آئی بی اے کی اکیڈمک تنزلی اساتذہ و طلبہ کی پیشہ ورانہ رفتار کمزور آفیشل رپورٹ میں انکشاف
IBAکامختلف یا اہم پروفیشنل کونسلزسے ایکریڈیشن نہیں ، ڈائریکٹر کراچی ڈاکٹر اکبرزیدی کی بورڈآف گورنرزمیں پیش کردہ رپورٹ
پاکستان میں بزنس کی تعلیم میں قابل فخر ادارہ سمجھے جانے والے آئی بی اے (انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن)کراچی کی اکیڈمک صورتحال انتہائی پست اور تنزلی سے دوچارہونے کاانکشاف ہواہے۔
آئی بی اے میں ''اسٹوڈینٹ ٹیچرریشو'' (طلبہ اور اساتذہ کاتناسب)عالمی و ایچ ای سی کے معیارات کے برعکس اورانتہائی درجے تک کم ہے اورہر40طلبہ کوپڑھانے کے لیے ایک ٹیچرموجود ہے جبکہ آئی بی اے کے اساتذہ وطلبہ کی پیشہ ورانہ رفتارانتہائی کمزور اوردہائیوں پرانی ہے آئی بی اے کامختلف یا اہم پروفیشنل کونسلزسے ایکریڈیشن نہیں ہے۔
یہ انکشاف خود آئی بی اے کراچی کے ڈائریکٹرڈاکٹراکبرزیدی کی جانب آئی بی اے کے اکیڈمک معائنے اوراس کے نتیجے میں تیاری کی گئی رپورٹ میں کیاگیاہے جسے حال ہی میں منعقدہ بورڈ آف گورنرزکے اجلاس میں اس لیے پیش کیاگیاتھا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں مستقبل کے حوالے سے آئی بی اے کی اکیڈمک بہتری کے لیے دیے گئے منصوبوں کوپیش کرکے اس کی منظوری لی جاسکے، تاہم where we areکے عنوان سے تیار اس رپورٹ نے گزشتہ کئی برسوں سے جاری آئی بی اے کے اکیڈمک سفرکی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ آئی بی اے کراچی ''آئی بی اے کے پاس کوئی اہم یاقابل ذکرایکریڈیشن موجودنہیں ہے،آئی بی اے کے پاس دیگراداروں یاصنعتوں سے انتہائی محدود پیمانے پر اشتراک ہے جبکہ تحقیق کے حوالے سے کسی جامع حکمت عملی کی شدید کمی ہے۔
رپورٹ میں آئی بی اے کی فیکلٹی کے حوالے سے انکشاف کیاگیاہے کہ آئی بی اے کے پاس (فیکلٹی /اسٹوڈینٹ ریشو)کی صورتحال انتہائی درجے تک خراب ہے اورفل ٹائم فیکلٹی ممبرکی تعداد نہ ہونے کے برابرہے اوربیشترگزاراایڈہاک فیکلٹی پر ہی ہے،اسی طرح مختلف پالیسیز میں ابہام پایاجاتاہے۔
بورڈ آف گورنرزکوپیش کی گئی رپورٹ میں بات صرف یہیں تک نہیں رکی بلکہ مزیدکہاگیاہے کہ آئی بی اے کی فیکلٹی/طلبہ کی مستقبل کی پیشہ ورانہ ترقی career prograssionبہت کمزورہے اورپیشہ ورانہ ترقی رسمی اوردہائیوں پرانے طریقہ کار پر ہے اورمقامی سطح پرمسائل کے حل کے لیے آئی بی اے کا سماجی،معاشی اورمالی تاثریا کردارنہ ہونے کے برابرہے۔
آئی بی اے کے ڈائریکٹرڈاکٹراکبرزیدی کی جانب سے پیش کیے گئے ان نکات نے گزشتہ کم از کم دوسربراہوں کے ادوارمیں آئی بی اے کی اکیڈمک ترقی کی رفتارپرسوالات اٹھادیے ہیں۔
"ایکسپریس " نے اس رپورٹ کے اجرا اور مندرجات کے حوالے سے آئی بی اے کراچی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عشرت حسین سے رابطہ کیا اور رپورٹ پر ان کی رائے کی جس پر ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ "ہم نے ہمیشہ بہت ٹرانسپیرنٹ کام کیا ہے ،اس رپورٹ پر اساتذہ طلبہ کے تناسب جسے آئی بی اے کی موجودہ انتظامیہ نے انتہائی خراب کہا ہے۔
"ایکسپریس " نے اس پر آئی بی اے کے ہم پلہ سمجھے جانے والے ادارے LUMS میں بھی طلبہ اساتذہ تناسب کا جائزہ لیا جس سے معلوم ہوا کہ "لمس" میں اساتذہ طلبہ کا تناسب11 /1 ہے یعنی ہر 11 طلبہ ہر ایک ٹیچر موجود ہے لمس کی 390 افراد پر مشتمل فیکلٹی میں 200 سے زائد پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں۔
