پی ایس ایل 6 ابوظہبی میں مکمل کرنے کا فیصلہ
پی سی بی نے پایا کم،گنوایا زیادہ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پوری پی ایس ایل کی یو اے ای سے وطن واپسی پر صرف کرکٹ شائقین ہی نہیں بلکہ پر پاکستانی خوشی سے سرشار تھا، ملکی وینیوز پر میلہ سج گیا تو شائقین کی بھرپور توجہ کا مرکز بھی بنا۔
اچانک کورونا کی انٹری ہوئی تو چوکوں چھکوں کی برسات تھم گئی،بالآخر طویل وقفہ کے بعد ونڈو تلاش کرتے ہوئے تماشائیوں کے بغیر اسٹیڈیمز میں ایونٹ مکمل کروایا گیا،پانچویں ایڈیشن کے التواء اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں پی سی بی حکام اور فرنچائز ٹیموں کے لیے ایک سبق تھا۔
رواں سال چھٹے ایڈیشن سے قبل بائیو سکیورٹی کے بلند بانگ دعوے کیے گئے لیکن انتظامی امور میں اتنے جھول تھے کہ کورونا کیسز بڑھنے پر بالآخر ایونٹ کو ملتوی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، ہوٹلز میں کھلاڑیوں اور معاون سٹاف ارکان کے ساتھ عام افراد کے قیام، شادی اور سالگرہ کی تقریبات، فیملیز کی آمد، فرنچائز کے مالکان اور کھلاڑیوں کی طرف سے ایس او پیز کی خلاف ورزیوں سمیت کئی سنگین غلطیوں کی وجہ سے بائیو ببل ٹوٹ گیا۔
کراچی میں جاری میلہ اجڑنے سے نہ صرف کہ پی سی بی اور فرنچائز بلکہ پاکستان کرکٹ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ کورونا کے دور میں بائیو سیکیورٹی کا پہلا تجربہ کرنے والے انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی میزبانی کرکے ایک مثال قائم کی تھی،ملک میں وائرس کا پھیلاؤ عروج پر ہونے کے باوجود محفوظ ترین بائیو ببل کا پہلا تجربہ ہی کامیاب کرتے ہوئے دیگر ملکوں کو سیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا۔
ذاتی اور دنیا کے تجربات سامنے ہونے کی وجہ سے پاکستان رواں سال پی ایس ایل 6کے دوران بائیو سیکیورٹی کو فول پروف بنانے کیلئے بہترین انتظامات کر سکتا تھا لیکن منتظمین کی زیادہ تر توجہ مالی مفادات کے تحفظ پر مرکوز رہی، کورونا وائرس کے معاملات انتہائی پیچیدہ ہونے کے باوجود ان کو آسان لیا گیا،ایونٹ ملتوی ہونے سے لگنے والے اس زخم کو بھرنا بہت مشکل ہے، اگر ایسا ہو بھی گیا تو نشان کبھی ختم نہیں ہوگا۔
فرنچائزز کی جانب سے باقی میچز یو اے ای میں شیڈول کرنے کا مطالبہ پی سی بی کی انتظامی صلاحیتوں پر عدم اعتماد کا اظہار بھی ہے، ایونٹ امارات میں کروانے سے سپانسرز اور میڈیا رائٹس سمیت معاہدے کی رقم تو حاصل ہوجائے گی مگر بس یہ تو مجموعی پاکستان کرکٹ کو پہنچنے والے نقصان کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
پی سی بی اور تمام ٹیموں کے نمائندگان نے مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے سر جوڑ کر بیٹھتے ہوئے ایونٹ ابوظہبی میں کروانے کی مہم شروع کرتو دی لیکن شاید کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ یواے ای کے حکام پی ایس ایل کے استقبال کیلئے باہیں پھیلائے نہیں کھڑے ہوں گے،سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ کراچی میں میچز یکم سے 20جون تک مکمل کرنے کا پلان تھا تاکہ قومی ٹیم کا دورہ انگلینڈ شروع ہونے سے قبل قومی کرکٹرز فارغ ہوجائیں۔
ابوظہبی میں میچز کے پلان پر رابطوں کا آغاز ہوا تب بھی منیجمنٹ کے ذہن میں یہی تھا کہ قبل ازیں بنایا جانے والا شیڈول تبدیل نہیں کرنا پڑے گا، کورونا ویکسی نیشن، قرنطینہ کی مدت، بھارت اور جنوبی افریقہ سے آنے والے براڈ کاسٹرز کیلئے خصوصی استثنٰی سمیت کئی معاملات میں مقامی حکومت کی اجازت درکار تھی،اس عمل میں پی سی بی کو گرین سگنل تو مل گیا مگر کڑی شرائط کی وجہ سے مختلف امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانا مشکل نظر آرہا تھا۔
