ساحلوں کا مسکن ضلع لسبیلہ
جہاں بلوچستان کی کئی اہم و تاریخی جگہیں موجود ہیں۔
ہمارے ہاں ایک جملہ بولا جاتا ہے ''جو دِکھتا ہے وہ بکتا ہے" اور یہ بات کافی حد تک سچ بھی ہے۔ اب سیاحت کو ہی لے لیجیے، ہم ، ہماری حکومت اور سیاحتی ادارے جو جگہیں دنیا کو دکھاتے ہیں دنیا وہاں جاتی ہے۔
باہر کے سیاح بھی وہیں جاتے ہیں جہاں کی دھڑا دھڑ پبلسٹی کی جاتی ہے اور وہ علاقے جو دکھائے نہیں جاتے وہاں بہت کم لوگ جا پاتے ہیں جس کی بڑی مثال صوبہ سندھ ، سرائیکی وسیب، سابقہ فاٹا کے علاقے اور بلوچستان کے وہ تاریخی و قدیم علاقے ہیں جن کا ہم پاکستانیوں کو بھی نہیں معلوم۔
بلوچستان کی بات کریں تو ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اس صوبے کے اضلاع کے بارے میں بھی معلوم نہیں ہے۔ اکثر پاکستانی کوئٹہ، چمن، تفتان، گوادر، سبی اور زیارت سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ بلوچستان کی قدرتی خوب صورتی سے نابلد ہم لوگ صرف مکران کوسٹل ہائی وے اور مولا چھٹوک سے ہی واقف ہیں۔ ہم اس مضمون میں آپ کو بلوچستان کے ایک نہایت خوب صورت ضلع کے بارے میں بتارہے ہیں، جسے سیاحت کے حوالے سے بلوچستان کا دل کہا جائے تو چنداں غلط ناں ہو گا۔ جہاں دنیا کا تیسرا بڑا شپ بریکنگ یارڈ اور بہت سی تاریخی جگہیں موجود ہیں یعنی ''لسبیلہ'' سے۔
بلوچستان کے جنوبی سِرے پر واقع ضلع لسبیلہ مشرق میں صوبہ سندھ کے اضلاع کراچی، جامشورو اور دادو، مغرب میں ضلع گوادر، شمال میں ضلع آواران اور خُضدار اور جنوب میں بحیرہ عرب سے گھرا ہوا ہے۔ لسبیلہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کا آٹھواں سب سے بڑا ضلع ہے جو 15،153 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور اس کا صدر مقام اُتھل ہے، جب کہ اس ضلع میں تحصیل حب، تحصیل سونمیانی، تحصیل بیلا، تحصیل دریجی اور تحصیل اوتھل شامل ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی آبادی ساڑھے پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
لسبیلہ بلوچستان کا ساحلی ضلع ہے جسے 30 جون1954 کو قلات ڈویژن سے علیحدہ کر کے ضلع کا درجہ دیا گیا۔ لسبیلہ دو الفاظ کا مرکب ہے۔ سنسکرت میں لَس کو ''رہائش'' یا رہنا اور بیلا کو ''سمندر کا کنارہ'' کہتے ہیں۔ یعنی سمندر کے کنارے رہائش کی جگہ۔ یہ ضلع 5 تحصیلوں اور 22 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ضلع کا رقبہ زیادہ تر پہاڑی ہے لیکن چند دریاؤں کی وجہ سے اب زراعت بھی ترقی کر رہی ہے۔ مشرق میں کیرتھر اور مغرب میں ہالی رینج کا پہاڑی علاقہ ہے جب کہ مرکز میں کچھ زرخیز زمین ہے جسے دریائے پورالی، ورہاب، پوہر اور ہنگول سیراب کرتے ہیں۔
دریائے پوہر اور ہنگول ضلع آواران کے دریا ہیں جو لسبیلہ سے گزر کہ بحیرہ عرب میں مل جاتے ہیں۔ مغرب میں واقع ساحلی پٹی دلدل اور مینگرو کے درختوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ زراعت کا زیادہ تر دارو مدار سیلابی پانی اور بارانی دریاؤں پر ہے۔ یہاں آپ کو زیادہ تر جوار اور بیج کی فصلیں ملیں گی۔ کہیں کہیں گندم بھی نظر آجائے گی۔ مقامی چرواہے بھیڑ، بکریاں اور اونٹ پالتے ہیں جب کہ سونمیانی علاقے کی ایک بہت بڑی مچھلی منڈی ہے۔
یہاں کی بڑی تعداد بلوچی، سندھی اور براہوی بولتی ہے۔ کچھ آبادی ایک مقامی زبان ''لاسی'' بھی بولتی ہے جسے سندھی کا ایک لہجہ مانا جاتا ہے۔
تاریخ داں کہتے ہیں کہ سکندرِاعظم لسبیلہ سے گزرا تھا جب وہ شمال مغربی ہندوستان کو فتح کرنے کے بعد واپس جا رہا تھا۔ 711 عیسوی میں عرب جنرل محمد بن قاسم بھی سندھ جاتے ہوئے لسبیلہ سے گزرے۔
1742 میں جام علی خان اول نے ریاست لسبیلہ کی بنیاد رکھی اور ان کی اولادوں نے 1955 تک اس ریاست پر حکم رانی کی۔ اکتوبر 1952 سے اکتوبر 1955 تک لسبیلہ، بلوچستان اسٹیٹ یونین کے اندر خودمختار ریاست کے طور پر رہی۔ 1955میں یہ ریاست مغربی پاکستان میں ضم ہو کر قلات ڈویژن کا حصہ بنا دی گئی۔
1962 میں لسبیلہ کے علاقے کو قلات سے الگ کر کے کراچی سے ملا کر ''کراچی بیلا'' ڈویژن بنا دیا گیا۔ 1970 میں جب دوبارہ صوبے بحال ہوئے تو لسبیلہ کو صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع بنا دیا گیا۔ اب میں آپ کو اس ضلع کی گم نام اور مشہور و معروف دونوں طرح کی جگہوں کی سیر کرواؤں گا۔ پہلے ہم کراچی سے گوادر کی طرف ساحلی علاقوں کی بات کریں گے اور پھر رخ کریں گے ضلع کے اندرونی علاقوں کا۔
٭ حب چوکی / حب ڈیم؛
بلوچستان کا چوتھا بڑا شہر حب، ضلع لسبیلہ کی مشہور تحصیل ہے جو کراچی کے ساتھ واقع ہے۔ اس کا پرانا نام حب چوکی تھا کیوںکہ یہاں پولیس اور کسٹم کی ایک چوکی ہوتی تھی جسے ''نکاہی'' کہتے تھے۔ دھڑا دھڑ صنعتیں اور فیکٹریاں قائم ہونے کے بعد اس قصبہ کا نام محض حب رہ گیا اور آج حب بلوچستان کے اہم ترین صنعتی علاقوں میں سے ایک ہے۔ حبکو پاور پلانٹ، بوسیکار آئل ریفائنری اور بڑی بڑی کمپنیوں کے پلانٹ یہاں موجود ہیں جس سے اس شہر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہاں مسلم اور ہندو آبادی کے ساتھ ساتھ مسیحی آبادی بھی رہائش پذیر ہے۔حب ڈیم یہاں کا مشہور پکنک اسپاٹ ہے جو سندھ بلوچستان سرحد پر دریائے حب پر واقع ہے اور پاکستان کا تیسرا بڑا بند ہے۔ حب بند صرف ایک آبی ذخیرہ ہی نہیں بلکہ ایک بہترین تفریحی مقام بھی ہے۔ تعطیلات کے دنوں میں کراچی سے کافی لوگ تفریح کے لیے یہاں آتے ہیں اور حب جھیل میں تیراکی، مچھلی کے شکار اور کشتی رانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ ہجرتی پرندوں کی ایک بڑی آماج گاہ ہے۔
٭ گڈانی شِپ بریکنگ یارڈ؛
