اداکارہ رانی حصہ اول
دنیا میں خوبصورتی کی کمی نہیں بس دیکھنے والی نگاہ کا ذوق اعلیٰ ہونا چاہیے۔
دنیا میں خوبصورتی کی کمی نہیں بس دیکھنے والی نگاہ کا ذوق اعلیٰ ہونا چاہیے ،خوبصورتی اور دلکشی کا نمونہ تاج محل آج بھی اس دنیا میں موجود ہے مگر ابتدائی مراحل میں تاج محل اتنا دلکش نہیں تھا جتنا اب ہے صدیاں بیت گئیں مگر آج بھی اس کا حسن چاند کی طرح چمکتا دمکتا ہے۔
ایسی ہی ایک اور مثال جو کبھی بہت حسین تھی گلابی سرخ اور گوری رنگت نشے میں سحر بڑی بڑی کٹورہ آنکھیں انار کی سرخی کی طرح سرخ ہونٹ چوڑی پیشانی خوبصورت رخسار دراز قد آبرو مندانہ گول سا چہرہ زلفیں جب ماتھے کا حصار کرتی تھیں تو اس کی شان نرالی ہوتی اتنی دلکشی کے باوجود اداکارہ رانی مرحومہ سچی اور معصوم عورت تھی جو کبھی بہت حسین تھیں اور الفاظ اس کے احترام میں آج بھی قطار بنائے کھڑے ہیں جب وہ اپنے عروج و کمال پر پہنچیں تو دیکھنے والوں کی قطار تاج محل سے کم نہ تھی جب تک کوئی فنکار اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں حسن کے تمام رنگ نہیں بھر دیتا اس کی تصویر ادھوری رہتی ہے۔
رانی مرحومہ اپنی ذات میں انجمن تھیں شوبزنس کی بھی ایک تاریخ ہے نوجوان نسل کو ان کے یوم وصال کے موقع پر ایسی تحریریں ضرور پڑھنی چاہئیں تاکہ ایسے فنکاروں کی قدر و منزلت اور ان کے اعزازات کا احساس ہو جو قارئین زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکے وہ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد وہ اداکارہ رانی کے لیے یقینا دلی قربت ضرور محسوس کریں گے۔
اداکارہ رانی مرحومہ سے راقم کی کئی ملاقاتیں ہوئیں ہماری پہلی ملاقات اداکار محمد علی مرحوم نے ان سے شباب اسٹوڈیو میں کروائی یہ 1990 کی بات ہے، راقم نوجوانی کی دہلیز پر تھا اور صحافت میں طفل مکتب تھا۔ اداکارہ رانی نے 1941 میں بلال ٹھڈا نامی شخص کے ہاں جنم لیا ،اس گھر میں غربت کے اندھیرے تھے، ٹھڈا کی بیوی بالی نے رانی کی پیدائش کے بعد طلاق لے کر ایک شخص حق سے شادی کرلی جو مختار بیگم مرحومہ کے ہاں ڈرائیور تھا۔
مختار بیگم بہت اثر و رسوخ والی خاتون تھیں ان کی بہن گلوکارہ فریدہ خانم اپنے وقت کی معروف گلوکارہ تھیں، مختار بیگم مرحومہ ایشیا کے نامور مصنف اور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی بیوہ تھیں۔ مختار بیگم نے انور کمال پاشا کی فلم ''محبوب'' میں سیکنڈ ہیروئن کاسٹ کروایا یہاں سے انھوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا یہ فلم فلاپ ہوئی چونکہ رانی پر مختار بیگم کا سایہ شفقت تھا، آغا جی اے گل ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک تھے انھوں نے اپنی فلم ''اک تیرا سہارا'' میں کاسٹ کیا ، یہ فلم بھی ناکامی کا شکار ہوئی اس کے بعد ان کی بری طرح ناکام ہونے والی فلموں میں چھوٹی امی، اک دل دو دیوانے، شبنم، یہ جہاں والے، عورت صنم، سفید خون، عورت کا پیار، بیس دن اور جوکر شامل ہیں۔
