ حیثیت اور شناخت کے ساتھ دوسرے ملکوں سے تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں اور اپنی جغرافیائی اسٹر یٹجک پوزیشن سے فائد ہ اٹھانا چاہیے ۔ یوکرائن کی آزادی کے بعد دس سال تک روس ، یو کرائن کے تعلقات بہت دوستانہ رہے ۔1991 ء کے بعد یوکرائن نے بلیک سی پر Sevastopol سیواسٹوپول کی بندرگاہ روس کو لیز پر دیدی اور دونوں کا قبضہ اس پر رہا، البتہ 1993 ء میں روس اور یوکرائن میں روسی گیس کی سپلائی اور خریداری وغیرہ پر اختلافات سامنے آنے لگے۔
2001ء میں یوکرائن نے جارجیا آذربائیجان مولڈاوا کے ساتھ مل کر آر گنائزیشن فارڈیموکریسی اینڈ اکنامک ڈیویلپمنٹ تشکیل دی تو روس نے اسے روسی کامن ویلتھ آف انڈیپنڈنٹ کنٹریز کے خلاف تصور کیا۔ 2004 ء میں یوکرائن میں صدارتی انتخابات ہونے والے تھے تو یوکرائن کے سیاستدان Viktor Yushchenko ویکٹر یوشچنکو الیکشن جیت گئے جب کہ پیوٹن Viktor Yanukovick ویکٹر یانوکوویچ کی حمایت کر رہے تھے اور انتخابات سے قبل دو مر تبہ اپنی سپورٹ کا برملا اظہار کرتے ہوئے یوکرائن بھی آئے تھے، وہ انتخابات ہار گئے۔
اس کے بعد یو کرائن نیٹو سے کہیں زیادہ تعاون کرنے لگا اور 2004ء میں یو کرائن نے عراق میں تیسری بڑی فوج کے طور پر اپنے دستے بھیجے پھر ISAF جو نیٹو کی سرپرستی میں افغانستان کام کر رہی تھی اس کے تحت افغانستان اور کوسووو میں بھی اپنے فوجی دستے بھیجے۔ 2010 ء تک یوں لگ رہا تھا کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہو جائے گا لیکن 2010 ء کے صدارتی انتخابات میں روس کے حامیViktor Yanukoich ویکٹر یانوکوویچ صدر منتخب ہو گئے مگر حکومت میں شامل دیگر عہدیداروں میں سے کچھ روس کو بہت زیادہ مراعات دینے کے قائل نہیں تھے کیونکہ بلیک سی پر روسی نیول بیس Sevatopol سیواٹوپول کی تجدید میں روسی خواہشات پر پوری طرح عملدر آمد نہیں ہوا، البتہ روس مخالف اپوزیشن لیڈر یوشچنکو کو قیدکر دیا گیا اور نومبر 2013 ء میں صدر ویکٹر یانوکو ویچ نے یورپی یونین کے ساتھ شمولیت کے معاہد ے پر دستخط کر نے سے انکار کردیا ۔
یہ معاہدہ برسوں کی متواتر کوششوں سے تیار کیا گیا تھا ۔ یوں یورپی یونین سے قریبی تعلقات کی بجائے روس سے زیادہ قریبی تعلقات کو ترجیح دی گئی ، اس پر اپوزیشن نے صدر یانوکوویچ کے خلاف شدید احتجاج کیا، ویکٹر یانوکوویچ جو روس کے حامی ہیں اور یوکرائن کی سیاست میں مئی 1997 ء سے متحرک سیاسی لیڈر رہے ہیں۔ 2014ء کے انقلاب کے بعد وہ یوکرائن کے صدر نہیں رہے اور پھر جلا وطن ہو کر روس آگئے اور اب یہاں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
یوکرائن کے نقشے کو دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہاں کریمیا کا ساحلی علاقہ اور پورٹ بلیک سی اور سی آف ایزوا روس کے لیے اسٹر ٹیجک بنیاد پر دفاع اور بیرونی تجارت کے اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں ۔ اب روس کے لیے یوکرائن کے حوالے حتمی اقدام کا وقت تھا۔ Sergey Yurivich Glazyev سیرجیے یوریویچ گلازیوف جو عالمی شہرت کے روسی سیاستدان اور ماہر اقتصادیات ہیں یہ سوویت لیڈر پیوٹن کے مشیر ِ خصوصی ہیں اور روسی اقتصادی، معاشی بنیادوں پر تشکیل دئیے گئے کئی اداروں اور روسی تھنک ٹینک کا اہم حصہ ہیں۔
2010ء سے پیوٹن کے یوکرائن سے متعلق فیصلوں میں اُن کی مشاورت بہت اہمیت کی حامل رہی ہے۔ 2013-14 ء میں یوکرائن کے علاقوں خصوصاً جزیرہ نما کریمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں روسی باشندوں اور روس نواز افراد نے روس کے حق میں احتجاج اور جدوجہد شروع کی ۔ 16 مارچ 2014 ء کو ریفرنڈم کے ذریعے کریمیا کی حیثیت تبدیل ہو گئی ، یہاں کی قانون ساز اسمبلی اور Sevastopol سیواسٹوپول کریمیا کی لوکل گورنمنٹ نے ووٹ کی بنیاد پر رروس میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔
یہ روس کی اسٹرٹیجی تھی یہاں پر چونکہ روسی فوج بھی موجود تھی اور یہاں کے مقامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد روس کی حامی تھی اس لیے ہنگاموں اور احتجاج کا سلسلہ 2013 ء سے زور پکڑ گیا تھا اور 20 فروری 2014 ء کو یوکرائن اور روس میں جنگ بھی ہوئی ۔ یہ جنگ بلیک سی اور سی آف ازوف جزیرہ نما کریمیا کے علاقے میں ہوئی تھی مگر اس جنگ کو اب تک جاری جنگ کہا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اکثریت یوکرائن کے حق میں ہے۔
جنگ کی شدت 2014 ء میں رہی، جنگ میں 4431 یوکرائنی اور 5600 روسی فوجی ہلا ک ہوئے تھے ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 68/262 کے مطابق یوکرائن کی خود مختاری سے متعلق جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس میں ووٹننگ ہوئی ۔ 100 ملکوں نے یوکرائن کے حق میں ووٹ دیئے کہا گیا کہ یوکرائن کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کا احترام کیا جائے ۔ 11 ووٹ اس قرارداد کی مخالفت میں گئے ۔
58 ممالک کے نمائندے غیر حاضر تھے اور 24 ممالک کے نمائندے اُس وقت ایوان سے باہر چلے گئے جب ووٹننگ شروع ہوئی مگر چونکہ روس اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور ہے اس لیے جنرل اسمبلی کی اکثریت بے معنی ہو گئی، کریمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں کی روس میں شمولیت کو قبضہ قرار دیتے ہوئے امریکہ اور یورپی یونین نے روس کے خلاف عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں جس کے جواب میں روس نے بھی اِن ملکوں کے خلاف پابندیاںعائد کیں لیکن روس کو اِن عالمی پابندیوں کی وجہ سے کچھ مشکلات پیش آئیں ۔ نیٹو اور امریکہ کریمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں پر روسی قبضے کی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہاں سے روس کی واپسی اب ممکن نہیں اور یوکرائن کی بنیاد پر امریکہ نیٹو اور یورپی یونین نے جو مشکل صورت روس کے خلاف 2000ء سے2013 ء تک قائم کرد ی تھی 2014ء کی یوکرائن روس جنگ کے بعد روس نے اسٹرٹیجک بنیادوں پر اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔
فروری 2014 ء سے روس کے حامی اور یوکرائن حکومت کے مخالف گروپوں نے یوکرائن کے مشرقی اور جنوبی شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے ۔ یوکرائن روس جنگ کی وجہ سے کریمیا اور Donbass کے علاقوں پر قبضہ ہوا ۔ مارچ 2014 ء میں روسی فوجوں نے یوکرائن کے کریمیا پر بھی قبضہ کر لیا اور جب یہاں کریمیا کے روس سے الحاق کے لیے ریفرنڈم ہوا تو ٹرن آوٹ95.5 فیصد تھا اور 85% نے روس سے کریمیا کے الحاق کے حق میں ووٹ دئیے۔
یو کرائن کے مطابق روسی قبضے میں یو کرائن کے سابق کنٹرول کے جزیرہ نما کریمیا کے حصے Donetsk اورLluhansk ہیں جن کا رقبہ یوکرائن کے کل رقبے کا 7% ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ روس کو یوکرائن کی بنیاد پر امریکہ یورپی یونین اور نیٹو سے جو مسائل اور خدشات تھے اُن کا کافی حد تک حل روس نے 2014ء میں نکال لیا ہے پھر جب 1991 ء میں سابق سوویت یونین کا جو حال روس سمیت اُس کی با قی ریاستوں کا تھا اور ساتھ ہی وارسا گروپ کے دوسرے کیمونسٹ ملکوں کا تھا وہ سب کو یاد ہے۔
پھر روس نے بہت محنت سے نہ صرف اپنی کرنسی کی قدر کو بڑھایا بلکہ خود کو ترقی یافتہ ممالک کی فہر ست میں شامل کرتے ہوئے سائنس و ٹیکنالو جی سمیت عوام کے معیار زندگی کو بھی بلند کیا اور اب صورت یہ ہے کہ وہ دنیا جو 1990-91ء سے پہلے دو طاقتی توازن کے ساتھ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد سے سرد جنگ کے خاتمے1990 ء تک چل رہی تھی اس کے بعد کے دس سال یعنی 2000ء تک عدم توازن کا شکار ہو گئی تھی اور اس عرصے میں امریکہ ہی دنیا کی واحد سپر پاور تسلیم کی جا رہی تھی پھر اس کے بعد نائن الیون کے واقعہ یا سانحہ کے بعد امریکہ کو جو اختیارات اقوام متحدہ کی جانب سےبلکہ اس کی سکیورٹی کونسل نے دیئے جس میں روس اور چین بھی شامل تھے تو امریکہ کو متفقہ طور پر پوری دنیا میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کا اجازت نامہ بلکہ کلنگ لائنسس مل گیا تھا اور امریکہ اور نیٹو نے اس کا استعمال بھی زبردست انداز سے کیا۔
اس دوران روس نے خود کو سنبھالا اور 2014 ء وہ موڑ ہے جہاں سے روس نے دوبارہ دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ نہ صرف اب بھی اسلحہ سازی، خلائی ٹیکنالوجی میں دنیا میں امریکہ کے مقابلے پر ہے بلکہ وہ اب دوبارہ خود کو امریکہ کے متوازن سپر پاور ثابت کر نے میں بھی کامیاب رہا ہے۔
پھر اسی دوران چین ایک تیسری قوت بن کر ابھرا۔ اگرچہ سائنس وٹیکنالوجی میں چین ابھی امریکہ اور روس کے بعد تیسر ے نمبر پر ہے مگر جہاں تک تعلق اقتصادی ، معاشی اور صنعتی ترقی کا ہے تو 1990 سے آج 2021 ء تک 31 برسوں میں چین نے یورپی یونین ، جاپان ، کینیڈا، آسٹریلیا، بر طانیہ اور امریکہ کو فکر میں مبتلا کر دیا ہے اور اب چین بھی سائوتھ چائینہ سی میں چار قوتی اتحادQUAD کے سامنے ہے تو 10 اپریل2021 ء میں چینی حکومت نے دنیا میں پہلی مرتبہ سرکار ی طور پر ین ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
جس کی ضمانت چین کا سنٹرل بنک دے رہا ہے اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ تھوڑے عرصے میں چین بین الاقوامی تجارت کے لین دین میں ڈیجیٹل کرنسی ین کو استعمال کر کے عالمی منڈیوں میں ڈالر کی حکمرانی کو بھی چیلنج کر دے گا واضح رہے کہ چین ہی نے دنیا میں کاغذ کی ایجاد کے بعد 7 ویں صدی میں کاغذی کرنسی یعنی بنک کرنسی نوٹ جاری کئے تھے اور عظیم سیاح مارکو پولو نے13 ویں صدی میں اس کے بارے میں یورپ کو بتایا تھا اور پھر باقاعدہ قانونی طور پر نپولین نے1804 ء کے فوراً بعد کرنسی نوٹ فرانس میں جاری کئے تھے۔ اب چین ایک بار پھر ڈیجیٹل ین کرنسی کی بنیاد پر دنیا میں سرکاری سطح پر پہل کر چکا ہے۔
چین اور روس کے لیے ویکسین ڈپلومیسی کی اصطلاح بھی استعمال کی جا رہی ہے۔ چین نے25 کروڑ ویکسین تیار کی اور اِس میں سے کروڑوں کی ویکسین خصوصاً ترقی پزیر ملکوں کو دی گئی، اس طرح کروڑوں ویکسین روس نے بھی کچھ ملکوں کو دی ہے جس سے ان ملکوں اور اِن کے عوام میں چین اور روس کے لیے ہمدردیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ 1984 ء سے اگرچہ عالمی سیاسی مفکروں نے یہ نظریہ دیا تھا کہ دنیا میں اب امریکہ، روس، چین طاقت کی مثلث کے تین زاویے یا خطوط ہوں گے۔
1980 ء کی دہائی میں چین افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف امریکہ کے ساتھ تھا ، اب چین امریکہ کے خلاف روس کے ساتھ نظر آرہا ہے اور جب چین سپر پاور بن گیا تو ممکن ہے کہ مستقبل میں پھر روس اور امریکہ چین کے خلاف متحد ہو جائیں۔
اب عالمی سطح کے ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بظاہر سائوتھ چائنیہ سی میں چین روس کے بغیر QUAD کے سامنے کھڑا ہے اور اسی طرح بحیرہ اسود،،بلیک سی میں یوکرائن امریکہ اور برطانیہ کے مقابلے میں ، وہاں چین روس کے ساتھ نہیں ہے مگر یوں لگتا ہے کہ چین اور روس کی آپس میں کسی اسٹر یٹجی پر اتفاق ہے جس کے اسرا ر و رموز سے امریکہ ، برطانیہ اور نیٹو وغیرہ واقف نہیں ہیں۔