بالآخر فیصلہ ہوا کہ اگر 24گھنٹے میں مطلوبہ استثنٰی حاصل نہیں ہوتے تو باقی میچز کو موخر کرتے ہوئے نئی ونڈو تلاش کی جائے گی، پاکستان ٹیم کی انٹرنیشنل مصروفیات کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کوئی آسان کام نہیں تھا، آخر کار یواے ای کی ہاں نے پی سی بی اور فرنچائزز کی سانسیں بحال کردیں،اگلا مرحلہ لاجسٹک مسائل کا تھا،ایونٹ کیلئے کھلاڑیوں، معاون اسٹاف ارکان اور دیگر متعقلہ عملہ سمیت 400کے قریب افراد کو ابوظہبی میں پہنچنا ہے،ان میں غیر ملکی کرکٹرز کے اپنے ملک سے سفر کے انتظامات بھی شامل ہیں۔
ابوظہبی میں بڑے پیمانے پر قیام و طیام کی سہولیات فراہم بھی ایک کٹھن کام ہے،سب سے مشکل مرحلہ ایونٹ کے دوران بائیو سیکیورٹی برقرار رکھنے کا ہوگا،گرچہ اس کیلئے ایک غیرملکی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں مگر پی سی بی منیجمنٹ اور فرنچائزز کے اسکواڈز پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوگی،اخراجات میں بے پناہ اضافہ کے باوجود ایونٹ کا مکمل ہونا خوش آئند ہوگا۔
پاکستان نے بڑی سخت محنت سے غیرملکی ٹیموں کے سیکیورٹی خدشات دور کئے ہیں، بتدریج سفر آگے بڑھنے کے بعد جنوبی افریقہ جیسی بڑی ٹیم کی آمد سے دیگر میں ٹورز کیلئے اعتماد بحال ہورہا تھا مگر بائیو سیکیورٹی میں ناکامیوں نے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے عمل پر بھی کاری ضرب لگائی ہے،پاکستان کی اپنی لیگ کسی دوسرے ملک میں ہونے کے بعد انٹرنیشنل ٹیموں کو ٹورز کیلئے قائل کرنا آسان نہیں ہوگا۔
اسی لیے ذکاء اشرف اور خالد محمود جیسے پی سی بی کے سابق سربراہان نے پی ایس ایل کے باقی میچز یواے ای میں کروانے کی مخالفت کی ہے،ان کا موقف ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے پاکستان کا سفر متاثر ہوگا،چند سابق کرکٹرز کی بھی رائے یہی ہے،بہرحال اب ابوظہبی میں میچز کروانے کا فیصلہ کرہی لیا گیا ہے تو ایونٹ کا کامیابی سے مکمل ہونا پی سی بی اور پی ایس ایل فرنچائز دونوں کی ساکھ کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اچانک کورونا کی انٹری ہوئی تو چوکوں چھکوں کی برسات تھم گئی،بالآخر طویل وقفہ کے بعد ونڈو تلاش کرتے ہوئے تماشائیوں کے بغیر اسٹیڈیمز میں ایونٹ مکمل کروایا گیا،پانچویں ایڈیشن کے التواء اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں پی سی بی حکام اور فرنچائز ٹیموں کے لیے ایک سبق تھا۔
رواں سال چھٹے ایڈیشن سے قبل بائیو سکیورٹی کے بلند بانگ دعوے کیے گئے لیکن انتظامی امور میں اتنے جھول تھے کہ کورونا کیسز بڑھنے پر بالآخر ایونٹ کو ملتوی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، ہوٹلز میں کھلاڑیوں اور معاون سٹاف ارکان کے ساتھ عام افراد کے قیام، شادی اور سالگرہ کی تقریبات، فیملیز کی آمد، فرنچائز کے مالکان اور کھلاڑیوں کی طرف سے ایس او پیز کی خلاف ورزیوں سمیت کئی سنگین غلطیوں کی وجہ سے بائیو ببل ٹوٹ گیا۔
کراچی میں جاری میلہ اجڑنے سے نہ صرف کہ پی سی بی اور فرنچائز بلکہ پاکستان کرکٹ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ کورونا کے دور میں بائیو سیکیورٹی کا پہلا تجربہ کرنے والے انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی میزبانی کرکے ایک مثال قائم کی تھی،ملک میں وائرس کا پھیلاؤ عروج پر ہونے کے باوجود محفوظ ترین بائیو ببل کا پہلا تجربہ ہی کامیاب کرتے ہوئے دیگر ملکوں کو سیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا۔
ذاتی اور دنیا کے تجربات سامنے ہونے کی وجہ سے پاکستان رواں سال پی ایس ایل 6کے دوران بائیو سیکیورٹی کو فول پروف بنانے کیلئے بہترین انتظامات کر سکتا تھا لیکن منتظمین کی زیادہ تر توجہ مالی مفادات کے تحفظ پر مرکوز رہی، کورونا وائرس کے معاملات انتہائی پیچیدہ ہونے کے باوجود ان کو آسان لیا گیا،ایونٹ ملتوی ہونے سے لگنے والے اس زخم کو بھرنا بہت مشکل ہے، اگر ایسا ہو بھی گیا تو نشان کبھی ختم نہیں ہوگا۔