کراچی سے چلیں تو 1 گھنٹے بعد گڈانی آئے گا جو تحصیل حب کی ایک چھوٹی سی ساحلی یونین کونسل ہے۔ یہاں ہندو اور مسلم دونوں آباد ہیں جن میں زیادہ تر لوگ ماہی گیری اور جہازرانی کی صنعت سے منسلک ہیں۔اسی ساحلی شہر میں دنیا کا ''تیسرا بڑا شپ بریکنگ یارڈ '' یعنی جہاز توڑنے والا علاقہ واقع ہے جو 10 کلومیٹر طویل ہے۔
یہاں جہاز توڑنے کے 132 پلاٹ موجود ہیں۔ 1980 تک گڈانی کا شپ بریکنگ یارڈ دنیا میں سب سے بڑا مانا جاتا تھا جو تیس ہزار سے زائد لوگوں کو روزگار فراہم کرتا تھا، تاہم بھارت اور چٹاگانگ (بنگلادیش) کے یارڈز میں زیادہ سہولیات کی فراہمی کے بعد یہ تیسرے نمبر پر آ گیا اور اس کی صلاحیت بھی کم ہو گئی۔ تقریباً 1 ملین ٹن سٹیل یہاں سے سالانہ بنیادوں پر حاصل کیا جاتا ہے جو مقامی مارکیٹوں میں ہی بک جاتا ہے۔ آج یہاں ایک سال میں سپر ٹینکر سمیت ہر قسم کے 125 جہاز توڑے جا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ گڈانی کا خوب صورت ریتلا ساحل بھی بہت مشہور ہے جو دریائے حب کے ساتھ واقع ہے۔
٭ سونمیانی؛
گڈانی کے بعد سونمیانی آتا ہے جو حب تحصیل کا حصہ ہے۔ یہ کراچی سے بذریعہ سڑک 45 میل کے فاصلے پر سمندر کنارے واقع ہے۔ یہ بحیرہ عرب کا شمالی ترین حصہ ہے۔ سونمیانی اپنے خوب صورت ساحلوں اور خلائی ریسرچ سنٹر کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے، سپارکو نے یہاں ایک راکٹ لانچنگ پیڈ بھی بنا رکھا ہے جہاں سے مختلف میزائل بھی لانچ کیے جا سکتے ہیں۔انگریزوں سے پہلے پورے وسط ایشیا میں اس جگہ کا چرچا ہوا کرتا تھا۔
یہاں سے بڑی بڑی بادبانی کشتیاں جن کو بلوچی میں ''بوجھی'' کہتے ہیں، ہندوستان، عرب، افریقہ اور خلیج فارس کی بندرگاہوں تک جاتی آتی تھیں۔راجا داہر کے خلاف کارروائی کے لیے عربوں نے اسی بندرگاہ پر اپنا لشکر اتارا تھا۔ 19 ویں صدی کے آغاز تک بلخ و بخارا اور افغانستان و ایران کا تجارتی مال کارواں کے ذریعے اس بندرگاہ پر آتا اور یہاں سے ترکمان، بلوچی گھوڑے اور اونٹ سبھی سونمیانی سے باہر بھیجے جاتے۔ اْن دنوں بولان اور مولہ کے راستے غیر محفوظ خیال کیے جاتے تھے۔
1805 میں پرتگال کے بحری قزاقوں نے یہ بندرگاہ لوٹ کر اسے آگ لگا دی۔ گل جنید جو بلوچوں کا سردار اور ماہر جہاز ران تھا، نے ان بحری قزاقوں سے یہاں کئی لڑائیاں لڑیں۔ برطانوی تسلط کے بعد اس بندرگاہ کی اہمیت ختم ہو گئی اور انگریزوں نے کراچی کی بندرگاہ کو جدید بنیادوں پر ترقی دے کر ریل کے ذریعے اسے اندرون ملک بڑے بڑے شہروں سے ملا دیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی سرحدوں کا تعین ہوا، جس سے کارواں کی آمدروفت بھی رک گئی، جس کے نتیجے میں بندرگاہ آہستہ آہستہ اُجڑ گئی۔
آج کل سون میانی ماہی گیری کے لیے مشہور ہے۔ یہاں بڑے بحری جہاز لنگرانداز نہیں ہوسکتے کیوںکہ ساحل کے نزدیک پانی کی گہرائی کم ہے۔ قدیم باسیوں کے مطابق ماضی میں اس جزیرے پر مچھلی کے شکار سے واپس آنے والے ماہی گیر آرام کی غرض سے قیام کرتے تھے، سمندر کے درمیان گہرے جزیرے پر سفید کیکڑے، فضاؤں میں محو پرواز سمندری پرندے اور پانی میں اٹکھیلیاں کرتی وہیل اور شارک مچھلیاں سحرزدہ کردیتی ہیں۔
حکومت بلوچستان نے جزیرے پر ٹینٹ سٹی جب کہ جیٹ سکی (پانی میں چلنے والی موٹرسائیکلیں)، واٹر اسپورٹس، ڈیزرٹ سفاری اور پیرا گلائڈ منصوبے پر کام شروع کردیا ہے جو مستقبل میں بلوچستان کے ساتھ کراچی کے شہریوں کے لیے بہترین تفریحی مقام ثابت ہوگا۔کراچی سے لگ بھگ 80 کلومیٹر کی دوری پر واقع بلوچستان کے ضلع لسبیلہ اور تحصیل سونمیانی کے قرب میں قدرتی جزیرہ چاروں اطراف سے نیلگوں سمندر اور ایک جانب سے لق ودق صحرا سے منسلک ہے جو بہت ہی خوبصورت امتزاج کا حامل دکھائی دیتا ہے۔
جزیرے کے عین اوپرگہرے پانی سے اپنے شکار کو اچک لینے کے لیے فضاؤں میں محوپرواز شور مچاتے سفید براق پرندے جبکہ نیچے ساحل پر دوڑتے بھاگتے سفید اورزردی مائل کیکڑے، وقفے وقفے سے سطح سمندر پر ابھرتی شرارتی وہیل شارک مچھلی کے غوطے ماحول کو سحرزدہ کردیتے ہیں مکینوں کے مطابق یہ قدرتی جزیرہ اس حوالے سے مشہور ہے کہ پورے ضلع لسبیلہ میں چاہے گرمی کا پارہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اس جزیرے پر درجۂ حرارت متوازن رہتا ہے اور ہواؤں میں خنکی محسوس ہوتی ہے۔ خصوصاً شام کے وقت ڈوبتے سورج کا منظر سمندر کی لہروں پر زرد کرنیں بکھیر دیتا ہے۔اس دل فریب نظارے کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ساحلی مقام کے قدیم ماہی گیروں کے مطابق کھاڈی جزیرہ برسوں سے ایسی ہی حالت میں موجود ہے۔
٭ چندراگُپ آتش فشاں؛
یہ مٹی اور کیچڑ کا آتش فشاں ہے جسے ہندو دھرم کے مانے والے مقدس خیال کرتے ہیں اور ہنگلاج ماتا جاتے ہوئے اس گے ارد گرد خیمے گاڑھتے ہیں اور ایک رات لازمی قیام کرتے ہیں۔ اس نام کے دو آتش فشاں ہیں جو مکران کوسٹل ہائی وے سے ذرا ہٹ کے واقع ہیں اور چندراگُپ 1 اور 2 کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہندو اس کے دہانے میں ناریل پھینک کر منت مانگتے ہیں۔ چوںکہ اسے ہندو بھگوان شیوا کا مجسمہ مانا جاتا ہے اس لیے اب اس کا نام بابا چندراگُپ پڑ گیا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ یہاں جائے بغیر ہنگلاج ماتا کے مندر جانا برا شگون ہے۔
٭ سپت بندر / بُوجی کوہ؛
چندراگپ سے ذرا آگے بلوچستان کے ساحل پر ایک مشہور بیچ ہے جسے سپت بیچ کہتے ہیں۔ یہ بیچ اس انوکھی اور منفرد چٹان کی وجہ سے مشہور ہے جو اپنے چٹانی سلسلے سے الگ ریت کے اندر تنہا کھڑی ہے، یوں جیسے ریت میں سے درخت کی طرح نکل رہی ہو۔ یہ چٹان ''بُوجی کوہ'' کہلاتی ہے۔ یہاں آپ کو کیکڑے اور دوسری سمندری حیات وافر مقدار میں نظر آئے گی۔ یہ پاکستان میں موجود سمندری علاقوں کی منفرد خوب صورتی کی عکاسی کرتا ہے۔
