جدیدیت

دراصل ادب نے انداز کو اسلوب بیان کو نظرانداز کرکے موضوع کے مواد کو بہت زیادہ اہمیت دی۔

روایات کا جو حصہ وقت کے سانچے میں نہ ڈھل سکے اسے موڑنے یا توڑنے کی صلاحیت جس فنکار میں ہو وہی سچا فن کار کہلانے کا مستحق ہے۔ یہ جو عمل ہے اسی کو جدیدیت کہتے ہیں۔ ترقی پسندی بھی درحقیقت جدیدیت تھی جب ترقی پسندی کے محدود دائرے سے نکل کر ہمارے ادب نے کھلی فضا میں سانس لینا چاہا تو یہ بھی جدیدیت کہلائی۔

دراصل جو سچا شاعر یا ادیب ہوتا ہے وہ لکیرکا فقیر نہیں ہوتا ، وہ ایک آزاد پنچھی ہے جو ہر لمحہ نئے خیالوں کا آرزو مند رہتا ہے۔ نامناسب بندشوں کو وہ برداشت نہیں کرسکتا جیسے مجنوں گورکھپوری کے الفاظ میں ہے کہ '' جب اشتراکیوں نے ادیبوں کو لال وردی پہنا دینی چاہی تو انھوں نے ترقی پسندی کے جوئے کو ہی اپنے کاندھوں سے اتار پھینکا '' اس طرح ہمارے ادب میں جدیدیت کی تحریک نے جنم لیا ، جب کہ اس کی داغ بیل تو اسی وقت پڑگئی تھی جب سرسید احمد خان نے مغربی ادب کو مشعل راہ بنانے کا مشورہ دیا اور ان کے ادبی افکار کو مولانا الطاف حسین حالی نے اپنایا اور تحریروں میں عام کرنے کی کاوش کی۔ جب جدیدیت کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ اس کے بعد ہمارے ادبی افق پر ڈاکٹر محمد اقبال نمودار ہوتے ہیں۔

روایت سے رشتہ استوار رکھنے کے باوجود انھیں شاعر مشرق کہا جاتا ہے ، روایت سے رشتہ بنائے رکھتے ہوئے انھوں نے مغرب کے تازہ ترین مگر منتخب افکار کو روئے ذہن بنایا اور آزادی فکر نظر کی وہ مثال پیش کی جو جدیدیت کا خاصا ہے۔

جدیدیت کا باقاعدہ آغاز دراصل بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اس وقت ہوا جب عظمت اللہ نیاز یلدرم اور ان کے بعد انھی جیسے ادیبوں نے ادب کے بدلے ہوئے تیور منفرد لہجے اور ایک نئے ذہنی رویے جسے اردو قارئین کو منظر نامہ روشناس کرایا۔ رسالہ '' انگارے '' کی اشاعت نے اس رجحان کو مزید تقویت دی۔ اس میں شامل افسانے ہند کے اذیت ناک پہلوؤں پر وار کرتے نظر آئے۔ مگر یہ کوئی ایسا قدم نہ تھا جس سے ملک میں انقلاب آجاتا پھر بھی حکومت وقت نے ''انگارے'' کو ضبط کرکے اس کی اشاعت پر پابندی عائد کردی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی ایک وقت تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا ، لیکن قابل اعتراض بات یہ تھی کہ ''ادب نعرہ بازی'' بننے لگا اور اس کی جمالیاتی قدریں نظرانداز ہونے لگیں۔ ادب میں کیا جمالیاتی قدریں ہوتی ہیں یا کیا ہونی چاہئیں تب تک ترقی پسند تحریک سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ جب تک کہ نعرہ بازی نہیں تھی۔ جب ادب ''نعرہ بازی'' بننے لگا اور اس کی جمالیاتی قدریں نظر انداز ہونے لگیں اس صورتحال کے خلاف شعرا اور ادیبوں کا ردعمل فطری تھا۔ چنانچہ جدیدیت جس کی داغ بیل بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں پڑ چکی تھی۔ اب نئے سرے سے منظم ہوئی، ترقی پسند تحریک کا زوال بھی جدیدیت کی ترقی کے فروغ کا باعث بنا۔

دراصل ادب نے انداز کو اسلوب بیان کو نظرانداز کرکے موضوع کے مواد کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ اس کے علاوہ فرد اور سماج کے رشتے پر اتنا زور دیا کہ فرد پس پشت جا پڑا۔ یعنی سماج وہ زمانہ جب ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے درمیان ٹکراؤ ہوا۔ ملک میں سیاسی اتھل پتھل کا زمانہ تھا جب ترقی پسند ختم ہو رہی تھی اور جدیدیت شروع ہو رہی تھی۔ ترقی پسند نے اپنی توجہ سیاسی منظرنامہ پر مرکوز کردی جب کہ جدیدیت نے اسے نظرانداز کیا اور فرد ذات کے خول میں سمٹ کر رہ گیا۔جدیدیت نے فرد پر دھیان دیا آبیاری کی جب کہ ترقی پسند نے سماج پر دھیان دیا۔


