اسلام اور انسانی حقوق

اسلام بلاتفریق ِ رنگ و نسل و مسلک و مذہب، ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔


اسلام بلاتفریق ِ رنگ و نسل و مسلک و مذہب، ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: اسلام انسان کو جو حقوق دیتا ہے، ان میں سے چند اہم ترین حقوق کی تفصیل۔

1 ۔ زندہ رہنے کا حق

اسلام بلاتفریق ِ رنگ و نسل و مسلک و مذہب، ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔ انسانی جان کے احترام کو اسلام فرض قرار دیتا ہے۔ ہر انسان کو جینے کا حق کو صرف اسلام نے دیا ہے۔ مغرب نے اگر اپنے دستوروں میں یا اعلانات میں کہیں حقوق انسانی کا ذکر کیا ہے تو فی الحقیقت اس میں یہ بات مضمر ہوتی ہے کہ یہ حقوق یا تو ان کے شہریوں کے ہیں، یا پھر وہ ان کو سفید نسل والوں کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں، جس طرح آسٹریلیا میں انسانوں کا شکار کرکے سفید نسل والوں کے لیے قدیم باشندوں سے زمین خالی کرائی گئی اور امریکا میں وہاں کے پرانے باشندوں کی نسل کشی کی گئی اور جو بچ گئے ان کو مخصوص علاقوں میں مقید کر دیا گیا، اسی طرح افریقا کے مختلف علاقوں میں گھس کر انسانوں کو جانوروں کی طرح ہلاک کیا گیا۔ ان حقائق کی روشنی میں ہم بلاخوفِ تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی جان کا بحیثیت ''انسان'' کوئی احترام ان کے دل میں نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی احترام ہے تو اپنی قوم یا اپنے رنگ یا اپنی نسل کی بنیاد پر ہے؛ لیکن اسلام تمام انسانوں کے لیے اس حق کو تسلیم کرتا ہے، چاہے وہ کسی بھی قوم وملک، رنگ ونسل اور علاقے سے تعلق رکھتا ہو۔

2 ۔ حفاظت جان کا حق

آدمی کو موت سے بچانے کی بے شمار شکلیں ہیں۔ ایک آدمی بیمار یا زخمی ہے تو اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ قطع نظر اس سے کہ وہ کس نسل، کس قوم یا کس رنگ کا ہے، اگر وہ آپ کو بیماری کی حالت میں یا زخمی ہونے کی حالت میں ملا ہے تو آپ کا کام یہ ہے کہ اس کی بیماری یا اس کے زخم کے علاج کی فکر کریں۔ اگر وہ بھوک سے مر رہا ہے تو آپ کا کام یہ ہے کہ اس کو کھلائیں، تاکہ اس کی جان محفوظ ہو جائے۔ اگر وہ ڈوب رہا ہے یا اور کسی طرح سے اس کی جان خطرے میں ہے تو آپ کا فرض ہے کہ اس کو بچائیں۔

اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ معاشرے میں ہر شخص کی جان، مال اور آبرو کا تحفظ ہر انسان کا، بلاتفریق بنیادی حق ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: تمھاری جانیں، تمھارے مال اور تمھاری آبروئیں، تم پر (آپس میں) اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن اور اس مہینے میں تمھارے اس شہر کی حرمت ہے۔ اسی طرح ایک موقع پر ارشاد فرمایا:ترجمہ:''آگاہ رہو، ان چار باتوں سے بچنا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اللہ کی حرام کردہ کسی جان کو نا حق قتل نہ کرنا، زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں سید المرسلین ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: سنو، ظلم نہ کرنا۔ سنو، ظلم نہ کرنا۔ سنو، ظلم نہ کرنا۔ کسی شخص کا مال اس کے دل کی خوشی کے بغیر لینا حلال نہیں ہے۔

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر مجھے اپنے چچا زاد بھائی کی بکریوں کا ریوڑ دکھائی دے اور میں ان میں سے ایک بکری لے کر اس کو ذبح کر لوں، تو کیا مجھے اس کا گناہ ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا، اگر تمھیں کوئی بکری وادی میں اس حال میں ملے کہ اس نے چھری اور (آگ جلانے کے لیے) پتھر بھی اٹھا رکھے ہوں، تب بھی تم اس کو ہاتھ مت لگانا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ)