٭ ہنگول نیشنل پارک؛
ساحلِ مکران کے ساتھ پھیلا ہِنگول نیشنل پارک بلوچستان اور پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو چھ لاکھ انیس ہزار ترتالیس (619043) ہیکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلومیٹر دور یہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اس کا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقہ کو 1988 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہنگول نیشنل پارک اس وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں چار مختلف قسم کے ماحولیاتی نظام ( ) پائے جاتے ہیں۔ ہندوؤں کا ہنگلاج مندر بھی اس پارک میں واقع ہے۔ اس پارک کو چلانے کے لیے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1 Marine Range
2 Aghor Range
3 Inland Range
یہ پارک طبعی طور پر چٹانوں، ریت کے ٹیلوں اور دریا کے ساتھ میدانوں وغیرہ میں بٹا ہوا ہے۔ ہنگول ندی، نیشنل پاک سے ہوکر گزرتی ہے اور سمندر میں گرنے سے پہلے ایک مدوجزر والا دہانہ بناتی ہے جو کئی ہجرت کرنے والے آبی پرندوں اور ہزاروں دلدلی مگرمچھوں کا مسکن ہے۔اس پارک کے جنگلی حیوانات میں پہاڑی بکرا، اڑیال، چنکارہ، جنگلی بلی، بِجّو، لمبے کان والا خارپْشت، لومڑی، گیڈر، بھیڑیا اور نیولا وغیرہ شامل ہیں۔ پرندوں میں تیتر، باز، چیل، مرغابی، سنہری شِکرا، کرگس، ترن، چہا، شاہین وغیرہ شامل ہیں۔ رینگے والے جانوروں میں دلدلی مگر مچھ، لمبی چھپکلی، موٹی زبان والی چھپکلی، وائپر اور کوبرا ناگ وغیرہ کے علاوہ کئی اور سمندری حیوانات جیسے کچھوا اور انواع و اقسام کی مچھلیاں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ نباتات میں تمریکس، پروسوپیز، زیزیپس اور کیکر موجود ہیں۔ یہاں چند نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جن کی طبی حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔ مقامی لوگ ان کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج دیسی طریقوں سے کرتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہنگول نیشنل پارک وہ واحد پارک ہے جہاں گیس اور مٹی خارج کرتے دلدلی آتش فشاں بھی پائے جاتے ہیں۔بلوچستان کے مشہور سیاحتی مقامات ''ساحلِ کُند ملیر'' اور ''اُمید کی شہزادی'' بھی یہاں واقع ہیں۔ دلکش چٹانوں کا مرکز یہ پارک واقعی ایک خوب صورت جگہ ہے جسے اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ سنہری ساحل، کُند ملیر؛
یہ خوب صورت ساحل ہنگول نیشنل پارک کی حدود میں واقع ہے جو اپنے سونے سے چمکتے ریتیلے ساحلوں کی بدولت جانا جاتا ہے۔ یہاں ایک طرف نیلا سمندر اور دوسری طرف سُنہرا ساحل واقع ہے جو قدرت کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ساحل سمندر دنیا کے حسین ترین ساحلوں میں گِنا جاتا ہے۔ یہاں پیٹرول اور کھانے پینے کی اشیاء جیسی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ حال ہی میں پاکستان کی کچھ ٹور کمپنیوں نے یہاں کے ٹور کروانا شروع کردیے ہیں جس کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ علاقہ آہستہ آہستہ ترقی کرنا شروع کر دے گا۔
٭ بلوچستان کا ابوالہلول؛
شیرِبلوچستان یا بلوچستان کا ابوالہلول بھی ایک قدرتی چٹان ہے جو مصر کے ابوالہلول کی شبیہہ دیتی ہے۔ یہ مجسمہ 2004 میں مکران کوسٹل ہائی وے بننے کے بعد دنیا کے سامنے آیا اور ایک عالم اس شاہراہ پر موجود عجوبے دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔
ماہرین کے مطابق یہاں ہونے والی بارشوں اور سمندری ہوائوں کی بدولت چٹانوں کی یہ شکلیں وجود میں آئی ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو بات کچھ اور معلوم ہوتی ہے۔ اس مجسمے کہ سر پہ ہو بہو ویسا ہی کلاہ (سر ڈھانپنے کا آرائشی لباس) نظر آئے گا جیسا مصری فرعون پہنا کرتے تھے۔ کانوں کے ساتھ لٹکتے فلیپس بھی واضح نظر آئیں گے۔ مجسمے کا دھڑ اور پنجے بھی بالکل ویسے ہی نظر آئیں گے جیسے مصر کے ابوالہلول کے ہیں۔
کیا واقعی یہ ایک اتفاق ہے یا پھر اس میں قدرت کا کوئی گہرا راز چھپا ہے؟
چٹان کے جس چبوترے پر یہ ایستادہ ہے وہ بھی حیرت انگیز ہے۔ اس چٹان کے ستون بھی ہیں اور اس کے پاس چھوٹی چھوٹی محرابیں بھی ہیں جن کے نیچے سیڑھیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ سب باتیں بلاشبہہ اس تھیوری کو جھٹلاتی نظر آتے ہیں کہ یہ مجسمہ محض قدرتی عوامل سے وجود میں آیا ہے۔ یہ کتنا قدیم ہے، کس تہذیب سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی کیا تاریخ ہے، اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
٭ امید کی شہزادی؛
گوادر کی طرف ضلع لسبیلہ کی حدود ختم ہونے سے کچھ پہلے مکران کوسٹل ہائی وے کے کنارے آپ کو ایک انسانی مجسمہ نما چٹان نظر آئے گی، یہ ''پرنسس آف ہوپ'' ہے جسے امید کی شہزادی بھی کہتے ہیں۔
ایک انسانی مجسمے کا روپ دھارے یہ قدرتی چٹان ہنگول نیشنل پارک کی حدود میں واقع ہے جسے امید کی شہزادی کا نام مشہور ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی نے دیا تھا جو 2002 میں پاکستان کے دورے پر آئی تھیں۔یہ مکران کوسٹل ہائی وے کا ایک مشہور مقام ہے جس کی نقل کا ایک اور مجسمہ مکران کوسٹل ہائی وے اور اتھل روڈ کے جنکشن پر واقع ہے۔
٭ بُرزل پاس؛
کراچی سے گوادر یا اورمارہ جاتے ہوئے راستے میں دل کش اور حیرت انگیز چٹانوں کا سلسلہ آتا ہے جس کے بیچ میں سے ناگن کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑک نکلی جاتی ہے۔ یہ بلوچستان کا برزل پاس ہے جس کے ایک طرف بحیرۂ عرب کا نیلا سمندر تو دوسری جانب سُرمئی رنگ کی بھربھری چٹانیں واقع ہیں جو اسے ایک خواب ناک سی جگہ بناتی ہیں۔ یہ کْند ملیر سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