یہاں بات کو سمجھنے کے لیے ایک شکاری کا سچا واقعہ بیان کرتے ہیں،جو کچھ یوں ہے کہ ایک شکاری اپنے شکاری کتے کے ساتھ شکار کرنے جنگل میں گیا تو اچانک کتے کے سامنے سے ایک لومڑی بھاگی، کتا اُس کے پیچھے بھاگا تو لومڑی نے ایک لمبا چکر لگایا اور پھر ایک گرے ہوئے درخت کے کھوکھلے تنے کے تنگ سوراخ سے گزر کر دوسری طرف سے نکل کر پھر بھاگی اور ا ب اُس نے ایسا کرنا شروع کیا تو آدھا گھنٹہ متواتر بھاگنے کی وجہ سے کتا تھک کر گر گیا مگر لومٹری اس کے بعد آرام سے درخت کے کھوکھلے تنے میں گھس گئی۔
شکاری کو حیرت ہوئی ، اُس نے گھاس پھوس جمع کرکے تنے کے سوراخ میں آگ لگائی تو دوسری طرف سے دولومڑیاں نکل کر بھاگیں ، امریکہ میں جب سے جو بائڈن بطور صدر 20 جنوری 2021 ء کو وائٹ ہائوس میں آئے تو اُن کو احساس ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں امریکہ کے معاشرے کی متنوع بُنت کو اُدھیڑ چکی ہیں جس کی رفوگری کے لیے وہ ایک کھرب تین سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی پلان رکھتے ہیں جس سے 2030 ء تک امریکہ میںکئی ملین افراد کو روزگار فراہم کیا جائے۔ابھی چند دن پہلے امریکہ میں اسٹریٹجک کمانڈ کے ایڈم چارلس رسیچرئو نے انکشاف کیا ہے کہ روس اپنے 80% ایٹمی ہتھیار جدید سے جدید تر کر چکا ہے اور امریکہ اُس کے مقابلے میں ابھی تک صفر پر کھڑا ہے اور روس کے برابر آنے کے لیے امریکہ کو فوری طور پر 1.2 کھرب ڈالر خرچ کرنے ہو نگے۔ اب امریکہ کو اتنی بڑی رقم بھی خرچ کرنا ہے اور چین سے اقتصادی مقا بلہ بھی کر نا ہے؟ ۔
اب پھر یوکرائن کی جانب آتے ہیں ۔ اب یہا ں مسئلہ یہ ہے کہ2014 ء سے یوکرائن نے کریمیا آنے والے دریائے ڈینائیرکا پانی بند کر دیا اور جب کریمیا نے یہ پا نی خریدنا چاہا تو بھی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح یوکرائن کے مشرق میں دو کنس، لوہائس اور دونباس روسی آبادی کی اکثریت کے علاقے ہیں جہاں کے روسی نسل سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند کہلاتے ہیں اور مسلح جد وجہد میں مصروف ہیں۔ وہاں سرحد پر روس نے تقر یباً سوا لاکھ فوج جدید ہتھیاروں کے ساتھ کھڑی کر دی ہے۔
اب روس یہاں جنگی مشقیں کر رہا ہے اور چین ساوتھ چائینہ سی میں جنگی مشقیں کر رہا ہے ابھی تک دونوں نے جنگ کرنے کا اشارہ نہیں دیا ہے مگر یوکرائن کے صدر Volodymys Zelensky ولوڈیمیز زیلیسکی نے نیٹو اور یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ یوکرائن کو یورپی یونین اور نیٹو میں شامل کریں کیونکہ یورپی یونین اور نیٹو میں شامل ممالک کا آپس میں یہ معاہدہ ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو سب پر حملہ تصور کیا جائے گا مگر ابھی تک امریکہ، برطانیہ سمیت سبھی خاموش ہیں کیو نکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ روس کریمیا کا پا نی بھی حاصل کرے گا اور یوکرائن کے وہ مشرقی علاقے جہا ں روسی آباد ہیں وہ بھی یوکرائن سے لینے کا ارادہ رکھتا ہے، اگر اِس وقت یوکرائن کو نیٹو یا یورپی یونین میں شامل کیا جاتا ہے تو پھر جنگ کے اندیشے بہت بڑھ سکتے ہیں۔
ترکی یوکرئن کے قریب واقع ہے اور نیٹو کا ایک اہم رکن ہے ، ترکی کے شمال میں اس کا طویل ساحل بلیک سی پر ہے اور جنوب میں طویل ساحل بحیرہ روم پر ہے اور مغرب میں بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کو آبنائے باسفورس ملاتی ہے ۔ یوں ترکی کی یہاں اسٹریٹجک پوزیشن بہت اہم ہے امریکہ اور برطانیہ کے بحری بیڑے اور جہاز سب اسی آبنائے باسفورس سے گزریں گے ، 10 اپریل2021 ء کو استنبول میں ٹرکش ہائی لیول اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل کا نواں اجلاس منعقد ہوا تھاجس میں یوکرائن کے صدر ولوڈیمیر زیلیسکی اور ترکی کے صدر طیب اردگان نے ملاقات کی ۔
اس ملاقات میں بنیادی نقطہ روس یوکرائن جنگ ہی تھا۔ اگر چہ ترکی اس وقت نیٹو کا رکن ہے کچھ معاہدوں کے تحت یوکرائن کے ساتھ ہے مگر مکمل جنگ کی صورت میں وہ پہلے احتیاط سے امریکہ ، بر طانیہ اور نیٹو کے باقی ملکوں کا ردعمل دیکھے گا ، اِس وقت روسی صدر پیوٹن امریکہ اور برطانیہ پر واضح کر چکے ہیں کہ روس نے سرخ لائن کھینچ دی ہے یعنی ایک حد مقرر کر دی ہے اگر اس کو پار کیا گیا تو پھر خطرناک جنگ ہو سکتی ہے ۔
امریکی صدر جو بائڈن نے اقتدا ر میں آتے ہی روس کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا اور پھر اِن تحقیقات کی بنیاد پر صدر پیوٹن کو قاتل کہا اور الزاما ت عائد کئے کہ روس نے امریکی انتخابات میں مداخلت کی ، افغانستان میں امریکیوں کے خلاف درپرہ طالبان اور دیگر مسلح گروپوں کی مدد کی ، امریکہ پر سائبر اٹیک کیا اور روسی اپوزیشن لیڈر ایلسکی والمنی کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی اور اب اُن کوقید کرنے کے الزمات لگائے ہیں کہ روس کے یہ اقدامات جمہوریت، انسانی اور بنیادی حقوق کے خلاف ہیں ، جو بائڈن اور اُن کی حکومت اب چین کے بھی خلاف ہو چکی ہے۔
چین اور روس کی اسٹریٹجی اور واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحاد یوں کو چین اور روس ایک جانب اقتصادی محاذ پراور دوسری جانب دفاعی محاذ پر مصروف رکھتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں میں جنم لینے والے معاشرتی، سماجی ، سیاسی ، اقتصادی بحرانوں میں اضافے کے ساتھ ایک نئی طرز کی سرد جنگ شروع کر چکے ہیں ۔ امریکی برطانوی تھنک ٹینک اس وقت اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے روس اور چین کوکسی تیسرے حریف کو سامنے لا کر جنگ میں گھسیٹ سکتے ہیں۔
روس کے لیے یوکرائن اور ترکی کو اور چین کے لیے بھارت کو قر بانی کا بکرا بنا سکتے ہیں مگر جہاں تک تعلق ترکی کا ہے وہ کبھی بھی نیٹو کے باقی ارکان کے بغیر روس کے خلاف جنگ نہیں کرے گا ، مگر بھارت کے مودی سے اس حماقت کی توقع کی جا سکتی ہے، جس کے لیے امریکہ کی کوشش ہے کہ پہلے بھارت ، پاکستان تعلقات کو بہتر کیا جائے تاکہ بھارت ایک وقت میں صرٖف ایک محاذِ جنگ پر پوری توجہ سے چین کا مقابلہ کرے ۔