جوکر کی ریلیز کے موقع پر بینڈ باجے منگوائے گئے نشاط سینما میں رانی اور کمال نے شرکت کی پھر بھی فلم کامیاب نہ ہوسکی۔ 1964 میں اداکار کمال اور رانی فلم ''چھوٹی امی'' میں کاسٹ اور اس فلم میں کمال اور رانی ایک دوسرے کے قریب آگئے ، کمال اپنے وقت کے خوبصورت آدمی تھے اور پھر انھوں نے ایک گھریلو خاتون سے شادی کرلی غالب کمال ان کے ہی صاحبزادے ہیں۔
غزالہ فہیم بوتیک کا کام کرتی تھیں ایور نیو اسٹوڈیو کے سامنے بڑے امیر وکبیر لوگ رہا کرتے تھے یہ رانی مرحومہ کی بہت ہی گہری دوست تھیں۔ ہماری دوسری ملاقات رانی سے 1990 میں غزالہ فہیم کے ہاں ہوئی یہاں ان سے دو گھنٹے کی تفصیلی ملاقات ہوئی، رانی کی پہلی شادی حسن طارق سے ہوئی جو اپنے وقت کے بڑے معروف اور سپرہٹ فلمیں دینے والے ہدایت کار تھے۔
حسن طارق بھارت کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے مگر موسیقار نثار بزمی نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا اب اس کے بارے میں ہم کوئی دعویٰ نہیں کرسکتے۔ گلوکار احمد رشدی مرحوم، شاعر حمایت علی شاعر کا تعلق بھی حیدرآباد دکن (بھارت) سے تھا۔ 1968 میں رانی کی زندگی میں حسن طارق مرحوم بہار بن کر آئے اور پھر چھا گئے انھوں نے رانی کو لے کر فلم ''تقدیر'' بنائی جس میں پاکستان کے سابق سپر اسٹار سنتوش کمار بھی تھے اس فلم میں حسن طارق مرحوم نے دل کا حال رانی سے کہہ دیا جب کہ حسن طارق پہلے سے شادی شدہ تھے اور ان کی پہلی بیوی معروف رقاصہ ایمی مینوالا تھیں مگر جب رانی ان کی زندگی میں آئیں تو ہواؤں کا رخ بدل گیا اور حسن طارق رانی کے ہو کر رہ گئے۔
حسن طارق سے شادی کے بعد ان کی فلم ''دیور بھابھی'' نے سپرہٹ بزنس کیا اس فلم میں وحید مراد اور سنتوش بھی تھے سنتوش اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے عمر کے آخری حصے میں کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو میں جنرل منیجر کے فرائض انجام دیتے رہے۔
رانی کی ایک اور فلم ''مکھڑا چن ورگا'' ریلیز ہوئی یہی وہ فلم تھی جس میں اداکار حبیب مرحوم اور نغمہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور ان دونوں نے شادی کرلی نغمہ حیات ہیں، اداکار حبیب، وحید مراد اور ہدایت کار ایم اے رشید مرحوم ڈبل ایم اے تھے اور انڈسٹری کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔پنجابی فلموں میں عنایت حسین بھٹی اداکار گلوکار، کیفی اداکار یہ پنجابی فلموں کے بادشاہ لوگ تھے۔ ٹی وی آرٹسٹ وسیم عباس کا تعلق اسی فیملی سے ہے ۔