٭گوندرانی کے پراسرار غار؛
اگرچہ کم ہی سہی لیکن بلوچستان میں بھی چند مقامات پر بدھ مت کے آثار پائے گئے ہیں۔ان میں سرِفہرست گوندرانی کے غار ہیں جو ضلع لسبیلہ میں بیلا شہر سے 20 کلومیٹر شمال کی جانب دریائے کُرد کے کنارے واقع ہیں۔ اس جگہ کو ''مائی گوندرانی کا شہر''، ''شہرِ روغان'' اور ''روحوں کا مسکن'' بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر کی تاریخ کیا ہے اور یہ قدیم غار کس نے اور کب بنائیں؟ تاریخ داں اس بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہیں، لیکن ان کا قیاس ہے کہ یہاں 8 ویں صدی میں ایک عظیم بُدھ خانقاہ قائم تھی، چوںکہ تب یہ علاقہ بُدھ سلطنت کا حِصہ تھا سو اس قیاس کو سچ مانا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ بے شک ان غاروں میں بدھ مت کی خصوصیات پائی جاتی ہیں لیکن حتمی طور پر ہم انہیں بدھ مذہب سے منسلک نہیں کر سکتے۔
گوندرانی کی یہ غار جنہیں مقامی ''پُرانے گھر'' بھی کہتے ہیں، چٹانوں کے اندر چھوٹے چھوٹے کمروں کی صورت میں بنائی گئی ہیں اور آپس میں اندرونی راستوں سے جُڑی ہیں۔ انگریز راج میں ان کی تعداد 1500 بتائی گئی ہے لیکن آج ان کی تعداد 500 کے قریب ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج یہ مٹنے کے دہانے پر ہیں۔ مقامی افراد کا ماننا ہے کہ اس علاقے میں روحوں کا بسیرا ہے اور بہت سے لوگ اس بات کا مشاہدہ بھی کر چکے ہیں۔
٭ ہنگلاج ماتا کا مندر؛
لسبیلہ کے مغرب اور ہنگول نیشنل پارک کے وسط میں دریائے ہنگول کے کنارے ایک قدیم مندر واقع ہے جو ہنگلاج ماتا کا مندر کہلاتا ہے۔ ہنگلاج ماتا کو ''ہنگلاج دیوی''، ''ہنگولا دیوی'' اور ''نانی مندر'' بھی کہا جاتا ہے۔
یہ پاکستان میں واقع دو شکتی پیٹھ میں سے ایک ہے جسے درگا یا دیوی کا ایک اوتار مانا جاتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق ہنگلاج، پاروتی ماں کا کالی روپ ہے اور ہندو برادری اسے ہنگلاج دیوی کے نام سے پکارتے ہیں۔
مقامی ''ذکری'' روایات کے مطابق ہنگلاج نانی، لاہوت لامکاں میں آئی تھیں اور وہاں چلہ کشی کی۔ چوں کہ ذکری مذہب کے ماننے والے بھی ان کو صدیوں سے متبرک سمجھتا ہے، لہٰذا دونوں مذاہب کے پیروکار ان کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اس مندر کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ مندر ایک تنگ گھاٹی میں موجود غار کے اندر واقع ہے جہاں سِندور لگے ایک چھوٹے پتھر کو ہنگلاج ماتا کے طور پر پوجا جاتا ہے۔
''ہنگلاج یاترہ'' پاکستان میں ہندوؤں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں ہندو شرکت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مشہور صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی یہاں کا دورہ کیا تھا اور اس مندر کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا تھا۔
٭ لسبیلہ نیکروپولس؛
بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح لسبیلہ میں بھی کئی تاریخی عمارات واقع ہیں جن میں سے ایک لسبیلہ کے جام خاندان کے مقبرے بھی ہیں۔ یہاں ''بڑا باغ'' کے مقام پر لسبیلہ کے حکمرانوں کے مقبرے موجود ہیں جو نیکروپولس کہلاتے تھے۔ کسی ایسے بڑے اور قبرستان کو جہاں کئی مقبرے موجود ہوں، نیکروپولس کہتے ہیں۔
اس نیکروپولس میں سو سے زیادہ مقبرے واقع ہیں جن میں سے لگ بھگ چالیس کے قریب حکمران شاہی خاندان کے افراد کے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جام علی کوریجو نے اپنے آبائی علاقے ''کنراچ'' سے لسبیلہ پر حملہ کیا اور مائی چھاگلی سے یہ علاقہ چھین لیا جو برفت قبیلے کے ہیرو ملک پہاڑ خان برفت کی بیوی تھی۔ جام علی کوریجو نے اس علاقے میں جام خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھی اور پھر جام خاندان نے اس علاقے پر قریباً دو سو سال تک حکومت کی۔
اس وقت جام خاندان کے مقبرے منہدم ہونے کے قریب ہیں جنہیں انتہائی توجہ کی ضرورت ہے۔ میری حکومتِ بلوچستان سے یہ درخواست ہے کہ خدارا لسبیلہ کے اس تاریخی ورثے کو بچایا جائے۔
٭ اُتھل اور بیلا؛
ضلع کا اہم شہر بیلا، ایک قدیم شہر ہے جو پہاڑوں کے دامن میں آباد ہے۔ اس شہر کو عربوں نے ''ارمابل'' کے نام سے پکارا ہے جو زمانہ قدیم میں دیبل کے علاوہ سندھ کی دوسری بندرگاہ تھی۔ یہ علاقہ سندھ اور فارس کے بیچ ایک اہم تجارتی راستے پر واقع تھا۔ آج بھی شہر سے 10 میل دور شمال مغرب میں کچھ پتھر کے آثار ملتے ہیں جو قدیم عربوں کے قبضوں کی نشانی ہیں۔
اس شہر کے قرب و جوار میں مختلف دھاتیں پائی جاتی ہیں جن میں گیلینا، مینگنیز اور چاندی بھی شامل ہیں۔ محمد ابنِ ہارون کا مقبرہ بھی بیلا میں واقع ہے جو محمد بن قاسم کا جنرل تھا۔ یہ شہر پہلے ضلعی صدر مقام تھا جسے بعد میں اُتھل سے تبدیل کر دیا گیا۔
اُتھل شہر دریائے پورالی کے کنارے آباد ہے جو لسبیلہ کے جام خاندان کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ یہ شہر قالین اور کڑھائی والے کپڑوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے جب کہ علاقے کی سب سے بڑی درسگاہ ، زراعت، پانی اور سمندری سائنس کی یونیورسٹی (لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز) بھی اسی شہر میں واقع ہے جو 2005 میں قائم کی گئی تھی۔