علاوہ ازیں آئی بی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں آئی بی اے کی بہتری کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدام سے متعلق بتاتے ہوئے کہاگیاہے کہ آئی بی اے کی انتظامیہ نے 13اگست 2020کورجسٹرارکادفترقائم کیا۔
مزیدکہاگیاہے کہ ادارے نے ڈیجیٹل آئی بی اے اورای آر پی سسٹم کے منصوبے کے لیے سولرپروجیکٹ پر کام شروع کردیاہے اسی طرح آئی بی اے نے یکم جنوری 2021سے اپنے اسکول اورڈینزآفسز قائم کیے ہیں۔
یادرہے کہ موجودہ ڈائریکٹرڈاکٹراکبرزیدی نے آئی بی اے میں گزشتہ کئی برسوں سے ایسوسی ایٹ ڈینز کے عہدوں پرکام کرنے والے اساتذہ ڈاکٹرسعید غنی اورڈاکٹرہما بقائی کو ان کے عہدوں کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش کرتے ہوئے ان کی جگہ ڈینز کے عہدوں پر پروفیسراسما حیدرکواسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز،پروفیسرشکیل خوجہ کواسکول آف میتھومیٹھکس اینڈ کمپیوٹرسائنس جبکہ پروفیسرواجد رضوی کواسکول آف بزنس اسڈیزمیں تعینات کیاہے تاہم ان کی تقرری بھی جزوقتی یاعبوری interim بنیادوں پرکی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہاگیاہے کہ یہ اکیڈمک ٹیم اب ڈینز کونسل اوراکیڈمک کونسل کے ساتھ ملکر کام کررہی ہے،رپورٹ کے مطابق آئی بی اے میں ملازمین کی ترقیوں کی پالیسی کواب ایچ ای سی کے ضوابط کے تحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے،رپورٹ میں اساتذہ وطلبہ کے تناسب کومعیار سے کم قراردیتے ہوئے کہاگیاہے کہ وزیٹنگ فیکلٹی پرانحصار کوکم کرتے ہوئے مستقبل یافل ٹائم فیکلٹی پر انحصار کیاجارہاہے ہے تاکہ اکیڈمک معیارکوبہترکیاجاسکے۔
واضح رہے کہ ایچ ای سی کے معیارات کے مطابق یونیورسٹی میں ہر 25طلبہ کی تدریس کے لیے ایک ٹیچرلازمی ہے جبکہ آئی بی اے کی رپورٹ کے مطابق ادارے میں ہر40طالب علم پر ایک ٹیچرتدریسی خدمات انجام دے رہاہے۔
"ایکسپریس " نے آئی بی اے کی موجودہ صورتحال پر ذمے داروں کے تعین اور مستقل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے ترجمان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا آپ سولات لکھ کر بھیج دیں سوالات لکھ کر بھیجے تو جواب آیا کہ ایگزیکیٹو ڈائریکٹر اس معاملے پر اپنے رائے دینے کو تیار نہیں ہیں اہم بات یہ ہے کہ جس اجلاس میں آئی بی اے سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی نی او جی کا یہ اجلاس 22 مارچ کو ہوا تھا۔
"ایکسپریس" نے اس رپورٹ سے متعلق ڈائریکٹر کی رائے جاننے کے لیے ترجمان سے 19 اپریل کو رابطہ کیا جس کا جواب 23 اپریل کو نفی میں آیا تاہم اس کے چند روز بعد 30 اپریل کو آئی بی اے نے transformative journey کے نام سے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں بی او جی میں پیش کی گئی متعلقہ رپورٹ میں سے محض اس حصہ کا تذکرہ ہے جو مستبقل یا حال ہی میں کیے گئے اقدامات کے حوالے سے ہے۔
تاہم رپورٹ کے اس پہلے حصے کا کوئی تذکرہ اس اعلامیہ میں موجود نہیں (فپواسا) کے موجودہ صدر اور سندھ یونیورسٹی جامشورو کے پروفیسر ڈاکٹر نیک محمد سے اس صورتحال اور بالخصوص اساتذہ طلبہ تناسب پر رابطہ کیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ "یہ طلبہ کے ساتھ زیادتی ہے تعلیمی ادارے اپنی انکم بڑھانے کے لیے داخلوں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں فیکلٹی کا بجٹ نہیں بڑھاتے پھر باہر سے فیکلٹی لاتے ہیں ایچ ای سی بھی بجٹ نہیں دیتی ایچ ای سی کی جانب سے نئی اسامیاں تخلیق کرنے پر پابندی ہے لیکن داخلوں کی تعداد بڑھانے سے ایچ ای سی نہیں روکتی"۔
