فلسطین
تمام مذاہب ، ثقافتوں اور تاریخ میں بٹے ہوئے تمام لوگوں کو یکجا ہونا ہوگا۔
1974 کی اسلامی کانفرنس ، اس کی یادیں آج بھی میرے ذہن میں ترو تازہ ہیں۔ لئیق احمد کی براہ راست کمنٹری ، ذوالفقار علی بھٹو کا بحیثیت وزیر اعظم اور چوہدری فضل الٰہی کا بحیثیت صدرِ پاکستان تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کا خود جا کر جہاز سے اترتے وقت استقبال کرنا ، چبوترے پر کھڑے ہوکر سلامی لینا ، دستوں کا معائنہ کرنا اور ایک طویل قطار گاڑیوں کی جن میں سربراہان اور ان کے وفود کا ایئرپورٹ سے روانہ ہونا۔ ان اسلامی سربراہان میں تین سربراہ سب سے نمایاں نظر آئے۔
یاسر عرفات جن کے پائوں تلے کوئی بھی خود مختار ریاست نہیں تھی ، شاہ فیصل اور کرنل قذافی۔ غالبا اس کانفرنس میں رضا شاہ پہلوی نہیں آئے تھے۔ ان کی عربوں سے اتنی بنتی نہیں تھی کیونکہ عرب اس وقت امریکا کے اتنے قریب نہ تھے جتنے ایران کے رضا شاہ پہلوی تھے۔ ہمارے بھٹو صاحب نے اسلامی اتحاد میں حرارت پیدا کی۔ اپنی کاوشوں سے اس جوش و جنون کو بیدارکیا۔
یوں لگتا تھا کہ ایک بہت بڑا اتحاد بن چکا ، غیر وابستہ ممالک کے بعد۔ جس کے بڑے لیڈر مارشل ٹیٹو یا اندرا گاندھی وغیرہ تھے۔ دنیا اس وقت سرد جنگ میں بٹی ہوئی تھی ، ہمارا ماضی ہمیشہ امریکا کے قریب رہا ، مگر بھٹو نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نیا زاویہ دیا۔ جب وہ چین کے قریب ہوئے تو عرب دنیا کو اکٹھا کرنے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ عرب اتحاد جس کی بنیادوں میں تھا عرب اسرائیل تنازعہ۔ بھٹو تیسری دنیا کا رہبر تھا ، اس نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا۔
میرا شعور بچپن میں اسلامی نیشنل ازم کے گرد پروان چڑھا ، یاسر عرفات ہم سب کے ہیرو تھے۔ یاسر عرفات کبھی بھی اچانک ملنے چلے آتے بھٹو صاحب سے ، لاڑکانہ میں بھی۔ ذوالفقار علی بھٹو ، عرب قوم پرستوں سے انسیت رکھتے تھے۔ شام کے صدر بشار الاسد ، لیبیا کے صدرکرنل قذافی ، وہ شالیمار باغ میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں سب سربراہان کو دی گئی ، ضیافت میں شیخ مجیب اور بھٹو کا بغل گیر ہونا۔ وہ سرد جنگ کے زمانے تھے ، جب شاہ فیصل کو اس کے بھتیجے نے قتل کر دیا ، شیخ مجیب مارے گئے ، ذوالفقار علی بھٹوکو تخت دار تک پہنچا دیا گیا۔
بہت سالوں بعد یاسر عرفات بیمار پڑے اور کچھ اس طرح انتقال ہوا کہ کچھ خبر نہ ہوئی اس بارے میں مستند رائے یہ ہے کہ ان کو زہر دے کر مارا گیا۔ اسرائیل سے بہتر تعلقات کے خواہاں مصر کے صدر انور سادات بھی مارے گئے۔ اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابن بھی اپنے دورحکومت میں مارے گئے کیونکہ وہ بھی یہی چاہتے تھے۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا:
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے، درد کے فاصلے