ضلع سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات میں جام غلام قادر خان ( سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان)، جام محمد یوسف (سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان) ، جام علی اکبر اور بلوچستان کے موجودہ وزیرِاعلیٰ جام کمال خان شامل ہیں۔
باہر کے سیاح بھی وہیں جاتے ہیں جہاں کی دھڑا دھڑ پبلسٹی کی جاتی ہے اور وہ علاقے جو دکھائے نہیں جاتے وہاں بہت کم لوگ جا پاتے ہیں جس کی بڑی مثال صوبہ سندھ ، سرائیکی وسیب، سابقہ فاٹا کے علاقے اور بلوچستان کے وہ تاریخی و قدیم علاقے ہیں جن کا ہم پاکستانیوں کو بھی نہیں معلوم۔
بلوچستان کی بات کریں تو ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اس صوبے کے اضلاع کے بارے میں بھی معلوم نہیں ہے۔ اکثر پاکستانی کوئٹہ، چمن، تفتان، گوادر، سبی اور زیارت سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ بلوچستان کی قدرتی خوب صورتی سے نابلد ہم لوگ صرف مکران کوسٹل ہائی وے اور مولا چھٹوک سے ہی واقف ہیں۔ ہم اس مضمون میں آپ کو بلوچستان کے ایک نہایت خوب صورت ضلع کے بارے میں بتارہے ہیں، جسے سیاحت کے حوالے سے بلوچستان کا دل کہا جائے تو چنداں غلط ناں ہو گا۔ جہاں دنیا کا تیسرا بڑا شپ بریکنگ یارڈ اور بہت سی تاریخی جگہیں موجود ہیں یعنی ''لسبیلہ'' سے۔
بلوچستان کے جنوبی سِرے پر واقع ضلع لسبیلہ مشرق میں صوبہ سندھ کے اضلاع کراچی، جامشورو اور دادو، مغرب میں ضلع گوادر، شمال میں ضلع آواران اور خُضدار اور جنوب میں بحیرہ عرب سے گھرا ہوا ہے۔ لسبیلہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کا آٹھواں سب سے بڑا ضلع ہے جو 15،153 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور اس کا صدر مقام اُتھل ہے، جب کہ اس ضلع میں تحصیل حب، تحصیل سونمیانی، تحصیل بیلا، تحصیل دریجی اور تحصیل اوتھل شامل ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی آبادی ساڑھے پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
لسبیلہ بلوچستان کا ساحلی ضلع ہے جسے 30 جون1954 کو قلات ڈویژن سے علیحدہ کر کے ضلع کا درجہ دیا گیا۔ لسبیلہ دو الفاظ کا مرکب ہے۔ سنسکرت میں لَس کو ''رہائش'' یا رہنا اور بیلا کو ''سمندر کا کنارہ'' کہتے ہیں۔ یعنی سمندر کے کنارے رہائش کی جگہ۔ یہ ضلع 5 تحصیلوں اور 22 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ضلع کا رقبہ زیادہ تر پہاڑی ہے لیکن چند دریاؤں کی وجہ سے اب زراعت بھی ترقی کر رہی ہے۔ مشرق میں کیرتھر اور مغرب میں ہالی رینج کا پہاڑی علاقہ ہے جب کہ مرکز میں کچھ زرخیز زمین ہے جسے دریائے پورالی، ورہاب، پوہر اور ہنگول سیراب کرتے ہیں۔
دریائے پوہر اور ہنگول ضلع آواران کے دریا ہیں جو لسبیلہ سے گزر کہ بحیرہ عرب میں مل جاتے ہیں۔ مغرب میں واقع ساحلی پٹی دلدل اور مینگرو کے درختوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ زراعت کا زیادہ تر دارو مدار سیلابی پانی اور بارانی دریاؤں پر ہے۔ یہاں آپ کو زیادہ تر جوار اور بیج کی فصلیں ملیں گی۔ کہیں کہیں گندم بھی نظر آجائے گی۔ مقامی چرواہے بھیڑ، بکریاں اور اونٹ پالتے ہیں جب کہ سونمیانی علاقے کی ایک بہت بڑی مچھلی منڈی ہے۔
یہاں کی بڑی تعداد بلوچی، سندھی اور براہوی بولتی ہے۔ کچھ آبادی ایک مقامی زبان ''لاسی'' بھی بولتی ہے جسے سندھی کا ایک لہجہ مانا جاتا ہے۔
تاریخ داں کہتے ہیں کہ سکندرِاعظم لسبیلہ سے گزرا تھا جب وہ شمال مغربی ہندوستان کو فتح کرنے کے بعد واپس جا رہا تھا۔ 711 عیسوی میں عرب جنرل محمد بن قاسم بھی سندھ جاتے ہوئے لسبیلہ سے گزرے۔
1742 میں جام علی خان اول نے ریاست لسبیلہ کی بنیاد رکھی اور ان کی اولادوں نے 1955 تک اس ریاست پر حکم رانی کی۔ اکتوبر 1952 سے اکتوبر 1955 تک لسبیلہ، بلوچستان اسٹیٹ یونین کے اندر خودمختار ریاست کے طور پر رہی۔ 1955میں یہ ریاست مغربی پاکستان میں ضم ہو کر قلات ڈویژن کا حصہ بنا دی گئی۔
1962 میں لسبیلہ کے علاقے کو قلات سے الگ کر کے کراچی سے ملا کر ''کراچی بیلا'' ڈویژن بنا دیا گیا۔ 1970 میں جب دوبارہ صوبے بحال ہوئے تو لسبیلہ کو صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع بنا دیا گیا۔ اب میں آپ کو اس ضلع کی گم نام اور مشہور و معروف دونوں طرح کی جگہوں کی سیر کرواؤں گا۔ پہلے ہم کراچی سے گوادر کی طرف ساحلی علاقوں کی بات کریں گے اور پھر رخ کریں گے ضلع کے اندرونی علاقوں کا۔
٭ حب چوکی / حب ڈیم؛
بلوچستان کا چوتھا بڑا شہر حب، ضلع لسبیلہ کی مشہور تحصیل ہے جو کراچی کے ساتھ واقع ہے۔ اس کا پرانا نام حب چوکی تھا کیوںکہ یہاں پولیس اور کسٹم کی ایک چوکی ہوتی تھی جسے ''نکاہی'' کہتے تھے۔ دھڑا دھڑ صنعتیں اور فیکٹریاں قائم ہونے کے بعد اس قصبہ کا نام محض حب رہ گیا اور آج حب بلوچستان کے اہم ترین صنعتی علاقوں میں سے ایک ہے۔ حبکو پاور پلانٹ، بوسیکار آئل ریفائنری اور بڑی بڑی کمپنیوں کے پلانٹ یہاں موجود ہیں جس سے اس شہر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہاں مسلم اور ہندو آبادی کے ساتھ ساتھ مسیحی آبادی بھی رہائش پذیر ہے۔حب ڈیم یہاں کا مشہور پکنک اسپاٹ ہے جو سندھ بلوچستان سرحد پر دریائے حب پر واقع ہے اور پاکستان کا تیسرا بڑا بند ہے۔ حب بند صرف ایک آبی ذخیرہ ہی نہیں بلکہ ایک بہترین تفریحی مقام بھی ہے۔ تعطیلات کے دنوں میں کراچی سے کافی لوگ تفریح کے لیے یہاں آتے ہیں اور حب جھیل میں تیراکی، مچھلی کے شکار اور کشتی رانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ ہجرتی پرندوں کی ایک بڑی آماج گاہ ہے۔
٭ گڈانی شِپ بریکنگ یارڈ؛
کراچی سے چلیں تو 1 گھنٹے بعد گڈانی آئے گا جو تحصیل حب کی ایک چھوٹی سی ساحلی یونین کونسل ہے۔ یہاں ہندو اور مسلم دونوں آباد ہیں جن میں زیادہ تر لوگ ماہی گیری اور جہازرانی کی صنعت سے منسلک ہیں۔اسی ساحلی شہر میں دنیا کا ''تیسرا بڑا شپ بریکنگ یارڈ '' یعنی جہاز توڑنے والا علاقہ واقع ہے جو 10 کلومیٹر طویل ہے۔