آئی بی اے میں ''اسٹوڈینٹ ٹیچرریشو'' (طلبہ اور اساتذہ کاتناسب)عالمی و ایچ ای سی کے معیارات کے برعکس اورانتہائی درجے تک کم ہے اورہر40طلبہ کوپڑھانے کے لیے ایک ٹیچرموجود ہے جبکہ آئی بی اے کے اساتذہ وطلبہ کی پیشہ ورانہ رفتارانتہائی کمزور اوردہائیوں پرانی ہے آئی بی اے کامختلف یا اہم پروفیشنل کونسلزسے ایکریڈیشن نہیں ہے۔
یہ انکشاف خود آئی بی اے کراچی کے ڈائریکٹرڈاکٹراکبرزیدی کی جانب آئی بی اے کے اکیڈمک معائنے اوراس کے نتیجے میں تیاری کی گئی رپورٹ میں کیاگیاہے جسے حال ہی میں منعقدہ بورڈ آف گورنرزکے اجلاس میں اس لیے پیش کیاگیاتھا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں مستقبل کے حوالے سے آئی بی اے کی اکیڈمک بہتری کے لیے دیے گئے منصوبوں کوپیش کرکے اس کی منظوری لی جاسکے، تاہم where we areکے عنوان سے تیار اس رپورٹ نے گزشتہ کئی برسوں سے جاری آئی بی اے کے اکیڈمک سفرکی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ آئی بی اے کراچی ''آئی بی اے کے پاس کوئی اہم یاقابل ذکرایکریڈیشن موجودنہیں ہے،آئی بی اے کے پاس دیگراداروں یاصنعتوں سے انتہائی محدود پیمانے پر اشتراک ہے جبکہ تحقیق کے حوالے سے کسی جامع حکمت عملی کی شدید کمی ہے۔
رپورٹ میں آئی بی اے کی فیکلٹی کے حوالے سے انکشاف کیاگیاہے کہ آئی بی اے کے پاس (فیکلٹی /اسٹوڈینٹ ریشو)کی صورتحال انتہائی درجے تک خراب ہے اورفل ٹائم فیکلٹی ممبرکی تعداد نہ ہونے کے برابرہے اوربیشترگزاراایڈہاک فیکلٹی پر ہی ہے،اسی طرح مختلف پالیسیز میں ابہام پایاجاتاہے۔
بورڈ آف گورنرزکوپیش کی گئی رپورٹ میں بات صرف یہیں تک نہیں رکی بلکہ مزیدکہاگیاہے کہ آئی بی اے کی فیکلٹی/طلبہ کی مستقبل کی پیشہ ورانہ ترقی career prograssionبہت کمزورہے اورپیشہ ورانہ ترقی رسمی اوردہائیوں پرانے طریقہ کار پر ہے اورمقامی سطح پرمسائل کے حل کے لیے آئی بی اے کا سماجی،معاشی اورمالی تاثریا کردارنہ ہونے کے برابرہے۔
آئی بی اے کے ڈائریکٹرڈاکٹراکبرزیدی کی جانب سے پیش کیے گئے ان نکات نے گزشتہ کم از کم دوسربراہوں کے ادوارمیں آئی بی اے کی اکیڈمک ترقی کی رفتارپرسوالات اٹھادیے ہیں۔
"ایکسپریس " نے اس رپورٹ کے اجرا اور مندرجات کے حوالے سے آئی بی اے کراچی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عشرت حسین سے رابطہ کیا اور رپورٹ پر ان کی رائے کی جس پر ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ "ہم نے ہمیشہ بہت ٹرانسپیرنٹ کام کیا ہے ،اس رپورٹ پر اساتذہ طلبہ کے تناسب جسے آئی بی اے کی موجودہ انتظامیہ نے انتہائی خراب کہا ہے۔
"ایکسپریس " نے اس پر آئی بی اے کے ہم پلہ سمجھے جانے والے ادارے LUMS میں بھی طلبہ اساتذہ تناسب کا جائزہ لیا جس سے معلوم ہوا کہ "لمس" میں اساتذہ طلبہ کا تناسب11 /1 ہے یعنی ہر 11 طلبہ ہر ایک ٹیچر موجود ہے لمس کی 390 افراد پر مشتمل فیکلٹی میں 200 سے زائد پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں۔
علاوہ ازیں آئی بی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں آئی بی اے کی بہتری کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدام سے متعلق بتاتے ہوئے کہاگیاہے کہ آئی بی اے کی انتظامیہ نے 13اگست 2020کورجسٹرارکادفترقائم کیا۔