اب جو موسم کے تیور بدلے ہیں تو عرب ممالک امریکا کے قریب ہوئے۔ بہت کڑا وقت ہے اس وقت ہمارے فلسطینی بھائیوں پر ، پس یگانہ و یکتا غزہ میں شہید ہوئے جا رہے ہیں۔ گھمسان کی یہ جنگ اگر قبل اس کے ہوئی توکوئی نہ کوئی ثالثی کے لیے بیچ میں آجاتا تھا۔ کبھی مصر ، کبھی شام ، لبنان یا پھر اردن۔ گئے تو نہرو بھی تھے غزہ یکجہتی کا اظہارکرنے کے لیے اور ہم نے بھی ایک طویل جدوجہد کی، مگرمودی صاحب نے اس بار ہندوستان کی اس خارجہ پالیسی کو یو ٹرن کروا دیا۔
ترکی کے اردگان بھی ! مگر یہ کیا کہ وہ اسرائیل کو للکارتے بھی ہیں اور پھر اسرائیل کے ساتھ تجارت بھی بڑھ رہی ہے۔ فلسطینیوں کے قتل کو مسلمانوں کا قتل قرار دیا جاتا تھا کیونکہ یہودی مغرب کے قریب ہیں مگر اب ان کی حکومت کے علاوہ پورا یورپ اسرائیل کے اس جنون کی مذمت کررہا ہے۔ یورپ کے لوگ فلسطینیوں کے قتل کو مسلمانوں کا قتل نہیں بلکہ انسانیت کا قتل سمجھتے ہیں۔
اس بار تنازعہ یرو شلم کی وجہ سے بڑھا۔ یہ وہ شہر ہے جو مسلمانوں کے لیے بھی بہت مقدس ہے کیونکہ وہاں مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس ہے ، عیسائیوں کے لیے بھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے اور اسی طرح یہودیوں کے لیے بھی مقدس ہے۔ 1967 میں اسرائیل نے مشرقی یرو شلم پر قبضہ کیا جو اب تک قائم ہے۔ نہ صرف قائم ہے بلکہ ڈھائی لاکھ یہودی بھی وہاں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ ان کے مذہبی تہواروں میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں امریکا کی ایمبیسی بھی یہاں منتقل کی۔ ایسٹ یرو شلم کو اسرائیل نے اپنا حصہ بنا لیا۔ وہاں کے یہودیوں کو وہاں کی شہریت بہ آسانی مل جاتی ہے مگر وہاں جو فلسطینی رہتے ہیں ، ان کو اسرائیل کی شہریت نہیں دی جاتی۔ اس دفعہ اسرائیل کی بربریت عروج پر ہے۔ مسلمانوں سے بیت المقدس میں آزادی سے عبادت کرنے کے حقوق بھی چھین لیے گئے ہیں۔
اس انتہا پرستی کے پیچھے اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہوکی سیاست ہے جن کے اوپر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، وہ دن بہ دن اپنی مقبولیت بھی کھو رہا ہے۔ فلسطین میں اب یاسر عرفات کی پی ایل او بھی نہیں رہی۔ اب صرف حماس ہے جو اس بڑھتی ہوئی انتہا پرستی میں ، نتن یاہوکی طرح مستفید ہے۔ اس بڑھتی ہوئی انتہا پرستی میں دونوں کی مقبولیت مزید بڑھ گئی ہے، جس طرح پاکستان میں مذہبی انتہا پرستی اور ہندوستان میں ہندو انتہا پرستی میں ہوا بھری جاتی ہے۔
معاملہ دراصل یہ ہے کہ فلسطین آزاد ریاست نہیں اور اسرائیل کبھی ہونے بھی نہیں دے گا۔ یاسر عرفات کبھی اردن میں جلاوطنی گزارتے۔ پھر جب اردن سے اختلافات بڑھ گئے اور جنرل یحیٰ نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو اردن بھیجا، فلسطینی باغیوں کو کچلنے کے لیے۔ وقت نے کرو ٹ لی تو بریگیڈیئر ضیاء الحق صدر پاکستان بھی بنے۔ پھر یاسر عرفات کبھی مصر توکبھی لبنان میں اپنی جلا وطن حکومت بناتے رہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے ان کی بہت مدد کی ہے۔ اس دفعہ ایران سب سے آگے ہے مگر ایران کے اس کردارکو باقی عرب ممالک اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