عنایت حسین بھٹی نے فلم ''چن مکھنا'' میں رانی کو کاسٹ کیا یہ اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی اس کے بعد رانی کی کامیابی کی طویل فہرست ہے مگر فلم ''انجمن'' اور امراؤ جان ادا کی سپر ہٹ کامیابی نے رانی کو صف اول کی اداکارہ بنا دیا۔ رانی کے نصیب میں ناکامیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، غزالہ فہیم کے گھر ملاقات میں رانی نے اداس رنگ لیے غمزدہ آنکھوں کے ساتھ اپنی ناکامی دل گرفتہ کو بہت تفصیلی بیان کیا اور کہا جب ہم دنیا میں نہ ہوں تو میرے پرستاروں کو یہ پیغام ضرور دے دینا۔
انھوں نے بتایا تھا کہ حسن طارق سے میرا پہلا جھگڑا فلم ''امراؤ جان ادا'' کے حوالے سے ہوا، جب اس فلم کا اسکرپٹ مکمل ہوا تو موسیقار کے لیے حسن طارق نے موسیقار خلیل احمد کو منتخب کیا جب کہ تہذیب انجمن کی موسیقی نثار بزمی صاحب نے دی تھی اور میں دل سے ان کی عزت کرتی تھی اور میں نے ہمیشہ ایک بھائی کی طرح انھیں عزت دی اور پیار سے انھیں بزمی بھیا کہتی تھی وہ بھی بہت رکھ رکھاؤ والے بھائی تھے، عید کو پابندی سے آتے رمضان میں تحفے تحائف دیتے اور ہنس کر کہتے کہ لاہور میں میری ایک ہی تو بہن ہے، چھیڑنے کے انداز میں حسن طارق کو بہنوئی بھیا کہتے تھے مگر حسن طارق خلیل احمد کو موسیقی کے فرائض دینا چاہتے تھے بس صرف اس بات پر جھگڑا ہوا تھا۔
بزمی بھائی کو جب پتا چلا تو انھوں نے سمجھایا بہن وہ فلم کے ہدایت کار ہیں تم اس مسئلے کو ختم کرو ان کی مرضی وہ کسی سے بھی موسیقی دلوائیں۔ میں نے دوبارہ حسن طارق سے بات کی انھوں نے انکار کیا۔ پلٹ کر میں نے غصے میں کہہ دیا آپ کسی اور کو ہیروئن لے لیں میں اس میں کام نہیں کروں گی اس بات پر وہ خاموش ہوگئے اور پھر انھیں اس فلم میں موسیقار رکھ لیا پھر میں نے فلم ''امراؤ جان ادا'' میں کام کی حامی بھری۔
(جاری ہے۔)
ایسی ہی ایک اور مثال جو کبھی بہت حسین تھی گلابی سرخ اور گوری رنگت نشے میں سحر بڑی بڑی کٹورہ آنکھیں انار کی سرخی کی طرح سرخ ہونٹ چوڑی پیشانی خوبصورت رخسار دراز قد آبرو مندانہ گول سا چہرہ زلفیں جب ماتھے کا حصار کرتی تھیں تو اس کی شان نرالی ہوتی اتنی دلکشی کے باوجود اداکارہ رانی مرحومہ سچی اور معصوم عورت تھی جو کبھی بہت حسین تھیں اور الفاظ اس کے احترام میں آج بھی قطار بنائے کھڑے ہیں جب وہ اپنے عروج و کمال پر پہنچیں تو دیکھنے والوں کی قطار تاج محل سے کم نہ تھی جب تک کوئی فنکار اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں حسن کے تمام رنگ نہیں بھر دیتا اس کی تصویر ادھوری رہتی ہے۔
رانی مرحومہ اپنی ذات میں انجمن تھیں شوبزنس کی بھی ایک تاریخ ہے نوجوان نسل کو ان کے یوم وصال کے موقع پر ایسی تحریریں ضرور پڑھنی چاہئیں تاکہ ایسے فنکاروں کی قدر و منزلت اور ان کے اعزازات کا احساس ہو جو قارئین زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکے وہ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد وہ اداکارہ رانی کے لیے یقینا دلی قربت ضرور محسوس کریں گے۔