مزیدکہاگیاہے کہ ادارے نے ڈیجیٹل آئی بی اے اورای آر پی سسٹم کے منصوبے کے لیے سولرپروجیکٹ پر کام شروع کردیاہے اسی طرح آئی بی اے نے یکم جنوری 2021سے اپنے اسکول اورڈینزآفسز قائم کیے ہیں۔
یادرہے کہ موجودہ ڈائریکٹرڈاکٹراکبرزیدی نے آئی بی اے میں گزشتہ کئی برسوں سے ایسوسی ایٹ ڈینز کے عہدوں پرکام کرنے والے اساتذہ ڈاکٹرسعید غنی اورڈاکٹرہما بقائی کو ان کے عہدوں کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش کرتے ہوئے ان کی جگہ ڈینز کے عہدوں پر پروفیسراسما حیدرکواسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز،پروفیسرشکیل خوجہ کواسکول آف میتھومیٹھکس اینڈ کمپیوٹرسائنس جبکہ پروفیسرواجد رضوی کواسکول آف بزنس اسڈیزمیں تعینات کیاہے تاہم ان کی تقرری بھی جزوقتی یاعبوری interim بنیادوں پرکی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہاگیاہے کہ یہ اکیڈمک ٹیم اب ڈینز کونسل اوراکیڈمک کونسل کے ساتھ ملکر کام کررہی ہے،رپورٹ کے مطابق آئی بی اے میں ملازمین کی ترقیوں کی پالیسی کواب ایچ ای سی کے ضوابط کے تحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے،رپورٹ میں اساتذہ وطلبہ کے تناسب کومعیار سے کم قراردیتے ہوئے کہاگیاہے کہ وزیٹنگ فیکلٹی پرانحصار کوکم کرتے ہوئے مستقبل یافل ٹائم فیکلٹی پر انحصار کیاجارہاہے ہے تاکہ اکیڈمک معیارکوبہترکیاجاسکے۔
واضح رہے کہ ایچ ای سی کے معیارات کے مطابق یونیورسٹی میں ہر 25طلبہ کی تدریس کے لیے ایک ٹیچرلازمی ہے جبکہ آئی بی اے کی رپورٹ کے مطابق ادارے میں ہر40طالب علم پر ایک ٹیچرتدریسی خدمات انجام دے رہاہے۔
"ایکسپریس " نے آئی بی اے کی موجودہ صورتحال پر ذمے داروں کے تعین اور مستقل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے ترجمان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا آپ سولات لکھ کر بھیج دیں سوالات لکھ کر بھیجے تو جواب آیا کہ ایگزیکیٹو ڈائریکٹر اس معاملے پر اپنے رائے دینے کو تیار نہیں ہیں اہم بات یہ ہے کہ جس اجلاس میں آئی بی اے سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی نی او جی کا یہ اجلاس 22 مارچ کو ہوا تھا۔
"ایکسپریس" نے اس رپورٹ سے متعلق ڈائریکٹر کی رائے جاننے کے لیے ترجمان سے 19 اپریل کو رابطہ کیا جس کا جواب 23 اپریل کو نفی میں آیا تاہم اس کے چند روز بعد 30 اپریل کو آئی بی اے نے transformative journey کے نام سے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں بی او جی میں پیش کی گئی متعلقہ رپورٹ میں سے محض اس حصہ کا تذکرہ ہے جو مستبقل یا حال ہی میں کیے گئے اقدامات کے حوالے سے ہے۔
تاہم رپورٹ کے اس پہلے حصے کا کوئی تذکرہ اس اعلامیہ میں موجود نہیں (فپواسا) کے موجودہ صدر اور سندھ یونیورسٹی جامشورو کے پروفیسر ڈاکٹر نیک محمد سے اس صورتحال اور بالخصوص اساتذہ طلبہ تناسب پر رابطہ کیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ "یہ طلبہ کے ساتھ زیادتی ہے تعلیمی ادارے اپنی انکم بڑھانے کے لیے داخلوں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں فیکلٹی کا بجٹ نہیں بڑھاتے پھر باہر سے فیکلٹی لاتے ہیں ایچ ای سی بھی بجٹ نہیں دیتی ایچ ای سی کی جانب سے نئی اسامیاں تخلیق کرنے پر پابندی ہے لیکن داخلوں کی تعداد بڑھانے سے ایچ ای سی نہیں روکتی"۔