روس کے صدر پیو ٹن نے اس موقع پر دوسری جنگ ِ عظم کے دوران بر طانیہ کے وزیر اعظم چرچل کا داؤ استعمال کیا یعنی یہاں مصنوعی ہتھیار ''ڈی کوائڈز'' جو پلاسٹک کے ہوتے ہیں اور اِن میں ھیلیم گیس بھر دی جاتی ہے انہیں فوج کی واپسی کے لیے استعمال کیا اور یوں مصنوعی ہتھیا ر ٹینک ، میزائل بکتربند اور بھاری توپ خانہ سب سیٹلائٹ اور جاسوسی ڈرون سے با لکل اصلی دکھائی دئیے۔
اس صورتحال پر اب برطانیہ اور امریکہ نے یو کرائن کی آزادی وخود مختاری کی حفاظت کے لیے بلیک سی میں اپنے بحری بیڑے اور بڑے جہاز بھیجنے کا اعلان کردیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ مئی 2021 ء میں بحیرہ روم میں داخل ہو کر ترکی کی آبنائے باسفورس سے بحیرہ اسود میں روسی افواج کے مقابل آجائیں گے۔
اس سے قبل میں نے آبنائے ہرمز اور ساؤتھ چائنہ سی کے حوالے سے یہ بتایا تھا کہ دنیا میں پھر پانیوں میں جنگ کے اندیشے بڑھ گئے ہیں،آبنائے ہرمز پر خلیج فارس، خلیج عمان، بحیرہ عرب پر، ایران ، امریکہ اور اس کے ساتھ سلطنتِ عمان، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب الجھتے رہے ہیں مگر کوئی جنگ نہیں ہوئی ساوتھ چائنہ سی میں چین نے تائیوان اور اس سمندر پر تاریخی پس منظر کے لحاظ سے دعویٰ کر دیا ہے اور اس کے لیے طاقت کا مظاہرہ بھی کر رہا ہے ۔
چین نے یہاں اپنے ساحل کے قریب اپنے جزائر اور کچھ مصنوعی جزیرے بنا کر بھاری ہتھیاروں کے ساتھ ایک چیلنج کھڑا کر دیا ۔ اس کے مقابلے میں QUAD یعنی امریکہ، جاپان ، آسٹریلیا اور بھارت چار طاقتی اتحاد مقابلے پر آگیا ہے جو ویتنام ، فلپائن ، تائیوان اور دیگر علاقائی ملکوں کا تعاون بھی حاصل کر رہا ہے ، مگر اب عالمی ماہرین جنگ کے آغاز کے اعتبار سے جنوبی بحیرہ چین کی بجائے بحیرہ اسود کو زیادہ خطرناک قرار دے رہے ہیں ، جہاں 2014 ء میں پہلے ہی روس جنگ کر کے یو کرائن سے کریمیا کا علاقہ چھین چکا ہے ۔ اس پوری صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس علاقے کے تاریخی پس منظر کا جا ئزہ لیں ۔
1917 ء کے اشتراکی انقلاب میں روس کے ساتھ یو کرائن اور بلاروس کا بھی بہت بنیاد ی کردار تھا، اس کی ایک بڑ ی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں ریاستیں سوویت یونین سے قبل زار شاہی سلطنت کی دیگر ریاستوں میں زیادہ اہم یورپی ریاستیں تھیں ، یو کرائن کے عوام نے بھی ماضی قریب میں روس اور بلاروس کی طرح سلطنت ِ زار روس کی کئی جنگوں کے علاوہ جنگ عظیم اوّل اور دوئم میں لاکھوں افراد کی قربانیاں دیں ۔ 1783 ء سے یوکرائن زار شاہی روس سلطنت کا حصہ بنا اور یہ طے پایا تھا کہ یو کرائن کو روس میں رہتے ہوئے آزادی اور خود مختاری حاصل رہے گی مگر ایسا کبھی نہیں ہوا، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس دور میں یوکرائن اور کریمیا کے علاقوں میں خاصی تعمیر و ترقی ہوئی جس کے منہ بولتے ثبوت آج بھی یہاں زار بادشاہوں کے بلند و بالا اور عظیم محلات کی پُر شکوہ عمارتوں سے ملتے ہیں۔
جنگ عظیم اوّل میں روس 1914 ء سے 1917ء کے انقلاب تک شامل رہا جس میں یو کرائن کے تقریباّ 35 لاکھ افراد ہلاک ہوئے ۔ 1917ء سے 1923ء تک روس میں انقلا ب کے حامی اور مخالفین کے درمیان خانہ جنگی جاری رہی ، محتاط اندازوں کے مطابق یو کرائن میں اس خانہ جنگی کے دوران 15 لاکھ افراد ہلا ک ہوئے ، پھر 1930ء کی دہائی میں اسٹالن کی سخت پالیسیوں کے نفاذ اور شدید قحط کی وجہ سے یہاں بھی لاکھوں افراد مارے گئے ۔
جنگِ عظیم دوئم شروع ہوئی تھی تو پہلے اسٹالن نے ہٹلر کے ساتھ مل کر پولینڈ پر حملہ کر کے پولینڈ کو آپس میں تقسیم کر لیا مگر تھوڑے ہی عرصے بعد جرمنی نے روس ہی پر حملہ کر دیا اور روس مغربی اتحاد میں شامل ہو گیا ۔ 22 جون 1941ء کو جرمن فوجوں نے سوویت یونین پر حملہ کر دیا تو یوکرائن جو سوویت یونین کی ریاست تھی یہاں اس ریاست کے دارالحکو مت Kiev کیف ہی میں Battle of Kiev کیف کی لڑائی میں 600000 یوکرائینی باشندے ہلاک ہوئے اور اس شہر کو بہادری سے مزاحمت کرنے پر ہیرو سٹی کا خطاب دیا گیا ۔ دوسری جنگِ عظیم میں یو کرائن بالکل تباہ ہو گیا تھا، اس کے 700 سے زیادہ شہر او ر قصبات اور 28000 دیہا ت ملیامیٹ ہو چکے تھے ، پھر جنگ کے فوراً بعد انفرا سٹرکچر برباد ہونے کی وجہ سے یہاں خشک سالی اور قحط سے بھی لاکھوں افراد ہلاک ہوئے ۔ 2 مئی 1945ء کو سابق سوویت یونین کی فاتح فوجیں برلن میں داخل ہو گئیں ۔
جنگ عظیم دوئم کے اختتام سے قبل اور جنگ کے فوراً بعد تین بڑوں کی تین اہم ملاقاتیں اور کانفرنسیں ہوئیں، پہلی کانفرنس 28 نومبر سے یکم دسمبر تک تہران میں سوویت یونین کے سفارتخانے میں ہوئی، دوسری اہم کا نفرنس سابق سوویت یونین کی ریاست کریمیا کے مقام یالٹا میں 4 فروری سے11 فروری 1945 ء میں زار بادشاہوں کے مختلف محلات میں منعقد ہوئی تھی۔
اس کی میزبانی سوویت یونین نے کی تھی اس کانفرنس کا کوڈ نیم Argonaut آرگوناوٹ تھا، اس میں بھی سوویت یونین کے جوزف اسٹالن ، بر طانیہ کے ونسٹن چرچل اور امریکہ کے فرینک ڈی روزولٹ نے شرکت کی تھی ۔ یہ کانفرنس جرمنی کے ہتھیار ڈالنے سےتقریباً دو مہینے اٹھائیس دن قبل شروع ہوئی تھی اور اس کا دورانیہ دس دن تھا جس کے دوران کئی سیشن ہوئے۔
یا لٹا کانفرنس میں جنگ کے بعد جرمنی اور یورپ میں امن و امان اور یورپی ملکوں کی آزادی و خودمختاری پر بھی بات چیت ہوئی تھی ۔ تین بڑوں کی تیسری اور آخری کانفرنس جاپان پر امریکہ کی جانب سے ایٹم بم گر ائے جانے اور دوسری جنگ ِعظیم کے خاتمے کے باقاعدہ اعلان سے چند روز قبل جرمنی کے شہر Postadam پوسٹیڈم میں ہوئی تھی اور اسی لیے اس کانفرنس کو پوسٹیڈم کانفرنس کہا جاتا ہے، اس کانفرنس میں امریکی صدر ہنری ٹرومین ، بر طانیہ کے وزیر اعظم چرچل اور کیلیمن ایٹلی اور سوویت یونین کے اسٹالن نے شر کت کی، یہ کانفرنس 17 جو لائی 1945ء سے2 اگست 1945ء تک جاری رہی۔