فرنچائزز کی جانب سے باقی میچز یو اے ای میں شیڈول کرنے کا مطالبہ پی سی بی کی انتظامی صلاحیتوں پر عدم اعتماد کا اظہار بھی ہے، ایونٹ امارات میں کروانے سے سپانسرز اور میڈیا رائٹس سمیت معاہدے کی رقم تو حاصل ہوجائے گی مگر بس یہ تو مجموعی پاکستان کرکٹ کو پہنچنے والے نقصان کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
پی سی بی اور تمام ٹیموں کے نمائندگان نے مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے سر جوڑ کر بیٹھتے ہوئے ایونٹ ابوظہبی میں کروانے کی مہم شروع کرتو دی لیکن شاید کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ یواے ای کے حکام پی ایس ایل کے استقبال کیلئے باہیں پھیلائے نہیں کھڑے ہوں گے،سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ کراچی میں میچز یکم سے 20جون تک مکمل کرنے کا پلان تھا تاکہ قومی ٹیم کا دورہ انگلینڈ شروع ہونے سے قبل قومی کرکٹرز فارغ ہوجائیں۔
ابوظہبی میں میچز کے پلان پر رابطوں کا آغاز ہوا تب بھی منیجمنٹ کے ذہن میں یہی تھا کہ قبل ازیں بنایا جانے والا شیڈول تبدیل نہیں کرنا پڑے گا، کورونا ویکسی نیشن، قرنطینہ کی مدت، بھارت اور جنوبی افریقہ سے آنے والے براڈ کاسٹرز کیلئے خصوصی استثنٰی سمیت کئی معاملات میں مقامی حکومت کی اجازت درکار تھی،اس عمل میں پی سی بی کو گرین سگنل تو مل گیا مگر کڑی شرائط کی وجہ سے مختلف امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانا مشکل نظر آرہا تھا۔
بالآخر فیصلہ ہوا کہ اگر 24گھنٹے میں مطلوبہ استثنٰی حاصل نہیں ہوتے تو باقی میچز کو موخر کرتے ہوئے نئی ونڈو تلاش کی جائے گی، پاکستان ٹیم کی انٹرنیشنل مصروفیات کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کوئی آسان کام نہیں تھا، آخر کار یواے ای کی ہاں نے پی سی بی اور فرنچائزز کی سانسیں بحال کردیں،اگلا مرحلہ لاجسٹک مسائل کا تھا،ایونٹ کیلئے کھلاڑیوں، معاون اسٹاف ارکان اور دیگر متعقلہ عملہ سمیت 400کے قریب افراد کو ابوظہبی میں پہنچنا ہے،ان میں غیر ملکی کرکٹرز کے اپنے ملک سے سفر کے انتظامات بھی شامل ہیں۔
ابوظہبی میں بڑے پیمانے پر قیام و طیام کی سہولیات فراہم بھی ایک کٹھن کام ہے،سب سے مشکل مرحلہ ایونٹ کے دوران بائیو سیکیورٹی برقرار رکھنے کا ہوگا،گرچہ اس کیلئے ایک غیرملکی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں مگر پی سی بی منیجمنٹ اور فرنچائزز کے اسکواڈز پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوگی،اخراجات میں بے پناہ اضافہ کے باوجود ایونٹ کا مکمل ہونا خوش آئند ہوگا۔
پاکستان نے بڑی سخت محنت سے غیرملکی ٹیموں کے سیکیورٹی خدشات دور کئے ہیں، بتدریج سفر آگے بڑھنے کے بعد جنوبی افریقہ جیسی بڑی ٹیم کی آمد سے دیگر میں ٹورز کیلئے اعتماد بحال ہورہا تھا مگر بائیو سیکیورٹی میں ناکامیوں نے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے عمل پر بھی کاری ضرب لگائی ہے،پاکستان کی اپنی لیگ کسی دوسرے ملک میں ہونے کے بعد انٹرنیشنل ٹیموں کو ٹورز کیلئے قائل کرنا آسان نہیں ہوگا۔
اسی لیے ذکاء اشرف اور خالد محمود جیسے پی سی بی کے سابق سربراہان نے پی ایس ایل کے باقی میچز یواے ای میں کروانے کی مخالفت کی ہے،ان کا موقف ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے پاکستان کا سفر متاثر ہوگا،چند سابق کرکٹرز کی بھی رائے یہی ہے،بہرحال اب ابوظہبی میں میچز کروانے کا فیصلہ کرہی لیا گیا ہے تو ایونٹ کا کامیابی سے مکمل ہونا پی سی بی اور پی ایس ایل فرنچائز دونوں کی ساکھ کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