فلسطین اور عرب اہل قلم
فلسطین میں ڈھائے جانے والے صیہونی ظلم و ستم کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔
گزشتہ دس بارہ دن سے فلسطین ایک بار پھرخون اور خبروں میں ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں (بدقسمتی سے اس میدان میں بھی مغربی ممالک ہم سے آگے ہیں) یوم فلسطین اور فلسطین میں ڈھائے جانے والے صیہونی ظلم و ستم کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔
کل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی ہمارے وزیر خارجہ سمیت کئی مسلم ممالک کے نمایندوں نے آنسوئوں اور غصے سے بھری ہوئی تقریریں کی ہیں اور اب شائد ان کے نتیجے میں (یا کسی اور پروگرام کے تحت) پہلے کی طرح فی الوقت ایک عارضی جنگ بندی کا اہتمام بھی ہوجائے جس کا واحد نظر آنے والا مقصد اسرائیل کو آیندہ اسی طرح کی کسی اور کارروائی کے لیے وقت دینا اور احتجاج کرنے والوںکا منہ بند کرنا ہے کہ ا گر واقعی کوئی سچ مچ کا ارادہ ہوتا توسلامتی کونسل میں امریکا ویٹو کے اُس استحقاق کو ایک بار پھر امن اور انصاف کے خلاف استعمال نہ کرتا جس کا وجود ہی تمام ممبرز کے یکساں حقوق کے خلاف سب سے بڑی گواہی ہے۔
مختلف تربیت ، قابلیت اور مفادات کے نمایندہ تجزیہ کار ایک بار پھر اس زندہ مردے کا پوسٹ مارٹم کریں گے اور دنیا کو بتایا جائے گا کہ ا س صورتِ حال کا اصل پسِ منظر اور وجوہات کیا ہیں اور اسلامی بالخصوص عرب ممالک کے باہمی اختلافات کے باعث فلسطین کی زمین اور تحریکِ آزادی کیوں حزب اللہ اور حماس میں بٹی ہوئی ہے اور اسرائیل کس طرح 1967 کی جنگ بندی کے بعد سے اب تک اقوام متحدہ کی ہر قرار داد کو پائوں تلے روندتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ سائوتھ افریقہ کے سابقہ aparthiedاور بھارت کی موجودہ شودر اور دلت آبادی کے ساتھ روا کردہ رویئے کو برقرار رکھے ہوئے ہے جیسا کہ میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں۔
1967کی جنگِ حزیران کے بعد سے اسرائیل نے جس ڈھٹائی اور ظلم کے ساتھ فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے نکالنے یا زرخرید غلاموں کی طرح زندہ رہنے پر مجبور کر رکھا ہے، ساری دنیا کی نام نہاد انصاف پسند اور انسانی حقوق کی عَلم بردارطاقتیں کسی نہ کسی وجہ سے یا تو اُس کے ساتھ ہیں یا ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، ایسے میں واحد قوت جو فلسطینیوں کے حقوق کے حق اور اُن پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے وہ فلسطین کے مکین، مہاجر یا عرب دنیا کے کچھ اہلِ قلم ہیں جنھوں نے اپنی کمزوریوں کا تجزیہ بھی کیا ہے لیکن مزاحمت کے عمل میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
مُسلم اُمہ کی بے نیازی اور ہمسایہ عرب ممالک کی کمزوریوں اور باہمی اختلافات نے کیسے ''الفتح''کے یاسر عرفات اور اس کے ساتھیوں کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر مجبور کیا، اس کی بات بہت کم کی جاتی ہے اور اس کی آخری عمر میں کی ہوئی شادی اس کی جیون ساتھی کی مغربیت عقائد اور فیشن کا ذکر زیادہ کیا جاتاہے۔
1967کے دس سال بعد بیروت میں صابرہ اور شتیلہ مہاجر کیمپوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، اُن کو بھی اسرائیل کے اعلانیہ اور خفیہ کنٹرولڈ بین الاقوامی میڈیا نے جس طرح سے خاموش یا متنازعہ کیا اُسکے خلاف بھی سوائے ان اہلِ قلم کے کسی نے آواز اُٹھانے کی ہمت یا زحمت نہیں کی ان اہلِ قلم میں دو سب سے بڑے نام محمود درویش اور نزار قبانی کے ہیں، یہ دونوں اہلِ قلم بھی ہمارے فیضؔ صاحب کی طرح ابتدا میں رومانوی مزاج کی شاعری کرتے تھے اور اس مزاج کی جھلک اُن کی شدید انقلابی اور بلند آہنگ نظموں میں بھی نظر آتی ہے جب کہ ان کے ساتھ اور بعض صورتوں میں عبدالوہاب البیاتی، نازک الملائکہ، فدوی طوقان اور سمیع القاسم وغیرہ اپنے اپنے انداز میں نوحے اور نعرے کو ہم آمیز کرتے نظر آتے ہیں۔
ان احباب نے ا س سارے عمل کو کس طرح سے دیکھا، جھیلا اور پھر اس کا تجزیہ کیا، اس کے ایک عمومی جائزے کے لیے میں آخر الذکر چار شعرا سے ایک ایک اقتباس پیش کرتاہوں جب کہ بشرطِ زندگی محمود رویش اور نزار قبانی کی ایک ایک مکمل نظم آیندہ دو کالموں میں درج کروں گا تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ سیاسی بیانات اور وارداتِ قلبی کے اظہار میں کیا ، کتنا اور کیسا فرق ہوتا ہے۔
''مگر اس کے تن پر جو ملبوس ہے ریزہ ریزہ نہیں
خواب کا شہر جو بے ہنر وحشیوں کا ٹھکانہ نہیں
جو نہ ان چیتھڑا پوش آوارہ گردوں کی وحشت سرا ہے
نہ گرمی کے موسم میں ڈستی ہوئی مکھیّوں
اور لوگوں کی کثرت سے آٹھوں پہر گونجتا ہے''
(ایک شہر ناپید کا مرثیہ، عبدالوہاب البیساتی)
اے خدا
دامنِ دشت کے اُس کنارے سے آتی ہوئی اے صدا
وہ کنارا جہاں
گرم چشمو ں میں دولت کا سیلاب ہے
بہرِ تسکینِ غم امن کا خواب ہے
لوگ اپنے گناہوں پہ روتے بھی ہیں
اورزخموںکی خوشبو بھری چھائوں میں روز سوتے بھی ہیں
داستانِ ہزیمت پہ نادم بھی ہیں
بزمیہ گیت گانے میں بھی طاق ہیں
دامنِ دشت کے اُس کنارے سے آتی ہوئی اے صدا
تو امیں ہے مری اُس وراثت کی جو
احمدِؐ مجتبیٰ کی کفِ خاک ہے
(اُنؐ کے پیغام کا ورثہ پاک ہے)
اسپِِ شعلہ قدم اور تلوار جو میری قومی شجاعت کے پرچم بھی ہیں
مجھ کو تقدیر کے جبرِ بے نام کی داستاں مت سنا
میرا دل مت جلا
یہ ہزیمت کا دکھ وہ گراں بوجھ ہے
جو ندامت کے لفظوں سے اُٹھتا نہیں
میرا بازو مرے جسم سے کٹ گیا ، اے خدا
دامنِ دشت کے اُس کنارے آتی ہوئی اے صدا
(وطنِ عربی کے نقشے پر خون کے کچھ چھینٹے، سمیع القاسم)
ہو وہ یا فا کے جنین
اپنی چھوڑی ہوئی مٹی کا ہر اک ذرّہ پاک
دستِ دشمن سے ہمیں لینا ہے