3۔ ہر شخص کی عزتِ نفس کا تحفظ

اسلام نے عزتِ نفس کو بھی اہمیت دی ہے اور ایسی گفتگو کو بھی حرام قرار دیا ہو جس سے کسی کی بے عزتی کا پہلو نکلتا ہو۔ جو شخص کسی پر بدکاری کی تہمت لگائے وہ کوڑوں کی صورت میں سخت سزا کا مستحق ہے۔ قرآن نے غیبت سے منع فرمایا ہے اور اس کی قباحت وشناعت واضح کرنے کے لیے اس حرکت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ترجمہ: اور کوئی کسی کی غیبت نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی (اس بات کو) پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس کو ناپسند کرتے ہو۔ اکثر لوگ جانتے ہی نہیں کہ غیبت کسے کہتے ہیں۔ کسی کو ٹوکو تو کہتا ہے: میں نے تو وہ بات بیان کی ہے جوواقعی اس میں دیکھی ہے، یہ کون سی غیبت ہوئی۔ اسی طرح کا سوال ایک صحابیؓ نے کیا تھا: یارسول اللہﷺ! جس شخص کے عیب کا ذکر کیا جائے اگر اُس شخص میں وہ عیب ہو کیا تب بھی ذکر کرنا منع ہے؟حضورﷺ نے فرمایا: اسی کا نام تو غیبت ہے۔ ایک آدمی میں کوئی عیب موجود ہے اور اس عیب کو کسی جگہ خواہ مخواہ مجلس آرائی کے لیے بلا ضرورت ذکر کرنا، اسی کا نام غیبت ہے۔ اگر اس شخص میں وہ عیب نہیں ہے تب تو یہ بہتان ہوگا۔

4۔ عورت کا احترام

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ عورت بہرحال محترم ہے، خواہ وہ اپنی قوم کی ہو، یا دشمن قوم کی، جنگل بیابان میں ملے یا کسی مفتوح شہر میں، ہماری ہم مذہب ہو یا کسی غیرمذہب سے تعلق رکھتی ہو، یا لامذہب ہو۔ مسلمان کسی حالت میں بھی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ زنا کو مطلقاً حرام کیا گیا ہے، خواہ اس کا ارتکاب کسی بھی عورت سے کیا جائے۔ عورت کی عصمت پر ہاتھ ڈالنا ہر حالت میں حرام ہے اور کوئی مسلمان اس فعل کا ارتکاب کر کے سزا سے نہیں بچ سکتا، خواہ دنیا میں سزا پائے یا آخرت میں۔ عورت کی عصمت کے احترام کا یہ تصور اسلام کے سوا کہیں نہیں پایا جاتا۔ بدقسمتی سے معاشرے نے عزت کا پیمانہ معاشی حیثیت کو بنالیا ہے۔

کسی بھی فرد کی عزت اس کی معاشی حیثیت کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔ جو جاہ وثروت کا مالک ہے، لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا، سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کم زوری اس کی مظلومیت اور بے چارگی کا سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنے کے لیے عورت کو گھر سے باہر نکال کر انھیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر لگادیا۔

اس طرح سے عورت کا گھر سے باہر نکل کر کمانا بہت سی دیگر خرابیوں کا سبب بن گیا، ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔ اور عورت کو حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا۔ اسلام نے کہا کہ عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمے ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمے۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمے، بیوی ہے تو شوہر پر اس کا نان ونفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمے کردیے گئے۔

عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اسے اجازت دی کہ وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرسکتی ہے، اس پر جبر کرنے کا کسی کا اختیار نہیں۔ چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے، یا اللہ کی راہ میں دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے؛ لیکن اس کا نفقہ وخرچہ بہرصورت اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔

5۔ ہر انسان کی مدد کاحکم

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان کے مال پر ہر مدد مانگنے والے اور ہر محروم رہ جانے والے انسان کا حق ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ اپنی قوم یا اپنے ملک کا ہو، یا کسی قوم، ملک یا نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ آپ استطاعت رکھتے ہوں اور کوئی حاجت مند آپ سے مدد مانگے یا آپ کو معلوم ہوجائے کہ وہ حاجت مند ہے تو ضرور اس کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اس کا یہ حق قائم کردیا ہے۔ اگر تمھارے علم میں یہ بات آئے کہ فلاں شخص اپنی ضروریات زندگی سے محروم رہ گیا ہے تو قطع نظر اس سے کہ وہ مانگے یا نہ مانگے، تمھارا کام یہ ہے کہ خود اس تک پہنچو اور اس کی مدد کرو۔ اس غرض کے لیے صرف رضاکارانہ انفاق فی سبیل اللہ پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ زکوٰۃ بھی فرض کردی گئی ہے، جو مسلمانوں کے مال داروں سے لی جاتی ہے اور ان کے غریبوں پر صرف کی جاتی ہے۔