اس کانفرنس میں ان تین بڑوں کی بیٹھک کے ساتھ ساتھ اِن تینوں ملکوں کے وزرا خارجہ کی بھی سائیڈلائن بات چیت ہوئی اور ان کے ساتھ اس کانفرنس میں اعلیٰ فوجی حکام بھی شامل تھے، جنہوں نے جنگ کے مختلف محاذوں پر فوجوں کی کمانڈ کی تھی۔ یہ تینوں کانفرنسیں متضاد نظریات اور نظام رکھنے والی تین قوتوں کے درمیان ہوئیں۔ برطانیہ اُس وقت دنیا کی سب سے بڑی نوآبادیاتی قوت تھی، امر یکہ سرمایہ دارانہ آزاد معیشت اور مارکیٹ کا عالمی سر براہ تھا اور سوویت یونین پوری دنیا میں اشتراکی نظریات اور نظا م کا محافظ تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران دنیا میں اِن تین متضاد ، زاویوں کی ایک مثلث بن رہی تھی جو جنگ عظیم میں ضرورت کے تحت تشکیل پائی تھی جہاں تک تعلق برطانیہ کا تھا تو یہ حقیقت ہے کہ برطانوی معاشرہ جمہوریت کی بنیاد پر دنیا کا سب سے حقیقت پسند معاشرہ ہے اور اسی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ میں جنگ کے بعد سیاسی نو آبادیاتی نظام کے خلا کو پُر کرنے کے لیئے اقتصادی نوآبادیا تی نظام پہلے ہی سے تیار کر لیا گیا تھا اور سوویت یونین کا اشتراکی نظام اس کی ضد تھا۔
اس لیے برطانیہ اور امریکہ تو کزن کنٹری بن گئے اور اِن کے مقابل سوویت یونین سے مقابلہ براہ راست نہیں کیا گیا بلکہ سرد جنگ کے پورے دورانیے میں براہ راست ٹکراؤ سے گریز کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 4 فروی تا11 فروری 1945ء کی یالٹا کانفرنس اور 17 جولائی سے2 اگست 1945ء میں پوسٹیڈم کانفرنس میں بھی اقوام متحدہ کی تشکیل کے امور بھی زیر بحث آئے۔
24 اکتوبر 1945 ء کو اقوام متحدہ کی تشکیل نے حتمی شکل اختیار کی تو سوویت سوشلسٹ یونین کو تو اقوام متحدہ کی عام رکنیت یعنی جنرل اسمبلی کی رکنیت کے ساتھ سیکو رٹی کونسل میں مستقل رکنیت اور ویٹو پاور دیا گیا تو ساتھ ہی سوویت یونین نے اقوام متحدہ کے بانی 51 ملکوں میں بلاروس اور یوکرائن سوشل ری پبلک کے ناموں سے اقوام متحدہ کی رکنیت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا، اُس وقت سوویت یونین نے اس عمل کو اپنے حق میں یوں بہتر جانا کہ اس طرح سوویت یونین کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مزید دو ووٹوں کی حمایت حاصل رہے گی اور ایسا 1990ء تک ہوتا رہا مگر اس کی وجہ سے یوکرائن کی آزادی و خود مختاری عالمی اور قومی دونوں سطحوں پر قانوناً تسلیم شدہ تھی ۔ سوویت یونین کے دساتیر میں یونین میں شامل ہر ریاست کو علیحدگی اور خود مختاری کا حق تھا۔
عالمی سطح پر اقوام متحدہ کا رکن ہونے کی وجہ سے یوکرائن کی آزادی و خود مختاری عالمی سطح پر تسلیم شدہ تھی لیکن یہ ضرور تھا کہ 1783ء سے یوکرائن کریمیا اور بلاروس، پہلے زار شاہی روس میں پھر سوویت یونین میں ایک بہت وسیع ملک کے اہم صوبوں یا ریاستوں کی حیثیت سے شامل رہے اور یوکرائن روسی سرحدی ملاپ سے روس اور یوکرائن میں ثقافتی، تہذیبی اشتراک کے ساتھ آبادی میں روسی ، نسلی ، لسانی اور قومی تناسب سوویت یونین کی باقی ریاستوں کے مقا بلے میں کچھ زیادہ رہا۔ 8 دسمبر1991ء کویوکرائن کے صدر Leonid Kravchak لیونڈکراویچاک اور روسی صدر بورس یلسن نے یوکرائن کی آزادی کی دستاویزات پر دستخط کر کے اس کی آزادی کا اعلان کر دیا۔
اُس وقت خود مختار ملک یوکرائن کا رقبہ 602628 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 41660982 تھی، اس آبادی میں 77.8% یوکرائینی باشندے ہیں جب کہ 17.3% روسی اور 4.9% دیگر قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی لحاظ سے87.3% آبادی عیسائی ہے ۔ شمال اور شمال مشرق میں اس کی سرحدیں روس ، بلاروس سے ملتی ہیں ، جنوب میں بلیک سی اور سی آف ایزوا، اور کریمیا واقع ہیں اور جنوب اور جنوب مغرب میں پولینڈ ، مولدڈوا رومانیہ، ہنگری اور سلواکیہ ہیں ۔ کریمیا کی وجہ سے روس کے یورپی ممالک سے سمندری رابطے ہیں یوں یوکرائن کی اہمیت غیر معمولی ہوجاتی ہے۔ یوکرائن جب 1991ء میں خود مختار ملک کی حیثیت سے سامنے آیا تو اس کو اقوام متحدہ کی رکنیت کی ضرورت نہیں تھی ۔
اس کے اشترکی نظام کے زیر اثر ملکوں میں سے پولینڈ نے 1979-80 میں سب سے پہلے اس نظام سے کنارہ کشی اختیار کی جبکہ 1994 تک سابق ورسا گروپ کے رکن ممالک ہنگری، چیک جمہوریہ کے ساتھ نیٹو میں شامل ہوگیا۔ 2004ء میں بلغاریہ ،اسٹونیا، لتھو نیا، رومانیہ اور سلواکیہ بھی نیٹو میں شامل ہو گئے اور 2009ء میں البانیہ بھی نیٹو میں آگیا۔
اسی طرح ان سابق کیمونسٹ ملکوں میں سے بہت سے یورپی یونین میں بھی شامل ہوئے۔ اس بدلی ہوئی صورت میں خارجہ تعلقات کے اعتبار سے روس کی وہ پوزیشن نہیں رہی جو سابق سوویت یونین کی تھی، یوں یوکر ائن کی آزادی اور خود مختاری کے بعد یوکرائن میں روس نے اپنے اثر ورسوخ کو روسی آبادی کے تناسب اور دو سو سالہ مشترکہ تاریخی، ثقافتی، سماجی، سیاسی اقتصادی قربت کی بنیاد پر بڑھانے کی کوشش کی اور ابتدائی برسوں میں روس کو یہاں کامیابی بھی ہوئی اور روس کے حمایتی صدارتی امیدوار کامیاب ہوئے مگر یہاں جمہوری سیاسی پارٹیوں میں یہ خیالات اور تصورات پختہ ہونے لگے کہ یوکرائن کو بھی روس کے اثر سے مکمل طور پر نکل کر نیٹو اور یورپی یونین میں شامل ہو کر اپنی الگ حیثیت اور شناخت کے ساتھ دوسرے ملکوں سے تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں اور اپنی جغرافیائی اسٹر یٹجک پوزیشن سے فائد ہ اٹھانا چاہیے ۔ یوکرائن کی آزادی کے بعد دس سال تک روس ، یو کرائن کے تعلقات بہت دوستانہ رہے ۔1991 ء کے بعد یوکرائن نے بلیک سی پر Sevastopol سیواسٹوپول کی بندرگاہ روس کو لیز پر دیدی اور دونوں کا قبضہ اس پر رہا، البتہ 1993 ء میں روس اور یوکرائن میں روسی گیس کی سپلائی اور خریداری وغیرہ پر اختلافات سامنے آنے لگے۔