یہاں جہاز توڑنے کے 132 پلاٹ موجود ہیں۔ 1980 تک گڈانی کا شپ بریکنگ یارڈ دنیا میں سب سے بڑا مانا جاتا تھا جو تیس ہزار سے زائد لوگوں کو روزگار فراہم کرتا تھا، تاہم بھارت اور چٹاگانگ (بنگلادیش) کے یارڈز میں زیادہ سہولیات کی فراہمی کے بعد یہ تیسرے نمبر پر آ گیا اور اس کی صلاحیت بھی کم ہو گئی۔ تقریباً 1 ملین ٹن سٹیل یہاں سے سالانہ بنیادوں پر حاصل کیا جاتا ہے جو مقامی مارکیٹوں میں ہی بک جاتا ہے۔ آج یہاں ایک سال میں سپر ٹینکر سمیت ہر قسم کے 125 جہاز توڑے جا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ گڈانی کا خوب صورت ریتلا ساحل بھی بہت مشہور ہے جو دریائے حب کے ساتھ واقع ہے۔
٭ سونمیانی؛
گڈانی کے بعد سونمیانی آتا ہے جو حب تحصیل کا حصہ ہے۔ یہ کراچی سے بذریعہ سڑک 45 میل کے فاصلے پر سمندر کنارے واقع ہے۔ یہ بحیرہ عرب کا شمالی ترین حصہ ہے۔ سونمیانی اپنے خوب صورت ساحلوں اور خلائی ریسرچ سنٹر کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے، سپارکو نے یہاں ایک راکٹ لانچنگ پیڈ بھی بنا رکھا ہے جہاں سے مختلف میزائل بھی لانچ کیے جا سکتے ہیں۔انگریزوں سے پہلے پورے وسط ایشیا میں اس جگہ کا چرچا ہوا کرتا تھا۔
یہاں سے بڑی بڑی بادبانی کشتیاں جن کو بلوچی میں ''بوجھی'' کہتے ہیں، ہندوستان، عرب، افریقہ اور خلیج فارس کی بندرگاہوں تک جاتی آتی تھیں۔راجا داہر کے خلاف کارروائی کے لیے عربوں نے اسی بندرگاہ پر اپنا لشکر اتارا تھا۔ 19 ویں صدی کے آغاز تک بلخ و بخارا اور افغانستان و ایران کا تجارتی مال کارواں کے ذریعے اس بندرگاہ پر آتا اور یہاں سے ترکمان، بلوچی گھوڑے اور اونٹ سبھی سونمیانی سے باہر بھیجے جاتے۔ اْن دنوں بولان اور مولہ کے راستے غیر محفوظ خیال کیے جاتے تھے۔
1805 میں پرتگال کے بحری قزاقوں نے یہ بندرگاہ لوٹ کر اسے آگ لگا دی۔ گل جنید جو بلوچوں کا سردار اور ماہر جہاز ران تھا، نے ان بحری قزاقوں سے یہاں کئی لڑائیاں لڑیں۔ برطانوی تسلط کے بعد اس بندرگاہ کی اہمیت ختم ہو گئی اور انگریزوں نے کراچی کی بندرگاہ کو جدید بنیادوں پر ترقی دے کر ریل کے ذریعے اسے اندرون ملک بڑے بڑے شہروں سے ملا دیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی سرحدوں کا تعین ہوا، جس سے کارواں کی آمدروفت بھی رک گئی، جس کے نتیجے میں بندرگاہ آہستہ آہستہ اُجڑ گئی۔
آج کل سون میانی ماہی گیری کے لیے مشہور ہے۔ یہاں بڑے بحری جہاز لنگرانداز نہیں ہوسکتے کیوںکہ ساحل کے نزدیک پانی کی گہرائی کم ہے۔ قدیم باسیوں کے مطابق ماضی میں اس جزیرے پر مچھلی کے شکار سے واپس آنے والے ماہی گیر آرام کی غرض سے قیام کرتے تھے، سمندر کے درمیان گہرے جزیرے پر سفید کیکڑے، فضاؤں میں محو پرواز سمندری پرندے اور پانی میں اٹکھیلیاں کرتی وہیل اور شارک مچھلیاں سحرزدہ کردیتی ہیں۔
حکومت بلوچستان نے جزیرے پر ٹینٹ سٹی جب کہ جیٹ سکی (پانی میں چلنے والی موٹرسائیکلیں)، واٹر اسپورٹس، ڈیزرٹ سفاری اور پیرا گلائڈ منصوبے پر کام شروع کردیا ہے جو مستقبل میں بلوچستان کے ساتھ کراچی کے شہریوں کے لیے بہترین تفریحی مقام ثابت ہوگا۔کراچی سے لگ بھگ 80 کلومیٹر کی دوری پر واقع بلوچستان کے ضلع لسبیلہ اور تحصیل سونمیانی کے قرب میں قدرتی جزیرہ چاروں اطراف سے نیلگوں سمندر اور ایک جانب سے لق ودق صحرا سے منسلک ہے جو بہت ہی خوبصورت امتزاج کا حامل دکھائی دیتا ہے۔
جزیرے کے عین اوپرگہرے پانی سے اپنے شکار کو اچک لینے کے لیے فضاؤں میں محوپرواز شور مچاتے سفید براق پرندے جبکہ نیچے ساحل پر دوڑتے بھاگتے سفید اورزردی مائل کیکڑے، وقفے وقفے سے سطح سمندر پر ابھرتی شرارتی وہیل شارک مچھلی کے غوطے ماحول کو سحرزدہ کردیتے ہیں مکینوں کے مطابق یہ قدرتی جزیرہ اس حوالے سے مشہور ہے کہ پورے ضلع لسبیلہ میں چاہے گرمی کا پارہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو اس جزیرے پر درجۂ حرارت متوازن رہتا ہے اور ہواؤں میں خنکی محسوس ہوتی ہے۔ خصوصاً شام کے وقت ڈوبتے سورج کا منظر سمندر کی لہروں پر زرد کرنیں بکھیر دیتا ہے۔اس دل فریب نظارے کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ساحلی مقام کے قدیم ماہی گیروں کے مطابق کھاڈی جزیرہ برسوں سے ایسی ہی حالت میں موجود ہے۔
٭ چندراگُپ آتش فشاں؛
یہ مٹی اور کیچڑ کا آتش فشاں ہے جسے ہندو دھرم کے مانے والے مقدس خیال کرتے ہیں اور ہنگلاج ماتا جاتے ہوئے اس گے ارد گرد خیمے گاڑھتے ہیں اور ایک رات لازمی قیام کرتے ہیں۔ اس نام کے دو آتش فشاں ہیں جو مکران کوسٹل ہائی وے سے ذرا ہٹ کے واقع ہیں اور چندراگُپ 1 اور 2 کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہندو اس کے دہانے میں ناریل پھینک کر منت مانگتے ہیں۔ چوںکہ اسے ہندو بھگوان شیوا کا مجسمہ مانا جاتا ہے اس لیے اب اس کا نام بابا چندراگُپ پڑ گیا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ یہاں جائے بغیر ہنگلاج ماتا کے مندر جانا برا شگون ہے۔
٭ سپت بندر / بُوجی کوہ؛
چندراگپ سے ذرا آگے بلوچستان کے ساحل پر ایک مشہور بیچ ہے جسے سپت بیچ کہتے ہیں۔ یہ بیچ اس انوکھی اور منفرد چٹان کی وجہ سے مشہور ہے جو اپنے چٹانی سلسلے سے الگ ریت کے اندر تنہا کھڑی ہے، یوں جیسے ریت میں سے درخت کی طرح نکل رہی ہو۔ یہ چٹان ''بُوجی کوہ'' کہلاتی ہے۔ یہاں آپ کو کیکڑے اور دوسری سمندری حیات وافر مقدار میں نظر آئے گی۔ یہ پاکستان میں موجود سمندری علاقوں کی منفرد خوب صورتی کی عکاسی کرتا ہے۔
٭ ہنگول نیشنل پارک؛