وقت کے ساتھ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی اس طاقت کو کم کرنے کے لیے فرقہ واریت کے وار کیے گئے۔ اس طرح جو مسلمانوں کو یکجا کرکے ایک چھوٹا موٹا اتحاد قائم کیا گیا تھا وہ بھی بکھرگیا۔ اس وقت نہ عرب لیگ متحرک ہے نہ ہی او آئی سی۔ سب خاموش تماشائی ہیں۔ فلسطینی تنہا رہ گئے، ٹرمپ ہو یا بائیڈن وہ اسرائیل کے ساتھ ہی کھڑے رہیں گے۔ یہ تنازعے اس وقت بڑھ رہے ہیں جب دنیا میں ماحولیاتی تباہ کاریاں سنگین سے سنگین ہوتی جارہی ہیں۔ گجرات ، انڈیا میں ابھی سائیکلون تھما نہیں تھا کہ ایک اور طوفان خلیج بنگال میں بن رہا ہے۔ الاسکا کے قریب کراچی شہر سے بھی بڑی اراضی کا ایک گلیشیئر پگھل کر سمندر میں جذب ہو رہا ہے۔
سائنسدانوں نے وارننگ دے دی ہے کہ جلد ازجلد کاربن گیسزکی توانائی کے ذرایع کو خیر باد کہا جائے ورنہ یہ دنیا بہت بڑی تباہ کاریوں کے دہانے کھڑی ہے مگر ہمارے تضادات ہیں جو ختم ہی نہیں ہو رہے، دنیا میں کیپیٹل ازم کی خود غرضیاں تھمنے کی نہیں۔ دنیا اس وقت تاریخ کے سنگین اور خطرناک دوراہے پر کھڑی ہے۔ تنازعہ فلسطین کا ہو یا کشمیر کا ، وہ تنازعے جو صدیوں سے چل رہے ہیں، اب اپنا فورا حل چاہتے ہیں۔
تمام مذاہب ، ثقافتوں اور تاریخ میں بٹے ہوئے تمام لوگوں کو یکجا ہونا ہوگا۔ دنیا کی نئی اور جدید ترجیحات پر اپنی توانائیاں وقف کرنا ہوں گی۔ فلسطین کو بحیثیت آزاد ریاست اپنا مقام دینا ہوگا۔ ایران ، سعودی عرب اور تمام مسلم ممالک کے مابین جو فرقہ واریت کے تنازعات ہیں ، ان کو مندمل کرکے سب کو بنیادی طور پر ایک چھتری کے نیچے بیٹھ کر حل کرنا ہوں گے۔ ایک نئی دنیا وجود میں آچکی ہے اب اس کو پرانے بیانیہ کے تسلسل میں نہیں دیکھا جاسکتا۔
یاسر عرفات جن کے پائوں تلے کوئی بھی خود مختار ریاست نہیں تھی ، شاہ فیصل اور کرنل قذافی۔ غالبا اس کانفرنس میں رضا شاہ پہلوی نہیں آئے تھے۔ ان کی عربوں سے اتنی بنتی نہیں تھی کیونکہ عرب اس وقت امریکا کے اتنے قریب نہ تھے جتنے ایران کے رضا شاہ پہلوی تھے۔ ہمارے بھٹو صاحب نے اسلامی اتحاد میں حرارت پیدا کی۔ اپنی کاوشوں سے اس جوش و جنون کو بیدارکیا۔
یوں لگتا تھا کہ ایک بہت بڑا اتحاد بن چکا ، غیر وابستہ ممالک کے بعد۔ جس کے بڑے لیڈر مارشل ٹیٹو یا اندرا گاندھی وغیرہ تھے۔ دنیا اس وقت سرد جنگ میں بٹی ہوئی تھی ، ہمارا ماضی ہمیشہ امریکا کے قریب رہا ، مگر بھٹو نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نیا زاویہ دیا۔ جب وہ چین کے قریب ہوئے تو عرب دنیا کو اکٹھا کرنے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ عرب اتحاد جس کی بنیادوں میں تھا عرب اسرائیل تنازعہ۔ بھٹو تیسری دنیا کا رہبر تھا ، اس نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا۔