2001ء میں یوکرائن نے جارجیا آذربائیجان مولڈاوا کے ساتھ مل کر آر گنائزیشن فارڈیموکریسی اینڈ اکنامک ڈیویلپمنٹ تشکیل دی تو روس نے اسے روسی کامن ویلتھ آف انڈیپنڈنٹ کنٹریز کے خلاف تصور کیا۔ 2004 ء میں یوکرائن میں صدارتی انتخابات ہونے والے تھے تو یوکرائن کے سیاستدان Viktor Yushchenko ویکٹر یوشچنکو الیکشن جیت گئے جب کہ پیوٹن Viktor Yanukovick ویکٹر یانوکوویچ کی حمایت کر رہے تھے اور انتخابات سے قبل دو مر تبہ اپنی سپورٹ کا برملا اظہار کرتے ہوئے یوکرائن بھی آئے تھے، وہ انتخابات ہار گئے۔
اس کے بعد یو کرائن نیٹو سے کہیں زیادہ تعاون کرنے لگا اور 2004ء میں یو کرائن نے عراق میں تیسری بڑی فوج کے طور پر اپنے دستے بھیجے پھر ISAF جو نیٹو کی سرپرستی میں افغانستان کام کر رہی تھی اس کے تحت افغانستان اور کوسووو میں بھی اپنے فوجی دستے بھیجے۔ 2010 ء تک یوں لگ رہا تھا کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہو جائے گا لیکن 2010 ء کے صدارتی انتخابات میں روس کے حامیViktor Yanukoich ویکٹر یانوکوویچ صدر منتخب ہو گئے مگر حکومت میں شامل دیگر عہدیداروں میں سے کچھ روس کو بہت زیادہ مراعات دینے کے قائل نہیں تھے کیونکہ بلیک سی پر روسی نیول بیس Sevatopol سیواٹوپول کی تجدید میں روسی خواہشات پر پوری طرح عملدر آمد نہیں ہوا، البتہ روس مخالف اپوزیشن لیڈر یوشچنکو کو قیدکر دیا گیا اور نومبر 2013 ء میں صدر ویکٹر یانوکو ویچ نے یورپی یونین کے ساتھ شمولیت کے معاہد ے پر دستخط کر نے سے انکار کردیا ۔
یہ معاہدہ برسوں کی متواتر کوششوں سے تیار کیا گیا تھا ۔ یوں یورپی یونین سے قریبی تعلقات کی بجائے روس سے زیادہ قریبی تعلقات کو ترجیح دی گئی ، اس پر اپوزیشن نے صدر یانوکوویچ کے خلاف شدید احتجاج کیا، ویکٹر یانوکوویچ جو روس کے حامی ہیں اور یوکرائن کی سیاست میں مئی 1997 ء سے متحرک سیاسی لیڈر رہے ہیں۔ 2014ء کے انقلاب کے بعد وہ یوکرائن کے صدر نہیں رہے اور پھر جلا وطن ہو کر روس آگئے اور اب یہاں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔
یوکرائن کے نقشے کو دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہاں کریمیا کا ساحلی علاقہ اور پورٹ بلیک سی اور سی آف ایزوا روس کے لیے اسٹر ٹیجک بنیاد پر دفاع اور بیرونی تجارت کے اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں ۔ اب روس کے لیے یوکرائن کے حوالے حتمی اقدام کا وقت تھا۔ Sergey Yurivich Glazyev سیرجیے یوریویچ گلازیوف جو عالمی شہرت کے روسی سیاستدان اور ماہر اقتصادیات ہیں یہ سوویت لیڈر پیوٹن کے مشیر ِ خصوصی ہیں اور روسی اقتصادی، معاشی بنیادوں پر تشکیل دئیے گئے کئی اداروں اور روسی تھنک ٹینک کا اہم حصہ ہیں۔
2010ء سے پیوٹن کے یوکرائن سے متعلق فیصلوں میں اُن کی مشاورت بہت اہمیت کی حامل رہی ہے۔ 2013-14 ء میں یوکرائن کے علاقوں خصوصاً جزیرہ نما کریمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں روسی باشندوں اور روس نواز افراد نے روس کے حق میں احتجاج اور جدوجہد شروع کی ۔ 16 مارچ 2014 ء کو ریفرنڈم کے ذریعے کریمیا کی حیثیت تبدیل ہو گئی ، یہاں کی قانون ساز اسمبلی اور Sevastopol سیواسٹوپول کریمیا کی لوکل گورنمنٹ نے ووٹ کی بنیاد پر رروس میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔
یہ روس کی اسٹرٹیجی تھی یہاں پر چونکہ روسی فوج بھی موجود تھی اور یہاں کے مقامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد روس کی حامی تھی اس لیے ہنگاموں اور احتجاج کا سلسلہ 2013 ء سے زور پکڑ گیا تھا اور 20 فروری 2014 ء کو یوکرائن اور روس میں جنگ بھی ہوئی ۔ یہ جنگ بلیک سی اور سی آف ازوف جزیرہ نما کریمیا کے علاقے میں ہوئی تھی مگر اس جنگ کو اب تک جاری جنگ کہا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اکثریت یوکرائن کے حق میں ہے۔
جنگ کی شدت 2014 ء میں رہی، جنگ میں 4431 یوکرائنی اور 5600 روسی فوجی ہلا ک ہوئے تھے ۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 68/262 کے مطابق یوکرائن کی خود مختاری سے متعلق جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس میں ووٹننگ ہوئی ۔ 100 ملکوں نے یوکرائن کے حق میں ووٹ دیئے کہا گیا کہ یوکرائن کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کا احترام کیا جائے ۔ 11 ووٹ اس قرارداد کی مخالفت میں گئے ۔
58 ممالک کے نمائندے غیر حاضر تھے اور 24 ممالک کے نمائندے اُس وقت ایوان سے باہر چلے گئے جب ووٹننگ شروع ہوئی مگر چونکہ روس اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور ہے اس لیے جنرل اسمبلی کی اکثریت بے معنی ہو گئی، کریمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں کی روس میں شمولیت کو قبضہ قرار دیتے ہوئے امریکہ اور یورپی یونین نے روس کے خلاف عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں جس کے جواب میں روس نے بھی اِن ملکوں کے خلاف پابندیاںعائد کیں لیکن روس کو اِن عالمی پابندیوں کی وجہ سے کچھ مشکلات پیش آئیں ۔ نیٹو اور امریکہ کریمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں پر روسی قبضے کی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہاں سے روس کی واپسی اب ممکن نہیں اور یوکرائن کی بنیاد پر امریکہ نیٹو اور یورپی یونین نے جو مشکل صورت روس کے خلاف 2000ء سے2013 ء تک قائم کرد ی تھی 2014ء کی یوکرائن روس جنگ کے بعد روس نے اسٹرٹیجک بنیادوں پر اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔
فروری 2014 ء سے روس کے حامی اور یوکرائن حکومت کے مخالف گروپوں نے یوکرائن کے مشرقی اور جنوبی شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے ۔ یوکرائن روس جنگ کی وجہ سے کریمیا اور Donbass کے علاقوں پر قبضہ ہوا ۔ مارچ 2014 ء میں روسی فوجوں نے یوکرائن کے کریمیا پر بھی قبضہ کر لیا اور جب یہاں کریمیا کے روس سے الحاق کے لیے ریفرنڈم ہوا تو ٹرن آوٹ95.5 فیصد تھا اور 85% نے روس سے کریمیا کے الحاق کے حق میں ووٹ دئیے۔
یو کرائن کے مطابق روسی قبضے میں یو کرائن کے سابق کنٹرول کے جزیرہ نما کریمیا کے حصے Donetsk اورLluhansk ہیں جن کا رقبہ یوکرائن کے کل رقبے کا 7% ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ روس کو یوکرائن کی بنیاد پر امریکہ یورپی یونین اور نیٹو سے جو مسائل اور خدشات تھے اُن کا کافی حد تک حل روس نے 2014ء میں نکال لیا ہے پھر جب 1991 ء میں سابق سوویت یونین کا جو حال روس سمیت اُس کی با قی ریاستوں کا تھا اور ساتھ ہی وارسا گروپ کے دوسرے کیمونسٹ ملکوں کا تھا وہ سب کو یاد ہے۔
پھر روس نے بہت محنت سے نہ صرف اپنی کرنسی کی قدر کو بڑھایا بلکہ خود کو ترقی یافتہ ممالک کی فہر ست میں شامل کرتے ہوئے سائنس و ٹیکنالو جی سمیت عوام کے معیار زندگی کو بھی بلند کیا اور اب صورت یہ ہے کہ وہ دنیا جو 1990-91ء سے پہلے دو طاقتی توازن کے ساتھ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد سے سرد جنگ کے خاتمے1990 ء تک چل رہی تھی اس کے بعد کے دس سال یعنی 2000ء تک عدم توازن کا شکار ہو گئی تھی اور اس عرصے میں امریکہ ہی دنیا کی واحد سپر پاور تسلیم کی جا رہی تھی پھر اس کے بعد نائن الیون کے واقعہ یا سانحہ کے بعد امریکہ کو جو اختیارات اقوام متحدہ کی جانب سےبلکہ اس کی سکیورٹی کونسل نے دیئے جس میں روس اور چین بھی شامل تھے تو امریکہ کو متفقہ طور پر پوری دنیا میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کا اجازت نامہ بلکہ کلنگ لائنسس مل گیا تھا اور امریکہ اور نیٹو نے اس کا استعمال بھی زبردست انداز سے کیا۔
اس دوران روس نے خود کو سنبھالا اور 2014 ء وہ موڑ ہے جہاں سے روس نے دوبارہ دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ نہ صرف اب بھی اسلحہ سازی، خلائی ٹیکنالوجی میں دنیا میں امریکہ کے مقابلے پر ہے بلکہ وہ اب دوبارہ خود کو امریکہ کے متوازن سپر پاور ثابت کر نے میں بھی کامیاب رہا ہے۔
پھر اسی دوران چین ایک تیسری قوت بن کر ابھرا۔ اگرچہ سائنس وٹیکنالوجی میں چین ابھی امریکہ اور روس کے بعد تیسر ے نمبر پر ہے مگر جہاں تک تعلق اقتصادی ، معاشی اور صنعتی ترقی کا ہے تو 1990 سے آج 2021 ء تک 31 برسوں میں چین نے یورپی یونین ، جاپان ، کینیڈا، آسٹریلیا، بر طانیہ اور امریکہ کو فکر میں مبتلا کر دیا ہے اور اب چین بھی سائوتھ چائینہ سی میں چار قوتی اتحادQUAD کے سامنے ہے تو 10 اپریل2021 ء میں چینی حکومت نے دنیا میں پہلی مرتبہ سرکار ی طور پر ین ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
جس کی ضمانت چین کا سنٹرل بنک دے رہا ہے اور یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ تھوڑے عرصے میں چین بین الاقوامی تجارت کے لین دین میں ڈیجیٹل کرنسی ین کو استعمال کر کے عالمی منڈیوں میں ڈالر کی حکمرانی کو بھی چیلنج کر دے گا واضح رہے کہ چین ہی نے دنیا میں کاغذ کی ایجاد کے بعد 7 ویں صدی میں کاغذی کرنسی یعنی بنک کرنسی نوٹ جاری کئے تھے اور عظیم سیاح مارکو پولو نے13 ویں صدی میں اس کے بارے میں یورپ کو بتایا تھا اور پھر باقاعدہ قانونی طور پر نپولین نے1804 ء کے فوراً بعد کرنسی نوٹ فرانس میں جاری کئے تھے۔ اب چین ایک بار پھر ڈیجیٹل ین کرنسی کی بنیاد پر دنیا میں سرکاری سطح پر پہل کر چکا ہے۔
چین اور روس کے لیے ویکسین ڈپلومیسی کی اصطلاح بھی استعمال کی جا رہی ہے۔ چین نے25 کروڑ ویکسین تیار کی اور اِس میں سے کروڑوں کی ویکسین خصوصاً ترقی پزیر ملکوں کو دی گئی، اس طرح کروڑوں ویکسین روس نے بھی کچھ ملکوں کو دی ہے جس سے ان ملکوں اور اِن کے عوام میں چین اور روس کے لیے ہمدردیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ 1984 ء سے اگرچہ عالمی سیاسی مفکروں نے یہ نظریہ دیا تھا کہ دنیا میں اب امریکہ، روس، چین طاقت کی مثلث کے تین زاویے یا خطوط ہوں گے۔
1980 ء کی دہائی میں چین افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف امریکہ کے ساتھ تھا ، اب چین امریکہ کے خلاف روس کے ساتھ نظر آرہا ہے اور جب چین سپر پاور بن گیا تو ممکن ہے کہ مستقبل میں پھر روس اور امریکہ چین کے خلاف متحد ہو جائیں۔
اب عالمی سطح کے ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بظاہر سائوتھ چائنیہ سی میں چین روس کے بغیر QUAD کے سامنے کھڑا ہے اور اسی طرح بحیرہ اسود،،بلیک سی میں یوکرائن امریکہ اور برطانیہ کے مقابلے میں ، وہاں چین روس کے ساتھ نہیں ہے مگر یوں لگتا ہے کہ چین اور روس کی آپس میں کسی اسٹر یٹجی پر اتفاق ہے جس کے اسرا ر و رموز سے امریکہ ، برطانیہ اور نیٹو وغیرہ واقف نہیں ہیں۔
یہاں بات کو سمجھنے کے لیے ایک شکاری کا سچا واقعہ بیان کرتے ہیں،جو کچھ یوں ہے کہ ایک شکاری اپنے شکاری کتے کے ساتھ شکار کرنے جنگل میں گیا تو اچانک کتے کے سامنے سے ایک لومڑی بھاگی، کتا اُس کے پیچھے بھاگا تو لومڑی نے ایک لمبا چکر لگایا اور پھر ایک گرے ہوئے درخت کے کھوکھلے تنے کے تنگ سوراخ سے گزر کر دوسری طرف سے نکل کر پھر بھاگی اور ا ب اُس نے ایسا کرنا شروع کیا تو آدھا گھنٹہ متواتر بھاگنے کی وجہ سے کتا تھک کر گر گیا مگر لومٹری اس کے بعد آرام سے درخت کے کھوکھلے تنے میں گھس گئی۔
