معیشت کی بحالی کیلئے شارٹ اور لانگ ٹرم پلان تیار کرلیا وفاقی وزیر خزانہ

جب سے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا ہے اس وقت سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیا، شوکت ترین

جب سے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا ہے اس وقت سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیا، شوکت ترین . فوٹو : فائل

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ معیشت کی بحالی کیلئے شارٹ اور لانگ ٹرم پلان تیار کر لیا ہے کیوں کہ مہنگائی کا خاتمہ اولین ترجیح ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ اگلے بجٹ میں نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے بجٹ عجلت میں تیار نہیں کیا جارہا، بجٹ میں مسائل کا جامع آؤٹ آف دی باکس حل پیش کئے جائیں گے، بجٹ جون کے اوائل میں پیش کیا جائے گا، ابھی بجٹ پیش کرنے کی مجوزہ تاریخ 11 جون 2021 ہے بجٹ میں گروتھ اور ریونیو بڑھانے پر فوکس ہوگا، بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں، گی لوگ پس رہے ہیں، متبادل طریقے اپنائے جائیں گے جب سے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا ہے اس وقت سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیا حالانکہ آئی ایم ایف اضافہ چاہتا تھا ہم نے پٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس کم کیا کیونکہ مہنگائی پر قابو پانا اولین ترجیح ہے اوروزیراعظم عمران خان کا عوام سے وعدہ ہے کہ مہنگائی کم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت جامع اور پائیدار اقتصادی شرح نمو کے حصول کیلئے برآمدات اور ٹیکس وصولیاں بڑھانے سمیت طویل اور مختصر مدت کی منصوبہ بندی کے تحت اقدامات کر رہی ہے، رواں مالی سال کے دوران معاشی اشاریے 3.94 فیصد کی اقتصادی ترقی ظاہر کر رہے ہیں مگر بد قسمتی سے ان اعداد و شمار کو متنازعہ بنانے کیلئے دیدہ دانستہ کوششیں کی گئیں۔


وزیر خزانہ نے کہا کہ جب حکومت اقتدار میں آئی تو ملک کا مالیاتی خسارہ 20 ارب ڈالر سے زیادہ تھا اور زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی کم تھے، سخت شرائط کے باوجود مجبورا آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، حکومت ہاؤسنگ، زراعت اور برآمدی صنعت جیسے شعبوں پر خصوصی توجہ دی ہے جس کے باعث معاشی استحکام اور اقتصادی ترقی ہوئی، معاشی شرح نمو کی اگر یہی رفتار جاری رہی تو آئندہ مالی سال 2022 میں 5 فیصد اور مالی سال 2023 تک 6 فیصد پلس سے زیادہ کی اقتصادی شرح نمو کے حصول کی توقع ہے۔

انکا مزید کہنا تھ اکہ قومی معیشت کے 12 مختلف اور اہم شعبوں کیلئے مختصر اور طویل مدتی حکمت عملی وضع کی جا رہی ہے حکومت کے شرح سود بڑھانے سے قرضوں کا بوکھ بڑھا ہے لیکن اگلے سال شرح سود میں کمی آئے گی اورریونیو میں اضافہ بھی کیا جائے گا جس سے قرضوں اور سود کی ادائیگی میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہمیں اپنے اخراجات بھی کم کرنا ہیں۔

 
Load Next Story