کنٹرولڈ معیشت کا آپشن
حکومت اپنی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ وہ کسی طرح ملکی معیشت کو مستحکم کر لے لیکن کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ بن جاتا ہے۔
اسلام آباد میں گزشتہ روز نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں ملکی معیشت کے حوالے سے اطمینان بخش اعداد وشمار بیان کیے گئے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال معیشت کے تینوں شعبوں زراعت، صنعت اور خدمات میں گروتھ بالترتیب 2.77 فیصد، 3.57 فیصد اور 4.43 فیصد رہی، رواں مالی سال کے دوران اہم اجناس کی گروتھ میں4.65 فیصد رہی، گندم، چاول، گنا اور مکئی کی پیداوار میں یہ اضافہ بالترتیب 8.1 فیصد، 13.6فیصد، 22.0 فیصد اور 7.38 فیصد رہا ہے تاہم کپاس کی پیداوار میں 22.8 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جس کے نتیجہ میں کپاس کی جننگ میں بھی 15.6فیصد کی کمی واقع ہوئی۔دوسری فصلوں (سبزیاں، پھل اور سبز چارہ جات وغیرہ) میں 1.41فیصد کی مثبت شرح نمو ہوئی ہے، اس کی بنیادی وجہ سبزیوں کی پیداوار کا نمایاں اضافہ ہے۔
لائیواسٹاک سیکٹر میں 3.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ جنگلات میں 1.4فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی صنعتی شعبہ میں 3.57 فیصد کی مثبت شرح نمو رہی ہے۔ کان کنی اور کھدائی کے شعبہ میں ویلیو ایڈڈ میں 6.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔بڑی صنعتوں کی پیداوار میں رواں مالی سال 9.29 فیصدگروتھ ریکارڈ کی گئی،اس نمو میں اہم شراکت دار ٹیکسٹائل 5.9 فی صد، فوڈ بیوریج اینڈ ٹوبیکو 11.73فی صد، پیٹرولیم مصنوعات 12.71فیصد، دواسازی 12.57فیصد ، کیمیکلز 11.65فیصد، غیر دھاتی معدنی مصنوعات کی شرح ترقی24.31فیصد رہی ہے۔
اسی طرح آٹوموبائلزکے شعبہ کی شرح نمو 23.38 فیصد اور کھادکی 5.69 فیصد رہی۔ بجلی اور گیس کے ذیلی شعبہ میں 22.96 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ ڈسکوز کو حکومت کی طرف سے سبسڈی میں کمی، پیداوار میں کم اضافہ اور درمیانی کھپت میں زیادہ متناسب اضافہ ہے۔ تعمیراتی سرگرمیوں میں 8.34 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ عام سرکاری اخراجات اور نجی شعبہ کے تعمیراتی کاموں سے متعلق اخراجات میں اضافہ ہے۔
رواں مالی سال فی کس آمدنی کا تخمینہ 2لاکھ 46ہزار 414 روپے لگایا گیا ہے،جو گزشتہ مالی سال کی نسبت 14.6فیصد زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران فی کس آمدنی 2لاکھ 15ہزار 60 روپیرہی تھی،ڈالرزکی مد میںبھی فی کس آمدنی میں 13.4فیصد کا اضافہ ہوا ہے، گزشتہ مالی سال فی کس آمدنی1361ڈالر تھی جو رواں مالی سال کے دوران بڑھ کر 1543ڈالر کا تخمینہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو اپنے ٹویٹ میں کہا کہ کورونا کے باوجود بلند جی ڈی پی گروتھ ہماری کامیاب معاشی پالیسیوں کی عکاس ہے۔ نیشنل اکانٹس کمیٹی نے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں نمو کے اندازے کوحتمی شکل دیتے ہوئے اس کے3.94 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے۔یہ شرح نمو ہماری "V" (وکٹری)شکل کی معاشی بحالی زراعت، صنعت اورخدمات جیسے تینوں بڑے شعبوں کے درمیان توازن پر محیط ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسدعمر نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے دوران معاشی صورتحال کو درپیش چیلنجز کے باوجود 3.94 فیصد جی ڈی پی گروتھ عمران خان حکومت کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مجموعی معیشت کا حجم بھی 263 ارب ڈالر سے بڑھ کر296ارب ڈالر ہوگیا ہے ۔ شرح نمو میں میں اضافے اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہونے سے فی کس آمدنی میں 13.4فیصدنمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ فی کس آمدنی1361ڈالر سے بڑھ کر 1543ڈالر ہو گئی۔معاشی پیداوارمیں اضافہ روپے کی بڑھتی قدرکی وجہ ہے۔
وفاقی وزیرتوانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے رواں سال کی جی ڈی پی شرح نمو کا تخمینہ تقریباً 4فیصد لگایا ہے۔ماضی کے برعکس معیشت کی تیزی سے ترقی بڑھتے بیرونی خسارے اور کم ہوتے زرمبادلہ کا باعث نہیں بنی، مستقبل میں انشاللہ معاشی ترقی کی رفتار مزید تیز ہو گی۔
پاکستان معیشت کی مندرجہ بالا تصویر بہت خوش کن نظر آتی ہے۔ کورونا وباء نے ملک میں جاری کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ویسے بھی جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے، مالی مشکلات میں کمی کے بجائے بڑھوتری نظر آتی ہے۔ حکومت اپنی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ وہ کسی طرح ملکی معیشت کو مستحکم کر لے لیکن کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے معاملات گڑبڑ ہو جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے آئی ایم ایف کی امداد انتہائی ضروری تھی لیکن پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملہ طوالت اختیار کرتے گئے اور ادھر ملکی معیشت پر دباؤ بھی بڑھتا رہا۔
اس وقت وزیر خزانہ کا قلمدان اسد عمر کے پاس تھا۔ پھر یہ ذمے داری حفیظ شیخ کے سپرد ہوئی اور اب شوکت ترین ملک کے وزیرخزانہ ہیں۔ حکومت کے اقتدار کو بھی تقریباً تین سال ہونے والے ہیں لیکن معیشت کے حوالے سے اچھی اطلاعات نہیں مل رہیں۔ اب نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں جو کچھ بتایا گیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری کا آغاز ہو چکا ہے اور جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، ملکی معیشت بہتر ہوتی چلی جائے گی۔
ملکی معیشت اعداد و شمار میں تو بہتری کی جانب گامزن نظر آتی ہے لیکن گراس روٹ لیول تک معاشی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو صورت حال تاحال بہتر نظر نہیں آ رہی۔ کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں، تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کر دیا گیا ہے لیکن فی الحال وہ فعال نہیں ہیں۔ کورونا وباء کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اب ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ حکومت نے مرحلہ وار معاشی سرگرمیوں کی اجازت دینی شروع کر دی ہے۔ عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق عید الفطر کے بعد بھی ملک میں مہنگائی میں اضافے کا رجحان جاری رہا ۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں 0.82فیصد اضافہ ہوگیا ہے اور سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح بڑھ کر 17.23 فیصد ہوگئی ہے جب کہ آٹے، انڈے،موسمی سبزیاں، چینی، دالیں، دودھ، گوشت،گھی اور کوکنگ آئل ،گڑ، ماچس کی ڈبیا،باسمتی ٹوٹا چاول،چائے کی پتی سمیت مجموعی طور پر25اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
ملکی معیشت کے حوالے سے اصل حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی ڈی ریگولیشن پالیسی کے باعث ملکی معیشت عدم استحکام کا شکار رہتی ہے۔ مستحکم معیشت کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے پاکستان کو کنٹرولڈ معیشت کی جانب جانا ہو گا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ معیشت کو چلانے والی بنیادی حرکیات حکومتی کنٹرول سے باہر ہیں یا حکومت نے ایسی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ بہت سی حرکیات کو منضبط نہیں کر سکتی۔
اگر حکومت ملکی معیشت میں استحکام لانے میں سنجیدہ اور پرعزم ہے تو اسے سب سے پہلے بنیادی معاشی حرکیات کو اپنے کنٹرول میں لینا ہو گا۔ پٹرولیم مصنوعات اور توانائی کی دیگر آئٹمز کے نرخ سالانہ بنیادوں پر قومی بجٹ میں طے کر دیے جانے چاہئیں۔ اس کے نتیجے میں معیشت کے ہر شعبے میں استحکام آئے گا۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی سالانہ بنیادوں پر بآسانی مقرر کیے جا سکیں گے۔ یوں کاروباری اور مینوفیکچررز طبقے کے نقل و حمل کے اخراجات پورا سال مستحکم رہیں گے۔