ساحلِ مکران کے ساتھ پھیلا ہِنگول نیشنل پارک بلوچستان اور پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو چھ لاکھ انیس ہزار ترتالیس (619043) ہیکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلومیٹر دور یہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اس کا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقہ کو 1988 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہنگول نیشنل پارک اس وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں چار مختلف قسم کے ماحولیاتی نظام ( ) پائے جاتے ہیں۔ ہندوؤں کا ہنگلاج مندر بھی اس پارک میں واقع ہے۔ اس پارک کو چلانے کے لیے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1 Marine Range
2 Aghor Range
3 Inland Range
یہ پارک طبعی طور پر چٹانوں، ریت کے ٹیلوں اور دریا کے ساتھ میدانوں وغیرہ میں بٹا ہوا ہے۔ ہنگول ندی، نیشنل پاک سے ہوکر گزرتی ہے اور سمندر میں گرنے سے پہلے ایک مدوجزر والا دہانہ بناتی ہے جو کئی ہجرت کرنے والے آبی پرندوں اور ہزاروں دلدلی مگرمچھوں کا مسکن ہے۔اس پارک کے جنگلی حیوانات میں پہاڑی بکرا، اڑیال، چنکارہ، جنگلی بلی، بِجّو، لمبے کان والا خارپْشت، لومڑی، گیڈر، بھیڑیا اور نیولا وغیرہ شامل ہیں۔ پرندوں میں تیتر، باز، چیل، مرغابی، سنہری شِکرا، کرگس، ترن، چہا، شاہین وغیرہ شامل ہیں۔ رینگے والے جانوروں میں دلدلی مگر مچھ، لمبی چھپکلی، موٹی زبان والی چھپکلی، وائپر اور کوبرا ناگ وغیرہ کے علاوہ کئی اور سمندری حیوانات جیسے کچھوا اور انواع و اقسام کی مچھلیاں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ نباتات میں تمریکس، پروسوپیز، زیزیپس اور کیکر موجود ہیں۔ یہاں چند نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جن کی طبی حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔ مقامی لوگ ان کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج دیسی طریقوں سے کرتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہنگول نیشنل پارک وہ واحد پارک ہے جہاں گیس اور مٹی خارج کرتے دلدلی آتش فشاں بھی پائے جاتے ہیں۔بلوچستان کے مشہور سیاحتی مقامات ''ساحلِ کُند ملیر'' اور ''اُمید کی شہزادی'' بھی یہاں واقع ہیں۔ دلکش چٹانوں کا مرکز یہ پارک واقعی ایک خوب صورت جگہ ہے جسے اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ سنہری ساحل، کُند ملیر؛
یہ خوب صورت ساحل ہنگول نیشنل پارک کی حدود میں واقع ہے جو اپنے سونے سے چمکتے ریتیلے ساحلوں کی بدولت جانا جاتا ہے۔ یہاں ایک طرف نیلا سمندر اور دوسری طرف سُنہرا ساحل واقع ہے جو قدرت کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ساحل سمندر دنیا کے حسین ترین ساحلوں میں گِنا جاتا ہے۔ یہاں پیٹرول اور کھانے پینے کی اشیاء جیسی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ حال ہی میں پاکستان کی کچھ ٹور کمپنیوں نے یہاں کے ٹور کروانا شروع کردیے ہیں جس کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ علاقہ آہستہ آہستہ ترقی کرنا شروع کر دے گا۔
٭ بلوچستان کا ابوالہلول؛
شیرِبلوچستان یا بلوچستان کا ابوالہلول بھی ایک قدرتی چٹان ہے جو مصر کے ابوالہلول کی شبیہہ دیتی ہے۔ یہ مجسمہ 2004 میں مکران کوسٹل ہائی وے بننے کے بعد دنیا کے سامنے آیا اور ایک عالم اس شاہراہ پر موجود عجوبے دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔
ماہرین کے مطابق یہاں ہونے والی بارشوں اور سمندری ہوائوں کی بدولت چٹانوں کی یہ شکلیں وجود میں آئی ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو بات کچھ اور معلوم ہوتی ہے۔ اس مجسمے کہ سر پہ ہو بہو ویسا ہی کلاہ (سر ڈھانپنے کا آرائشی لباس) نظر آئے گا جیسا مصری فرعون پہنا کرتے تھے۔ کانوں کے ساتھ لٹکتے فلیپس بھی واضح نظر آئیں گے۔ مجسمے کا دھڑ اور پنجے بھی بالکل ویسے ہی نظر آئیں گے جیسے مصر کے ابوالہلول کے ہیں۔
کیا واقعی یہ ایک اتفاق ہے یا پھر اس میں قدرت کا کوئی گہرا راز چھپا ہے؟
چٹان کے جس چبوترے پر یہ ایستادہ ہے وہ بھی حیرت انگیز ہے۔ اس چٹان کے ستون بھی ہیں اور اس کے پاس چھوٹی چھوٹی محرابیں بھی ہیں جن کے نیچے سیڑھیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ سب باتیں بلاشبہہ اس تھیوری کو جھٹلاتی نظر آتے ہیں کہ یہ مجسمہ محض قدرتی عوامل سے وجود میں آیا ہے۔ یہ کتنا قدیم ہے، کس تہذیب سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی کیا تاریخ ہے، اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
٭ امید کی شہزادی؛
گوادر کی طرف ضلع لسبیلہ کی حدود ختم ہونے سے کچھ پہلے مکران کوسٹل ہائی وے کے کنارے آپ کو ایک انسانی مجسمہ نما چٹان نظر آئے گی، یہ ''پرنسس آف ہوپ'' ہے جسے امید کی شہزادی بھی کہتے ہیں۔
ایک انسانی مجسمے کا روپ دھارے یہ قدرتی چٹان ہنگول نیشنل پارک کی حدود میں واقع ہے جسے امید کی شہزادی کا نام مشہور ہالی وڈ اداکارہ انجلینا جولی نے دیا تھا جو 2002 میں پاکستان کے دورے پر آئی تھیں۔یہ مکران کوسٹل ہائی وے کا ایک مشہور مقام ہے جس کی نقل کا ایک اور مجسمہ مکران کوسٹل ہائی وے اور اتھل روڈ کے جنکشن پر واقع ہے۔
٭ بُرزل پاس؛
کراچی سے گوادر یا اورمارہ جاتے ہوئے راستے میں دل کش اور حیرت انگیز چٹانوں کا سلسلہ آتا ہے جس کے بیچ میں سے ناگن کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑک نکلی جاتی ہے۔ یہ بلوچستان کا برزل پاس ہے جس کے ایک طرف بحیرۂ عرب کا نیلا سمندر تو دوسری جانب سُرمئی رنگ کی بھربھری چٹانیں واقع ہیں جو اسے ایک خواب ناک سی جگہ بناتی ہیں۔ یہ کْند ملیر سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