میرا شعور بچپن میں اسلامی نیشنل ازم کے گرد پروان چڑھا ، یاسر عرفات ہم سب کے ہیرو تھے۔ یاسر عرفات کبھی بھی اچانک ملنے چلے آتے بھٹو صاحب سے ، لاڑکانہ میں بھی۔ ذوالفقار علی بھٹو ، عرب قوم پرستوں سے انسیت رکھتے تھے۔ شام کے صدر بشار الاسد ، لیبیا کے صدرکرنل قذافی ، وہ شالیمار باغ میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں سب سربراہان کو دی گئی ، ضیافت میں شیخ مجیب اور بھٹو کا بغل گیر ہونا۔ وہ سرد جنگ کے زمانے تھے ، جب شاہ فیصل کو اس کے بھتیجے نے قتل کر دیا ، شیخ مجیب مارے گئے ، ذوالفقار علی بھٹوکو تخت دار تک پہنچا دیا گیا۔
بہت سالوں بعد یاسر عرفات بیمار پڑے اور کچھ اس طرح انتقال ہوا کہ کچھ خبر نہ ہوئی اس بارے میں مستند رائے یہ ہے کہ ان کو زہر دے کر مارا گیا۔ اسرائیل سے بہتر تعلقات کے خواہاں مصر کے صدر انور سادات بھی مارے گئے۔ اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابن بھی اپنے دورحکومت میں مارے گئے کیونکہ وہ بھی یہی چاہتے تھے۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا:
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے، درد کے فاصلے
اب جو موسم کے تیور بدلے ہیں تو عرب ممالک امریکا کے قریب ہوئے۔ بہت کڑا وقت ہے اس وقت ہمارے فلسطینی بھائیوں پر ، پس یگانہ و یکتا غزہ میں شہید ہوئے جا رہے ہیں۔ گھمسان کی یہ جنگ اگر قبل اس کے ہوئی توکوئی نہ کوئی ثالثی کے لیے بیچ میں آجاتا تھا۔ کبھی مصر ، کبھی شام ، لبنان یا پھر اردن۔ گئے تو نہرو بھی تھے غزہ یکجہتی کا اظہارکرنے کے لیے اور ہم نے بھی ایک طویل جدوجہد کی، مگرمودی صاحب نے اس بار ہندوستان کی اس خارجہ پالیسی کو یو ٹرن کروا دیا۔
ترکی کے اردگان بھی ! مگر یہ کیا کہ وہ اسرائیل کو للکارتے بھی ہیں اور پھر اسرائیل کے ساتھ تجارت بھی بڑھ رہی ہے۔ فلسطینیوں کے قتل کو مسلمانوں کا قتل قرار دیا جاتا تھا کیونکہ یہودی مغرب کے قریب ہیں مگر اب ان کی حکومت کے علاوہ پورا یورپ اسرائیل کے اس جنون کی مذمت کررہا ہے۔ یورپ کے لوگ فلسطینیوں کے قتل کو مسلمانوں کا قتل نہیں بلکہ انسانیت کا قتل سمجھتے ہیں۔
اس بار تنازعہ یرو شلم کی وجہ سے بڑھا۔ یہ وہ شہر ہے جو مسلمانوں کے لیے بھی بہت مقدس ہے کیونکہ وہاں مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس ہے ، عیسائیوں کے لیے بھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے اور اسی طرح یہودیوں کے لیے بھی مقدس ہے۔ 1967 میں اسرائیل نے مشرقی یرو شلم پر قبضہ کیا جو اب تک قائم ہے۔ نہ صرف قائم ہے بلکہ ڈھائی لاکھ یہودی بھی وہاں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ ان کے مذہبی تہواروں میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹرمپ صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں امریکا کی ایمبیسی بھی یہاں منتقل کی۔ ایسٹ یرو شلم کو اسرائیل نے اپنا حصہ بنا لیا۔ وہاں کے یہودیوں کو وہاں کی شہریت بہ آسانی مل جاتی ہے مگر وہاں جو فلسطینی رہتے ہیں ، ان کو اسرائیل کی شہریت نہیں دی جاتی۔ اس دفعہ اسرائیل کی بربریت عروج پر ہے۔ مسلمانوں سے بیت المقدس میں آزادی سے عبادت کرنے کے حقوق بھی چھین لیے گئے ہیں۔
اس انتہا پرستی کے پیچھے اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہوکی سیاست ہے جن کے اوپر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، وہ دن بہ دن اپنی مقبولیت بھی کھو رہا ہے۔ فلسطین میں اب یاسر عرفات کی پی ایل او بھی نہیں رہی۔ اب صرف حماس ہے جو اس بڑھتی ہوئی انتہا پرستی میں ، نتن یاہوکی طرح مستفید ہے۔ اس بڑھتی ہوئی انتہا پرستی میں دونوں کی مقبولیت مزید بڑھ گئی ہے، جس طرح پاکستان میں مذہبی انتہا پرستی اور ہندوستان میں ہندو انتہا پرستی میں ہوا بھری جاتی ہے۔
معاملہ دراصل یہ ہے کہ فلسطین آزاد ریاست نہیں اور اسرائیل کبھی ہونے بھی نہیں دے گا۔ یاسر عرفات کبھی اردن میں جلاوطنی گزارتے۔ پھر جب اردن سے اختلافات بڑھ گئے اور جنرل یحیٰ نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو اردن بھیجا، فلسطینی باغیوں کو کچلنے کے لیے۔ وقت نے کرو ٹ لی تو بریگیڈیئر ضیاء الحق صدر پاکستان بھی بنے۔ پھر یاسر عرفات کبھی مصر توکبھی لبنان میں اپنی جلا وطن حکومت بناتے رہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے ان کی بہت مدد کی ہے۔ اس دفعہ ایران سب سے آگے ہے مگر ایران کے اس کردارکو باقی عرب ممالک اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
وقت کے ساتھ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی اس طاقت کو کم کرنے کے لیے فرقہ واریت کے وار کیے گئے۔ اس طرح جو مسلمانوں کو یکجا کرکے ایک چھوٹا موٹا اتحاد قائم کیا گیا تھا وہ بھی بکھرگیا۔ اس وقت نہ عرب لیگ متحرک ہے نہ ہی او آئی سی۔ سب خاموش تماشائی ہیں۔ فلسطینی تنہا رہ گئے، ٹرمپ ہو یا بائیڈن وہ اسرائیل کے ساتھ ہی کھڑے رہیں گے۔ یہ تنازعے اس وقت بڑھ رہے ہیں جب دنیا میں ماحولیاتی تباہ کاریاں سنگین سے سنگین ہوتی جارہی ہیں۔ گجرات ، انڈیا میں ابھی سائیکلون تھما نہیں تھا کہ ایک اور طوفان خلیج بنگال میں بن رہا ہے۔ الاسکا کے قریب کراچی شہر سے بھی بڑی اراضی کا ایک گلیشیئر پگھل کر سمندر میں جذب ہو رہا ہے۔
سائنسدانوں نے وارننگ دے دی ہے کہ جلد ازجلد کاربن گیسزکی توانائی کے ذرایع کو خیر باد کہا جائے ورنہ یہ دنیا بہت بڑی تباہ کاریوں کے دہانے کھڑی ہے مگر ہمارے تضادات ہیں جو ختم ہی نہیں ہو رہے، دنیا میں کیپیٹل ازم کی خود غرضیاں تھمنے کی نہیں۔ دنیا اس وقت تاریخ کے سنگین اور خطرناک دوراہے پر کھڑی ہے۔ تنازعہ فلسطین کا ہو یا کشمیر کا ، وہ تنازعے جو صدیوں سے چل رہے ہیں، اب اپنا فورا حل چاہتے ہیں۔
تمام مذاہب ، ثقافتوں اور تاریخ میں بٹے ہوئے تمام لوگوں کو یکجا ہونا ہوگا۔ دنیا کی نئی اور جدید ترجیحات پر اپنی توانائیاں وقف کرنا ہوں گی۔ فلسطین کو بحیثیت آزاد ریاست اپنا مقام دینا ہوگا۔ ایران ، سعودی عرب اور تمام مسلم ممالک کے مابین جو فرقہ واریت کے تنازعات ہیں ، ان کو مندمل کرکے سب کو بنیادی طور پر ایک چھتری کے نیچے بیٹھ کر حل کرنا ہوں گے۔ ایک نئی دنیا وجود میں آچکی ہے اب اس کو پرانے بیانیہ کے تسلسل میں نہیں دیکھا جاسکتا۔