بجلی اور گیس کے نرخ بھی قومی بجٹ میں سالانہ بنیادوں پر مقرر ہونے چاہئیں۔ اس کے نتیجے میں صنعت کاروں اور کاروباری طبقے کے اخراجات پورا سال مستحکم رہیں گے اور عام صارفین بھی کم ازکم پورا سال بآسانی اپنا توانائی کا خرچ متعین کر سکتے ہیں۔ مارکیٹ اکانومی یا منڈی کی معیشت کے رولز اور ریگولیشن میں ریاست اور حکومت کا کردار ہونا اشد ضروری ہے۔ صرف توانائی، یعنی بجلی، گیس، ایل پی جی، مٹی کا تیل، ڈیزل، کوئلہ وغیرہ کے نرخ سالانہ بنیادوں پر طے کر دیے جائیں تو معیشت فوری طور پر استحکام حاصل کر لے گی۔ اس سے صنعت کاروں، تھوک کاروبار، ریٹیلرز اور کسانوں کی شرح پیداوار اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات مستحکم رہیں گے۔
گھریلو صارفین کے اخراجات بھی سالانہ بنیادوں پر متعین رہیں گے۔ پھر حکومت کو بعض اشیاء جیسے چکن اور بلڈنگ میٹریلز کے ریٹ بھی روزانہ کی بنیاد پر طے کرنے کے بجائے سالانہ بنیادوں پر کرنے چاہئیں۔ ان اقدامات کے علاوہ حکومت لارج اسکیل پیداواری سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے پانچ سالہ مربوط اور ٹھوس ترقیاتی منصوبہ بنایا جانا چاہیے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میںملکی معیشت چند اجارہ داروں کے رحم و کرم پر نہیں ہونی چاہیے یا معیشت کو بے لگام مارکیٹ فورسز کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے۔ درمیانے اور نچلے طبقے کے معاشی مفادات کا تحفظ کرنا ریاست کی آئینی اور اولین ذمے داری ہے۔ اگر ریاست اور حکومت ملکی معیشت کے حوالے سے محض ایک نگران یا ریگولیٹر کا کردار ادا کرے گی تو درحقیقت یہ کردار نمائشی اور تماشائی کی حیثیت سے زیادہ نہیں ہے۔
یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں مارکیٹ اکانومی موجود ہے۔ وہاں مارکیٹ فورسز اپنا معاشی کردار ادا کر رہی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ بے لگام ہو۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، سویڈن، ناروے اور ڈنمارک وغیرہ میں ریاست عوامی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور اپنا کردار بھی ادا کرتی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال معیشت کے تینوں شعبوں زراعت، صنعت اور خدمات میں گروتھ بالترتیب 2.77 فیصد، 3.57 فیصد اور 4.43 فیصد رہی، رواں مالی سال کے دوران اہم اجناس کی گروتھ میں4.65 فیصد رہی، گندم، چاول، گنا اور مکئی کی پیداوار میں یہ اضافہ بالترتیب 8.1 فیصد، 13.6فیصد، 22.0 فیصد اور 7.38 فیصد رہا ہے تاہم کپاس کی پیداوار میں 22.8 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جس کے نتیجہ میں کپاس کی جننگ میں بھی 15.6فیصد کی کمی واقع ہوئی۔دوسری فصلوں (سبزیاں، پھل اور سبز چارہ جات وغیرہ) میں 1.41فیصد کی مثبت شرح نمو ہوئی ہے، اس کی بنیادی وجہ سبزیوں کی پیداوار کا نمایاں اضافہ ہے۔
لائیواسٹاک سیکٹر میں 3.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ جنگلات میں 1.4فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی صنعتی شعبہ میں 3.57 فیصد کی مثبت شرح نمو رہی ہے۔ کان کنی اور کھدائی کے شعبہ میں ویلیو ایڈڈ میں 6.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔بڑی صنعتوں کی پیداوار میں رواں مالی سال 9.29 فیصدگروتھ ریکارڈ کی گئی،اس نمو میں اہم شراکت دار ٹیکسٹائل 5.9 فی صد، فوڈ بیوریج اینڈ ٹوبیکو 11.73فی صد، پیٹرولیم مصنوعات 12.71فیصد، دواسازی 12.57فیصد ، کیمیکلز 11.65فیصد، غیر دھاتی معدنی مصنوعات کی شرح ترقی24.31فیصد رہی ہے۔
اسی طرح آٹوموبائلزکے شعبہ کی شرح نمو 23.38 فیصد اور کھادکی 5.69 فیصد رہی۔ بجلی اور گیس کے ذیلی شعبہ میں 22.96 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ ڈسکوز کو حکومت کی طرف سے سبسڈی میں کمی، پیداوار میں کم اضافہ اور درمیانی کھپت میں زیادہ متناسب اضافہ ہے۔ تعمیراتی سرگرمیوں میں 8.34 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ عام سرکاری اخراجات اور نجی شعبہ کے تعمیراتی کاموں سے متعلق اخراجات میں اضافہ ہے۔
