بھارتی ہائی کمیشن کے اہلکار کی بیوی کو کورونا کا شکار ہونے کے باوجود پاکستان بھجوادیا گیا
خاتون میں کورونا علامات کا انکشاف واہگہ باردڑ پر پاکستانی حکام کی جانب سے کوویڈ ٹیسٹ میں ہوا
بھارت سے واپس آنیوالی ایک خاتون کا کورونا ٹیسٹ پازیٹوآنے کے بعد اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے نے اپنے ملک سے واپس آنے والے عملے اوران کی فیملیز کے 12 ارکان کو قرنطینہ کردیا ہے، بھارت کے غیر سفارتی عملے میں شامل ایک خاتون ہفتے کے روز بھارتی امیگریشن حکام کی نااہلی کے باعث پاکستان آگئی تھیں۔
بھارتی سفارتی عملے اوران کی فیملیزکے 12 ارکان ہفتے کے روز واہگہ بارڈر کے راستے واپس پاکستان آئے تھے۔ بھارتی سفارتخانے کے عملے کے ارکان اوران کی فیملیز چھٹیاں گزارنے اپنے ملک گئے تھے۔ ہفتے کے روز بھارت سے واپسی پر جب واہگہ بارڈر پر ان کے ریپیڈ کورونا ٹیسٹ کئے گئے تو ایک خاتون میں کورونا کی علامات سامنے آگئیں تاہم اس خاتون کو واپس انڈیا بھیجنے کی بجائے اس کی فیملی کے ساتھ اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی گئی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اوربھارت کے مابین طے شدہ ایس اوپیز کے مطابق ایک دوسرے ملک سفرکرنیوالے شہریوں اورسفارتی عملے کے لئے انٹری سے پہلے 72 گھنٹے پہلے کورونا ٹیسٹ کروانا لازمی ہے اور وہ رپورٹ نیگیٹو ہونی چاہیے۔ ایس اوپیزکے مطابق 72 گھنٹے پہلے کی رپورٹ کے ساتھ دونوں ملک انٹری کی اجازت دیں گے تاہم انٹری کے بعد اگر کسی شہری میں کورونا کی علامات پائی جاتی ہیں تواسے واپس بھیجنے کی بجائے اسی ملک میں کورنٹائن کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق بھارتی سفارتخانے سے متعلق 12 ارکان میں پانچ ممبربھارتی سفارتکاروں کیے اہل خانہ تھے جبکہ باقی غیرسفارتی عملہ اوران کی فیملیز تھیں۔ غیر سفارتی عملے میں شامل ایک خاتون کی بھارت میں کروائے گئے ٹیسٹ کی رپورٹ نیگٹوتھی تاہم واہگہ بارڈر پر ریپیڈ ٹیسٹ کے دوران ان میں کورونا کی علامات پائی گئیں۔ 12 ارکان چارمختلف گروپوں میں واہگہ پہنچے تھے اورالگ گاڑیوں میں ہی اسلام آباد گئے جہاں پہنچنے پربھارتی سفارتخانے نے ان تمام افرادکو قرنطینہ کردیا ہے۔ اگر بھارتی امیگریشن حکام اٹاری بارڈرپر اپنے شہریوں کا ریپیڈ ٹیسٹ کرتے تو پھر اس خاتون کو پاکستان آنے سے روکا جاسکتا تھا۔ اس کا پاکستان آنا بھارتی امیگریشن حکام کی غلطی ہے۔ پاکستانی عملے نے قانون کے مطابق ہی کارروائی کی ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا پر بھارتی خاتون کی کورونا رپورٹ جعلی بنائے جانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، اس وقت جب پوری دنیا کو کورونا وبا کاسامنا ہے کوئی بھی ملک اپنے شہری کی جعلی رپورٹ بنانے کا رسک نہیں لے سکتا ہے خاص طورپر ایسی خاتون جس نے سفارتخانے کے اندر اپنے ہی ملک کے 100 کے قریب شہریوں کے ساتھ رہنا ہے تو ایسی خاتون کی جعلی ٹیسٹ رپورٹ بنانے کا رسک لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
بھارتی سفارتی عملے اوران کی فیملیزکے 12 ارکان ہفتے کے روز واہگہ بارڈر کے راستے واپس پاکستان آئے تھے۔ بھارتی سفارتخانے کے عملے کے ارکان اوران کی فیملیز چھٹیاں گزارنے اپنے ملک گئے تھے۔ ہفتے کے روز بھارت سے واپسی پر جب واہگہ بارڈر پر ان کے ریپیڈ کورونا ٹیسٹ کئے گئے تو ایک خاتون میں کورونا کی علامات سامنے آگئیں تاہم اس خاتون کو واپس انڈیا بھیجنے کی بجائے اس کی فیملی کے ساتھ اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی گئی۔
سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اوربھارت کے مابین طے شدہ ایس اوپیز کے مطابق ایک دوسرے ملک سفرکرنیوالے شہریوں اورسفارتی عملے کے لئے انٹری سے پہلے 72 گھنٹے پہلے کورونا ٹیسٹ کروانا لازمی ہے اور وہ رپورٹ نیگیٹو ہونی چاہیے۔ ایس اوپیزکے مطابق 72 گھنٹے پہلے کی رپورٹ کے ساتھ دونوں ملک انٹری کی اجازت دیں گے تاہم انٹری کے بعد اگر کسی شہری میں کورونا کی علامات پائی جاتی ہیں تواسے واپس بھیجنے کی بجائے اسی ملک میں کورنٹائن کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق بھارتی سفارتخانے سے متعلق 12 ارکان میں پانچ ممبربھارتی سفارتکاروں کیے اہل خانہ تھے جبکہ باقی غیرسفارتی عملہ اوران کی فیملیز تھیں۔ غیر سفارتی عملے میں شامل ایک خاتون کی بھارت میں کروائے گئے ٹیسٹ کی رپورٹ نیگٹوتھی تاہم واہگہ بارڈر پر ریپیڈ ٹیسٹ کے دوران ان میں کورونا کی علامات پائی گئیں۔ 12 ارکان چارمختلف گروپوں میں واہگہ پہنچے تھے اورالگ گاڑیوں میں ہی اسلام آباد گئے جہاں پہنچنے پربھارتی سفارتخانے نے ان تمام افرادکو قرنطینہ کردیا ہے۔ اگر بھارتی امیگریشن حکام اٹاری بارڈرپر اپنے شہریوں کا ریپیڈ ٹیسٹ کرتے تو پھر اس خاتون کو پاکستان آنے سے روکا جاسکتا تھا۔ اس کا پاکستان آنا بھارتی امیگریشن حکام کی غلطی ہے۔ پاکستانی عملے نے قانون کے مطابق ہی کارروائی کی ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا پر بھارتی خاتون کی کورونا رپورٹ جعلی بنائے جانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، اس وقت جب پوری دنیا کو کورونا وبا کاسامنا ہے کوئی بھی ملک اپنے شہری کی جعلی رپورٹ بنانے کا رسک نہیں لے سکتا ہے خاص طورپر ایسی خاتون جس نے سفارتخانے کے اندر اپنے ہی ملک کے 100 کے قریب شہریوں کے ساتھ رہنا ہے تو ایسی خاتون کی جعلی ٹیسٹ رپورٹ بنانے کا رسک لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