کراچی میں بجلی کا طویل بریک ڈاؤن

اصلاح احوال کی کوشش نہ کیے جانے کے سبب صورتحال دن بدن خراب ہورہی ہے اور شہریوں کے لیے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔


Editorial May 24, 2021
اصلاح احوال کی کوشش نہ کیے جانے کے سبب صورتحال دن بدن خراب ہورہی ہے اور شہریوں کے لیے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوٹو:فائل

کراچی میں بجلی کے جاری بحران پر چودہ گھنٹے گزرنے کے بعد قابو پانے کا اعلان سامنے آیا ہے، گزشتہ روز 220 کلو واٹ کی ہائی ٹینشن لائن ٹرپ کر گئی تھی۔

کراچی جامشورو سرکٹ ٹرپ ہونے سے واپڈا سے ملنے والی تقریباً ایک ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی منقطع ہونے سے 66 میں سے 45 گرڈ اسٹیشنوں سے بجلی کی فراہمی بند ہوئی تھی، پانی کی فراہمی میں رکاوٹ کے سبب تقریباً ساڑھے سات کروڑ گیلن پانی شہرقائد کو فراہم نہیں کیا جا سکا۔

اس دوران بن قاسم پاور اسٹیشن ون میں فنی خرابی پیدا ہو گئی اور گیس انسولیٹنگ سسٹم میں پائپ سے دھوئیں کا اخراج شروع ہو گیا جس کے باعث متعلقہ علاقوں میں اضافی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ شدید گرمی اور حبس میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سے شہریوں کو اذیت ناک تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

شہری حیران وپریشان ہیں کہ صرف چند ماہ کے دوران تیسری بار انھیں طویل بریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا ہے ، وہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ شہر میں بجلی کا نظام بار بار کیسے بیٹھ جاتا ہے ،شہری بے حال ہو چکے ہیں ، ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

دوسری جانب شکایتی مراکز پر ٹیلی فون کرنے پر بجلی کی جلد بحالی کی تسلی دی جاتی رہی۔ لاکھوں عوام تنگ وتاریک فلیٹس میں قیام پذیر ہیں ، جہاں پہلے ہی ہوا کا گزر ممکن نہیں، لہٰذا فلیٹوں کے رہائشی شدید گرمی میں تڑپتے رہے۔روزمرہ معمولات کا متاثر ہونا اور ملک کے معاشی حب کا صنعتی پہیہ جام ہوجانا، ملکی معیشت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے ، ماضی میں بھی کراچی کو مرکزی نظام سے بجلی کی فراہمی معطل ہونے پر شہر کو بریک ڈاونز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

حکام کی جانب سے بجلی فراہم کرنے والے واحد ادارے پر اس حوالے سے جرمانے بھی عائد ہوتے رہے ہیں، لیکن اصلاح احوال کی کوشش نہ کیے جانے کے سبب صورتحال دن بدن خراب ہورہی ہے اور شہریوں کے لیے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے ، لہٰذا وفاقی حکومت کو انتہائی سنجیدگی سے متعلقہ محکمے سے اس ضمن میں باز پرس کرنی چاہیے ،کیونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