مجبور و محصور فلسطینیوں کو امداد کیسے پہنچائی جائے
تازہ اسرائیلی حملوں میں جن فلسطینیوں نے مہاجرت کا نیا عذاب سہا ہے، اُن کی تعداد 60ہزار بتائی جارہی ہے۔
21مئی 2021 بروز جمعہ پورے پاکستان میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں اجتماعی ''یومِ یکجہتی '' منایا گیا ۔ اظہارِ یکجہتی کے ان جلسوں اور جلوسوں میں ایک نعرہ مشترکہ طور پر لگایا گیا: ''آزمائش کی گھڑی میں پاکستانی قوم فلسطینیوں کے ساتھ ہے ''۔
ان نعروں کے بعد ہر طرف پھر خاموشی کا راج ہے ۔کیا ساتھ نبھانے کا مطلب محض خالی نعرے لگانا ہے ؟ غزہ میں بسنے والے محصور فلسطینیوں کی معنوی اور عملی امداد کون کرے گا؟ مقبوضہ فلسطین پر تازہ صہیونی و خونی اسرائیلی حملوں کو آج 18واں دن گزررہا ہے ۔اس دوران القدس الشریف کے آس پاس اور غزہ میں بسنے والے کمزور اور نہتے فلسطینی اب تک 300کے قریب شہید اور 2ہزار سے زائد مجروح ہو چکے ہیں ۔
تازہ اسرائیلی حملوں میں جن فلسطینیوں نے مہاجرت کا نیا عذاب سہا ہے، اُن کی تعداد 60ہزار بتائی جارہی ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اسرائیلی میزائل حملوں میں 25ہزار فلسطینیوں کے مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ بے خانماں اور بے اماں فلسطینی بس آسمان کی جانب تک رہے ہیں۔ ہزاروں زخمی فلسطینیوں کو لائف سیونگ ڈرگز کی بے حد ضرورت ہے۔ سر چھپانے کے لیے خیمے درکار ہیں ۔
چاروں اطراف سے غزہ کو غاصب و قابض اسرائیلی افواجِ قاہرہ نے گھیر رکھا ہے ۔صدرِ پاکستان جناب عارف علوی نے پاکستان ہلالِ احمر کو حکم تو جاری کر دیا ہے کہ محصور و مجروح فلسطینیوں تک خوراک و ادویات پہنچانے کا انتظام و انصرام کیا جائے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ہلالِ احمر (PRCS) کے سربراہ،جناب ابرارالحق ، ان مشکل ترین حالات میں محصور فلسطین تک مطلوبہ اشیاء کیسے پہنچاتے ہیں۔
خاص طور پر ان حالات میں جب اسرائیلی جنگی طیارے غزہ میں قائم جدید ترین قطری ہلالِ احمر( QRCS)کے ہیڈ آفس کو میزائل مار کر مکمل طور پر تباہ کر چکے ہیں۔ اس حملے میں قطری ہلالِ احمر کے کئی کارکن شہید اور زخمی ہو گئے ہیں ۔ قطری ہلالِ احمر کے سیکریٹری جنرل، علی بن حسن الحمادی، نے اس جارحیت پر اسرائیل سے سخت احتجاج کیا ہے لیکن اسرائیل نے ڈھٹائی اور وحشت سے اس احتجاج کا کوئی جواب ہی نہیں دیا ہے ۔
عمران خان کی حکومت سنجیدگی سے کوشش کرتی سنائی دے رہی ہے کہ محصور و مظلوم فلسطینی شہریوں تک خورونوش اور فوری ضرورت کی ادویات پہنچانے کا بندوبست کیا جائے۔گزشتہ روز اِسی حوالے سے وزیر اطلاعات جناب فواد چوہدری نے ایک قابلِ تحسین اعلان یوںکیا ہے : '' پاکستان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فلسطین کی طبّی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہُوئے امداد بھیجے گا۔ ہم انسانی ہمدردی کی اساس پر فلسطین کو کووِڈ 19 کی ویکسین بھی فراہم کریں گے۔'' خان صاحب کی حکومت کو یہ وعدہ تو کم از کم فوری طور پر ایفا کر دینا چاہیے۔
وطنِ عزیز کے عالمی شہرت یافتہ سماجی رہنما عبدالستار ایدھی مرحوم کے بیٹے اور ایدھی فاؤنڈیشن کے چیئرمین جناب فیصل ایدھی نے بھی مقبوضہ فلسطین میں جاری اسرائیلی حملوں اور پُرتشدد کارروائیوں کے تناظر میں فلسطین میں امدادی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس حوالے سے فیصل ایدھی نے پاکستان میں واقع فلسطینی سفارتخانے کو خط لکھ کر امدادی ٹیم بھیجنے کی پیشکش کرتے ہوئے ویزا جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔
اس ضمن میں فلسطینی سفیر کو خط لکھتے ہُوئے فیصل ایدھی صاحب نے کہا: '' انسانیت کی خدمت کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے ہم ہر سطح پر اور خاص طور پر فلسطین کے لوگوں کو خوراک اور طبی امداد فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے پاس رضاکاروں کی تجربہ کار ٹیم موجود ہے۔ابتدائی طور پر ہم اسرائیلی حملوں میں متاثر ہونے والے فلسطینیوں کو خوراک اور صحت کی سہولیات فراہم کریں گے۔ ہم آپ سے اپنی ٹیم کے افراد کے لیے ویزا جاری کرنے کی درخواست کرتے ہیں تاکہ فلسطین میں جلد از جلد امدادی کارروائیاں شروع کی جائیں''۔
فلسطینی سفیر صاحب نے ایدھی فاؤنڈیشن کے نمایندوں سے ملاقات میں بتایا ہے کہ فلسطین میں اس وقت ادویات کی زیادہ ضرورت ہے۔ ویزے کے حصول کے بعد فیصل ایدھی اپنی ٹیم اور متعلقہ ضروری اعانتی سامان کے ساتھ مصر کے راستے فلسطین( غزہ) میں داخل ہوں گے۔ اللہ کرے ایدھی فاؤنڈیشن کے یہ لوگ اس مساعی جمیلہ میں کامیاب رہیں۔ ایسے ایام میں امیر جماعتِ اسلامی،جناب سراج الحق، نے درست اور بجا کہا ہے کہ اِس وقت تباہ شدہ غزہ کی تعمیرِ نَو کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اس تعمیر نَو کے لیے یو این او کا ترسیل شدہ کچھ سامان براستہ مقبوضہ فلسطین غزہ پہنچنا شروع تو ہو گیا ہے لیکن واقفانِ حال اِسے ناکافی قرار دے رہے ہیں۔اُمید کی جانی چاہیے کہ عالمِ اسلام کا ہر ملک اپنی اپنی استطاعت کے مطابق تباہ شدہ غزہ کو پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں تعاون فراہم کرے گا۔ ہماری لاتعداد این جی اوز کو بھی اس مہم میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے ۔
دہشت گردی اور دہشت گردوں کے راستے محدود اور مسدود کرنے کے لیے امریکا اور مغربی ممالک نے جو عالمی قوانین وضع کیے ہیں ، ان کی موجودگی میں جائز طریقوں سے بھی بینکوں کے ذریعے مظلوم ومحصور اور شدید ضرورتمند فلسطینیوں کو نقد اعانتی رقوم ارسال کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ترین کام بنا دیا گیا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی ضرورت کی اشیا ء کو ترستے فلسطینیوں کو خریداری کے لیے اگر کوئی مخلص اور غیر سیاسی این جی او رقوم بھیجنے کی کوشش کرتی بھی ہے تو ہزار رکاوٹوں اور سوالوں کی سرنگ سے گزرنا پڑتا ہے ۔
اس سلسلے میں مجھے برطانیہ میں بروئے کار عالمی شہرت یافتہ این جی او ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ'' کے چیئرمین ، عبدالرزاق ساجد ، نے اپنا ذاتی تجربہ بتا کر جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ، سُن کر حیرت ہُوئی ۔
عبدالرزاق ساجد ( جن کے ادارے کی ایک شاخ غزہ میں بھی بروئے کار ہے اور اس سے کئی نوجوان فلسطین وابستہ ہیں) نے بتایا کہ ''ہمارے ادارے کی فلاحی خدمات اور غیر سیاسی کاموں سے اسرائیلی و برطانوی حکومتیں بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ ہم کبھی کسی تنازع میں بھی نہیں پڑے ، اس کے باوجود غزہ کے فلسطینی بھائی بہنوں ، بچوں اور بزرگوں تک 50ہزار پونڈز مالیت کی خوراک کے تھیلے ، فوری ضرورت کی اہم ترین ادویات اور بے گھر ہونے والوں تک خیمے پہنچانے میں ہمیں بھاری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔''
اس ایک مثال سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ غزہ میں دودھ کو بلکتے بچوں،ادویات کے لیے ترلے ڈالتے مریضوںاور بے بس خواتین کو کیسے کیسے سنگین مسائل کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ پاکستان کے عافیت کدہ میں رہتے ہُوئے ہم میں سے کوئی بھی محصور و مجبور فلسطینیوں کے حقیقی مصائب کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
ان نعروں کے بعد ہر طرف پھر خاموشی کا راج ہے ۔کیا ساتھ نبھانے کا مطلب محض خالی نعرے لگانا ہے ؟ غزہ میں بسنے والے محصور فلسطینیوں کی معنوی اور عملی امداد کون کرے گا؟ مقبوضہ فلسطین پر تازہ صہیونی و خونی اسرائیلی حملوں کو آج 18واں دن گزررہا ہے ۔اس دوران القدس الشریف کے آس پاس اور غزہ میں بسنے والے کمزور اور نہتے فلسطینی اب تک 300کے قریب شہید اور 2ہزار سے زائد مجروح ہو چکے ہیں ۔
تازہ اسرائیلی حملوں میں جن فلسطینیوں نے مہاجرت کا نیا عذاب سہا ہے، اُن کی تعداد 60ہزار بتائی جارہی ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اسرائیلی میزائل حملوں میں 25ہزار فلسطینیوں کے مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ بے خانماں اور بے اماں فلسطینی بس آسمان کی جانب تک رہے ہیں۔ ہزاروں زخمی فلسطینیوں کو لائف سیونگ ڈرگز کی بے حد ضرورت ہے۔ سر چھپانے کے لیے خیمے درکار ہیں ۔
چاروں اطراف سے غزہ کو غاصب و قابض اسرائیلی افواجِ قاہرہ نے گھیر رکھا ہے ۔صدرِ پاکستان جناب عارف علوی نے پاکستان ہلالِ احمر کو حکم تو جاری کر دیا ہے کہ محصور و مجروح فلسطینیوں تک خوراک و ادویات پہنچانے کا انتظام و انصرام کیا جائے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ہلالِ احمر (PRCS) کے سربراہ،جناب ابرارالحق ، ان مشکل ترین حالات میں محصور فلسطین تک مطلوبہ اشیاء کیسے پہنچاتے ہیں۔
خاص طور پر ان حالات میں جب اسرائیلی جنگی طیارے غزہ میں قائم جدید ترین قطری ہلالِ احمر( QRCS)کے ہیڈ آفس کو میزائل مار کر مکمل طور پر تباہ کر چکے ہیں۔ اس حملے میں قطری ہلالِ احمر کے کئی کارکن شہید اور زخمی ہو گئے ہیں ۔ قطری ہلالِ احمر کے سیکریٹری جنرل، علی بن حسن الحمادی، نے اس جارحیت پر اسرائیل سے سخت احتجاج کیا ہے لیکن اسرائیل نے ڈھٹائی اور وحشت سے اس احتجاج کا کوئی جواب ہی نہیں دیا ہے ۔
عمران خان کی حکومت سنجیدگی سے کوشش کرتی سنائی دے رہی ہے کہ محصور و مظلوم فلسطینی شہریوں تک خورونوش اور فوری ضرورت کی ادویات پہنچانے کا بندوبست کیا جائے۔گزشتہ روز اِسی حوالے سے وزیر اطلاعات جناب فواد چوہدری نے ایک قابلِ تحسین اعلان یوںکیا ہے : '' پاکستان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فلسطین کی طبّی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہُوئے امداد بھیجے گا۔ ہم انسانی ہمدردی کی اساس پر فلسطین کو کووِڈ 19 کی ویکسین بھی فراہم کریں گے۔'' خان صاحب کی حکومت کو یہ وعدہ تو کم از کم فوری طور پر ایفا کر دینا چاہیے۔
وطنِ عزیز کے عالمی شہرت یافتہ سماجی رہنما عبدالستار ایدھی مرحوم کے بیٹے اور ایدھی فاؤنڈیشن کے چیئرمین جناب فیصل ایدھی نے بھی مقبوضہ فلسطین میں جاری اسرائیلی حملوں اور پُرتشدد کارروائیوں کے تناظر میں فلسطین میں امدادی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس حوالے سے فیصل ایدھی نے پاکستان میں واقع فلسطینی سفارتخانے کو خط لکھ کر امدادی ٹیم بھیجنے کی پیشکش کرتے ہوئے ویزا جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔
اس ضمن میں فلسطینی سفیر کو خط لکھتے ہُوئے فیصل ایدھی صاحب نے کہا: '' انسانیت کی خدمت کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے ہم ہر سطح پر اور خاص طور پر فلسطین کے لوگوں کو خوراک اور طبی امداد فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے پاس رضاکاروں کی تجربہ کار ٹیم موجود ہے۔ابتدائی طور پر ہم اسرائیلی حملوں میں متاثر ہونے والے فلسطینیوں کو خوراک اور صحت کی سہولیات فراہم کریں گے۔ ہم آپ سے اپنی ٹیم کے افراد کے لیے ویزا جاری کرنے کی درخواست کرتے ہیں تاکہ فلسطین میں جلد از جلد امدادی کارروائیاں شروع کی جائیں''۔
فلسطینی سفیر صاحب نے ایدھی فاؤنڈیشن کے نمایندوں سے ملاقات میں بتایا ہے کہ فلسطین میں اس وقت ادویات کی زیادہ ضرورت ہے۔ ویزے کے حصول کے بعد فیصل ایدھی اپنی ٹیم اور متعلقہ ضروری اعانتی سامان کے ساتھ مصر کے راستے فلسطین( غزہ) میں داخل ہوں گے۔ اللہ کرے ایدھی فاؤنڈیشن کے یہ لوگ اس مساعی جمیلہ میں کامیاب رہیں۔ ایسے ایام میں امیر جماعتِ اسلامی،جناب سراج الحق، نے درست اور بجا کہا ہے کہ اِس وقت تباہ شدہ غزہ کی تعمیرِ نَو کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اس تعمیر نَو کے لیے یو این او کا ترسیل شدہ کچھ سامان براستہ مقبوضہ فلسطین غزہ پہنچنا شروع تو ہو گیا ہے لیکن واقفانِ حال اِسے ناکافی قرار دے رہے ہیں۔اُمید کی جانی چاہیے کہ عالمِ اسلام کا ہر ملک اپنی اپنی استطاعت کے مطابق تباہ شدہ غزہ کو پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں تعاون فراہم کرے گا۔ ہماری لاتعداد این جی اوز کو بھی اس مہم میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے ۔
دہشت گردی اور دہشت گردوں کے راستے محدود اور مسدود کرنے کے لیے امریکا اور مغربی ممالک نے جو عالمی قوانین وضع کیے ہیں ، ان کی موجودگی میں جائز طریقوں سے بھی بینکوں کے ذریعے مظلوم ومحصور اور شدید ضرورتمند فلسطینیوں کو نقد اعانتی رقوم ارسال کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ترین کام بنا دیا گیا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی ضرورت کی اشیا ء کو ترستے فلسطینیوں کو خریداری کے لیے اگر کوئی مخلص اور غیر سیاسی این جی او رقوم بھیجنے کی کوشش کرتی بھی ہے تو ہزار رکاوٹوں اور سوالوں کی سرنگ سے گزرنا پڑتا ہے ۔
اس سلسلے میں مجھے برطانیہ میں بروئے کار عالمی شہرت یافتہ این جی او ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ'' کے چیئرمین ، عبدالرزاق ساجد ، نے اپنا ذاتی تجربہ بتا کر جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ، سُن کر حیرت ہُوئی ۔
عبدالرزاق ساجد ( جن کے ادارے کی ایک شاخ غزہ میں بھی بروئے کار ہے اور اس سے کئی نوجوان فلسطین وابستہ ہیں) نے بتایا کہ ''ہمارے ادارے کی فلاحی خدمات اور غیر سیاسی کاموں سے اسرائیلی و برطانوی حکومتیں بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ ہم کبھی کسی تنازع میں بھی نہیں پڑے ، اس کے باوجود غزہ کے فلسطینی بھائی بہنوں ، بچوں اور بزرگوں تک 50ہزار پونڈز مالیت کی خوراک کے تھیلے ، فوری ضرورت کی اہم ترین ادویات اور بے گھر ہونے والوں تک خیمے پہنچانے میں ہمیں بھاری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔''
اس ایک مثال سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ غزہ میں دودھ کو بلکتے بچوں،ادویات کے لیے ترلے ڈالتے مریضوںاور بے بس خواتین کو کیسے کیسے سنگین مسائل کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ پاکستان کے عافیت کدہ میں رہتے ہُوئے ہم میں سے کوئی بھی محصور و مجبور فلسطینیوں کے حقیقی مصائب کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