گٹھیا کا علاج ایک سے بہتر 2 دوائیں
شدید متاثرہ مریضوں کو گٹھیا کی دوا کے ساتھ ’امیونوسپریسنٹ‘ قسم کی ایک دوا دینے پر بہت افاقہ ہوا
DUBAI:
امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اگر شدید اور ناقابلِ علاج گٹھیا کے مریضوں کو مدافعتی نظام کا ردِعمل محدود کرنے والی دوا کے ساتھ ساتھ گٹھیا کی ایک دوا 'کرسٹیکسا' بھی دی جائے تو انہیں فائدہ ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ خون میں یورک ایسڈ بڑھنے کی وجہ گٹھیا کا مرض لاحق ہوتا ہے جس کا سب سے نمایاں اثر جوڑوں میں سختی، درد اور سوجن کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
ویسے تو گٹھیا کی کئی دوائیں موجود ہیں لیکن اکثر مریضوں کےلیے 'کرسٹیکسا' (Krystexxa) نامی دوا تجویز کی جاتی ہے جو خون میں یورک ایسڈ کی مقدار کم کرتے ہوئے مریض کو آرام پہنچاتی ہے۔ تاہم بیماری سے بچانے والے قدرتی مدافعتی نظام (امیون سسٹم) کا ردِعمل اس دوا کی کارکردگی متاثر کرتے ہوئے اس میں کمی کردیتا ہے۔
اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مشی گن یونیورسٹی کی ڈاکٹر پوجا کھنّہ اور ان کے ساتھیوں نے گٹھیا سے شدید متاثرہ مریضوں پر 'کرسٹیکسا' کے ساتھ ساتھ امیون سسٹم کا ردِعمل کم کرنے والی ایک دوا بھی آزمانے کا فیصلہ کیا۔
محدود پیمانے کی اس تحقیق میں اوسطاً 55 سال کے ایسے 32 مریض بطور رضاکار شریک کیے گئے جو شدید گٹھیا میں مبتلا تھے۔
آن لائن ریسرچ جرنل 'آرتھرائٹس اینڈ ریومیٹولوجی' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 24 ہفتے تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں ان مریضوں کو ایک خاص ترتیب سے کرسٹیکسا اور امیون سسٹم کا ردِعمل محدود کرنے والی دوا 'ایم ایم ایف' دی گئیں۔
مطالعے کے اختتام پر 68 فیصد مریضوں کے خون میں نہ صرف یورک ایسڈ نمایاں طور پر کم ہوگیا بلکہ گٹھیا کے باعث ہونے والی شدید تکلیف بھی بہت کم رہ گئی۔
ڈاکٹر پوجا کہتی ہیں کہ نئی ادویہ کی تلاش ایک طویل اور وقت طلب معاملہ ہے جس میں دس سے بیس سال لگ جاتے ہیں۔
ایسے میں پہلے سے منظور شدہ مختلف دواؤں کو ایک ساتھ ملا کر استعمال کرنے کی حکمتِ عملی بھی کم خرچ پر اور کم وقت میں بہتر نتائج دے سکتی ہے۔
امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ اگر شدید اور ناقابلِ علاج گٹھیا کے مریضوں کو مدافعتی نظام کا ردِعمل محدود کرنے والی دوا کے ساتھ ساتھ گٹھیا کی ایک دوا 'کرسٹیکسا' بھی دی جائے تو انہیں فائدہ ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ خون میں یورک ایسڈ بڑھنے کی وجہ گٹھیا کا مرض لاحق ہوتا ہے جس کا سب سے نمایاں اثر جوڑوں میں سختی، درد اور سوجن کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
ویسے تو گٹھیا کی کئی دوائیں موجود ہیں لیکن اکثر مریضوں کےلیے 'کرسٹیکسا' (Krystexxa) نامی دوا تجویز کی جاتی ہے جو خون میں یورک ایسڈ کی مقدار کم کرتے ہوئے مریض کو آرام پہنچاتی ہے۔ تاہم بیماری سے بچانے والے قدرتی مدافعتی نظام (امیون سسٹم) کا ردِعمل اس دوا کی کارکردگی متاثر کرتے ہوئے اس میں کمی کردیتا ہے۔
اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مشی گن یونیورسٹی کی ڈاکٹر پوجا کھنّہ اور ان کے ساتھیوں نے گٹھیا سے شدید متاثرہ مریضوں پر 'کرسٹیکسا' کے ساتھ ساتھ امیون سسٹم کا ردِعمل کم کرنے والی ایک دوا بھی آزمانے کا فیصلہ کیا۔
محدود پیمانے کی اس تحقیق میں اوسطاً 55 سال کے ایسے 32 مریض بطور رضاکار شریک کیے گئے جو شدید گٹھیا میں مبتلا تھے۔
آن لائن ریسرچ جرنل 'آرتھرائٹس اینڈ ریومیٹولوجی' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 24 ہفتے تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں ان مریضوں کو ایک خاص ترتیب سے کرسٹیکسا اور امیون سسٹم کا ردِعمل محدود کرنے والی دوا 'ایم ایم ایف' دی گئیں۔
مطالعے کے اختتام پر 68 فیصد مریضوں کے خون میں نہ صرف یورک ایسڈ نمایاں طور پر کم ہوگیا بلکہ گٹھیا کے باعث ہونے والی شدید تکلیف بھی بہت کم رہ گئی۔
ڈاکٹر پوجا کہتی ہیں کہ نئی ادویہ کی تلاش ایک طویل اور وقت طلب معاملہ ہے جس میں دس سے بیس سال لگ جاتے ہیں۔
ایسے میں پہلے سے منظور شدہ مختلف دواؤں کو ایک ساتھ ملا کر استعمال کرنے کی حکمتِ عملی بھی کم خرچ پر اور کم وقت میں بہتر نتائج دے سکتی ہے۔