رواں مالی سال فی کس آمدنی کا تخمینہ 2لاکھ 46ہزار 414 روپے لگایا گیا ہے،جو گزشتہ مالی سال کی نسبت 14.6فیصد زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران فی کس آمدنی 2لاکھ 15ہزار 60 روپیرہی تھی،ڈالرزکی مد میںبھی فی کس آمدنی میں 13.4فیصد کا اضافہ ہوا ہے، گزشتہ مالی سال فی کس آمدنی1361ڈالر تھی جو رواں مالی سال کے دوران بڑھ کر 1543ڈالر کا تخمینہ ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو اپنے ٹویٹ میں کہا کہ کورونا کے باوجود بلند جی ڈی پی گروتھ ہماری کامیاب معاشی پالیسیوں کی عکاس ہے۔ نیشنل اکانٹس کمیٹی نے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں نمو کے اندازے کوحتمی شکل دیتے ہوئے اس کے3.94 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے۔یہ شرح نمو ہماری "V" (وکٹری)شکل کی معاشی بحالی زراعت، صنعت اورخدمات جیسے تینوں بڑے شعبوں کے درمیان توازن پر محیط ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسدعمر نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے دوران معاشی صورتحال کو درپیش چیلنجز کے باوجود 3.94 فیصد جی ڈی پی گروتھ عمران خان حکومت کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مجموعی معیشت کا حجم بھی 263 ارب ڈالر سے بڑھ کر296ارب ڈالر ہوگیا ہے ۔ شرح نمو میں میں اضافے اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہونے سے فی کس آمدنی میں 13.4فیصدنمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ فی کس آمدنی1361ڈالر سے بڑھ کر 1543ڈالر ہو گئی۔معاشی پیداوارمیں اضافہ روپے کی بڑھتی قدرکی وجہ ہے۔
وفاقی وزیرتوانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے رواں سال کی جی ڈی پی شرح نمو کا تخمینہ تقریباً 4فیصد لگایا ہے۔ماضی کے برعکس معیشت کی تیزی سے ترقی بڑھتے بیرونی خسارے اور کم ہوتے زرمبادلہ کا باعث نہیں بنی، مستقبل میں انشاللہ معاشی ترقی کی رفتار مزید تیز ہو گی۔
پاکستان معیشت کی مندرجہ بالا تصویر بہت خوش کن نظر آتی ہے۔ کورونا وباء نے ملک میں جاری کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ویسے بھی جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے، مالی مشکلات میں کمی کے بجائے بڑھوتری نظر آتی ہے۔ حکومت اپنی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ وہ کسی طرح ملکی معیشت کو مستحکم کر لے لیکن کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے معاملات گڑبڑ ہو جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے آئی ایم ایف کی امداد انتہائی ضروری تھی لیکن پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملہ طوالت اختیار کرتے گئے اور ادھر ملکی معیشت پر دباؤ بھی بڑھتا رہا۔
اس وقت وزیر خزانہ کا قلمدان اسد عمر کے پاس تھا۔ پھر یہ ذمے داری حفیظ شیخ کے سپرد ہوئی اور اب شوکت ترین ملک کے وزیرخزانہ ہیں۔ حکومت کے اقتدار کو بھی تقریباً تین سال ہونے والے ہیں لیکن معیشت کے حوالے سے اچھی اطلاعات نہیں مل رہیں۔ اب نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں جو کچھ بتایا گیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری کا آغاز ہو چکا ہے اور جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، ملکی معیشت بہتر ہوتی چلی جائے گی۔