اس حوالے سے اسلام ہر فرد کو تو متوجہ کرتا ہی ہے، ساتھ میں حکومت ِ وقت کو بھی اس کی ذمے دری کا احساس دلاتا ہے کہ جس کا کوئی دستگیر نہ ہو، اس کی دستگیری وہ کرے۔ ترجمہ: حکم راں اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی یتیم، کوئی بوڑھا، کوئی اپاہج، کوئی بے روزگار، کوئی مریض اگر اس حالت میں ہو کہ دنیا میں اس کا کوئی سہارا نہ ہو، تو حکومت کو اس کے لیے سہارا بننا چاہیے۔ اگر کوئی میت ایسی ہو جس کا کوئی ولی و وارث نہ ہو تو اس کا جنازہ اٹھانا اور اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرنا حکومت کے ذمے ہے۔ غرض یہ دراصل ایک ولایت عامہ ہے جس کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اور اگر حکومت یہ فریضہ انجام نہ دے رہی ہو تو پوری مسلم کمیونٹی پر یہ ذمے داری خودبخود عائد ہو جاتی ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی ہر ممکن حد تک مدد کریں۔

6۔ شخصی ومذہبی آزادی:

اسلام میں کسی آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنانا یا اسے بیچ ڈالنا قطعی حرام قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے:''تین قسم کے لوگ ہیں جن کے خلاف قیامت کے روز میں خود استغاثہ پیش کرنے والا ہوں گا۔ ان میں ایک وہ شخص ہے جو کسی آزاد انسان کو پکڑ کر بیچے اور اس کی قیمت کھائے۔ '' اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بھی عام ہیں۔ ان کو کسی قوم یا نسل یا ملک و وطن کے انسان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا گیا ہے۔ اسلامی معاشرے میں چونکہ ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہیں، کسی کا کسی پر بیجا دباؤ نہیں، ہر ایک آزاد اور خودمختار ہے۔ اس لیے اسلام نے انسان کی شخصی آزادی کی بقا کے لیے انسان کی نجی اور پرائیویٹ زندگی میں مداخلت سے دوسروں کو روکا ہے اور خواہ مخواہ کی دخل اندازی، ٹوہ بازی اور بلا اجازت کسی کے گھر میں داخلے سے منع کیا ہے۔

اسی طرح اسلام میں مذہب اور ضمیر واعتقاد کے تحفظ کی گارنٹی یوں دی گئی: دین اسلام میں زبردستی نہیں ہے، ہدایت یقیناً گم راہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ ایک دانش ور مفکر لکھتے ہیں صبرواعتقاد کی آزادی ہی کا قیمتی حق تھا، جسے حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ کے تیرہ سالہ دور ابتلا میں مسلمانوں نے ماریں کھاکھا کر کلمۂ حق کہا اور بالآخر یہ حق ثابت ہوکر رہا۔ اسلامی تاریخ اس بات سے عاری ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی غیرمسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہو، یا کسی قوم کو مارمار کر کلمہ پڑھوایا ہو۔

7۔ ہر انسان کو فراہمیٔ عدل کا حق

اسلام جس انصاف کی دعوت دیتا ہے، وہ محض اپنے ملک کے باشندوں ، یا اپنی قوم کے لوگوں ، یا مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سب انسانوں کے لیے ہے۔ ہم کسی سے بے انصافی نہیں کرتے۔ ہمارا مستقل شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ کوئی شخص بھی ہم سے بے انصافی کا اندیشہ نہ رکھے۔ ہم ہر جگہ ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف ملحوظ رکھیں۔ یہ ایک بڑا اہم حق ہے جو اسلام نے انسان کو بحیثیت انسان عطا کیا ہے کہ ہر شخص کے ساتھ بلا تفریق ملت ومذہب انصاف کیا جائے۔

8۔ انسانی مساوات

اسلام نہ صرف یہ کہ کسی امتیاز رنگ و نسل کے بغیر تمام انسانوں کے درمیان مساوات کو تسلیم کرتا ہے، بلکہ اسے ایک اہم اصول حقیقت قرار دیتا ہے۔ اسلام نے تمام نوع انسانی میں مساوات قائم کی اور رنگ، نسل، زبان اور قومیت کی بنا پر سارے امتیازات کی جڑ کاٹ دی۔ اسلام کے نزدیک یہ حق انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے کہ اس کے ساتھ اس کی کھال کے رنگ یا اس کی پیدائش کی جگہ یا اس کو جنم دینے والی نسل و قوم کی بنا پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے، اسے دوسروں کی بہ نسبت حقیر نہ ٹھہرایا جائے، اور اس کے حقوق دوسروں سے کم تر نہ رکھے جائیں۔ امتیاز و تفریق اور نسل پرستی کا خاتمہ انسانی حقوق کے اعلامیہ کا تازہ نتیجہ نہیں۔ وہ اصول جو آج مغربی انسانی حقوق کے ارکان کو تشکیل دیتے ہیں، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔ دین اسلام کا ظہور دنیا میں امتیاز اور تسلط کی نفی سے شروع ہوا اور پیغمبروں نے انسانوں کے حقوق کو پورا کرنے اور معاشروں میں امن و انصاف قائم کرنے کے لیے کوششیں کیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ترجمہ:''اے انسانو! ہم نے تمھیں ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔''

اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان اصل میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک ہی ماں اور ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ اور ان کی مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم تعارف کے لیے ہے، تاکہ ایک قبیلے یا ایک قوم کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے واقف ہوں اور باہم تعاون کر سکیں۔ یہ تقسیم اس لیے نہیں کہ ایک قوم دوسری قوم پر فخر کرے یا اس کے ساتھ تکبر سے پیش آئے، اسے حقیرو ذلیل سمجھے اور اس کے حقوق پر ڈاکاڈالے۔ ایک انسان پر دوسرے انسان کی فضیلت صرف اخلاق اور پاکیزہ کردار کی بنا پر ہے نہ کہ رنگ و نسل، زبان اور وطن کی بنا پر۔ اور یہ فضیلت بھی اس غرض کے لیے نہیں کہ پاکیزہ اخلاق والے انسان دوسرے انسانوں پر اپنی بڑائی جتائیں۔

نہ اس کا یہ مقصود ہے کہ نیک آدمیوں کے حقوق برے آدمیوں کے حقوق پر فائق ہوں، یا اِن کے حقوق اُن سے زیادہ ہوں۔ یہ فضیلت دراصل اس وجہ سے ہے کہ نیکی اخلاقی حیثیت سے برائی کے مقابلے میں بہرحال افضل ہے۔ اسی مضمون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں بھی بیان فرمایا :ترجمہ:''کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ، نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔''

موجودہ دور کے بہت سے مسلمان، اپنے دین کی تعلیمات کے بالکل برعکس انسانوں میں رنگ، نسل، قومیت، زبان، اسٹیٹس اور مذہب و مسلک کی بنیاد پر سماجی رویوں میں تعصب اور امتیاز کا شکار ہیں۔ اس لیے اب ایک بار پھر مسلمانوں کو مساوات کا یہ عالم گیر سبق پڑھانے کی ضرورت ہے، تاکہ ہمارے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑے کرنے والے اپنے عزائم میں ناکام ہوسکیں۔ اس سلسلے میں علمائے کرام اور مصلحینِ امت پر بڑی اہم ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

9۔ نجی زندگی کا تحفظ

اسلام اپنی مملکت کے ہر شہری کا یہ حق قرار دیتا ہے کہ اس کی نجی زندگی میں کوئی ناروا مداخلت نہ ہونے پائے۔ قرآن مجید کا حکم ہے: ترجمہ:یک دوسرے کے حالات کا تجسس نہ کرو۔ دوسرے مقام پر ہے: ترجمہ: لوگوں کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک تاکید کی کہ آدمی خود اپنے گھر میں بھی اچانک نہ داخل ہو، بلکہ کسی نہ کسی طرح اہل خانہ کو خبردار کر دے کہ وہ اندر آ رہا ہے تاکہ ماں بہنوں اور جوان بیٹیوں پر ایسی حالت میں نظر نہ پڑے جس میں نہ وہ اسے پسند کر سکتی ہیں کہ انہیں دیکھا جائے نہ خود وہ شخص یہ پسند کرتا ہے کہ انہیں دیکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اپنے گھر میں جھانکتے ہوئے دیکھے اور وہ اس کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔

حضور نے دوسرے کا خط تک اس کی اجازت کے بغیر پڑھنے سے منع فرمایا ہے، حتی کہ اگر کوئی اپنا خط پڑھ رہا ہو اور دوسرا شخص جھانک کر اسے پڑھنے لگے تو یہ بھی سخت منع ہے۔ دوسری طرف جدید تہذیب کے دل دادوں کا حال یہ ہے کہ نہ صرف لوگوں کے خطوط پڑھے جاتے ہیں اور ان کو سنسر کیا جاتا ہے اور باقاعدہ ان کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں بھی رکھ لی جاتی ہیں، بلکہ اب لوگوں کے گھروں میں ایسے آلات بھی لگائے جانے لگے ہیں جن کی مدد سے آپ دور بیٹھے ہوئے یہ سنتے رہیں کہ اس کے گھر میں کیا باتیں ہو رہی ہیں۔ اس تجسس کے لیے یہ کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کہ حکومت خطرناک آدمیوں کے رازوں سے واقف رہنا ضروری سمجھتی ہے۔