انتقام اور غضب کے شعلے اور بھڑک
ہم عرب لوگ ہیں انصار ترے
ہم ترے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے تیرے
اور بھڑک
انتقام اور غضب کے شعلے اور بھڑک
(مہمان، نازک الملائکہ)
(جاری ہے)
کل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی ہمارے وزیر خارجہ سمیت کئی مسلم ممالک کے نمایندوں نے آنسوئوں اور غصے سے بھری ہوئی تقریریں کی ہیں اور اب شائد ان کے نتیجے میں (یا کسی اور پروگرام کے تحت) پہلے کی طرح فی الوقت ایک عارضی جنگ بندی کا اہتمام بھی ہوجائے جس کا واحد نظر آنے والا مقصد اسرائیل کو آیندہ اسی طرح کی کسی اور کارروائی کے لیے وقت دینا اور احتجاج کرنے والوںکا منہ بند کرنا ہے کہ ا گر واقعی کوئی سچ مچ کا ارادہ ہوتا توسلامتی کونسل میں امریکا ویٹو کے اُس استحقاق کو ایک بار پھر امن اور انصاف کے خلاف استعمال نہ کرتا جس کا وجود ہی تمام ممبرز کے یکساں حقوق کے خلاف سب سے بڑی گواہی ہے۔
مختلف تربیت ، قابلیت اور مفادات کے نمایندہ تجزیہ کار ایک بار پھر اس زندہ مردے کا پوسٹ مارٹم کریں گے اور دنیا کو بتایا جائے گا کہ ا س صورتِ حال کا اصل پسِ منظر اور وجوہات کیا ہیں اور اسلامی بالخصوص عرب ممالک کے باہمی اختلافات کے باعث فلسطین کی زمین اور تحریکِ آزادی کیوں حزب اللہ اور حماس میں بٹی ہوئی ہے اور اسرائیل کس طرح 1967 کی جنگ بندی کے بعد سے اب تک اقوام متحدہ کی ہر قرار داد کو پائوں تلے روندتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ سائوتھ افریقہ کے سابقہ aparthiedاور بھارت کی موجودہ شودر اور دلت آبادی کے ساتھ روا کردہ رویئے کو برقرار رکھے ہوئے ہے جیسا کہ میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں۔
1967کی جنگِ حزیران کے بعد سے اسرائیل نے جس ڈھٹائی اور ظلم کے ساتھ فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے نکالنے یا زرخرید غلاموں کی طرح زندہ رہنے پر مجبور کر رکھا ہے، ساری دنیا کی نام نہاد انصاف پسند اور انسانی حقوق کی عَلم بردارطاقتیں کسی نہ کسی وجہ سے یا تو اُس کے ساتھ ہیں یا ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، ایسے میں واحد قوت جو فلسطینیوں کے حقوق کے حق اور اُن پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے وہ فلسطین کے مکین، مہاجر یا عرب دنیا کے کچھ اہلِ قلم ہیں جنھوں نے اپنی کمزوریوں کا تجزیہ بھی کیا ہے لیکن مزاحمت کے عمل میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
مُسلم اُمہ کی بے نیازی اور ہمسایہ عرب ممالک کی کمزوریوں اور باہمی اختلافات نے کیسے ''الفتح''کے یاسر عرفات اور اس کے ساتھیوں کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر مجبور کیا، اس کی بات بہت کم کی جاتی ہے اور اس کی آخری عمر میں کی ہوئی شادی اس کی جیون ساتھی کی مغربیت عقائد اور فیشن کا ذکر زیادہ کیا جاتاہے۔