اداکارہ رانی مرحومہ سے راقم کی کئی ملاقاتیں ہوئیں ہماری پہلی ملاقات اداکار محمد علی مرحوم نے ان سے شباب اسٹوڈیو میں کروائی یہ 1990 کی بات ہے، راقم نوجوانی کی دہلیز پر تھا اور صحافت میں طفل مکتب تھا۔ اداکارہ رانی نے 1941 میں بلال ٹھڈا نامی شخص کے ہاں جنم لیا ،اس گھر میں غربت کے اندھیرے تھے، ٹھڈا کی بیوی بالی نے رانی کی پیدائش کے بعد طلاق لے کر ایک شخص حق سے شادی کرلی جو مختار بیگم مرحومہ کے ہاں ڈرائیور تھا۔
مختار بیگم بہت اثر و رسوخ والی خاتون تھیں ان کی بہن گلوکارہ فریدہ خانم اپنے وقت کی معروف گلوکارہ تھیں، مختار بیگم مرحومہ ایشیا کے نامور مصنف اور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی بیوہ تھیں۔ مختار بیگم نے انور کمال پاشا کی فلم ''محبوب'' میں سیکنڈ ہیروئن کاسٹ کروایا یہاں سے انھوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا یہ فلم فلاپ ہوئی چونکہ رانی پر مختار بیگم کا سایہ شفقت تھا، آغا جی اے گل ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک تھے انھوں نے اپنی فلم ''اک تیرا سہارا'' میں کاسٹ کیا ، یہ فلم بھی ناکامی کا شکار ہوئی اس کے بعد ان کی بری طرح ناکام ہونے والی فلموں میں چھوٹی امی، اک دل دو دیوانے، شبنم، یہ جہاں والے، عورت صنم، سفید خون، عورت کا پیار، بیس دن اور جوکر شامل ہیں۔
جوکر کی ریلیز کے موقع پر بینڈ باجے منگوائے گئے نشاط سینما میں رانی اور کمال نے شرکت کی پھر بھی فلم کامیاب نہ ہوسکی۔ 1964 میں اداکار کمال اور رانی فلم ''چھوٹی امی'' میں کاسٹ اور اس فلم میں کمال اور رانی ایک دوسرے کے قریب آگئے ، کمال اپنے وقت کے خوبصورت آدمی تھے اور پھر انھوں نے ایک گھریلو خاتون سے شادی کرلی غالب کمال ان کے ہی صاحبزادے ہیں۔
غزالہ فہیم بوتیک کا کام کرتی تھیں ایور نیو اسٹوڈیو کے سامنے بڑے امیر وکبیر لوگ رہا کرتے تھے یہ رانی مرحومہ کی بہت ہی گہری دوست تھیں۔ ہماری دوسری ملاقات رانی سے 1990 میں غزالہ فہیم کے ہاں ہوئی یہاں ان سے دو گھنٹے کی تفصیلی ملاقات ہوئی، رانی کی پہلی شادی حسن طارق سے ہوئی جو اپنے وقت کے بڑے معروف اور سپرہٹ فلمیں دینے والے ہدایت کار تھے۔
حسن طارق بھارت کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے مگر موسیقار نثار بزمی نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا اب اس کے بارے میں ہم کوئی دعویٰ نہیں کرسکتے۔ گلوکار احمد رشدی مرحوم، شاعر حمایت علی شاعر کا تعلق بھی حیدرآباد دکن (بھارت) سے تھا۔ 1968 میں رانی کی زندگی میں حسن طارق مرحوم بہار بن کر آئے اور پھر چھا گئے انھوں نے رانی کو لے کر فلم ''تقدیر'' بنائی جس میں پاکستان کے سابق سپر اسٹار سنتوش کمار بھی تھے اس فلم میں حسن طارق مرحوم نے دل کا حال رانی سے کہہ دیا جب کہ حسن طارق پہلے سے شادی شدہ تھے اور ان کی پہلی بیوی معروف رقاصہ ایمی مینوالا تھیں مگر جب رانی ان کی زندگی میں آئیں تو ہواؤں کا رخ بدل گیا اور حسن طارق رانی کے ہو کر رہ گئے۔
حسن طارق سے شادی کے بعد ان کی فلم ''دیور بھابھی'' نے سپرہٹ بزنس کیا اس فلم میں وحید مراد اور سنتوش بھی تھے سنتوش اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے عمر کے آخری حصے میں کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیو میں جنرل منیجر کے فرائض انجام دیتے رہے۔
رانی کی ایک اور فلم ''مکھڑا چن ورگا'' ریلیز ہوئی یہی وہ فلم تھی جس میں اداکار حبیب مرحوم اور نغمہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور ان دونوں نے شادی کرلی نغمہ حیات ہیں، اداکار حبیب، وحید مراد اور ہدایت کار ایم اے رشید مرحوم ڈبل ایم اے تھے اور انڈسٹری کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔پنجابی فلموں میں عنایت حسین بھٹی اداکار گلوکار، کیفی اداکار یہ پنجابی فلموں کے بادشاہ لوگ تھے۔ ٹی وی آرٹسٹ وسیم عباس کا تعلق اسی فیملی سے ہے ۔
عنایت حسین بھٹی نے فلم ''چن مکھنا'' میں رانی کو کاسٹ کیا یہ اپنے وقت کی سپرہٹ فلم تھی اس کے بعد رانی کی کامیابی کی طویل فہرست ہے مگر فلم ''انجمن'' اور امراؤ جان ادا کی سپر ہٹ کامیابی نے رانی کو صف اول کی اداکارہ بنا دیا۔ رانی کے نصیب میں ناکامیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، غزالہ فہیم کے گھر ملاقات میں رانی نے اداس رنگ لیے غمزدہ آنکھوں کے ساتھ اپنی ناکامی دل گرفتہ کو بہت تفصیلی بیان کیا اور کہا جب ہم دنیا میں نہ ہوں تو میرے پرستاروں کو یہ پیغام ضرور دے دینا۔
انھوں نے بتایا تھا کہ حسن طارق سے میرا پہلا جھگڑا فلم ''امراؤ جان ادا'' کے حوالے سے ہوا، جب اس فلم کا اسکرپٹ مکمل ہوا تو موسیقار کے لیے حسن طارق نے موسیقار خلیل احمد کو منتخب کیا جب کہ تہذیب انجمن کی موسیقی نثار بزمی صاحب نے دی تھی اور میں دل سے ان کی عزت کرتی تھی اور میں نے ہمیشہ ایک بھائی کی طرح انھیں عزت دی اور پیار سے انھیں بزمی بھیا کہتی تھی وہ بھی بہت رکھ رکھاؤ والے بھائی تھے، عید کو پابندی سے آتے رمضان میں تحفے تحائف دیتے اور ہنس کر کہتے کہ لاہور میں میری ایک ہی تو بہن ہے، چھیڑنے کے انداز میں حسن طارق کو بہنوئی بھیا کہتے تھے مگر حسن طارق خلیل احمد کو موسیقی کے فرائض دینا چاہتے تھے بس صرف اس بات پر جھگڑا ہوا تھا۔
بزمی بھائی کو جب پتا چلا تو انھوں نے سمجھایا بہن وہ فلم کے ہدایت کار ہیں تم اس مسئلے کو ختم کرو ان کی مرضی وہ کسی سے بھی موسیقی دلوائیں۔ میں نے دوبارہ حسن طارق سے بات کی انھوں نے انکار کیا۔ پلٹ کر میں نے غصے میں کہہ دیا آپ کسی اور کو ہیروئن لے لیں میں اس میں کام نہیں کروں گی اس بات پر وہ خاموش ہوگئے اور پھر انھیں اس فلم میں موسیقار رکھ لیا پھر میں نے فلم ''امراؤ جان ادا'' میں کام کی حامی بھری۔
(جاری ہے۔)