قنوطیت ، احساس محرومی ، احساس تنہائی ، سماج سے بے تعلق ہو جانے اور اپنی ذات میں کھو جانے کا لازمی نتیجہ ہے۔ جدیدیت کے فنکاروں کے ساتھ بھی یہی صورت پیش آئی جن کا کوئی غم گسار نہیں اور مایوس ہونے لگے ان پر یاس و حرماں چھا گئی۔ اس وقت تو ساری دنیا کے حالات مایوس کن تھے مگر جدیدیت کے مبلغوں نے اسے اور ہوا دی۔ انھوں نے فنکار کو ترغیب دلائی کہ دنیا کو تمہاری پرواہ نہیں تو تمہیں پھر کسی کی پرواہ کیوں۔ تمہارا قلم سماج کا غلام کیوں تمہیں لکھنا ہے تو اپنے لیے لکھو قاری کی پسند ناپسند سے بے نیاز ہو جاؤ۔

اس طرح سماج سے ادب کا رشتہ منقطع ہوگیا ، جدیدیت کا زیادہ زور انفرادیت پر تھا۔ فرد کی آزادی نزدیک تھی۔ یہ ایک طرح کا ردعمل تھا پھر سامراج کے مظالم ان سے نجات کی کوشش سرمایہ داری کی لعنتیں، سوشل ازم اور دوسرے عالمی مسائل پر اپنی نظریں جمائی رکھی تھیں جو ترقی پسند تحریک جو سماج سے منسلک تھی انفرادیت پر بڑا زور دیا اس کے برعکس ان کو اہمیت نہیں دی۔ جدیدیت کی تحریک نے اس کے شعور اور لاشعور کی اہمیت دی۔

جدید شعرا میں میراں جی، راشد، اختر الایمان، امجد اعظمی، ابن انشا، حنفی، باقر مہدی، کمار باشی اور عادل منصوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے کلام میں ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے ان کے ہاں نہ تو کلاسیکی انداز کے قافیا پیمائی نہ عشقیہ واردات میں اشتراکیت کا پرچار یعنی کمیونزم کی شہرت ان کی شاعری ان کے دل سے نکلی ہوئی آواز لہجہ بھی منفرد ہے اس لیے ان کے کلام میں جذب و کشش زیادہ ہے۔ جدید روایات سے زیادہ مختلف قارئین روایتی کہانی سے اکتا گئے تو اس میں طرح طرح کی ترامیم، تبدیلیاں ہونے لگیں۔ علم نفسیات آگہی عام ہوگئی لوگ علم نفسیات کو جاننے لگے شعور کے تحت وتحت الشعور اور لاشعور کے نہاں خانوں کا سراغ ملا زیادہ لوگ پڑھے لکھے ہونے لگے۔

اسی زمانے میں احساس ہوا کہ افکار و احساسات کے اظہار کے لیے الفاظ کا ذخیرہ ناکافی ہے۔ چنانچہ علامتوں کا استعمال عام ہوا ، ادب میں اور علاقائی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو تجریدی کہانی کسے کہتے ہیں اشارات پر جو مبنی ہوں، تحریری کہانی وجود میں آئی جب لوگوں کو علامتوں والی کہانیوں سے دل نہ بھرا تو تجریدی ہوگئے بہت سے فنکاروں نے نہ اردو کہانی کو رواج دیا فرانسیسی ادب سے متاثر ہوکر آخر کار یہ سیلاب گزر گیا اور آہستہ آہستہ کہانی دھندلوں کی بھول بھلیاں سے نکل کر اس نے پھر زمین پر اپنے قدم جما لیے تو جدید افسانہ نگار دو طرح کے ہوتے ہیں۔

ایک وہ جو پیچیدہ، گنجلک اور بے سروپاکہانیاں لکھیں۔ دوسرے وہ تھے جنھوں نے ضرورت کے تحت اور موضوع کے تقاضے سے مجبور ہو کر نئی تکنیک کا سہارا لیا۔ اردو افسانے کا رنگ تو اسی وقت بدلنے لگا، منشی پریم چند نے '' کفن '' نام کا افسانہ تخلیق کیا۔ اس سمت میں دوسرا قدم سعادت حسن منٹو کا دوسرا افسانہ '' پھندے '' ہے اس کے بعد قرۃ العین حیدر، انتظار حسین ،احمد ہمیش، اقبال مجید، سریندر پرکاش، خالدہ اصغر جیسے اعلیٰ درجے کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات وجود میں آئیں۔ جنھوں نے تحریک کو پروان چڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

پروفیسر آل احمد سرور نے فرض ادا کیا اس کے علاوہ پروفیسر گوپی چند نارائن، پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر وہاب اشرفی، باقر مہدی، ارشد علوی، پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے جدید ادب کی طرف بطور خاص توجہ دی۔ جدیدیت کی تحریک بہرحال ایک اہم تحریک ہے بقول پروفیسر آل احمد سرور ''اس بات کی ضرورت ہے کہ جدیدیت کی اندھی پرستش اور نفرت کے بجائے اس کا معروضی مطالعہ کیا جائے اس کی خصوصیات متعین کی جائیں اور ان خصوصیات کی روشنی میں اس کی قدر و قیمت، قدر و منزلت کو واضح کیا جائے۔
Load Next Story