1967کے دس سال بعد بیروت میں صابرہ اور شتیلہ مہاجر کیمپوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، اُن کو بھی اسرائیل کے اعلانیہ اور خفیہ کنٹرولڈ بین الاقوامی میڈیا نے جس طرح سے خاموش یا متنازعہ کیا اُسکے خلاف بھی سوائے ان اہلِ قلم کے کسی نے آواز اُٹھانے کی ہمت یا زحمت نہیں کی ان اہلِ قلم میں دو سب سے بڑے نام محمود درویش اور نزار قبانی کے ہیں، یہ دونوں اہلِ قلم بھی ہمارے فیضؔ صاحب کی طرح ابتدا میں رومانوی مزاج کی شاعری کرتے تھے اور اس مزاج کی جھلک اُن کی شدید انقلابی اور بلند آہنگ نظموں میں بھی نظر آتی ہے جب کہ ان کے ساتھ اور بعض صورتوں میں عبدالوہاب البیاتی، نازک الملائکہ، فدوی طوقان اور سمیع القاسم وغیرہ اپنے اپنے انداز میں نوحے اور نعرے کو ہم آمیز کرتے نظر آتے ہیں۔
ان احباب نے ا س سارے عمل کو کس طرح سے دیکھا، جھیلا اور پھر اس کا تجزیہ کیا، اس کے ایک عمومی جائزے کے لیے میں آخر الذکر چار شعرا سے ایک ایک اقتباس پیش کرتاہوں جب کہ بشرطِ زندگی محمود رویش اور نزار قبانی کی ایک ایک مکمل نظم آیندہ دو کالموں میں درج کروں گا تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ سیاسی بیانات اور وارداتِ قلبی کے اظہار میں کیا ، کتنا اور کیسا فرق ہوتا ہے۔
''مگر اس کے تن پر جو ملبوس ہے ریزہ ریزہ نہیں
خواب کا شہر جو بے ہنر وحشیوں کا ٹھکانہ نہیں
جو نہ ان چیتھڑا پوش آوارہ گردوں کی وحشت سرا ہے
نہ گرمی کے موسم میں ڈستی ہوئی مکھیّوں
اور لوگوں کی کثرت سے آٹھوں پہر گونجتا ہے''
(ایک شہر ناپید کا مرثیہ، عبدالوہاب البیساتی)
اے خدا
دامنِ دشت کے اُس کنارے سے آتی ہوئی اے صدا
وہ کنارا جہاں
گرم چشمو ں میں دولت کا سیلاب ہے
بہرِ تسکینِ غم امن کا خواب ہے
لوگ اپنے گناہوں پہ روتے بھی ہیں
اورزخموںکی خوشبو بھری چھائوں میں روز سوتے بھی ہیں
داستانِ ہزیمت پہ نادم بھی ہیں
بزمیہ گیت گانے میں بھی طاق ہیں
دامنِ دشت کے اُس کنارے سے آتی ہوئی اے صدا
تو امیں ہے مری اُس وراثت کی جو
احمدِؐ مجتبیٰ کی کفِ خاک ہے
(اُنؐ کے پیغام کا ورثہ پاک ہے)
اسپِِ شعلہ قدم اور تلوار جو میری قومی شجاعت کے پرچم بھی ہیں
مجھ کو تقدیر کے جبرِ بے نام کی داستاں مت سنا
میرا دل مت جلا
یہ ہزیمت کا دکھ وہ گراں بوجھ ہے
جو ندامت کے لفظوں سے اُٹھتا نہیں
میرا بازو مرے جسم سے کٹ گیا ، اے خدا
دامنِ دشت کے اُس کنارے آتی ہوئی اے صدا
(وطنِ عربی کے نقشے پر خون کے کچھ چھینٹے، سمیع القاسم)
ہو وہ یا فا کے جنین
اپنی چھوڑی ہوئی مٹی کا ہر اک ذرّہ پاک
دستِ دشمن سے ہمیں لینا ہے
انتقام اور غضب کے شعلے اور بھڑک
ہم عرب لوگ ہیں انصار ترے
ہم ترے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے تیرے
اور بھڑک
انتقام اور غضب کے شعلے اور بھڑک
(مہمان، نازک الملائکہ)
(جاری ہے)