ملکی معیشت اعداد و شمار میں تو بہتری کی جانب گامزن نظر آتی ہے لیکن گراس روٹ لیول تک معاشی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو صورت حال تاحال بہتر نظر نہیں آ رہی۔ کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں، تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کر دیا گیا ہے لیکن فی الحال وہ فعال نہیں ہیں۔ کورونا وباء کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اب ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ حکومت نے مرحلہ وار معاشی سرگرمیوں کی اجازت دینی شروع کر دی ہے۔ عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق عید الفطر کے بعد بھی ملک میں مہنگائی میں اضافے کا رجحان جاری رہا ۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں 0.82فیصد اضافہ ہوگیا ہے اور سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح بڑھ کر 17.23 فیصد ہوگئی ہے جب کہ آٹے، انڈے،موسمی سبزیاں، چینی، دالیں، دودھ، گوشت،گھی اور کوکنگ آئل ،گڑ، ماچس کی ڈبیا،باسمتی ٹوٹا چاول،چائے کی پتی سمیت مجموعی طور پر25اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
ملکی معیشت کے حوالے سے اصل حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی ڈی ریگولیشن پالیسی کے باعث ملکی معیشت عدم استحکام کا شکار رہتی ہے۔ مستحکم معیشت کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے پاکستان کو کنٹرولڈ معیشت کی جانب جانا ہو گا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ معیشت کو چلانے والی بنیادی حرکیات حکومتی کنٹرول سے باہر ہیں یا حکومت نے ایسی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ بہت سی حرکیات کو منضبط نہیں کر سکتی۔
اگر حکومت ملکی معیشت میں استحکام لانے میں سنجیدہ اور پرعزم ہے تو اسے سب سے پہلے بنیادی معاشی حرکیات کو اپنے کنٹرول میں لینا ہو گا۔ پٹرولیم مصنوعات اور توانائی کی دیگر آئٹمز کے نرخ سالانہ بنیادوں پر قومی بجٹ میں طے کر دیے جانے چاہئیں۔ اس کے نتیجے میں معیشت کے ہر شعبے میں استحکام آئے گا۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی سالانہ بنیادوں پر بآسانی مقرر کیے جا سکیں گے۔ یوں کاروباری اور مینوفیکچررز طبقے کے نقل و حمل کے اخراجات پورا سال مستحکم رہیں گے۔
بجلی اور گیس کے نرخ بھی قومی بجٹ میں سالانہ بنیادوں پر مقرر ہونے چاہئیں۔ اس کے نتیجے میں صنعت کاروں اور کاروباری طبقے کے اخراجات پورا سال مستحکم رہیں گے اور عام صارفین بھی کم ازکم پورا سال بآسانی اپنا توانائی کا خرچ متعین کر سکتے ہیں۔ مارکیٹ اکانومی یا منڈی کی معیشت کے رولز اور ریگولیشن میں ریاست اور حکومت کا کردار ہونا اشد ضروری ہے۔ صرف توانائی، یعنی بجلی، گیس، ایل پی جی، مٹی کا تیل، ڈیزل، کوئلہ وغیرہ کے نرخ سالانہ بنیادوں پر طے کر دیے جائیں تو معیشت فوری طور پر استحکام حاصل کر لے گی۔ اس سے صنعت کاروں، تھوک کاروبار، ریٹیلرز اور کسانوں کی شرح پیداوار اور ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات مستحکم رہیں گے۔
گھریلو صارفین کے اخراجات بھی سالانہ بنیادوں پر متعین رہیں گے۔ پھر حکومت کو بعض اشیاء جیسے چکن اور بلڈنگ میٹریلز کے ریٹ بھی روزانہ کی بنیاد پر طے کرنے کے بجائے سالانہ بنیادوں پر کرنے چاہئیں۔ ان اقدامات کے علاوہ حکومت لارج اسکیل پیداواری سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے پانچ سالہ مربوط اور ٹھوس ترقیاتی منصوبہ بنایا جانا چاہیے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میںملکی معیشت چند اجارہ داروں کے رحم و کرم پر نہیں ہونی چاہیے یا معیشت کو بے لگام مارکیٹ فورسز کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے۔ درمیانے اور نچلے طبقے کے معاشی مفادات کا تحفظ کرنا ریاست کی آئینی اور اولین ذمے داری ہے۔ اگر ریاست اور حکومت ملکی معیشت کے حوالے سے محض ایک نگران یا ریگولیٹر کا کردار ادا کرے گی تو درحقیقت یہ کردار نمائشی اور تماشائی کی حیثیت سے زیادہ نہیں ہے۔
یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں مارکیٹ اکانومی موجود ہے۔ وہاں مارکیٹ فورسز اپنا معاشی کردار ادا کر رہی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ بے لگام ہو۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، سویڈن، ناروے اور ڈنمارک وغیرہ میں ریاست عوامی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور اپنا کردار بھی ادا کرتی ہیں۔