شکاری کو حیرت ہوئی ، اُس نے گھاس پھوس جمع کرکے تنے کے سوراخ میں آگ لگائی تو دوسری طرف سے دولومڑیاں نکل کر بھاگیں ، امریکہ میں جب سے جو بائڈن بطور صدر 20 جنوری 2021 ء کو وائٹ ہائوس میں آئے تو اُن کو احساس ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں امریکہ کے معاشرے کی متنوع بُنت کو اُدھیڑ چکی ہیں جس کی رفوگری کے لیے وہ ایک کھرب تین سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی پلان رکھتے ہیں جس سے 2030 ء تک امریکہ میںکئی ملین افراد کو روزگار فراہم کیا جائے۔ابھی چند دن پہلے امریکہ میں اسٹریٹجک کمانڈ کے ایڈم چارلس رسیچرئو نے انکشاف کیا ہے کہ روس اپنے 80% ایٹمی ہتھیار جدید سے جدید تر کر چکا ہے اور امریکہ اُس کے مقابلے میں ابھی تک صفر پر کھڑا ہے اور روس کے برابر آنے کے لیے امریکہ کو فوری طور پر 1.2 کھرب ڈالر خرچ کرنے ہو نگے۔ اب امریکہ کو اتنی بڑی رقم بھی خرچ کرنا ہے اور چین سے اقتصادی مقا بلہ بھی کر نا ہے؟ ۔
اب پھر یوکرائن کی جانب آتے ہیں ۔ اب یہا ں مسئلہ یہ ہے کہ2014 ء سے یوکرائن نے کریمیا آنے والے دریائے ڈینائیرکا پانی بند کر دیا اور جب کریمیا نے یہ پا نی خریدنا چاہا تو بھی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح یوکرائن کے مشرق میں دو کنس، لوہائس اور دونباس روسی آبادی کی اکثریت کے علاقے ہیں جہاں کے روسی نسل سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند کہلاتے ہیں اور مسلح جد وجہد میں مصروف ہیں۔ وہاں سرحد پر روس نے تقر یباً سوا لاکھ فوج جدید ہتھیاروں کے ساتھ کھڑی کر دی ہے۔
اب روس یہاں جنگی مشقیں کر رہا ہے اور چین ساوتھ چائینہ سی میں جنگی مشقیں کر رہا ہے ابھی تک دونوں نے جنگ کرنے کا اشارہ نہیں دیا ہے مگر یوکرائن کے صدر Volodymys Zelensky ولوڈیمیز زیلیسکی نے نیٹو اور یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ یوکرائن کو یورپی یونین اور نیٹو میں شامل کریں کیونکہ یورپی یونین اور نیٹو میں شامل ممالک کا آپس میں یہ معاہدہ ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو سب پر حملہ تصور کیا جائے گا مگر ابھی تک امریکہ، برطانیہ سمیت سبھی خاموش ہیں کیو نکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ روس کریمیا کا پا نی بھی حاصل کرے گا اور یوکرائن کے وہ مشرقی علاقے جہا ں روسی آباد ہیں وہ بھی یوکرائن سے لینے کا ارادہ رکھتا ہے، اگر اِس وقت یوکرائن کو نیٹو یا یورپی یونین میں شامل کیا جاتا ہے تو پھر جنگ کے اندیشے بہت بڑھ سکتے ہیں۔
ترکی یوکرئن کے قریب واقع ہے اور نیٹو کا ایک اہم رکن ہے ، ترکی کے شمال میں اس کا طویل ساحل بلیک سی پر ہے اور جنوب میں طویل ساحل بحیرہ روم پر ہے اور مغرب میں بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کو آبنائے باسفورس ملاتی ہے ۔ یوں ترکی کی یہاں اسٹریٹجک پوزیشن بہت اہم ہے امریکہ اور برطانیہ کے بحری بیڑے اور جہاز سب اسی آبنائے باسفورس سے گزریں گے ، 10 اپریل2021 ء کو استنبول میں ٹرکش ہائی لیول اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل کا نواں اجلاس منعقد ہوا تھاجس میں یوکرائن کے صدر ولوڈیمیر زیلیسکی اور ترکی کے صدر طیب اردگان نے ملاقات کی ۔
اس ملاقات میں بنیادی نقطہ روس یوکرائن جنگ ہی تھا۔ اگر چہ ترکی اس وقت نیٹو کا رکن ہے کچھ معاہدوں کے تحت یوکرائن کے ساتھ ہے مگر مکمل جنگ کی صورت میں وہ پہلے احتیاط سے امریکہ ، بر طانیہ اور نیٹو کے باقی ملکوں کا ردعمل دیکھے گا ، اِس وقت روسی صدر پیوٹن امریکہ اور برطانیہ پر واضح کر چکے ہیں کہ روس نے سرخ لائن کھینچ دی ہے یعنی ایک حد مقرر کر دی ہے اگر اس کو پار کیا گیا تو پھر خطرناک جنگ ہو سکتی ہے ۔
امریکی صدر جو بائڈن نے اقتدا ر میں آتے ہی روس کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا اور پھر اِن تحقیقات کی بنیاد پر صدر پیوٹن کو قاتل کہا اور الزاما ت عائد کئے کہ روس نے امریکی انتخابات میں مداخلت کی ، افغانستان میں امریکیوں کے خلاف درپرہ طالبان اور دیگر مسلح گروپوں کی مدد کی ، امریکہ پر سائبر اٹیک کیا اور روسی اپوزیشن لیڈر ایلسکی والمنی کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی اور اب اُن کوقید کرنے کے الزمات لگائے ہیں کہ روس کے یہ اقدامات جمہوریت، انسانی اور بنیادی حقوق کے خلاف ہیں ، جو بائڈن اور اُن کی حکومت اب چین کے بھی خلاف ہو چکی ہے۔
چین اور روس کی اسٹریٹجی اور واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحاد یوں کو چین اور روس ایک جانب اقتصادی محاذ پراور دوسری جانب دفاعی محاذ پر مصروف رکھتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں میں جنم لینے والے معاشرتی، سماجی ، سیاسی ، اقتصادی بحرانوں میں اضافے کے ساتھ ایک نئی طرز کی سرد جنگ شروع کر چکے ہیں ۔ امریکی برطانوی تھنک ٹینک اس وقت اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے روس اور چین کوکسی تیسرے حریف کو سامنے لا کر جنگ میں گھسیٹ سکتے ہیں۔
روس کے لیے یوکرائن اور ترکی کو اور چین کے لیے بھارت کو قر بانی کا بکرا بنا سکتے ہیں مگر جہاں تک تعلق ترکی کا ہے وہ کبھی بھی نیٹو کے باقی ارکان کے بغیر روس کے خلاف جنگ نہیں کرے گا ، مگر بھارت کے مودی سے اس حماقت کی توقع کی جا سکتی ہے، جس کے لیے امریکہ کی کوشش ہے کہ پہلے بھارت ، پاکستان تعلقات کو بہتر کیا جائے تاکہ بھارت ایک وقت میں صرٖف ایک محاذِ جنگ پر پوری توجہ سے چین کا مقابلہ کرے ۔