٭گوندرانی کے پراسرار غار؛
اگرچہ کم ہی سہی لیکن بلوچستان میں بھی چند مقامات پر بدھ مت کے آثار پائے گئے ہیں۔ان میں سرِفہرست گوندرانی کے غار ہیں جو ضلع لسبیلہ میں بیلا شہر سے 20 کلومیٹر شمال کی جانب دریائے کُرد کے کنارے واقع ہیں۔ اس جگہ کو ''مائی گوندرانی کا شہر''، ''شہرِ روغان'' اور ''روحوں کا مسکن'' بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر کی تاریخ کیا ہے اور یہ قدیم غار کس نے اور کب بنائیں؟ تاریخ داں اس بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہیں، لیکن ان کا قیاس ہے کہ یہاں 8 ویں صدی میں ایک عظیم بُدھ خانقاہ قائم تھی، چوںکہ تب یہ علاقہ بُدھ سلطنت کا حِصہ تھا سو اس قیاس کو سچ مانا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ بے شک ان غاروں میں بدھ مت کی خصوصیات پائی جاتی ہیں لیکن حتمی طور پر ہم انہیں بدھ مذہب سے منسلک نہیں کر سکتے۔
گوندرانی کی یہ غار جنہیں مقامی ''پُرانے گھر'' بھی کہتے ہیں، چٹانوں کے اندر چھوٹے چھوٹے کمروں کی صورت میں بنائی گئی ہیں اور آپس میں اندرونی راستوں سے جُڑی ہیں۔ انگریز راج میں ان کی تعداد 1500 بتائی گئی ہے لیکن آج ان کی تعداد 500 کے قریب ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج یہ مٹنے کے دہانے پر ہیں۔ مقامی افراد کا ماننا ہے کہ اس علاقے میں روحوں کا بسیرا ہے اور بہت سے لوگ اس بات کا مشاہدہ بھی کر چکے ہیں۔
٭ ہنگلاج ماتا کا مندر؛
لسبیلہ کے مغرب اور ہنگول نیشنل پارک کے وسط میں دریائے ہنگول کے کنارے ایک قدیم مندر واقع ہے جو ہنگلاج ماتا کا مندر کہلاتا ہے۔ ہنگلاج ماتا کو ''ہنگلاج دیوی''، ''ہنگولا دیوی'' اور ''نانی مندر'' بھی کہا جاتا ہے۔
یہ پاکستان میں واقع دو شکتی پیٹھ میں سے ایک ہے جسے درگا یا دیوی کا ایک اوتار مانا جاتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق ہنگلاج، پاروتی ماں کا کالی روپ ہے اور ہندو برادری اسے ہنگلاج دیوی کے نام سے پکارتے ہیں۔
مقامی ''ذکری'' روایات کے مطابق ہنگلاج نانی، لاہوت لامکاں میں آئی تھیں اور وہاں چلہ کشی کی۔ چوں کہ ذکری مذہب کے ماننے والے بھی ان کو صدیوں سے متبرک سمجھتا ہے، لہٰذا دونوں مذاہب کے پیروکار ان کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اس مندر کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ مندر ایک تنگ گھاٹی میں موجود غار کے اندر واقع ہے جہاں سِندور لگے ایک چھوٹے پتھر کو ہنگلاج ماتا کے طور پر پوجا جاتا ہے۔
''ہنگلاج یاترہ'' پاکستان میں ہندوؤں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں ہندو شرکت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مشہور صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی یہاں کا دورہ کیا تھا اور اس مندر کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا تھا۔
٭ لسبیلہ نیکروپولس؛
بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح لسبیلہ میں بھی کئی تاریخی عمارات واقع ہیں جن میں سے ایک لسبیلہ کے جام خاندان کے مقبرے بھی ہیں۔ یہاں ''بڑا باغ'' کے مقام پر لسبیلہ کے حکمرانوں کے مقبرے موجود ہیں جو نیکروپولس کہلاتے تھے۔ کسی ایسے بڑے اور قبرستان کو جہاں کئی مقبرے موجود ہوں، نیکروپولس کہتے ہیں۔
اس نیکروپولس میں سو سے زیادہ مقبرے واقع ہیں جن میں سے لگ بھگ چالیس کے قریب حکمران شاہی خاندان کے افراد کے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جام علی کوریجو نے اپنے آبائی علاقے ''کنراچ'' سے لسبیلہ پر حملہ کیا اور مائی چھاگلی سے یہ علاقہ چھین لیا جو برفت قبیلے کے ہیرو ملک پہاڑ خان برفت کی بیوی تھی۔ جام علی کوریجو نے اس علاقے میں جام خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھی اور پھر جام خاندان نے اس علاقے پر قریباً دو سو سال تک حکومت کی۔
اس وقت جام خاندان کے مقبرے منہدم ہونے کے قریب ہیں جنہیں انتہائی توجہ کی ضرورت ہے۔ میری حکومتِ بلوچستان سے یہ درخواست ہے کہ خدارا لسبیلہ کے اس تاریخی ورثے کو بچایا جائے۔
٭ اُتھل اور بیلا؛
ضلع کا اہم شہر بیلا، ایک قدیم شہر ہے جو پہاڑوں کے دامن میں آباد ہے۔ اس شہر کو عربوں نے ''ارمابل'' کے نام سے پکارا ہے جو زمانہ قدیم میں دیبل کے علاوہ سندھ کی دوسری بندرگاہ تھی۔ یہ علاقہ سندھ اور فارس کے بیچ ایک اہم تجارتی راستے پر واقع تھا۔ آج بھی شہر سے 10 میل دور شمال مغرب میں کچھ پتھر کے آثار ملتے ہیں جو قدیم عربوں کے قبضوں کی نشانی ہیں۔
اس شہر کے قرب و جوار میں مختلف دھاتیں پائی جاتی ہیں جن میں گیلینا، مینگنیز اور چاندی بھی شامل ہیں۔ محمد ابنِ ہارون کا مقبرہ بھی بیلا میں واقع ہے جو محمد بن قاسم کا جنرل تھا۔ یہ شہر پہلے ضلعی صدر مقام تھا جسے بعد میں اُتھل سے تبدیل کر دیا گیا۔
اُتھل شہر دریائے پورالی کے کنارے آباد ہے جو لسبیلہ کے جام خاندان کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ یہ شہر قالین اور کڑھائی والے کپڑوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے جب کہ علاقے کی سب سے بڑی درسگاہ ، زراعت، پانی اور سمندری سائنس کی یونیورسٹی (لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز) بھی اسی شہر میں واقع ہے جو 2005 میں قائم کی گئی تھی۔
ضلع سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات میں جام غلام قادر خان ( سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان)، جام محمد یوسف (سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان) ، جام علی اکبر اور بلوچستان کے موجودہ وزیرِاعلیٰ جام کمال خان شامل ہیں۔