حالانکہ درحقیقت اس کی بنیاد وہ شک و شبہ ہے جس سے آج کل کی حکومتیں اپنے ہر اس شہری کو دیکھتی ہیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا : ''تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہوگئے تو انہیں بگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچا دو گے۔'' مطلب یہ ہے کہ جب ایسی صورت حال عام ہوجاتی ہے تو لوگ خود ایک دوسرے کوبھی شبہ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ اپنے گھروں تک میں وہ کھل کر بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ نہ معلوم اپنے ہی بچوں کی زبان سے کوئی بات ایسی نکل جائے جو ہم پر آفت لے آئے۔

اس طرح اپنے گھر تک میں زبان کھولنا آدمی کے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور معاشرے میں ایک عام بے اعتمادی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ پرائیویسی کے حق سے غفلت اور تجسس کا رویہ اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا، چاہے یہ حکومتی سطح پر ہو، اداروں کی سطح پر، یا افراد کے آپس میں؛ جیسے بعض لوگ بلاوجہ بھی جب بھی ملتے ہیں اِس طرح کے سوالات کرنے شروع کردیتے ہیں۔

10۔ آزادیِ اظہار رائے کا حق:

مملکت اسلامیہ کے تمام شہریوں کو اسلام آزادی اظہاررائے کا حق اس شرط کے ساتھ دیتا ہے کہ وہ بھلائی پھیلانے کے لیے ہو، نہ کہ برائی پھیلانے کے لیے۔ اظہارِرائے کی آزادی کا یہ اسلامی تصور موجودہ مغربی تصور سے بدرجہا بلند ہے۔ برائی پھیلانے کی آزادی اسلام نہیں دیتا۔ تنقید کے نام سے دُشنام طرازی کی بھی وہ اجازت نہیں دیتا، البتہ اس کے نزدیک بھلائی پھیلانے کے لیے اظہار رائے کا حق صرف حق ہی نہیں، بلکہ مسلمان پر ایک فرض بھی ہے جسے روکنا اللہ تعالیٰ سے لڑائی مول لینا ہے اور یہی معاملہ برائی سے منع کرنے کا بھی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنی قانونی حدود میں رہتے ہوئے برائی کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں کبھی فساد فی الارض پیدا نہیں ہوا۔

ایسا ضرور ہوا ہے کہ برائی کے علم برداروں نے اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، جس پر نیکی کی تلقین کرنے والوں نے مظلومانہ جدوجہد کی وہ تاریخ رقم کی ہے، جس کی مثالیں آج بھی ہمارے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ امام احمد بن حنبل ؒسے لے کر آج تک کے علما کی مظلومانہ جدوجہد اور قربانیوں کی ایک پوری تاریخ ہے جس میں کوئی فساد پیدا کیے بغیر برائی کے خلاف مؤثر آواز ہر دور میں بلند کی جاتی رہی ہے۔

اسی طرح اجتماع اور جماعت سازی کا حق بھی اسلام نے لوگوں کو دیا ہے، مگر وہ بھی اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ بھلائی پھیلانے کے لیے ہو، برائی پھیلانے کے لیے نہ ہو۔ دین کی خدمت اور دعوت و تبلیغ کے لیے متعدد افراد، اداروں اور جماعتوں کا قیام ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں ہمارے ہاں یہ فتنہ پیدا ہوا ہے کہ ایک عرصے سے مختلف اداروں اور جماعتوں سے وابستہ افراد کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کی جا رہی ہے کہ صرف ان کی جماعت ہی دین کا معیاری کام کر رہی ہے اور دوسرے لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں۔

اس طرز فکر کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دینی اداروں اور جماعتوں کا باہمی تعلق، جو کہ احترام اور تعاون کے رویے پر مبنی ہونا چاہیے، اب چپقلش اور عدم تعاون کا تعلق بن کر رہ گیا ہے۔ اس رویے کی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے کہ ہم دین کی خدمت انجام دینے والے مختلف افراد، اداروں اور جماعتوں میں احترام اور تعاون کے رویے کو فروغ دیں۔ ایک دوسرے کے دائرہ ٔ عمل اور کام کا احترام اور اس میں ممکنہ حد تک تعاون کیا جائے۔ اگر ایک دوسرے پر تنقید کرنا بھی ضروری ہو تو شائستگی اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر ایسا کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں